Sep 25, 2014

شعور ازلی کا راستہ


 

تحریر
 سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

فنا فی الشیخ وہ کیفیت ہے جہاں سے علم و آگہی اور شعور ازلی کا راستہ مل جاتا ہے۔ سالک جب روحانی راستے پر قدم رکھتا ہے تو اس کی حالت ایک بچے سی ہوتی ہے۔ جو چلنا تو جانتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ماں باپ کی انگلی پکڑے بغیر سڑک پر چل نہیں سکتا۔ نہ وہ تنہا سفر کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کی کمزوری اور محتاجی کا خیال کرتے ہوئے ماں باپ اپنے اوپر بچے کی نگہداشت کی ذمہ داریوں کو واجب کر لیتے ہیں اور ہر وقت اسے اپنی نظر میں رکھتے ہیں۔ روحانی استاد بھی اپنے مُرید کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ وہ اپنی روحانی اولاد کی روحانی تربیت و تعلیم کو اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اور مُرید قریب ہو یا دُور ہر حال میں اسے اپنے روحانی تصرف کے دائرے میں رکھتا ہے۔ تاکہ لاتناہیت کے سفر پر روانہ ہونے والا یہ بے سروسامان مسافر راستے کی درگھٹاوں سے گھبرا کر حصول منزل کی طلب سے دل نہ چھوڑ بیٹھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر مرشد کریم نے تحریر فرمایا تھا

’’خوشانصیب کہ روزانہ آپ کی تحریر نظر نواز ہوتی ہے۔ آپ ان دنوں جن حالات و کیفیات سے گزر رہی ہیں وہ ایک طرف جگر کو خون اور آنکھوں کو اشکبار کرنےکا راستہ ہے اور دوسری طرف یہی راستہ علم و آگہی اور شعور ازلی کا راستہ ہے۔ آپ خوب سمجھ لیجئے کہ یہ فقیر آپ کی کیفیت سے واقف ہے۔ جب آپ کے دل کا ایک تار ہلتا ہے تو میرے دل میں موجود ساڑھے گیارہ ہزار تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں۔ آپ کی آنکھ سے جب آنسو کا ایک قطرہ بہتا ہے تو میرے اندر موجود سمندر میں طوفان آجاتا ہے۔

آپ جہاں ہیں ، جوبھی ہیں، جس طرح بھی ہیں۔ بہر حال ایک نقطہ ہیں۔ ایسا نقطہ جس نقطے کے ساتھ بے شمار کہکشانی نظام بندھے ہوئے ہیں۔ خوش ہو جائیے کہ اب کٹھن راستہ آپ نے عبور کر لیا ہے ۔ راستہ عبور کرنے کے بعد آگے کیا ہے یہ بات لکھنے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہےـ‘‘

حضرت الشیخ فرماتے ہیں کہ روحانی علوم کے سیکھنے کے لئے ایک استاد کا ہونا ضروری ہے تاکہ مرید کی روحانی کیفیات کے مطابق اس کی تربیت کر سکے۔ چونکہ روحانی علوم دُنیاوی عقل و شعور کے دائرے میں سیکھے جاتے ہیں اس لئے دُنیاوی عقل کا مطمئن ہونا بھی ضروری ہے۔ تاکہ مادی روشنیاں نُور کے رنگوں سے رنگین ہو جائیں اور نافرمانی کا ذہن ہمیشہ کے لئے فرمانبرداری کے مضبوط خول میں بند ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا بندہ بندگی کے فرش پر سربسجود ہو۔ روحانی تربیت کے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مرشد اپنے مُرید کی تربیت اس کے ذہنی لیول اور روحانی سکت کے مطابق کرتا ہے۔

روحانی راستے میں سالک کے لئے سب سے کٹھن مرحلہ ’فنا فی الشیخ‘ کا درجہ ہے۔ اس درجہ کی کیفیات بھی مرید کی روحانی سکت کے مطابق درجہ بدرجہ ہوتی ہے۔ روحانی سکت روشنیوں کے جذب کرنے کی مقداروں سے بنتی ہے۔ جس کا شعور لاشعور کی روشنیوں کو جس حد تک جذب کرتا ہے روحانی سکت اسی حد تک تعبیر کی جاتی ہے۔ لاشعور کی روشنیاں شعور میں جذب ہو کر حواس کی رینج کو بڑھاتی ہیں۔ سالک کی نظر عالم ناسوت سے گزر کر لاشعور کی حدود میں مشاہدہ کرتی ہے۔ شعور میں جذب شدہ انرجی یا لاشعور کی روشنی غیب میں لا محدودیت کی حدود کا تعین کرتی ہے۔

