Mar 29, 2015

خوف کیا ہے


عُرس مبارک حضرت شاہ حُسین - مادھو لال حُسین



  تحریر : ڈاکٹر سید افتخار الحسن- نوائے وقت
حضرت شاہ حسینؒ لاہوری 945ھ بمطابق 1538ءکو اندرون ٹیکسالی گیٹ میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے تھا جوکہ فیروز شاہ تعلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔بچپن میں شاہ حسین کے والد نے آپ کو ٹیکسالی گیٹ کی بڑی مسجد میں حافظ ابو بکر کے پاس حفظ قرآن پاک کے لئے ڈال دیا۔ شاہ حسین نے دس برس کی عمر تک سات پارے حفظ کر لئے اسی دروان ایک صوفی درویش حضرت بہلول حافظ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت بہلول ضلع جھنگ کے قصبہ لالیاں کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک گاں بہلول میں پیدا ہوئے حضرت بہلول نے حافظ ابو بکر سے شاہ حسین کے متعلق دریافت کیا۔ شاہ حسین حضرت بہلول کے روبرو پیش ہوئے تو حضرت بہلول نے شاہ حسین کو خوب پیار کیا اور دریائے راوی سے وضو کے لئے پانی لانے کے لئے کہا۔ شاہ حسین فوراً دریا سے پانی لے کر واپس مڑے تو دریا کے کنارے ایک سبز پوش نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جس نے شاہ حسین کو فرمایا کہ بیٹا تھوڑا سا پانی میرے ہاتھ پر ڈال دو شاہ حسین نے پانی بزرگ کے ہاتھ پر ڈال دیا بزرگ نے وہ پانی شاہ حسین کے منہ میں ڈال دیا پانی حلق سے اترتے ہیں شاہ حسین کی دنیا بدل گئی۔ پھر سبز پوش بزرگ نے خضرؑ کے نام سے اپنا تعارف کروایا اور ہدایت کی کہ پیرومرشد کے پاس جا اور میرا سلام پیش کرنا۔ شاہ حسین پانی لے کر حضرت بہلول کے پاس پہنچے اور تمام واقعہ گوش گذار کیا ۔ حضرت بہلول نے وضو کیا ور بارگاہ خدا وندی میں خصوصی دعا فرمائی۔ حضرت بہلول نے حافظ ابو بکر سے دریافت کیا کہ یہاں تراویح کی نماز کون کراتا ہے حافظ ابو بکر نے کہا کہ میں کراتا ہوں حضرت بہلول نے فرمایا کہ اس دفعہ شاہ حسینؒ تراویح کی نماز میں امامت کریں گے۔ شروع رمضان میں شاہ حسین نے امامت فرمائی آپ کو چھ سپارے یاد تھے جب وہ سنا چکے تو حضرت بہلولؒ کی خدمت میں عرض کی حضرت جو قرآن مجھے یاد تھا وہ سنا چکا ہوں۔جواب میں حضرت بہلول نے شاہ حسین کو دریائے راوی سے دوبارہ پانی لانے کیلئے کہا۔ حضرت بہلول نے اس پانی سے وضو کیا اور شاہ حسین کے حق میں دعا فرمائی اسکے بعد انہوں نے27رمضان تک سارا قرآن پڑھ کر مکمل کر لیا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کہ اس بچے کو صرف چھ   پارے یاد تھے قراآن پاک مکمل کیسے ہو گیا۔ رمضان المبارک کے بعد حضرت بہلول شاہ حسین کو لے کر دربار حضرت داتا گنج بخش لے گئے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تیرے بھی مرشد ہیں اور میرے بھی مرشد ہیں۔ اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا حضرت بہلول شاہ حسینؒ  کو داتا علی ہجویریؒ کے سپرد کرنے بعد وہ پنڈی بھٹیاں کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت شاہ حسینؒ نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کہ دنیا و مافیہاکی خبر نہ رہی ہر رات دریائے راوی میں کھڑے ہوکر پورا قرآن پڑھتے صبح دربار حضرت علی ہجویری پر حاضر ہوکر تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتے اور روزانہ روزہ بھی رکھتے ۔حضرت شاہ حسینؒ رسول کریم کے فرمان مبارک ”الفقر و فخری، و لفقرو مستی“ کی عملی تصویر بن گئے مسلسل 27سال آپ کے معمول میں ذرا برابر فرق نہ آیا اچانک ایک دن اپنے استاد مکرم حافظ سعداللہ سے تفسیر مدارک کا سبق پڑھ رہے تھے زیر موضوع آیت ” وما الحیواة الدنیا الالہوو لعب“ پر" دنیا تو فقط کھیل تماشا ہے
من اٹکیا بے پروا دئے نال
اس دین دنی دئے شاہ دئے نال
قاضی ملاں مستی دیندئے
کھرئے سیانے راہ دسیندئے
عشق کی لگے راہ دئے نال
آپ انتہائی درویش صفت بزرگ اور باکمال صوفی شاعر ہیں آپ نے کافی کی صنف میں موسیقی کے سروں کے ساتھ متعارف کرایا شاہ حسین کی شاعری اپنے اندر نہ صرف مطالب کی گہرائی رکھتی ہے بلکہ راگوں اور سروں کا خزانہ بھی ہے شاہ حسین کی شاعری میں درد ہجر وصال کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جو انسانی فطرات کو تخلیق کائنات کے رازوں سے آشنا کرتی ہے آپ صاحب کرامت بزرگ اور فقیر کامل تھے آپ کی کرامات کی ایک طویل فہرست طوالت سے گریز کا تقاضا کرتی ہے شاہ حسینؒ جب عمر مبارک کے 51ویں برس میں داخل ہوئے آپ کو مادھو لال نامی ہندو برہمن سے عشق ہوگیا ۔جو کہ شاہدرہ کا رہائشی تھا شاہ حسینؒ مادھولال کے مکان کے گرد چکر لگاتے رہتے اور اندرون خانہ کی ساری باتیں باہر بیان کرتے آہستہ آہستہ مادھولال بھی رنگ شاہ حسین میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔شاہ حسین نے آپ کا اسلامی نام محبوب الحق رکھا شاہ حسین کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے۔ شاہ حسین کے حکم پر انہوں نے تیرہ سال مغل فوج میں ملازمت اختیار کی 1008ھ میں حضرت شاہ حسین کا وصال ہوگیا، آپ کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی پیشگوئی کے مطابق دریائے راوی میں تیرہ سال بعد سیلاب کا ذکر کیا گیا تھا۔ پیش گوئی کے مطابق قبر کی شکستہ حالی کے بعد آپ کا مدفن بابو پورہ موجودہ باغبانپورہ منتقل کیا جانا تھا۔ چنانچہ حضرت مادھو لال حسین نے مرشد کا جسد خاکی وصیت کے مطابق یہاں سے منتقل کر دیا۔اس طرح حضرت شاہ حسین کا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے جہاں ہرسال مارچ کے آخری ہفتہ میلہ لگتا ہے جوکہ میلہ چراغاں کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے ۔

