My Articles - میرے مضامین

عورتیں ریاست کا ستون ہیں

ہمارے معاشرے میں عورتوں کی اکثریت پسماندگی کا شکار ہے۔ اور اُن کی یہ حالت معاشرے کی اخلاقی، سماجی، سیاسی، نفسیاتی، اخلاقی اور رُوحانی ابتری کا نتیجہ ہے۔ جہالت کے اندھیرے ہم پر مسلط ہیں۔ ہماری اکثریت صرف ایک قدرکو تسلیم کرتی ہے اور وہ قدر ہے "قوت" ۔

ظاہری چکا چوند سے متاثر ہونا اور اُس کی پرستش کرنا، کمزوروں سے نفرت کرنا اور اُن کی تذلیل کرنا اکثریت کا شُعار بن چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کے مردوں کی اکثریت عورت کو حقیر سمجھتی ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پسماندہ معاشرے ہمیشہ جہالت اور افلاس کا شکار رہتے ہیں۔ وہ اخلاقی اور روحانی قدروں کے لحاظ سے ارتقائی منازل طے کر سکتے ہیں۔

یہ سمجھنا کہ الہامی مذاہب یا اللہ کے فرستادہ پیغمبران علیہم السلام نے نعوذباللہ عورت کی تحقیر کا درس دیا ہو۔ ہمارا یہ یقین اور ایمان ہے کہ الہامی مذاہب تو انسان کو اعلٰی روحانی قدروں سے رُوشناس کرا کے اُسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرنے کا ذریعہ ہیں۔ تمام پیغمبران علیہم السلام کی تعلیمات ہیں کہ دولت، طاقت اور قوت کسی بھی طرح عزت و برتری کا پمانہ نہیں بن سکتیں بلکہ اس کا اصل معیار تقوٰی ہے۔

مغرب میں آج بھی قدیم اہل یونان کو معقولیت پسند سمجھا جاتا ہے۔ لیکن معروف مغربی مورخ لیگی نے اپنی کتاب "تاریخ یورپ" میں تحریر کیا ہے کہ "بحیثیت مجموعی با عصمت یونانی عورتوں کا مرتبہ بہت پست تھا۔ ان کی زندگی غلاموں کی طرح بسر ہوتی تھی۔ بظاہر اُسے طلاق کا حق حاصل تھا لیکن عملًا اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس و حیا کے منافی تھا۔ افلاطون نے مرد و عورت کی مساوات کا دعوٰی کیا لیکن اُس کی یہ تعلیم محض زُبانی تھی۔ اس سلسلے میں عملی زندگی بالکل غیر متاثر رہی۔ مردوں کے لئے شادی کا مقصد خالصتًا سیاسی تھا کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہو جو مملکت کی حفاظت میں کام آئے "

پیغمبران کرام علیہم السلام نے نے توحید کا درس دیا اور یہ بتایا کہ اللہ کے بندوں میں وہی افضل ہے جو اللہ سے زیادہ قریب ہے جو اللہ سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ انہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے لئے زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں عورتوں کے متعلق نہایت تحقیر آمیز رویّہ موجود رہا۔

اس حوالے سے سیّدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ حدیث حقیقت واضح کرتی ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے اللہ نے کسی اُمّت میں مبعوث فرمایا ہو اور اس میں اس کے صحابی و حواری پیدا نہ فرمائے ہوں جو اُس کی سُنت کو تھام لیتے تھے۔ پھر اُن کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہو جاتے تھے۔ ایسے لوگ جو کہتے تھے وہ نہ کرتے تھے اور کرتے وہ تھے جن کا انہیں حکم نہیں ہوتا تھا"

حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی ایسے عُلماء سُو کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے
"جب سب لوگ سُن رہے تھے۔ تو اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا فقیہوں سے خبردار رہنا ، جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنے کا شوق رکھتے ہیں اور بازاروں میں سلام اور عبادت گاہوں میں اعلٰی درجہ کی کُرسیوں اور ضیافتوں میں صدر نشینی پسند کرتے ہیں۔ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہیں اور دکھاوے کے لئے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان کو زیادہ سزا ہو گی" انجیل لوقا باب 20

یہی لوگ تھے جنہوں نے عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا جو اللہ کی طرف سے عورت کو عطا ہوئے تھے۔ پیغمبران علیہم السلام کے دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد جاہل اور جھوٹے مذہبی اجارہ داروں نے مرد کو نیک سرشت کردار اور عورت کو بن طینیت اور بدکردار باور کروایا۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں واضح طور پر تحریر ہے کہ
"یہودی قانون کی رو سے اگر مرد وارث موجود ہو تو عورت وراثت سے محروم رہے گی۔ اور عورت کو دوسری شادی کا کوئی اختیار حاصل نہیں"

عیسائی مذہب کے فقیہوں نے بھی عورتوں کے خلاف احکام اختراع کئے یہاں تک کہ وہ یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے۔ کتاب مقدس میں کرنتھیوں باب 11 میں ملاحظہ کیجئے کہ پولیس عورتوں کو سر ڈھانکنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے محکومی کی علامت قزار دیتے ہوئے کہتا ہے "مرد کو اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہئے۔ کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلالی ہے۔ اس لئے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے۔ اور مرد عورت کے لئے نہیں بلکہ عورت مرد کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ پس عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے"

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات میں اس قسم کی طرز فکر کے موجود ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ سب کچھ ان فقہا کے فتوے ہیں جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کا باعث بنے۔ تاریخ کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے عورتوں کو اس قدر عزت دی تھی کہ آپ کے پیروکاروں میں مردوں سے زیادہ عورتیں تھیں۔ جو دُور دراز کا سفر کر کے آپ سے بیعت ہونے کے لئے آتی تھیں۔

ہندو مذہب ہو یا عیسائیت و یہودیت یا دُنیا کا کوئی اور مذہب ، ان کے مراکز وہ علاقے ہیں جو تہذیب وتمدن کے لحاظ سے خاصے ترقی یافتہ تھے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے تمام علاقوں میں اقتدار اورقیادات ہمیشہ مرد ہی کے ہاتھ میں رہی ہے۔

اس لئے مرد نے مذاہب میں ایسی تحریفات کی ہیں جن کی بنا پر عورت کے ساتھ ہر طرح کا ظلم و استبداد جائز ہو جائے ورنہ تو اللہ تعالٰی عدل و انصاف کا سر چشمہ ہے۔

اللہ کے آخری نبی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم نے جس تہزیب و تمدن اور قوم میں اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا اعلان کیا اُس کا حال یہ تھا کہ وہ عورت کو سرچشمہ گناہ سمجھتے تھے۔عورت کی حیثیت اس معاشرے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھی کہ وہ مردوں کی تسکین کا ایک ذریعہ تھی۔ اس کا کام صرف یہ تھا کہ قبیلے کی بقا کیلئے جفاکش سپاہی پیدا کرتی رہے۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینے گھناؤنی رسم اسی جھُوٹے فخر کی پیدا کردہ تھی۔ زنا پر اعلانیہ عمل کیا جاتا تھا۔ عورت کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل نہ تھے اور نہ وہ کسی جائیداد کی وارث ہو سکتی تھی۔ بلکہ وہ خود مال مویشی کی طرح جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ جب اس کا انتقال ہو جاتا تو وہ شوہر کے بیٹے اور جانشین کے حصہ میں جائیداد کی طرح منتقل ہو جاتی تھی۔

اس پسماندہ اور بے شعور معاشرے میں سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن مجید کی آیات پیش کیں جن میں عورت کے حقوق اور اس کے مقام کا برملا لفظوں میں اظہار کیا گیا تھا۔

اے لوگو ! اپنے رب سے تقوٰی اختیار کرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر اس سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پیدا کیں - سورۃ النساء