لامحدودیت کی کوئی حد نہیں ہے۔ سالک کا شعور جس حد تک لاشعور کی روشنیوں کو جذب کرتا ہے وہی اس کی لامحدودیت بن جاتی ہے۔  عالم مثال کے پردے سے گزر کر علم کائنات کے انوار میں کائناتی خاکے اُبھرنے لگتے ہیں جو روح کا لطیفہ سری کا مقام ہے۔ اس مقام پر نوری خاکے روح کی نظر سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لطیفہ سری اور لطیفہ روحی ، روح انسانی کا دائرہ ہے۔ مرشد اپنی توجہ سے مرید کے لطائف کو متحرک کرتا ہے۔ تا کہ اس مقام پر رونما ہونے والی حرکات کا مشاہدہ کر سکے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آسمانوں  اور زمینوں کی ہر شے اللہ کے نُور کا مظاہرہ ہے۔ جب مرشد کی توجہ مرید کے نقطہ ذات پر ہوتی ہے ۔ نقطہ ذات تجلی کا نقطہ ہے جو انا کا مقام ہے۔ تجلی کے نقطے میں کائنات کا ہر فرد انا کی صورت میں موجود ہے ۔ یعنی نُور کے ایک نقطے کی صورت ہے۔ جب مرشد کی توجہ مرید کے نقطے میں کام کرتی ہے۔ تو وہ اس نقطہ میں اپنی انا کے نقطے سے رابطہ قائم کر لیتا ہے۔ مرشد کی انا کی لہریں مرید کے نقطہ ذات کے اندر اپنا عکس آئینے کی طرح منعکس کرتی ہیں۔ اور مرید کی روح کی نگاہ نقطہ ذات میں مرشد کی انا کا عکس دیکھ لیتی ہے جو عالم مثال کا نوری خاکہ ہے۔ روح کی روشنی ہی کشش ہے اور عالم مثال کے اس نُوری خاکے   یعنی سری کی روشنیوں میں گریز کی حرکت ہے۔ کشش اور گریز کی حرکات اس نوری خاکے کو متحرک کر دیتی ہیں۔ اور روح کی نظر اس نوری خاکے کو دُنیا میں دیکھ لیتی ہے۔ مقام انا پر سالک اللہ نور السموات والارض کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کائنات میں میرے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔ کل ذات کی انا خالق کی انا ہے اس دائرے میں مخلوق کی تمام انائیں جُزوی طور پر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کی انا سے فیڈ ہو رہی ہیں۔ یہ جزوی انائیں نورکےوہ نقطے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کُن کہنے سے روح کی صورتوں میں جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نُور ہے سے مراد نور کے یہی نقطے ہیں جو کائنات کی انائیں ہیں اور مخلوق کی کنہ حقیقت ہے۔

مرشد کے نقطہ ذات کی روشنی جب مرید کے نقطہ ذات  سے ٹکراتی ہے تو روشنیوں کی تخلیقی فطرت کے مطابق مرشد کی روشنیاں انا کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور مرشد کا یہ نوری عکس مرید کے نقطہ ذات کے آئینے میں نقش ہو جاتا ہے۔ تخلیق کا قانون ہے کہ جب ایک نقطہ ذات کی روشنی دوسرے نقطہ ذات کی روشنی سے اس طرح ملتی ہے کہ دونوں نقطہ ذات کی اناوں کا باہم ملاپ ہوتا ہے تو انا کی روشنیاں اپنے آپ کو انا کی صورت میں ظاہر کر دیتی ہیں اور انا کی یہ صورت روح کہلاتی ہے۔ دو اناوں کا باہمی ملاپ شعور ازلی کی بُنیاد  بنتا ہے۔ شعور ازلی تجلی ذات کا شعور ہے ۔ مقام انا عالم ناسوت ہے، جو تجلی ذات کا عالم ہے ۔ عالم لاہوت میں تجلی ذات کے گھیراو میں جب کائنات کی دو انائیں باہم ملتی ہیں تو انا کے اس نقطے سے لاشمار کائناتی نظام نور کے تاروں کے ساتھ بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ تجلی کا یہ نقطہ صفت ربوبیت کے ساتھ ان کائناتی نظاموں کو اپنی روشنیوں سے فیڈ کرتا ہے۔ فنا فی  الشیخ کے درجے میں سالک کی عقل اپنی سکت کے مطابق ان علوم کو معانی پہناتی ہے۔ مگر اس حقیقت سے سب ہی واقف ہو جاتے ہیں کہ بغیر اس مقام سے گزرے ہوئے حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس مقام پر مرید کی مرکزیت مرشد کی ذات ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک بچے کی ساری مرکزیت اپنی ماں پر ہوتی ہے کہ ذرا آنکھ اوجھل ہوئی تو بچہ رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے۔ اور اپنی تمام ضروریات و تقاضوں کا ذمہ دار بھی ماں کو ہی سمجھتا ہے۔ اس کے لئے ماں ہی پوری کائنات ہے ۔ یہی کیفیت عشق فنا فی الشیخ کا درجہ ہے۔ جس میں شیخ  کی جدائی مرید پر بار گراں بن جاتی ہے۔ مرید کے نقطہ ذات کی روشنیاں شیخ  کی  روشنیوں میں اس طرح گم ہو جاتی ہیں کہ اسے اپنے آئینے میں صرف شیخ کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تحریر میں شیخ فرماتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے جس سے علم و آگاہی اور شعور ازلی کا راستہ ملتا ہے۔ اگر سالک اسی مقام پر اپنی انا کی تسکین کا سامان کر لے تو وہ اس سے آگے قدم نہیں اٹھا سکتا۔ شعور و عقل جو اس جسم کے اندر کام کر رہی ہے وہ ہر شے کو ایک صورت میں دیکھنا چاہتی ہے۔ پس جب سالک اس مقام پر شیخ کے نوری خاکے کو دیکھ لیتا ہے تو اسکی وہ انا جو نور کی تلاش میں روحانیت کے راستے پر چل رہی ہے اسے تسکین مل جاتی ہے اگر سالک اسی پر اکتفا کر ے تو وہ انہی نظاروں میں اپنے آپ کو گم کر دیتا ہے ۔ اور حقیقت نور کو جاننے کی سکت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی ۔ اسی لئے روحانیت میں اس مقام کو کٹھن کہا گیاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر صورت سے پاک ہے ۔ یہ مقام اس حقیقت تک پہنچنے کا راستہ ہے خود حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت وہی ہے جو مرشد کریم نے فرمائی ہے کہ