Mar 26, 2015

لا محدودیت سے محدودیت کا سفر

بچہ جب ماں کے محدود وجود سے اپنے وجود کا ادراک کرتا ہے تو دراصل یہ ادراک محدودیت کا ادراک ہے۔ پیدائش کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے  کہ بچہ جس لامحدود مقام سے آیا ہے ، اُس لامحدود مقام کو بھول گیا ہے۔ لا محدود مقام کی لامحدود صفات اُس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔  جیسے جیسے بچہ محدودیت میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ سیکنڈوں ، منٹوں ، گھنٹوں، دنوں، سالوں میں۔۔ اُسی مناسبت سے محدودیت کا پردہ تہہ در تہہ موٹا ہوتا رہتا ہے اور لامحدودیت اس پردے کے پیچھے چھُپی رہتی ہے۔ محدودیت کے رویے سے یہ پردہ اتنا دبیز ہو جاتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ سے تشبیہہ دی جائے تو یہ تشبیہہ مناسب ہے۔
پردہ کتنا ہی موٹا اور دبیز ہو جائے لیکن سوچ اور فکر کی بساط لا محدود  ہی رہتی ہے۔ کسی بھی لمحہ لا محدودیت سے رشتہ نہیں ٹوٹتا ۔ لیکن شعورلامحدودیت سے متصل ہونا نہیں چاہتا اور اُس کے اوپر لرزہ طاری ہو جاتا ہے
یہی وہ احساس ہے جسے ہم خوف کہتے ہیں اور یہی وہ خوف ہے جسے ہم موت کہتے ہیں۔ حالانکہ زمین پر پیدا ہونے والا کوئی فرد اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ مرے گا نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی

سٹیٹس، غُربت، نیکی اور وسائل

جو کچھ کرتا  نہیں وہ کہتا ہے کہ ہم نیکی کر رہے ہیں ، روحانیت پر چل رہے ہیں۔ اسی لئے تو مصیبتیں آرہی ہیں کہ  وہ خود بھی نہیں جانتے کہ وہ چل بھی رہے ہیں کہ نہیں ۔ جو بندہ سٹیٹس بنا لیتا ہے اسے کہتے ہیں کہ یہ اسمگلر ہے۔ اور جو غریب ہوتا ہے وہ اپنی غریبی کو نیکی کا نام دیتا ہے حالانکہ غریبی کا نیکی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمت کرنے سے آدمی کچھ کر بھی لیتا ہے۔ کئی آدمیوں میں تو کسی سے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کسی کی سفارش بھی نہیں کر سکتے۔
مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ وسائل کے پھیلاؤ سے پریشانی بڑھ جاتی ہے۔
  خواجہ شمس الدین عظیمی

Mar 25, 2015

لوحِ محفوظ اور ہماری کاوش

سب کچھ لوحِ محفوظ پر لکھا ہے۔ اگر لوحِ محفوظ پر سواری لکھا ہے تو اب یہ ذہنِ انسانی پر منحصر ہے کہ وہ کیسی سواری پسند کرتا ہے۔ اس کی ذہنی وسعت پر سب کچھ منحصر ہے۔ وہ چاہے تو اپنے لئے سائیکل پسند کر لے ، سوزوکی گاڑی یا گدھا گاڑی۔ لوحِ محفوظ پر تو "سواری" لکھا ہے۔ اب تو یہ اس کے ذہن پر منحصر ہے کہ اُس کا ذہن کتنا
 وسیع ہے کہ کیا سواری پسند کرتا ہے۔ اور جو پسند کرتا ہے وہ ملتا بھی ہے۔

خواجہ شمس الدین عظیمی

Mar 23, 2015

راہنما اصُول



بُری باتوں اور گالم گلوچ سے زبان گندی نہ کیجئے ، چغلی نہ کھائیے۔ چغلی کرنا ایسا ہے جیسے کوئی بھائی اپنے بھائی کا گوشت کھاتا ہو۔ دوسروں کی نقلیں نہ اُتاریئے۔ اس عمل سے دماغ میں کثافت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے۔ شکایتیں نہ کیجئے کہ شکایت محبت کی قینچی ہے۔ کسی کی ہنسی نہ اڑائیے کہ اس سے آدمی احساس برتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور احساس برتری آدمی کے لیئے ایسی ہلاکت ہے جس ہلاکت میں ابلیس مبتلا ہے۔ اپنی بڑائی نہ جتائیےاس عمل سے اچھے لوگ آپ سے دور ہو جائیں گے۔ خوشامدی اور چاپلوسی کرنے والے منافق آپ کا گھیراؤ کریں گے اور ایک روز آپ عرش سے فرش پر گر جائیں گے۔ فقرے نہ کسئیے، کسی پر طنز نہ کیجئے، بات بات پر قسم نہ کھائیے۔ یہ عمل آپ کے کردار کو گہنا دے گا اور آپ لوگوں کی محبت سے محروم ہو جائیں گے
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی

Mar 22, 2015

تسبیح کیا ہے ! از سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

تسبیحکیا ہے 
تحریر : سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی 
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
1938-2003