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے ڈیڑھ ہزار برس قبل نازل ہونے والی امّ الکتاب میں واضح طور پر حقیقت کو بیان کر دیا تھا کہ
وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ - مذکر کبھی مؤنث کے برابر نہیں ہو سکتا۔ آل عمران

اس کی وجہ یہ ہے کہ مونث یعنی عورت کے پاس ایک ایسی صلاحیت موجود ہے جو دُنیا کے کسی بھی مذکر یعنی مرد کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اور وہ صلاحیت تخلیق کی صلاحیت ہے ۔۔ مرد ہو یا عورت وہ عورت کے ہی بطن سے تخلیق پاتے ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق عورت کے خون سے ہی اس کے بطن میں پرورش پانے والے بچے کا ایک ایک عضو ، ایک ایک رواں اور ایک ایک بال بنتا ہے۔

نوع انسانی کے نجات دہندہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے عورت کو اس کے اصل مقام سے متعارف کروایا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسّلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔

کوئی مرد ماں ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتا یہ شرف مخلوقات میں عورت کو ہی حاصل ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ان تمام نظریات کو جہالت کی پیداوار قرار دیتے ہیں جو عورت کو محض عورت ہونے کی وجہ سے ذلیل تصور کرتے ہیں کہ وہ مرد ہیں۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں واضح کر دیا کہ عزت اور سربلندی کا معیار صرف تقوٰی اور سیرت اخلاق ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ عورت شیطان کا آلہ کار ہرگز نہیں بلکہ اس کے برعکس شیطان کی یورش کے خلاف ایک مضبوط قلعہ ہے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نوع انسانی کو ہدایت دی کہ قانون، اخلاق اور حقوق کی فہرست میں عورت اور مرد کو مساوی حیثیت دی جائے ، دونوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی یکساں حفاظت کی جائے۔

قانون زوجیت اپنی وسعت میں کائنات کی ہر شے پر حاوی ہے۔ اس سے نہ انسان مستثنٰی ہیں اور نہ دُنیا کی کوئی اور چیز -

پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ نہیں جانتے - سورۃ یٰسین
اُس نے تمہیں میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے اور جانوروں میں بھی۔ اس طرح وہ تمہیں پھیلاتا ہے۔سورۃ الشوریٰ۔

اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کئے تا کہ تُم سمجھ سکو ۔ سورۃ الذریات

قرآن مجید کے مطابق عورت اور مرد دونوں کو ایک ہی جُز سے پیدا کیا گیا ہے۔ دونوں کے اجزائے ترکیبی ایک ہی ہیں اور ان کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں انسانوں ، مسلمانوں یا پھر مشرکوں اور منافقوں کو مخاطب کیا گیا ہے اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں۔

سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عورت پر صدیوں سے لگائے گئے تہمت کے اس داغ کو بھی صاف فرمایا جس کے مطابق آدم کو حوا یعنی عورت نے جنت سے نکلوایا تھا۔ قرآن پاک میں اپنی تخلیق کے بعد آدم و حوا دونوں کو جنت میں یکساں رہنے، مرضی کے مطابق یکساں طور پر کھانے پینے ، شجر ممنوعہ کے قریب دونوں کو ایک ہی طرح نہ جانے کا حکم دیا ہے پھر شیطان کا دونوں کو مخاطب کرنا ، پھر دونوں کا ممنوعہ کے قریب جانا یکساں طور پر قرآن میں تذکرہ موجود ہے۔ کسی بھی آیت میں کسی ایک کو بھی دوسرے پر ترجیح نہیں دی گئ۔ سورۃ الاعراف کی آیات 19 تا 25 ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

حضرت محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت سے قبل عورت معاشرے کے مردوں کی غلام تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُسے آزادی دی اور برابری بخشی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہی اسے خرچ و کمانے ، کاروبار کرنے، خریدوفروخت کرنے، جائیداد بنانے اور اپنے شوہر کے انتخاب کا اختیار عطا فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعلیمات کا ہی اعجاز تھا کہ مسلمان عورتیں ریاست کے اعلٰی ترین مناصب پر فائز ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی صحابیات رضی اللہ عنہا نے علم کی تدریس کی، جہاد میں حصہ لیا، کاروباری معاملات میں اپنا کردار ادا کیا ۔ غرض اسلامی ریاست کے جملہ امور میں عورتوں نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔

سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت کی تصدیق کرنے والی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو سہارا اور ہمت دلانے والی ہستی ایک عورت یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے ذہین بتایا جاتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 2210 تک شمار کی گئی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہہ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہہ اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہا جیسے اشخاص آپ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں میں شامل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا ایک اعلٰی درجہ کی عالمہ تھیں جب کوئی حدیث بیان کرتیں تو اس کے ساتھ اس کی علت و حکمت بھی بیان کر دیتیں۔

امّ المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا چمڑہ تیار کرتی تھیں اور یہ ان کا کاروبار تھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہا خنجر لئے ہوئے اُحد کے میدان جنگ میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس طرح آنے کا مقصد پوچھا تو فرمایا کہ " میں نے اس کو اس لئے اپنے ساتھ رکھا ہے کہ کوئی مشرک قریب ہو تو اس کا پیٹ چاک کر دوں "

طبرانی کی روایت ہے کہ " جس دن احد کی جنگ ختم ہوئی، مشرکین واپس گئے تو خواتین ، صحابہ کی معاونت کے لئے روانہ ہوئیں، حضرت فاطم رضی اللہ عنہا بھی انہی میں تھیں"

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں کہیں جا رہے تھے تو راستے میں خولہ بنت ثعبلہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہو گئی۔ وہ وہیں حضرت عُمر رضی اللہ عنہہ کو نصیحت کرنے لگیں " عُمر ! ایک زمانہ تھا جبکہ میں نے تُم کو عکاظ کے میلے میں دیکھا تھا کہ تم بچوں کو ڈنڈا لئے ڈراتے دھمکاتے پھرتے تھے۔ اس وقت تم بہت چھوٹے تھے اور اس کم سنی کے باعث لوگ تم کو عمیر کہ کر پکارتے تھے۔ بعد میں لوگ تمہیں عمر کہنے لگے اور اب تُم امیر المؤمنین ہو۔ رعایا کے معاملے میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتے رہنا۔ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جس شخص کو اللہ کے عذاب کا خوف ہو گا وہ قیامت کو دور نہیں سمجھ سکتا اور جس کو موت کا کھٹکا ہو اس کی نیکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خدشہ ہر وقت رہے گا "

یہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا لایا ہوا انقلاب تھا جس کے باعث اُس عرب میں جہاں عورت حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھی وہیں ایک عورت اپنے وقت کی سُپر پاور مملکت کے حاکم کو راہ چلتے ٹوک رہی ہے۔

یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرے میں سود و زیاں اور نفع اور ضرر سے مسلمان عورتیں محض کسی تماشائی کی طرح علیحدہ نہیں رہیں بلکہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیمات سے انہوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم کی خواتین کا کردار تاریخ میں موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں کسی نے نہ تو مسجد جانے سے کسی نے روکا نہ شریک جہاد ہونے سے، نہ عیدین کے اجتماعات سے روکا اور نہ ہی دوسرے بے شمار فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی نے روکنے کی کوشش کی۔

عورت کا مسئلہ دُنیا کے تمام معاشروں میں چاہے وہ مہذب ہوں یا نہ ہوں ہمیشہ سے ایک اہم نوعیت کا مسئلہ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں کہیں پر اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت ملی تو پورا معاشرتی ڈھانچہ عورت کے گرد گھومنے لگا اور کہیں پر اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا تو اس صنف نازک پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ جن کا تذکرہ کرنا بھی ایک درد مند انسان کے لئے آسان نہیں۔ لیکن میرے خیال میں عورت کی مظلومیت کا دور دراصل موجودہ دور بھی ہے کیونکہ عورت کے مفادات ، عورت کے حقوق، عورت کی آزادی کے بلند و بانگ دعووں کے پردے میں جس قدر زیادتی اس دور میں ہوئی قدیم معاشرے میں بھی کبھی ایسا نہ ہوا ہو۔ تجارتی مال کی خریدوفروخت سے لیکر تفریح گاہوں، رقص گاہوں یہاں تک کہ سیاسیات میں بھی عورت کو کہیں کھلونے کے طور پر اور کہیں مہرے کے طور پر کچھ اس انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ عورت خود بھی اس تذلیل کو اپنی عزت افزائی سمجھنے لگی ہے۔