آپ جہاں ہیں، جو بھی ہیں، جس طرح بھی ہیں، بہرحال ایک نُقطہ ہیں۔ ایسا نقطہ کہ جس کے ساتھ بے شمار کہکشانی نظام بندھے ہوئے ہیں۔

جب سالک اپنے نقطہ ذات کا مشاہدہ کر لیتا ہے یعنی وہ اپنی ذات کو تجلی کے ایک نقطے کی صورت دیکھ لیتا ہےاور اس تجلی کے اندر اسمائے الہٰیہ کے ساڑھے گیارہ ہزار رنگوں کا مشاہدہ کر لیتا ہے تو اپنے اندر موجود اسمائے الہٰیہ کی صفات کو بطور اپنی صلاحیت کے اپنے ارادے سے استعمال کر تا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یک ذات کی انا کُل ذات  میں گُم ہو جاتی ہے۔ اس طرح سورج کی روشنی میں چاند ستارے گم ہو جاتے ہیں۔

سورج کی روشنی اپنی چادر میں چھُپا کر ان چاند ستاروں کو اپنی روشنی سے زندہ رکھتی ہے۔ جب ارادہ انہیں ظاہر کرنے کا ہوتا ہے تو سورج ان کے اوپر سے اپنی چادر ہٹا دیتا ہے۔ چاند ستارے فلک پر اپنی محفلیں سجا لیتے ہیں ۔ دنیا کی لاشمار آنکھیں انہیں دیکھ لیتی ہیں اور جب سورج چاہتا ہے کہ کوئی انہیں نہ دیکھے تو پھر انہیں اپنی قُبا میں چھپا لیتا ہے۔ مگر ہر دو حال میں سورج کی نگاہیں چاند ستاروں کو دیکھتی رہتی ہیں۔

Sep 23, 2014

عرس مبارک - عشق دا وارث - وارث شاہ ؒ

 
وارث شاہؒ برصغیر کی وہ ہستی ہیں جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وارث شاہؒ مشہور زمانہ تصنیف ”ہیر“ کے خالق اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔ وارث شاہؒ پنجاب کی دھرتی کے ایک تاریخی قصبہ جنڈیالہ شیر خان جوکہ شیخوپورہ سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے میں پیدا ہوئے۔ انکے سن پیدائش کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا بعض کتابوں میں آپکا سن پیدائش 1150ھ بتایا جاتا ہے۔ آپکے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ ابھی کمسن ہی تھے کہ علم حاصل کرنے کی غرض سے قصور کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت مولانا غلام مرتضٰی جوکہ اسوقت قصور میں ہی تشریف فرما تھے کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ خود ہی فرماتے ہیں
وارث شاہ وسنیک جنڈیالڑے دا
تے شاگرد مخدوم قصور دا اے

آپ نے بابا بُلھے شاہؒ کے ہمراہ اُن سے تعلیم حاصل کی۔ دنیاوی علم حاصل کر چکے تو مولوی صاحب نے اجازت دی کہ جا
اب باطنی علم حاصل کرو اور جہاں چاہو بیعت کرو۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ
بابا بلھے شاہؒ نے تو حضرت عنایت قادریؒ کی بیعت کی جبکہ سید وارث شاہ ؒنے حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کے خاندان میں بیعت کی
مودود دا لاڈلا پیر چشتی گنج شکر مسعود بھرپور ہے جی
خاندان وچ چشت دے کاملیت شہر فقر دا پٹن معمورہے جی