اگر کوئی پوچھے کہ حروف کیا ہیں ؟ 
تو ہم یہی کہیں گے کہ حروف علم کا اظہار ہیں۔ جس طرح روح کا اظہار جسم کے ذریعے ہے اسی طرح علم کا اظہار بھی حروف اور الفاظ کے ذریعے ہے۔ جس طرح روح اور جسم ایک ہی شے کے دو رُخ ہیں ، اسی طرح علم اور حروف بھی ایک ہی شے کے دو رُخ ہیں۔ ہر شے کا باطنی رُخ ہمیشہ ظاہری رُخ کی بُنیاد ہوتا ہے کیونکہ باطنی رُخ کا تعلق اللہ کی جانب یعنی غیب کی جانب ہے۔ اور آسمانی کتابیں اور تمام پیغمبروں کی تعلیمات ہمیں یہ اطلاع دیتی ہیں کہ ہر شے غیب سے آکر ہمارے شعور میں داخل ہو رہی ہے۔ علم کی روشنی جب دماغ میں جذب ہوتی ہے تو خیال  بن جاتی ہے۔ خیال جب حواس بنتا ہے تو حواس دو رُخوں میں اپنے اندر والی روشنی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک داخلی رُخ ، دوسرا خارجی رُخ۔ داخلی رُخ قلبی واردات و کیفیات ہیں اور خارجی رُخ اعضائے جسمانی کی حرکات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر اور باطن  دونوں رُخوں میں ہونے والی تحریکات کا باعث علم ہے۔ انسانی شعور پر علم کے اطلاق کے درجات  وحی، کشف، الہام، القاء، واہمہ ، خیال، تصور  اور مظہر ہے ۔ انسانی شعور یا روح کی نگاہ اُن میں سے جس درجے میں علم کی روشنی دیکھتی ہے اُسی درجے میں اس کی فکر اسے معنی پہناتی ہے۔ انسانی شعور کی رسائی معرفتِ ذات تک ہے۔ معرفتِ ذات کے چالیس درجات ہیں ۔ ان درجات میں پیغمبروں کے شعور نے اللہ تعالیٰ کے علوم کو جانا اور سمجھا ۔ پھر پیغمبروں کی معرفت کائنات میں اللہ کے علوم کی ترسیل ہو رہی ہے۔ روحِ انسانی جس درجے میں اللہ کے علوم کو دیکھتی ہے۔ اس کا دیکھنا ہی علوم میں معنی پہنانا ہے۔ کیونکہ نگاہ باشعور ہے ، نگاہ کا ایک رُخ روشنی ہے دوسرا رُخ فکر ہے ۔ روشنی کی صفت احاطہ کرنے والی ہے اور فکر معنی پہنانے والی ایجنسی ہے۔ جیسے ہی نگاہ کی روشنی شے کا احاطہ کرتی ہے، فکر متحرک ہو جاتی ہے۔ نگاہ اور فکر کی تحریک علم کی روشنی کو ہرزاویے سے دیکھتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے علم کو روح کی نگاہ ہر زاویے سے بیک نظر دیکھتی لیتی ہے تو اس کی نگاہ علم کی روشنی کے باطن اور ظاہر دونوں میں یکساں  طور پر کام کرتی ہے۔ علم کی تجلی کے باطن میں علم کے نوری تمثلات ہیں اور ان تمثلات کے ظاہری ڈائمنشن حروف ہیں۔ پیغمبروں پر وحی کے نزول کی حقیقت یہ کہ ان کی نظر معرفتِ ذات کے درجات میں اللہ کی تجلیات کو دیکھتی ہے۔ اور اُن کی فکر اسے معنی پہناتی ہے۔ یعنی نگاہ اور فکر دونوں علم کی تجلیات کا احاطہ کر لیتی ہیں۔ اس دیکھنےکو اللہ تعالیٰ نے وحی کے علوم کہا ہے۔ اس میں اللہ بندے کو جو کچھ دکھانا چاہتا ہے بندے کی نگاہ بس وہی کچھ دیکھتی ہے۔ اس سے ہٹ کر نہیں دیکھتی ۔ پیغمبرانہ طرز کی وحی کا سلسلہ اب موقوف ہو چکاہے ۔ پیغمبروں کی نگاہ اللہ کے علوم کی تجلیات کو براہِ راست دیکھتی ہے۔ جبکہ مخلوق کی نگاہ اس علم کی تجلیات کو پیغمبروں کے ذریعے دیکھتی ہے اور پیغمبروں کے ذریعے سمجھتی ہے ۔
اللہ کی مخلوق میں سے ہر نوع ایک اُمت ہے۔ جس کواللہ تعالٰی نے اپنی صفات کے اظہار  کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہر نوع کے لئے اللہ کی عبادت کا ایک خاص پروگرام ہے۔ اس مخصوص پروگرام کو اللہ تعالیٰ نے تسبیح کہا ہے اور اس تسبیح سے دوسری نوع واقف نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ قرآن میں فرماتے ہیں۔