اہل یورپ کا یہ دعوٰی کس قدر بڑا فریب ہے کہ عورتوں کو اعزاز و کرام اور مساوات سب سے پہلے اُنہوں نے عطا کیا۔ یہ اولیت تو اسلام کو ہی حاصل ہے ۔ اسی نے عورتوں کو اعزاز و کرام اور مساوات سے نوازا۔ یورپ کے مذہبی اور معاشرتی قوانین میں آج بھی مرد کی برتری قائم ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"عورتیں ریاست کا ستون ہیں اگر وہ اچھی ہوں گی تو ریاست بھی اچھی ہو گی اور اگر وہ خراب ہیں تو ریاست بھی خراب ہو گی"

قرآن کریم عورت اور مرد کی فضیلت کے بارے میں کہتا ہے
تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے - سورة الأحزاب


ہم کہاں کھڑے ہیں 
(تحریر : محمد عاطف نواز عظیمی     ( قطر 
لندن سے شائع ہونے والے ایک معروف ہفت روزہ اکانومسٹ نے عالم اسلام کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے      کہ پندرہویں صدی عیسوی ہجری میں مسلمان سماجی، تہذیبی اور سیاسی طور پر اس مقام پر ہیں جہاں یورپ پندرہویں صدی عیسوی میں تھا۔ اُس وقت یورپ کے عوام اپنے سیاسی اور مذہبی اُجارہ داروں سے بے زار تھے۔ اور ان میں اصلاح کے طالب تھے۔ خاص طورپر وہ کیتھولک چرچ کی دُنیا پرستی سے نالاں تھے۔ معاشی بدحالی اور حکمرانوں کے جبر کے خلاف برطانیہ اور فرانس میں بغاوتیں ہونے لگی تھیں اور یورپ میں ہر جگہ بے چینی پھیلنے لگی تھی۔ کم و بیش اسی قسم کے حالات آج کی مسلم دُنیا میں ہیں۔ جہاں عوام ارباب مذہب و اقتدار دونوں سے خوش نہیں ہیں۔
اسلام میں مذہبی اجارہ داری کا تصور موجود نہیں ہے۔ اسلام محض چند رسمی عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب کو محض ایک مذہبی کتاب تصور کرنا ہمارے خیال میں سراسر بے شعوری اور جہالت ہے۔ قرآن ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد انسان کو اس کے مقام و منزل سے آشنا کرنا ہے یہ وجہ ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ قرآن محض غلافوں میں لپیٹنے اور مصیبت کے وقت تلاوت کرنے کے لئے نہیں اتارا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن کو محض ان کاموں کے لئے ہی محدود کیا ہوا ہے۔ ممتاز مفتی مرحوم اپنی کتاب تلاش میں تحریر کرتے ہیں۔
یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی شکل مسخ کر دو۔ اسلام کو بھی عام مذاہب کی طرح رسم میں بدل دو۔ مسلمانوں کو توجہ علم، عقل اور تحقیق سے موڑ دو اور انہیں رسمی عبادات کی طرف متوجہ کر دو اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پڑھ اجارہ داروں کی ایک ایسی جماعت قائم کر دو جو مسلمانوں کو فروعات میں پھنسائے رکھے۔
غیرمسلم اقوام اپنی سازشوں میں کامیاب ہیں اب انہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب مسلمانوں میں ہی مذہبی لبادہ اوڑھے بہت سے لوگ اس کام میں مصروف ہیں۔ جن میں سے اکثر کی کوششوں سے آج مسلمان ایک خول میں بند ہو چُکے ہیں کیوں کہ علم کے حوالے سے ان کے سامنے انتہائی محدود تصور پیش کیا گیا، اس تصور میں چند معاشرتی احکامات کو حاوی کر کے دُنیا بھر کے تمام علوم کو خارج کر دیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے محض گاہک بن کر رہ گئے ہیں۔ مذہبی اجارہ داروں نے مغرب کی ہر ایجاد کو شیطانی فعل اور ان کے ہر علم کو اسلام کا دشمن اور کفر الحاد کی جڑ سمجھا ۔ بجائے اس کے کہ وہ سائنسی علوم کو سمجھنے کو کوشش کرتے،اکثر نے سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ایک ایسی جنگ چھیڑ دی جس میں ان کی کامیابی کے ایک فیصد بھی امکانات نہیں تھے۔
دور نبوتﷺ میں مساجد یونیورسٹی، پارلیمنٹ، مقننہ اور ہمہ جہت کمیونٹی سنٹر کا کردار ادا کرتی تھیں۔ ریاستی معاملات میں باہمی مشاورت ، شادی کی تقریبات، جہادی تربیت، مال غنیمت کی تقسیم، دینی علوم کے علاوہ معاشرتی علوم کی تعلیم اور دیگر روزمرہ معاشرتی تقریبات مساجد میں ہی منعقد کی جاتی تھیں۔ مسلم دُنیا کے نامور سائنسدان، مجاہدین اور علمائے باطن مساجد سے ہی تربیت حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئے۔ لیکن جب گزشتہ دو صدیوں سے مذہبی اُجارہ داروں کی طرف سے سائنسی تعلیم کے خلاف محاذ کُھلا تو مساجد میں چند ظاہری علوم اور بے روح عبادات رہ گئیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں ہمیں ایسا کوئی قابل ذکر نام نہیں ملتا جس نے مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم میں اپنا لوہا منوایا ہو۔ جب کہ اس سے قبل اُندلس، مراکش، سپین، شام اور بغداد وغیرہ کی تاریخ میں ایسے بےشمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں جنہوں نے مساجد نما مدرسوں سے تعلیم حاصل کر کے علم طب، ریاضی، جغرافیہ، طبیعات، کیمیا، فلکیات اور دوسرے بے شمار علوم میں اپنی ریسرچ سے اور ان علوم کی پیش رفت سے انقلاب برپا کر دیا۔ جب کہ موجودہ دور میں مذہبی طبقے نے سائنسی تحقیق کو شجر ممنوعہ کے طور پر پیش کیا۔ کبھی ریلوے انجن اور ٹیلیفون کے خلاف فتوے جاری کئے اور کبھی لاؤڈ اسپیکر کو شیطانی آلے کا نام دیا۔ یہ دوسری بات کہ لاؤڈ سپیکر کا بے تحاشا اور بے جا استعمال اس طبقے کے افراد نے ہی کیا۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ مسلمان سائنسدانوں کی تحریروں میں قرآن کے حوالے جابجا ملتے ہیں۔ پھر بدقسمتی سے مسلمانوں کی توجہ کائناتی تفکر سے ہٹا کر محدود کر دی گئی۔ اور اس حقیقت پر ایک سازش کے تحت پردہ ڈال دیا گیا کہ قرآن حکیم کی ساڑھے سات سو آیات میں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی ہدایات موجود ہیں۔ ہمارے خیال میں جب سے مسلمانوں نے علم کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ لیا ہے ۔ اس وقت سے مسلمان زبوں حالی کا شکار ہیں۔ علم انسان کی شعوری استعداد بڑھا کر اس کے اخلاق اور معاشرتی رویوں  میں مثبت تبدیلی پیدا کر کے اسے حیوانی سطح سے بلند کر دیتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی دُنیا کے دیگر معاشروں کے لئے قابل تقلید ہوتا ہے ۔ بے شعور لوگوں کو ساری دُنیا ہی حقارت سے دیکھتی ہے۔ علمی پسماندگی اور سائنسی ٹیکنالوجی سے بے رُغبتی کی بناء پر 56 اسلامی ممالک جن کے پاس دُنیا کے 70فیصد پٹرولیم کے ذخائر ہیں اور آدھے سے زیادہ افرادی قوت اور معدنیات کی طاقت موجود ہے۔ آج ان کی کُل قومی پیداوار تقریبا گیارہ سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ جو قومی پیداوار کے حوالے سے دُنیا کے پہلے چار ممالک امریکہ (7821 ارب ڈالر)، جاپان (4089 ارب ڈالر)، جرمنی (2122 ارب ڈالر) اور فرانس (4662 ارب ڈالر) کے مقابلے میں کئی گناکم ہے۔