کچھ عرصہ پاکپتن شریف میں قیام کیا اور مراتب فقر طے کئے، واپسی پر جاہدکے ٹھٹھے میں جو پاکپتن شریف کے راستہ میں کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا سا گا
ں ہے رات بسر کی۔ کہتے ہیں کہ صبح جب روانہ ہونے لگے تو ایک خوبصورت عورت جس کا نام کتابوں میں بھاگ بھری لکھا گیا ہے کو جاتے دیکھا اور اس پہ فریفتہ ہو گئے اور واپسی کا ارادہ ملتوی کر کے وہیں گاں کے قریب ٹیلے پر واقع ایک چھوٹی سی مسجد میں رہائش اختیار کر لی۔ گاں کے باسیوں نے بسبب عالم و فاضل اور فقیر ہونے کے ناطے انکی خدمت اور تعظیم شروع کر دی۔ ان ہی دنوں میں آپ نے مشہور قصہ ”ہیر رانجھا“ کی تخلیق کا کام شروع کیا جوکہ وہیں پر اختتام پذیر ہوا جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے ہیر رانجھا کے قصہ کو آخری شکل اپنے آبائی گاں جنڈیالہ شیر خان میں دی جس کو مختلف کاغذوں پر الٹی سیدھی لکیروں میں ڈھالا جس کا نمونہ اب بھی موجود ہے۔
جب ”ہیر رانجھا“ کے قصہ کے متعلق آپکے استاد محترم حضرت غلام مرتضٰی کو علم ہوا تو انہوں نے اس واقعہ پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا وارث شاہؒ، بابا بلھے شاہ ؒنے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر لکھ ڈالی۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو مولانا نے اپنے مریدوں کو کہہ کر آپ کو ایک حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن آپکو باہر نکلوایا اور کتاب پڑھنے کا حکم دیا جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ سننے کے بعد فرمایا، وارثا! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دئیے ہیں۔ یہ پہلا فقرہ ہے جو اس کتاب کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ سید وارث شاہ ؒدرحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح بیان کرتے ہیں۔
اوّل حمد خدا دا ورد کیجئے
عشق کیتی سو جگ دا مول میاں
پہلاں آپ ای رب نے عشق کیتا
معشوق ہے نبی رسول میاں
وارث شاہؒ نے وہ ساری خوبیاں اور خصوصیات اپنی ہیر میں سمو دی ہیں جو کسی داستان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ”ہیر رانجھا“ کا قصہ سب سے پہلے دمودر نے پیش کیا آج بھی یہ قصہ دوسری تمام عشقیہ داستانوں سے زیادہ پڑھا اور سُنا جاتا ہے۔ وارث شاہ ؒنے ”ہیر رانجھا“ کی داستان میں شروع سے لیکر آخر تک مکالمہ نگاری سے کام لیا ہے اور ان مکالموں کے ذریعے کہانی کے کرداروں کو بڑی رعنائی کے ساتھ بیان کیا ہے ہر کردار اپنے کام میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
وارث شاہ ؒکا دور محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا دور ہے۔ وارث شاہ ؒنے اس سارے منظر کو شاعری کی شکل میں اس طرح بیان کیا ۔
حق سچ دی گل نہ کرے کوئی
جھوٹ بولنا رسم سنسار ہوئی
مجلس لا کے کرنا حرام ایکا
صوبیدار تے حاکم نہ شاہ کوئی
رعیت ملک تے سب اجاڑ ہوئی
پیا ملک دے وچ ہے بڑا رولا
ہر کسے دے ہتھ تلوار ہوئی
وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کو آپ نے ہی عروج بخشا ہے۔ پنجابی کی تدوین و ترویج میں وارث شاہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپکا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ ”ہیر“ میں بہت سی کہاوتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کیلئے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں مثال کے طور پر۔
وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں
بھاویں کٹیئے پوریاں پوریاں اوئے
وارث رن، فقیر، تلوار، گھوڑا
چارے تھوک ایہہ کِسے دا یار نہیں
ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا
تے شیطان استاد داستیاں دا
وارث شاہ خلق تو لکالئیے
بھاویں اپنا ای گڑ کھالئیے
وارث شاہ ؒکی ”ہیر“کے علاوہ دوسری تصانیف میں معراج نامہ، نصیحت نامہ، چوہریڑی نامہ اور دوہڑے شامل ہیں۔
وارث شاہؒ کا عرس مبارک ہر سال ساون کی 8، 9، 10 تاریخ کو جنڈیالہ شیر خان میں منایا جاتا ہے
عرس کے موقع پر ہیر پڑھنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ جن میں ہیر پڑھنے والے پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے آ کر حصہ لیتے ہیں۔ 1983ءمیں سید وارث شاہ میموریل کمیٹی نے 80 لاکھ روپے کی لاگت سے مزار کی عمارت کو تعمیر کروایا۔ وارث شاہ کمپلیکس آٹھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔
افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 1233ھ میں وفات پائی۔
وارث میاں انت خاک ہونا
لکھ آب حیات جے پیو نائیں
 