اُمت مسلمہ تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بقیہ پورے کُرہ ارض کے خشکی کے رقبے کا پانچواں حصہ ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے پوری دُنیا کا چوتھائی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی کی سیاسی ، جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہےکہ چار براعظموں یعنی امریکہ کو چھوڑ کر ایشیاء، افریقہ، یورپ اور آسٹریلیا کے بری ، بحری اور فضائی راستوں کا باہمی رابطہ اس خطے میں سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے سمندروں اور بحیرہ روم کی تنگ پٹیاں، جو بین الاقوامی تجارت کے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عالم اسلام میں واقع ہیں۔ اس شہہ رگ کو دبانے اور بند کرنے سے بین الاقوامی اقتصادی زندگی مفلوج ہو سکتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تنگ پٹیاں از خود امریکہ کے حوالے کر دی ہیں۔ 
ملت اسلامیہ کے اکثر ممالک بظاہر شدومد سے اپنی آزادی کا دعوٰی کرتے ہیں لیکن ان کی معاشیات مکمل طور پر مغرب کی مٹھی میں ہے۔  اقتصادی عدم مساوات کا اتنا بڑاتضاد ہے کہ پاکستان کی آبادی کُل اسلامی ممالک کی آبادی کا 13 فیصد ہےکن اس کی سالانہ آمدنی مسلم دُنیا کی آمدنی کا صرف 4 فیصد ہے یہ تضاد بہت تکلیف دہ ہے۔ کوئی ایک مسلمان ملک بھی بجا طور پر صنعتی ملک کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک اسلامی ملک نے اربوں کا سرمایہ مغرب کو ادا کرکے محض فیشن کے طور پر انتہائی جدید اور اعلیٰ ترین ریفائنری اور کیمیکل کے کارخانے نصب کئے ، جبکہ وہ ایک ایسی مشین بھی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو معمولی سی سوئی بھی بنا سکے۔ 
شایدمسلم ممالک کی اکثریت اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک نے ترقی کی معراج کسی معجزے کے تحت حاصل نہیں کی۔ وہ ممالک جو بیسویں صدی کی ابتداٗ میں ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے تھے بیسویں صدی کے آخر میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ دراصل ترقی کی دوڑ میں اگلی صف میں نظر آنے والی اقوام کی ترجیحات میں تعلیم پہلے نمبر پر تھی اور اب بھی ہے۔ فروغ علم کے ساتھ ہی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی وابستہ ہے ۔ جہاں تعلیم ہو، سائنسی شعور ہو، وہاں زراعت بھی ترقی کرتی ہے۔ اور صنعت بھی۔ ۔۔ اور افراد و معاشرہ زندگی کی بُنیادی سہولتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ بیسویں صدی کے دوران جہاں دُنیا بھر میں تعلیم بلعموم ترجیحاتی بُنیاد پر فروغ حاصل ہوا۔ بیشتر مسلم ممالک میں تعلیم کو کلیدی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے کوئی شعوری اور سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی۔
مسلمانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کو کس درجے اہمیت دی اس کا اندازہ ذیل میں دیئے گئے سائنسی مصنفین کے چارٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
ہم مسلمان جو اسرائیل کی مذمت و ملامت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، مندرجہ بالا ااعدادوشمار ہمیں اپنے تجزیہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسرائیل کے مقابلے میں دو سو گُنا زیادہ ہے اور اسرائیل کے سائنسی مصنفین کی تعداد مسلمان سائنسی مصنفین کی تعداد سے دُگنی ہے۔
یاد رکھئے! یہ نظریات اور عقائد کی بات نہیں ہے ۔ جن سے اختلاف ممکن ہو۔ یہ تو اعدادوشمار کی بات ہے جن کی تردید نہیں کی جاسکتی۔
اس وقت کرہ ارض پر مسلمانوں کی تعداد تقریبا ایک ارب سے زائد ہے۔ ان میں سے ساٹھ کروڑ ان پڑھ اور بالکل ناخواندہ ہیں۔ بیشتر تو قرآن مجید بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔
56 اسلامی ممالک میں سے بیشتر ممالک نے اپنی آزادی اور موجودہ سرحدوں کو نسلی، قومی، لسانی، جغرافیائی یا ثقافتی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں آزادی کی بنیادیں کلمہ توحید پر استوار کی گئیں۔ یہ خطہ ارضی اس لئے حاصل کیا گیا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی ، معاشی اور روحانی نظام کو نافذ کیا جائے گا۔ لیکن اس مملکت خداداد میں بھی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جس کی یہاں ضرورت تھی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اپنی افرادی اور مادی قوت کو بہتر اور مضبوط بنانے میں زیادہ وسائل استعمال نہیں کئے۔ موجودہ دور کے تمام ترقی پزیر ممالک جن میں کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دوسرے بہت سے ممالک شامل ہیں نے 60 کی دہائی میں اپنی کُل قومی پیداوار کا 10 سے 15 فیصد  تعلیم پر خرچ کیا اور مکمل شرح خواندگی حاصل کی۔ پاکستان میں آج بھی شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ملکی آمدنی کا صرف 2.5 اوسط خرچ کیا جاتا ہے۔ تعلیم پر کئے گئے اس خرچ کو اونٹ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اور اس میں سے بھی کُل رقم کا 70 سے 80 فیصد غیر ترقیاتی اخراجات میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ان غیر ترقیاتی اخراجات میں زیادہ تر اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل 
ہیں۔
مندرجہ بالا چارٹ کو غور سے دیکھیں۔ اس چارٹ میں 2002 سے 2012 تک کچھ اہم ممالک کی شرح خواندگی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا نے 2008 میں 100 فیصد شرح خواندگی کا ٹارگٹ حاصل کیا۔ ایران کا گراف دیکھا جائے تو وہ مسلسل اوپر جا رہا ہے۔ انڈونیشیا اورترکی اور جنوبی کوریا کی اس معاملے میں  ان ممالک کی کاوشیں اور ترقی حیرت انگیز ہے۔  پاکستان ان سب ممالک میں خواندگی کی شرح میں سب سے پیچھے ہے جو کہ  تقریبا 55 ۔ فیصد پر فلوٹ کرر ہی ہے۔یار رہے کہ خواندہ کا مطلب محض  وہ  افرادجوکم ازکم اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں

اعلٰی تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ارباب اختیار نے ہمیشہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چند سال قبل آغا خان یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر راجر سٹن اور دیگر ڈاکٹروں کے پینل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کے صرف تیرہ فیصد ڈاکٹر صحیح نسخہ لکھنا جانتے ہیں۔
یہ تجزیہ پاکستان کے اخلاقی ، تعلیمی اور معاشرتی نظام کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوریاں اور نقل کے رُجحان کو مدنظر رکھئے تو ڈگریاں لے کر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی قابلیت ہی مشکوک محسوس ہونے لگتی ہے اور یہ نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو علمی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل جن میں ریسرچ اور ترقی سے عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی شامل ہے کا سبب بن جاتے ہیں۔
مذہبی افراد تو سائنسی تحقیق اور ترقی کو شجر ممنوعہ قرار دے کر اس سے الگ تھلگ ہو گئے۔ اور لوگوں کی اکثریت نے بھی ان کی پیروی کی۔ لیکن معاشرے کے تعلیم یافتہ اور باشعور اور صاحب اختیار افراد بھی معاشرے کی علمی زبوں حالی سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کی عدم توجہی اور غفلت کی بنا پر پاکستان اعلٰی ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والے ملکوں میں شامل نہیں ہو سکا اور اس کی پیداواری صلاحیت اور برآمدات کم رہیں اور درآمدات پر انحصار بڑھ گیا۔ ملک میں کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ تخلیقی اور تحقیقی اذہان کو ان کی مرضی کا ماحول اور مناسب معاشی سپورٹ دی جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ضرورت سے بہت کم ایم ایس اور پی ایچ ڈی افراد ہیں اور کافی لوگ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ملک میں موجود سائنسی تحقیق و ترقی سے متعلق 160 ادارے موجود ہیں جن کا 95 فیصد بجٹ تحقیق برعکس تنخواہوں اور دوسرے اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک میں تحقیق کے سب سے بڑے ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں 280 پی ایچ ڈی افراد کام کرتے تھے جن کی تعداد مزید کم ہو چکی ہے۔ اس ادارے کا 99.7 فیصد بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کا جامعات میں تحقیق پر عدم توجہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا تحقیق کے لئے مختص بجٹ صرف بیس ہزار روپے تھا۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ عمومی قابلیت کے افراد کئی اداروں میں تعینات ہیں اور ان کے زیر انتظام ادارے ملک کے قیمتی وسائل ضائع کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے لئے مراعات حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں اور صرف زبانی طور پر کہ کہا جاتا ہے کہ ہم سائنسی ترقی کے بغیر دُنیا میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن ان ارباب اختیار کو یہ نظر نہیں آتا کہ کسی شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے فرد کو صرف 1500 روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے (نوٹ: اس وظیفہ میں کچھ اضافہ کیا جا چُکا ہے) ۔ اس قدر کم وظیفے میں وہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکتے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس میں اپنی تمام ضروریات بھی پوری کریں۔ اور ساتھ ساتھ ریسرچ کا کام بھی جاری رکھیں۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارے ملک کے تحقیقی شعبوں میں جستجو اور فکری گہرائی رکھنے والے افراد کا فقدان نظر آتاہے ۔ اگر ریسرچ کرنے والے افراد کو ان کی معاشی فکر سے آزاد کر دیا جائے تو تحقیقی اذہان ترقی یافتہ ممالک کی طرف کُوچ کرنے کی بجائے ملک میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اتنے کم وظیفے میں تو وہی لوگ اس کام میں آگے آئیں گے جو یا تو اپنی ملازمت میں ترقی کے لیئے پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں یا ایسے غیر پیداواری ذہن کے افراد جو شاعروں کے مصرعوں اور ان کے مخطوطات پر بے مقصد تحقیق کاکام انجام دیتے ہیں۔ ہماری قوم کو ریسرچ سے دُور کرنے والے صرف مذہبی اجارہ دار ہی نہیں ، ایسے لوگ بھی اس المیے میں برابر کے شریک ہیں جو وسائل پر دسترس اور اختیارات رکھنے کے باوجود قوم کے مستقبل سے جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 66 سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمارے پاس نہ تو سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے لئے غیر روایتی ادارے ہیں نہ افراد۔ اگر آج بھی اس حوالے سے قدم آگے نہ بڑھایا گیا تو ہماری روایتی کاہلی ہمیں ترقی یافتہ دُنیا کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کے درمیان کہیں گُم کر سکتی ہے اور پھر شاید ہمارے شناخت بھی باقی نہ رہے۔
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  ، کراچی، پاکستان کے جولائی 2000 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ لہذا اس کے بعض  اعدادوشمار  آوٹ ڈیٹڈ ہو سکتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ عالمی حالات
 مضمون سے تاحال مطا بقت رکھتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ مضمون پڑھا جا سکتا ہے۔ 



رمضان کریم کا پیغام اور اہمیت

اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اس دُنیا میں ایک اور رمضان المبارک گزارنے کی مہلت دی-

شعبان المعظم کے آخری ایام میں رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا” اے لوگو تمہارے پاس عظمت و برکت والا مہینہ آرہا ہے وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘-

دین کی ہر عبادت ایک پروگرام ہے۔ پروگرام سے مراد پورا سسٹم ہوتا ہے۔ جو لوگ کمپوٹر کو سمجھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کمپیوٹر میں پروگرام کی کیا حیثیت ہے۔ جسے ہم ونڈوز کہتے ہیں یہ بھی دراصل ایک پروگرام ہے۔ پروگرام کی بیس پر کمپوٹر کام کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ لیں کہ پروگرام کمپوٹر کی روح ہے۔ پروگرام / ونڈوز کے بغیر کمپیوٹر کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ نے جو عبادات فرض کی ہیں وہ تمام عبادات انسان کے لئے پروگرامز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر صلٰوۃ ایک پروگرام ہے۔ دن میں پانچ بار صلٰوۃ کا قائم کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ پانچ بار صلٰوۃ کی ادائیگی کے بعد درمیانی وقفہ میں ہم صلٰوۃ کے اس پروگرام سے قطع تعلق ہو جائیں ۔ یا ہم اللہ کے حقوق سے بری الذمہ ہو گئے اگر صلٰوۃ کے بعد ہم اللہ کو ذہن سے نکال دیں تو صلٰوۃ کا مقصد منشاء پورا نہیں ہوتا۔ جیسا ونڈوز کے بغیر کمپیوٹر بے کار ہے اسی طرح صلٰوۃ یا روزہ کے پروگرام کے بغیر زندگی بے مقصد ہے۔

قرآن پاک میں ہے
وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ بدلتے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا - سورة آل عمران

مطلب یہ کہ زندگی کی ہر حرکت میں اللہ کو یاد کرنا ، اللہ کی طرف متوجہ رہنا ۔ عبادات کا مقصد و منشاء اور حقیقی مفہوم ہے۔ اسی حقیقت اور قانون کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلّام نے الصلوۃ معراج المؤمنین کے ارشاد سے بھی آشکار فرمایا ہے۔

جس طرح صلٰوۃ ایک پروگرام ہے اسی طرح روزہ بھی ایک مکمل اور جامع پروگرام ہے۔

روزے کا بُنیادی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو تُم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تُم سے پہلی قوموں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوٰی اختیار کرو۔ سورة البقرة
روزے کے علاوہ بھی تمام اسلامی عبادات کا مقصد و منشا تقوٰی کا حصول بیان کیا گیا ہے۔
’’اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو‘‘ - سورة البقرة
قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے بھی تقوٰی والا ذہن ہونا ضروری ہے۔ جیسے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے۔
بے شک اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ۔ سورۃ البقرہ

اب اگر ہم غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس سے ہدایت لینے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے۔ اور تقوٰی کے حصول کے لئے صلٰوۃ،صیام اور دیگر عبادات کے پروگرام پر عمل کرنا فرض ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقوٰی کے معنی کیا ہیں۔ مفسرین نے تقوٰی کے معانی ’پرہیزگار‘ کے بیان کئے ہیں۔ پرہیز گار کا مطلب ہے منکرات سے بچنے والا اور قرآن کے احکامات کے مطابق اللہ کی نشانیوں پر تفکر کرنے والا ۔ جیسا کہ قرآن پاک کی 756 سے زائد آیات میں یہ حکم دیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَاَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام
’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔‘‘

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ روزہ کی جزا میں دوں گا۔ بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ روزہ کی جزا میں ہوں۔

روزہ اللہ سے قُربت کا ایک زریعہ ہے۔ جو کہ انسانی زندگی اور روحانی وظائف کی منزل بھی ہے۔

اس کا مطلب ہوا کہ روزے دار اللہ کا قُرب حاصل کر لیتا ہے اور قربت دوستی اور محبت کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنے دوستوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
’’اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم‘‘ ۔ سورہ یونس

یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اللہ کی دوستی اور محبت کے حصول کے لئے منکرات سے حتی الامکان بچنا لازمی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے :
’’ابن آدم کا روزے کے سوا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہے روزہ بالخصوص میرے لئے ہے۔ اس کی جزا میں ہی دوں گا اور روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی شخص کا روزہ ہو، تو وہ بے ہودہ گوئی کرے نہ فحش گوئی کرے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم

ایک اور موقعہ پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
’’اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا، چھوڑ دے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم
روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور فحش کلامی کرنا ممنوع ہے۔ ان امورِ رذیلہ سے اس لے ممانعت کی گئی کہ ان سے روزہ رکھنے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے اور روزہ دار، روزہ کے برکات و ثمرات سے محروم رہتا ہے۔
روزہ کا ایک نہایت فائدہ حواس کی رفتار کا بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔
’’تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدرایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں‘‘ سورۃ القدر

ان آیات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کی ایک مقدس رات شب قدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے۔ یعنی اس ایک رات میں حواس کی رفتار عام دنوں کے مقابلے میں ۱ یک ہزار گُنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور فرشتے اللہ کے حکم سے برکات اور فیوض لے کر نازل ہوتے ہیں۔

ایک بار ایک بادشاہ نے اپنے اُمراء اور وزراء میں اعلان کیا کہ مجھ سے کوئی فرمائش کرو میں اُسے پورا کروں گا۔ غرض کسی وزیر نے کوئی محل مانگا اور کسی نے زمین کا کوئی ٹُکرا۔ کوئی ہیرے جواہرات لے کر خوش ہو گیا۔ اب آخرمیں ایک کنیز بھی دربار میں موجود تھی۔ بادشاہ نے کنیز سے کہا تُم بھی کچھ مانگو۔ کنیز نے کہا کہ بادشاہ سلامت ایسا نہ ہو کہ آپ میری مانگی ہوئی چیز مجھے نہ دے سکیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جو چیز میرے دائرہ اختیار میں ہے وہ میں ضرور دوں گا۔ کنیز آگے بڑھی اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم نے بادشاہ کو پا لیا تو کسی چیز کی کیا ضرورت رہ گئی۔ لیلۃ القدر کے حواس میں داخل ہو کر جب ہم نے حدیث قُدسی کے قانون کے تحت اللہ کو پا لیا تو ایسے سعید افراد کو اللہ تعالٰی خلیفۃ الارض کہتا ہے۔ خلافت اللہ کے عرفان کے صلہ میں ہے نا کہ ناخلف اولاد کے لئے ۔

قرآن نے متقی، مومن اورمسلمان کو علیحدہ علیحدہ کیٹگرائز کیا ہے۔ یہاں یہ اہم سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھرمومن اور متقی میں کیا فرق ہے۔ عمومًا ہمیں بتایا جاتا ہے کہ متقی کا مطلب پرہیز گار یا ڈرنے والا ہے۔ اس طرح تو مومن بھی پرہیز گار ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک مومن بھی منکرات سے پرہیز کرتا ہے۔ جب ہم قرآن میں متقی کا مفہوم یا متقین کی خوبیاں تلاش کرتے ہیں تو اس بارے میں بھی قرآن بہت واضح احکامات اور ہدایات دیتا ہے۔
ذَ‌ٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لیے ہدایت ہے

متقی کے ذہن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جس کے ذہن میں شک ہو وہ متقی نہیں ہو سکتا۔ اس قانون کو ایک معروف صوفی قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ’’یقین ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو

اللہ نے قرآن کو سمجھنے کا فارمولا خود قرآن میں بیان فرما دیا کہ ’’وہ لوگ جو متقی ہیں وہ قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان، یا مومن قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔

مطلب قرآن سے ہدایت لینے کے لئے اور متقی ہونے کے لئے شک سے پاک ذہن کا ہونا ضروری ہے ۔ اور اس کا بنیادی ذریعہ لا محالہ صوم اور صلٰوۃ کے حواس سے متعارف ہونا ہے۔

اب غور کریں کہ روزہ ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت ہے جو ہمیں متقی یعنی شک سے پاک ذہن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اور قرآن کے قانون کے مطابق شک سے پاک ذہن ہی قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

روزہ رکھنے سے جسمانی اور روحانی کثافتیں دُور ہو جاتی ہیں۔ اور آدمی کے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ تمام آسمانی کتابیں بھی اسی مقدس مہینہ میں نازل ہوئیں۔

رمضان کی پہلی یا تیسری تاریخ کو صحیفے عطا کئے گئے۔ حضرت داؤد کو زبور، حضرت موسٰی کو تورات، حضرت عیسٰی کو انجیل بھی رمضان المبارک میں ہی دی گئی۔یعنی الہامی کلام رمضان کے حواس میں ہی نازل کیا گیا-

رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے ہمیں تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ بندے کا اور اللہ کا ایک براہ راست تعلق قائم ہے۔

اے رسول اللہ صلّی اللہ وسلّم ، میرے بندے جب آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ کہ دیجئے کہ میں ان کے قریب ہوں جب وہ مجھے پُکارتے ہیں تو میں انکی پکار کا جواب دیتا ہوں۔

اللہ ربّ العزت ہمیں روزہ اور صلٰوۃ کی حقیقی روح کو سمجھنے کا فہم عطا کرے اور ہماری عبادات اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔ اور آنے والے رمضان کو ہمارے لئے رحمت، بخشش، نجات اور اپنے قُرب کا ذریعہ بنا دے۔
آمین

(یہ مضمون ہماری ویب ڈاٹ کام کے درج ذیل لنک پر شائع ہوا
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=48720)
  
انسانی جان کی حُرمت اور ہمارا معاشرہ

پشاور میں خود کش حملہ 20 افراد جاں بحق
مردان میں جنازہ میں خود کش حملہ، ممبر صوبائی اسمبلی سمیت 30 افراد جاں بحق
کوئٹہ میں بم دھماکہ 18 یونیورسٹی طالبات جاں بحق
بولان میڈیکل کمپلیکس کوئٹہ میں فائرنگ اور خود کش حملہ- ڈپٹی کمشنر سمیت متعدد افراد جاں بحق

یہ وہ چند اندوہناک خبریں ہیں جو ہمیں گزشتہ دنوں پڑھنے کو ملیں۔ اب ایسے واقعات ہمارے ملک میں معمول کی بات ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2002 سے 2011 تک 273 خودکش حملوں میں 4403 افراد لقمہ اجل بنے ۔ جبکہ 9563 افراد زخمی یا زندگی بھر کے لئے معذور ہو گئے۔
یہ 9 سالہ اعداد و شمار ہمارے معاشرتی حالات کا ایک عکس ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے سانحات کے بعد بحیثیت مجموعی ہماری نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔ کُرہ ارض پر اسلام کے نام پر بننے والی واحد مملکت پاکستان میں اسلام کے نام ہی کو جس طرح سے استعمال کیا گیا اور کلمہ گو مسلمانوں کا قتل کیا گیا یہ تاریخ کا ایک افسوسناک باب رہے گا۔
سلامتی اور امن والے مذہب کے پیروکاروں سے اس طرح کے گمراہ کُن عمل کی توقع رکھنا ہی معیوب تھا۔ لیکن اعدادوشمار اور زمینی حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں انسانی جان کی حُرمت کو فوقیت حاصل ہے۔

میں تُم کو آگاہ کرتا ہوں کہ مسلمان کون ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کی زُبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مسلمان کی جان مسلمان پر حرام ہے اور مسلمان کی عزت اس پر حرام ہے کہ وہ اس کو خراب کرے اور مسلمان کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ وہ اس کو طمانچہ مارے۔ اور مسلمان کی تکلیف اس پر حرام ہے کہ وہ اس کو تکلیف دے اور حرام ہے اس پر کہ وہ ایذا رسانی کے لئے اس کو دھکا دے