 

Sep 22, 2014

شاہ و گدا کی حقیقت


مٹی کی حقیقت


صفائی ںصف ایمان ہے - روحانی تشریح

 
تحریر : عظیمی

قرآن کا یہ اعجاز بھی ہے کہ قرآن مختلف مثالوں سے  کائنات کی حقیقتیں سمجھاتا ہے،تاکہ انسانی شعور تجربات، تفکر ،سوچ جذب ہوکر یقین بن جائے
محمد رسول اﷲ نے قرآن کایہی اسلوب اپنایا ، اور امت کی تربیت کی،آپ علیہ الصلٰوۃ السلام کے ایک ایک بیان مبارک میں اتنی حقیقیتں کارفرما ہیں کہ بجز اﷲ والوں کی نظر کرم ،رسول اﷲ کی رحمت اور گہرے تفکر سے ہم ان حقائق سے آشنا نہیں ہو سکتے۔
آیئے ایک مثال اور تجربہ سے کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،
تین میز لیں اور ان تینوں میزوں پر سفید آرٹ پیپربچھا دیں ،مختلف رنگوں کے بتیس دھاگے لیں ۔
ان بتیس دھاگوں میں سولہ دھاگے علیحدہ کر دیں اور میز نمبر ایک پر بے ترتیب بچھا دیں 
میز نمبر دو کے اوپر پڑی آرٹ شیٹ کے درمیان ایک گول دائرہ بنائیں ،اور اس دائرے کے اندر درمیان اسم اللہ لکھ دیں ،اب اس اسم اﷲ والے دائرہ سے ترتیب کے لحاظ سے مختلف زاویوں میں باقی سولہ دھاگے لگا دیں 
تیسرے میز پر پڑے سفید آرٹ کاغذ کے درمیان میں دائرہ لگا کر صرف اسم ﷲ لکھ دیں
  میز نمبر ایک ۔۔۔۔۔ دنیاوی مادی زندگی ہے جو کہ ترتیب نہ ہونے کے باعث الجھن، بیزاری، پریشانی
سڑاند و تعفن ہے
میز نمبر دو ۔۔۔۔۔ زندگی میں ترتیب ہے اس کا مرکز ﷲ ہے
میز نمبر تین ۔۔۔۔ پاکیزگی ہے
آپ اپنی زندگی، شعور، اردگرد کے افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان تین دائروں میں سفر کرتی زندگی نظر آئے گی، ایک میز پر۔۔۔ایک کمرہ میں مختلف کاغذ بکھرے پڑے ہیں ۔۔آپ کے ذہن میں الجھن محسوس ہو گی،انہی کاغذ کے ٹکڑوں کو اٹھا کر میز کے ایک کونے میں ترتیب سے رکھ دیں آپ کو ترتیب اور خوبصورتی نظر آئے گی،انہی کاغذ کے ٹکڑوں کو میز کی سطح سے ہٹا دیں آپ کو صفائی مل جائے گی۔۔
صفائی و پاکیزگی کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔ کسی سطح سے کسی شے کا ہٹانا۔۔۔۔۔
عام مادی زندگی اور بالخصوص مذہب سے دور افراد میں شعور کی پہلی حرکت پائی جاتی ہے۔۔۔
مذہب سے قریب حضرات میں ترتیب پائی جاتی ہے بشرطیکہ وہ مذہب کی اصل روح سے واقف ہوں ۔
شعور کی تیسری حرکت روحانی شعور ہے،یہ مراقبہ سے حاصل ہوتی ہے ،یعنی ایسی گہری یکسوئی کہ انسان کا ذہن ایک نقطہ میں جذب ہو جائے اور روحانی شعور کی حرکات بندہ کا ادراک اور شہود بن جائے ۔
قرآن ایسے سعید اور محترم بندوں کو مطہرین(پاکیزہ) کہتا ہے۔
-  سورة التوبة  وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِين
ﷲ مطہرین سے محبت کرتا ہے
محبت کیا ہے
پاکیزہ اور نورانی لہروں کا ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ میں جذب ہونامحبت ہے۔
یہی لہریں جب ایک مرکز سے دوسرے مرکز میں داخل ہوتی ہیں ،تو کشش محسوس ہوتی ہے۔
یعنی محبت کشش ہے۔۔
اﷲ مطہرین سے محبت کرتا ہے۔
اس قانون کا حق الیقین حاصل کرنے کے لیئے ہمیں عام مادی شعور کی حرکات سے ہٹ کر شعور کی تیسری حالت یعنی روحانی شعور کی حرکت یعنی انسان کا ایک نقطہ میں انجذاب میں آنا پڑے گا۔
اس کا طریقہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پہلی سنت مبارکہ مراقبہ ہے،
قرآن کریم نے حضرت ابرہیم علیہ الصلٰوۃ السلام کو حنیف (گہرا یکسو ) قرار دیا ہے
یہ روحانی شعور کی حرکات ہے 
اسی بات کو سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اﷲ نے حضور عرض کیا 
اے اﷲ رحمت کرمحمدپر اور ان کی اولاد پرجس طرح رحمت کی ابرہیم علیہ السلام پر اور ان کی اولاد پر بے شک تو بزرگ، برتر ہے۔ اے اﷲ برکت فرما محمد پر اور ان کی اولاد پر جس طرح برکت فرمائی۔ ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی اولاد پر بے شک تو بزرگ و برتر ہے۔
یعنی رحمت ،برکت،قرب ،نور ،سرور،کے اس روحانی شعور میں داخل ہوکر اﷲ سے عرض کیا جارہا ہے کہ اے اﷲرحمت ،برکت ،قرب ،نور ،سرور کے اس روحانی شعور کو دوسروں میں بھی بیدار کر دے،تاکہ ان پاکیزہ نفوس بندوں کی تعداد بڑھ جائے ،معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے
روحانی شعور کی بھی درجہ بندی ہے۔۔۔۔۔۔
روشنی کا شعور
نور کا شعور
تجلی کا شعور
قرآن و احادیث مبارکہ میں تفصیل بیان کی گئی ہے 
     اسے ہم ایک خاکہ کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں
     
 اسی بات کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ
ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الاخرۃ حسنہ وقنا عذاب النار
یعنی اے ترتیب ،تدوین،رحمت ،نور ،محبت سے وسائل کے ذریعے پالنے والے رب ہم کو دنیا (مادی)
میں ایسی طرز فکر عطا فرما ،جو تیرے گرد گھومے، ہماری سوچ تیرے گرد طواف کرے۔ اور آخرت (روحانی) دنیا میں ایسی طرز فکر عطا فرما ۔جو تیرا طواف کرے۔ تجھ سے دوری آ گ ہے۔ ہمیں اپنی آپ سے دور نہ کر ۔
اے میرے رب ! اے محبتوں کے مرکز ہمیں اپنی طرف کھینچ لے۔اپنے محبوب علیہ الصلٰوۃ السلام کے صدقے جن کے ذریعے سے جن کے وسیلہ سے کائناتی حقیقیتں ہم پر وا ہوں۔ 
اے ﷲ ہمیں تیسرے شعور سے دوسرے ،اور دوسرے سے پہلے میں داخل کر دے تاکہ ہم بھی عالم میں ممتاز بن سکیں۔ تیرے نبیکی آنکھوں کو ٹھنڈا کرسکیں ۔۔
اے ﷲ ہمیں ترتیب کا شعور دے۔ ہمارے معاشرے کو ترتیب دے ۔ ہمارے نظام کو ترتیب دے
آمین یا رب اللعالمین بحق رحمۃاللعالمین

Sep 11, 2014

سخی اللہ کا دوست ہے (تحریر : خُرم شہزاد عظیمی، آسٹریا)