یہ وہ الفاظ ہے جو سکول کے سلیبس سے خطبہ حجۃ الوداع کے موضوع پر ہم بچپن سے یاد کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ محض الفاظ نہیں یہ عالمی معاشرے میں امن کے قیام کے لئے راہنما اصول بھی ہیں۔ اور انسانی حُرمت کا لازوال قانون بھی۔ لیکن افسوس صد افسوس احکامات نبوی صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حقیقی تعلیمات کو مسلمانوں بلخصوص شدت پسند طبقے نے پس پُشت ڈال کر خود ساختہ عقائد کی بُنیاد پر بارود و خون کا وہ کھیل کھیلا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ معاشرے کا کوئی یونٹ یا جنس ایسی نہیں جو اس ظلم و بربریّت سے محفوظ رہا ہو۔ ہسپتال ہو یا تعلیمی ادارے، مساجد ہوں یا دیگر عبادت گاہیں، مذہبی اجتماعات ہوں یا جنازہ گاہیں، عورتیں ہوں یا بچے، بوڑھے ہوں یا جوان ۔ نام نہاد مسلمانوں نے بلا تخصیص اُس انسان کی جان لی ہے جس کی حُرمت اسلام نے واشگاف الفاظ میں دنیا کی ہر حُرمت سے زیادہ قرار دی ہے۔

‘‘جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی’’ مائدہ:۲۳

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے۔اور فرما رہے تھے تو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر اچھی ہےتو کتنا صاحب عظمت ہےاور تیری حرمت کتنی عظیم ہےقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، مسلمان کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہے اور مومن کے ساتھ بد گمانی بھی اسی طرح حرام ہے ہمیں حکم ہے کہ مومن کے ساتھ اچھا گمان کریں

اسلام نے مسلمان کی نہیں ایک انسانی جان کی حُرمت کی بات کی ہے۔ ناحق انسانی جان لینے کا حق اللہ نے کسی کو تفویض نہیں کیا۔ حتٰی کہ اسلام نے دُشمن سے بھی اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو تی - دشمن سے اس طرح کا سلوک کرو جو بہترین ہو پھر تُم دیکھو گے کہ وہ تُمہارا مخلص دوست بن گیا ہے۔ اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت و صبر کرنے والے ہیں۔ اور کردار عظیم کے مالک ہیں " سورة فصلت

نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے بدترین دشمنوں کے گھر کو بھی جائے امن قرار دیا۔
" جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے امان ہے اور جو شخص حکیم بن حزام کے مکان میں پناہ لے اسے بھی امان ہے "
لیکن فی زمانہ مسلمان مسلمان کے گلے کاٹنے کو جہاد سے تعبیر کر رہا ہے۔ دُنیا کا کوئی مذہب، اخلاقیات، معاشرہ یا قانون ناحق انسانی جان لینے کو جائز قرار نہیں دیتا ۔

اس گھمبیر صورتحال میں تمام مکاتب فکر کے علماء، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو بالخصوص اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ جہادی عناصر جو اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں یا اسلام دشمن قوتوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ان سے قطع تعلق کے ساتھ ساتھ اسلام کے حقیقی پیغام کو فروغ دینا ہو گا۔ خودکش دھماکے ہوں یا ڈرون حملے، بوری بند یا مسخ شدہ لاشیں، ہزارہ برادری کی نسل کشی ہو یا مختلف مسالک کے علماء کرام کا قتل یا ٹارگٹ کلنگ ، ان سب کا تسلسل ہمیں 2002 کے بعد نظر آتا ہے۔ اس سے قبل شاذ ہی ایسے افسوسناک واقعات ہوا کرتے تھے۔
ریاست خود کش دھماکوں کے منبع طالبان سے مذاکرات کی خواہاں ہے۔ مذاکرات کی میز پر اگر مسائل کا حل ملتا ہے تو یہ احسن قدم ہو گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ طالبان کے 18 سے زائد گروپ کام کر رہے ہیں جن میں سے بیشتر دیگر سنگین جرائم جیسے اغواء برائے تاوان میں بھی ملوث ہیں۔ ان سب گروپس سے مذاکرات کرنا اور مطالبات تسلیم کرنا تو ناممکنات میں سے ہے۔ پھر ریاست کی ترجیح کیا ہو گی۔ مذاکرات اور دیگر آپشنز کے ساتھ ساتھ ان حالات کی بنیادی وجوہات مثلاً ڈرون حملے، معاشرتی ناہمواری، ناخواندگی، لسانی گروپ بندی، فرقہ واریت پر بھی قابو پانا ضروری ہو گا وگرنہ دیرپا امن قائم نہیں ہو گا۔ زہر جب جسم میں سرایت کر جائے تو ہنگامی اقدامات کرنے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مصلحتوں سے کام لینے کی بجائے ٹھوس اور قابل عمل حکمت عملی اپنائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، طالبان ، بیرونی قوتوں کی مداخلت، ڈرون حملے، سیکیورٹی اداروں کی ناکامی اور فرقہ واریت ، یہ وہ عناصر ہیں جس نے ہمیں آگ کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ اور ہم گزشتہ 11 برس سے اس میں جل رہے ہیں۔ عالمی برادری میں امن و عامہ کی صورتحال کے سلسلے میں ہمارا موازنہ افغانستان اور عراق سے کیا جاتا ہے۔ خدارا سیاسی اور لسانی مصلحتوں سے آزاد ہو کر اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیئے بلا تفریق جرات مندانہ اقدامات کیئے جائیں۔ ہمارے قاتل ہم میں سے نہیں قطع نظر اس کے کہ انہوں نے ہمارا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ہمیں انہیں پہچاننا ہو گا۔ ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انسانی جان و مال کا تحفظ بلا شبہ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ان مخدوش حالات میں ہمیں انفرادی 

طور پر بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہو گا۔
(یہ مضمون سچ ڈاٹ ٹی وی کے درج ذیل لنک پر شائع ہوا
http://www.saach.tv/2013/06/23/insani-jan-ki-hurmat-aur-humara-muashra)


 پاکستان - ووٹنگ کا طریقہ کار اور اصلاحات کی ضرورت

پاکستان میں حالیہ دنوں ہونے والے جنرل الیکشنز مبصرین اور غیر جانبدار اداروں کے نظر میں ماضی کے الیکشنز کی نسبت بہت بہتر اور زیادہ ٹرن آؤٹ کے ساتھ اختتام پزیر ہوئے۔ لیکن متوقع طور پر دھاندلی کے الزامات نے بہت سے سوالات کو بھی جنم دیا ۔ زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق نظر آئے کہ ان الیکشنز میں حکومتی یا کسی ادارے کی سطح پر دھاندلی کے شواہد موجود نہیں اور جن حلقوں سے دھاندلی کی شکایات موصول ہوئیں ان حلقوں میں دھاندلی کی بنیادی وجوہات تکنیکی، پولنگ ایجنٹ یا امیدوار کی انفرادی کوشش یا پولنگ سٹاف کی نااہلی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں مینول پولنگ سسٹم موجود ہو اس طرح کی خرابی یا وجوہات معمول کی بات ہے۔ لیکن الزامات در الزامات سے قطع نظر اب حکومتی اداروں کو ووٹنگ سسٹم میں بھی بہتری کی طرف قدم اٹھانا ہو گا-
دُنیا بھر میں موجود اوورسیز پاکستانیز سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن میں اپنا حق رائے دہی تو استعمال نہ کر پائے لیکن ہر لمحہ ان کی نظریں ٹی وی یا موبائل سکرینز پر فوکس رہیں۔ الیکشن کے بعد کی الزام تراشی ، موضوں فورم سے رجوع کرنے کی بجائے ہڑتال اور دھرنا سیاست نے ملک بھر کے عوام اور ہم اوورسیز پاکستانیز کو بھی تشویش میں مبتلا کئے رکھا۔ اس پیچیدہ مسئلے کے حل کے لئے کچھ تجاویز ذہن میں آئیں جو سچ ٹی وی کے وساطت سے پیش خدمت ہیں۔
دُنیا میں پولنگ کے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ جن میں مینوئل ووٹنگ / پیپر ووٹنگ، الیکٹرانک مشین -ای وی ایم اور ای ووٹنگ / ڈائریکٹ ریکارڈنگ الیکٹرانک سسٹم قابل ذکر ہیں
مینوئل ووٹنگ دُنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے۔ اور یہ نسبتًا زیادہ مہنگا اور قابل اعتبار طریق نہیں ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمیں حالیہ الیکشن میں دیکھنے کو ملیں- جن میں جعلی بیلٹ پیپرز کا استعمال، بیلٹ پیپرز کا چھینا جانا یا غلط استعمال یا کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا ضائع کیا جانا شامل ہیں۔
ای ووٹنگ کا استعمال پہلی بار امریکہ میں محدود پیمانے پر کیا گیا۔ جسے بتدریج اب ملکی سطح کے انتخابات تک وسعت دی جا چکی ہے۔ بشمول امریکہ الیکٹرانک ووٹنگ اس وقت دُنیا کے تقریبًا گیارہ ممالک میں کامیابی سے نافذ ہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا، کینیڈا، انڈیا، فرانس، نیدرلینڈ، ناروے، سپین، سوئٹزرلینڈ، انگلینڈ، استونیا اور امریکہ شامل ہیں۔ ان میں سے چھ ممالک نے ای ووٹنگ کو آزمائشی طور پر لوکل کونسلز یا لوکل باڈیز کے الیکشن میں متعارف کروایا۔ اور بتدریج اسے بالائی سطح تک لے کر گئے ۔ ای ووٹنگ یا انٹرنیٹ ووٹنگ کی سہولت سے بیرون ملک موجود ان ممالک کے شہریوں نے بھی استفادہ حاصل کیا۔
ای ووٹنگ کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک مشین کے ساتھ ووٹنگ کا سسٹم بھی اب نیا سسٹم نہیں رہا۔ انڈیا میں جنرل الیکشنز کے لئے الیکٹرانک مشین کا استعمال 1999 سے جاری ہے۔ اس مشین کو ای وی ایم کہتے ہیں۔ جو کہ مینول بیلٹ بکس کا متبادل ہوتی ہے۔ ای وی ایم مشین سے گنتی کی سپیڈ بھی نہایت تیز ہوتی ہے اور اس میں غلطی کی شرح 02. فیصد ہو سکتی ہے۔ اس وقت انڈیا میں ای وی ایم مقامی سطح پر تیار کر کے ایکسپورٹ بھی کی جارہی ہیں۔
ووٹرز لسٹوں کے لیے لا محالہ مینوئل یا الیکٹرانک ڈیٹا بیس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مینوئل ڈیٹا کی غلطیاں یا کوتاہیاں ہی دھاندلی کی سب سے بڑی وجہ بنتی ہیں۔ الیکٹرانک ڈیٹا بیس کے حوالے سے جو کام پاکستان میں ہوا ہے اس کی مثال کم ازکم ایشیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ اور یہ ٹیکنالوجی دُنیا کی بہترین ٹیکنالوجی میں سے ایک ہے۔
نادرا نے ڈیٹا بیس مینیجمنٹ میں اپنی قابلیت اور کارکردگی کی بُنیاد پر بے شمار بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کئے ہیں۔ اور اسی قابلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر سوڈان، کینیا، بنگلہ دیش اور نائجیریا نے حکومتی سطح پر ڈیٹا بیس کی تیار کے لیے نادرا کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔
نادرا اب تک نو کروڑ بیس لاکھ پاکستانیز کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کا اجراء کر چُکا ہے۔ جو کہ ٹوٹل بالغ افراد کے 96 فیصد بنتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نادرا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرتے ہوئے تاریخ میں پہلی بار باتصویر ووٹر لسٹوں کا اجراء کیا۔ یقینی طور پر یہ ایک سنگ میل ہے جس کی وجہ سے ووٹر لسٹوں پر سے اعتراضات کی شرح ماضی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس نظام کے تحت کمپوٹرائزڈ نمبر کی وجہ سے ملک بھر میں کسی ایک شخص کا ووٹ ایک سے زیادہ حلقوں میں رجسٹرڈ نہیں ہو سکتا۔
نادرا کا سوفٹ ویئر دُنیا کا واحد ڈیٹا بیس سوفٹ ویئر ہے جو کہ بیک وقت انگلیوں کے نشانات اور چہرے کی سکیننگ اور ڈیٹیکشن کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سوفٹ ویئر کی ملٹی لینگوئج کے ساتھ سرچ سپیڈ 16 ملین / سیکنڈ ہے۔ 83 ملین تصاویر کے ساتھ نادرا کے پاس دُنیا کی سب سے بڑی فیشل امیج لائبریری کا اعزاز حاصل ہے۔دُنیا کے اس باصلاحیت ادارے کے ہوتے ہوئے اگر ہم پاکستان میں الیکٹرونک ووٹنگ یا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی طرف قدم بڑھا پائیں تو یہ ایک سنگ میل ہو گا۔ ای ووٹنگ کی سہولت اُن اوورسیز
پاکستانیز کو دی جا سکتی ہے جو باقاعدہ نادرا کے ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ ہیں یا وہ سرکاری ملازمین جو اپنا حق رائے دہی پوسٹل بیلٹ کے زریعے استعمال کرتے ہیں۔ پوسٹل بیلٹ کا استعمال فی زمانہ متروک ہونے کو ہے۔
الیکٹرونک ووٹنگ سسٹم میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے بنیادی مرحلے ووٹر کی تصدیق، آزادانہ ووٹ کا استعمال، ووٹنگ پراسیس کی سیکیورٹی اور سیکریسی اہم مراحل ہیں۔ اور یہ تمام سیٹ اپ نادرا کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس کی ایک عمومی مثال آن لائن شاپنگ اور کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کا آن لائن استعمال بھی ہے جو کہ نہایت محفوظ اور خفیہ ہوتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل سے بیرون ملک مقیم پاکستانیز کے لیے حق رائے دہی ایک آسان عمل ہو گا اور سفارت خانوں میں خصوصی انتظامات کی ضرورت درپیش نہیں آئے گی ۔ ملک بھر میں پولنگ سٹیشنز پر الیکٹرانک مشین کے ذریعے پولنگ کروائی جائے تو دھاندلی کے اُن سنگین الزامات سے بچا جا سکتا ہے جن کی زد میں ہم آج کل ہیں۔ الیکٹرانک مشین کے ذریعے دھاندلی ، چھینا جھپٹی اور جعل سازی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ دھاندلی کے زیادہ تر الزامات یا واقعات میں جعلی بیلٹ پیپر یا بیلٹ پیپرز کی چوری یا غلط استعمال اہم ہیں۔ متوقع بلدیاتی انتخابات میں اگر الیکشن کمیشن اور حکومت وقت کچھ حلقوں میں ٹرائل کے طور پر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال کرے تو اس کے اثرات، مضمرات یا فوائد کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔
ہمیں بحیثیت قوم ماضی کے حوالوں کی بجائے اپنی کل کی فکر کرنی ہو گی کہ ماضی سبق سیکھنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ ہر لمحہ دوسروں کو کوسنے کے لئے۔ اکیسویں صدی کے ایک عشرہ گزر جانے کے بعد ہم پوسٹل بیلٹ، تارکین وطن کے حق رائے دہی، جعلی ووٹنگ جیسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ جب ہمارے پاس دُنیا کا بہترین سکریننگ، سکیننگ ویریفیکیشن سسٹم نادرا جیسے ادارے کی شکل موجود ہے تو پھر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔
(یہ مضمون سچ ڈاٹ ٹی وی کے درج ذیل لنک پر مئی 2013 میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں شائع ہوا
http://www.saach.tv/2013/05/20/pakistan-voting-ka-tareeqa-kar-aur-islahat-ki-zarorat/)


No comments:

Post a Comment