تحریر : خُرم شہزاد عظیمی، ویانا، آسٹریا

اﷲ کے محبوب بندے ،ہادی برحق،رحمت اللعالمین،اﷲکے دوست،محمد رسول اﷲ ﷺ  ارشادمبارک   ہے۔
سخی اﷲکا دوست ہے، جنت کے قریب ہے،لوگوں کے قریب ہے،جہنم سے دور ہے۔
بخیل اﷲدور ہے،جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے ،جہنم سے قریب ہے۔
سخاوت اﷲکا ایک وصف ہے۔اﷲکی ایک صفت ہے۔ایسی صفت جس پر کائنات قائم ہے۔باریک بین ،اور اﷲکے دوستوں کی طرزفکر کے رنگ میں دیکھا جائے ۔تو سخاوت کو خدمت کے علاوہ کوئی نا م نہیں دے سکتے۔یہی خدمت وسخاوت کا نُور ۔امر ۔ارادہ جب کسی بندے میں متحرک ہوتاہے۔تو وہ سونے کی ڈھیریوں۔چاندی کے سکوں۔اپنے من اور ذہن میں پائے جانے والے نُور۔علم۔جان ،مال و اولاد کے مقابلے میں  اﷲکی راہ میں سخاوت کرتا ہے۔اﷲ کے بندوں کی خدمت کرتا ہے۔
 جب اللہ کریم کی صفت سخی ہے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی بخیل کو اپنا دوست بنائے آپ چاہیں سیرت اولیاءَاللہ کی ہزاروں کُتب پڑھ لیں اُن میں آپکو ایک بھی جاہل، شقیُ القلب، اور بخیل، نہیں مِلے گا اور جس میں یہ مذموم صفات ہونگی وہ اللہ کریم کا دوست ہر گز ہرگز نہیں ہوگا جِسے اللہ کریم اپنی دوستی کے لئے چُن لیتا ہے وہ عام نہیں رہتا خاص ہوجاتا ہے
سخاوت اور بُخل دو متضاد صفات ہیں۔
سخاوت کا تعلق ایسے خیالات و احساسات سے ہے جو براہ راست اﷲ سے وابستہ ہوتے ہیں۔
بخل میں ایسے خیالات و احساسات کام کرتے ہیں۔جن کا تعلق۔اور رُخ اعلیٰ کی بجائے مادی دنیا و  مادی شعور کی طرف ہوتا ہے
ہادی برحق محمد رسول اﷲﷺکے ارشاد مبارک ارشاد کی گئی دونوں صفات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ
کہ ایک صفت میں ہم اپنے خالق، اپنے مالک، اپنے اﷲسے قریب ہوجاتے ہیں۔اﷲ سے قربت کا مطلب ہے۔بندے کے اندر خوشی،ہلکا پن،سرور،وجد ،احساس بندگی کا شعور متحرک ہوتا ہے۔۔۔
اور دوسری صفت یعنی بُخل اپنانے سے ہم اﷲسے دور ہوجاتے ہیں ۔اﷲسے دوری کا مطلب ہے کہ 
 شیطان کی قربت اور اسکی قربت اللہ سے دُوری ہے۔ 
حدیث پاک میں ہمیں دونوں صفات کے دو رخ ملتے ہیں ۔
ایک صفت کا رخ لامحدودیت ہے۔
دوسری صفت کا رخ محدودیت ہے۔
سخاوت وخدمت کی صفت چونکہ اﷲ کی صفت ہے۔اس لیئے یہ صفت لامحدود ہے۔اس صفت کی بندے کے من میں حرکت سے بندے کا اپنا کوئی مطمع نظر نہیں ہوتا۔صرف اﷲکی رضاہوتی ہے۔اور اس کی مخلوق کی خدمت ہوتی ہے
بخل کی صفت میں محدودیت ہوتی ہے۔
یعنی بندہ صرف اپنی ذات،اپنے گروہ،اپنے فرقہ تک سوچتاہے۔
چونکہ اس صفت کی حرکت محدود ہوتی ہے۔اور اﷲسے بھی اس کا تعلق نہیں ہوتا ۔اﷲ محدودیت کو ناپسندکرتے ہیں۔ اس لیئے اس صفت کی حرکت ادبار بن جاتی ہے۔محدودیت کی وجہ سے مفادات آڑ ے آتے ہیں ۔اور یہیں سے لڑائی جھگڑوں کی ابتدا ہوتی ہے۔جو آگے بڑھ کر جہنم بن جاتی ہے۔
پیغمبرانہ طرز فکر سے دیکھا جائے توہمیں اس مبارک ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ
لامحدودیت میں داخل ہونے کے لیئے محدودیت کی نفی کر دی جائے۔
یعنی بندہ میں کلمہ کا پہلا حرف لا حرکت میں آجائے۔بخل یعنی محدودیت خواہ علم کی ہو ،خواہ روپے پیسہ کی ہو،خواہ فرقہ بندی کی ہو۔خواہ معاشرتی اونچ نیچ کی ہو۔غرض ہر طرح کے بخل کی نفی کردی جائے۔
سخاوت یعنی خدمت اﷲ کا شعار ہے۔جس کو تمام انبیا کرامؑ ،اولیا اﷲؒ نے اپنایا۔
حضرت علی کرم اﷲوجہہؓ   کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ
ایک دن آپ شام کو روزہ افطار کرنے لگے۔سائل آگیا، آپ نے روٹی سائل کو دے دی۔دوسرے دن پھر سائل آگیا،تیسرے دن پھر سائل آگیا۔آپ تین دن مسلسل شام کا کھانا اسے دیتے رہے۔
یہ کیا تھا۔۔۔یہ سخاوت و خدمت تھی ۔۔۔۔اﷲکے محبوب بندے کی اس کی مخلوق کے لیئے۔۔۔
یعنی اہل بیت کے محترم اور سعید گھرانے نے مسلسل تین محدود شعور کی نفی کی اور لامحدودیت یعنی روحانی شعور سے رابطہ استوار رکھا۔
کسی کے گھر بکری کی سری آگئی۔اس گھرانے نے سخاوت و خدمت کردی ۔دوسرے گھر کی۔دوسرے سے تیسرے ۔۔غرض سات گھروں کا چکر کاٹ کر بکری کی سری پھر پہلے گھر آگئی۔۔۔۔
سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ صرف مال کا خرچ ہی سخاوت نہیں
سخاوت یہ ہےبندے میں کلمہ کا پہلا حرف ۔۔۔لا ۔۔۔متحرک ہو۔۔۔
کیوں۔۔۔۔ اس لیئے کہ اﷲکے ان بندوں میں ۔۔۔۔لا۔۔۔۔کا علم متحرک تھا۔۔سب نے  ایک دوسرے کے لیئے نفی کردی۔۔۔۔ 

جب حاتم طا ئی کی بیٹی قیدیوں میں حضورﷺ کے سامنے پیش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اِ س کے سَر پر چادَر دو ،یہ سخی کی بیٹی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ سخی بندہ اللہ کا دوست ہے اگرچہ وہ گنہگار ہے۔ شیطان سے پوچھا گیا کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن کون ہے اس نے کہا کہ سخی گنہگار اور اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا سب سے بڑا دوست کون ہے تو اُس نے کہا کہ کنجوس عبا دت گزار۔

اﷲکے دوست میاں محمد بخشؒ  فرماتے ہیں کہ
مالا ں والے سخی نہیں ہوندے تے سخیاں مال نہیں ہوندا
اس اوس دوو ے جہانی سخی کنگال نہیں ہوندا
آپ کیا سمجھے کہ میاں صاحبؒ نے یہ شعر ایسے ہی لکھ دیا ہوگا۔۔نہیں ۔ اللہ کے دوست کی بات میں اللہ کا رنگ نُمایاں ہوتا ہے۔ ۔۔۔بلا شک و شبہ وہ گہری لا شعوری کیفیات سے گزرے ہوں گے۔۔۔یعنی؂
جن کے پاس مال سونے چاندی کی ڈھیریاں ہیں وہ اصل سخی نہیں۔۔کیونکہ اصل سخی میں ۔۔لا۔متحرک ہوتا ہے۔۔۔اس لیئے اس کے پاس اتنا تو مال بھی نہیں ہوتا۔۔۔مگر جب مخلوق ایسے سخی کے پاس جاتی ہے۔جس میں لا ۔۔متحرک ہے۔۔۔چونکہ ۔۔ لا ۔۔ متحرک ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی ذات کی نفی ہو چکی ہوتی ہے۔۔اس لیئے اس کا رشتے لا محدودیت یعنی اﷲ سے قائم ہوتا ہے۔۔اور ایسے اﷲ کے دوست سخی بندے میں جنت کا شعور متحرک ہوتا ہے۔۔۔اس لیئے ایسے سعید اور محترم بندوں کی دعا ،توجہ ،نظر کرم ۔ہی سخاوت ہوتی ہے۔۔۔جو مشکلات کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔۔بھٹکے ہوؤں کو راہ مل جاتی ہے۔بے قراروں کو قرار آجاتا ہے۔
ایسے ہی سعید اور محترم بندوں اور اﷲکے دوستوں کی سخاوت نسل در نسل چلتی ہے۔اور آنے والی نسلیں ،رسول اﷲﷺکے ان غلاموں،اﷲکے دوستوں کی اتباع کرتے ہوئے اپنی راہ تلاش کرتی ہیں ۔۔
چونکہ ایسے محترم بندوں میں جنت کا شعور متحرک ہوتا ہے۔۔اس لیئے مخلوق کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی مخلوق کے لیئے ان کی سخاوت و خدمت یعنی شفاعت جاری رہتی ہے۔۔۔کیوں جاری رہتی ہے اس لیئے کہ انہوں نے اﷲکی عادت ۔اﷲکے شعار ۔۔یعنی مخلوق کی خدمت کو اپنا لیا۔۔۔۔
حضورنبی کریم ﷺ کے روحانی علوم کے وارث،موجودہ دور کے لیئے مینارہ نور،ابدال حق ،حامل علم لدنی،نظام تکوین میں صدر الصدور ،سید محمد عظیم المعروف قلندر بابا اولیاؒ اﷲسے محبت اور دوستی کا فارمولہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
۔۔اﷲسے دوستی کا شارت کٹ راستہ اﷲکی مخلوق کی خدمت ہے۔۔
سخی اﷲ۔کے سخی رسول ﷺ کے سخی گھرانہ کے چشم و چراغ حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی ہیں ۔۔جن کی سخاوت اتنی عام ہے کہ آپ نے اﷲکے محبوب ﷺکے حکم سے صدیوں سے سر بستہ روحانی علوم اﷲکے بندوں کے لیئے عام کردئیے ہیں ۔تاکہ اﷲکے بندوں میں اﷲ کی صفت خدمت و سخاوت رچ بس جائے اور معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔۔۔۔۔سیرت طیبہ، صوفیا کرام اور سلسلہ  عظیمیہ کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کیجئے۔۔دوست احباب کو بھی متعارف کرائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲکی مخلوق کی خدمت کیجئے اور اﷲ کے قریب ہوجایئے۔۔۔
نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ۔۔۔۔
۔۔۔مخلوق اﷲکا کنبہ ہے۔۔اﷲکے قریب وہ ہے جو اﷲکی مخلوق کو زیادہ نفع دے