تسبیح کرتے ہیں اُسی کی ساتوں آسمان اور زمین اور جو چیز ان میں موجود ہے اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں مگر وہ اس کی تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کرتے ہوئے ۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے  - سورۃ بنی اسرائیل
انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر بھی زندگی کی مخصوص قدریں موجود ہیں۔ ہر نوع اپنی مخصوص قدروں پر زندگی گزار رہی ہے۔ قرآن نے انسان کے علاوہ بھی کائنات کی تمام دوسری مخلوقات کا ذکر کیا ہے اور انہیں غوروفکر کرنے کی ترغیب دلائی ہے ۔ دوسری مخلوقات پر غور کرنے سے کائناتی شعور حاصل ہوتا ہے۔ جو حضرت سلیمان ؑ کو حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ صرف انسان ہی کا خالق نہیں بلکہ کائنات کی تمام مخلوق کا خالق ہے اور رب بھی ہے۔ اسی طرح حضور پاک ﷺ بھی رحمت اللعالمین ہیں یعنی تمام کائنات کو رحمت آپ کے ہی توسط سے مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور حضور پاکﷺ کی رحمت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی منظم نظام کے تحت ہے۔ اس نظام کے اندر ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلام ہے۔ اور حضور پاکﷺ کی اُمت ہے۔ پس ہر نوع ایک اُمت ہے اور اس اُمت پر اپنے رب اور اپنے آقا کی عنایتوں کا شکر ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے کہ بندگی کا تقاضا یہی ہے چنانچہ ہر اُمت ہی سے انہی کی جنس سے ایک رسول ہوتا ہے جو اللہ کی جانب سے انہیں بندگی کے آداب سکھاتا ہے اور انہیں خاص الہام کے ذریعہ اس کی اطلاع دیتا ہے۔ انسان اور جنات کے سوا باقی تمام مخلوق میں الہام الہٰی مخلوق کی جبلت اور فطرت بن کر کام کرتی ہے۔ جس میں اس نوع کا ذاتی ارادہ نہیں رہتا۔ بلکہ الہامِ الہیٰ پران کے ذہن حرکت کرتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ وہ غیر مکلف کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شہد کی مکھی پر وحی کا ذکر اسی ذہن میں کیا ہے۔
"اور وحی کی آپ کے رب نے شہد کی مکھی کو کہ بنایا کر پہاڑوں میں چھتے، اور درختوں میں اور ان چھپروں میں جو لوگ بناتے ہیں۔ پھر رس چوسا کرہر قسم کے پھلوں سے یہیں چلتی رہا کر اپنے رب کی آسان کی ہوئی راہوں پر۔ نکالتا ہے اُن کے شکموں سے ایک شربت مختلف رنگوں والا ۔ اس ہی میں شفا ہے لوگوں کے لئے ۔ بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں" سورۃ النحل
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کے اندر ایک پورے نظام کے علوم موجود ہیں۔ ہم اپنے مضمون کی مناسبت سے اس آیت کے معنی تلاش کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی پر وحی کی گئی ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وحی کا نزول پیغمبر پر ہوتا ہے۔ تا کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے ۔ ہم اوپر بیان کر چُکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے براہِ راست وحی صرف پیغمبروں تک ہے۔ اس کے بعد کُل مخلوق کا اللہ کا امر پیغمبروں کے ذریعے پہنچ رہا ہے۔ "مکھی پر وحی کی" کہ کر اللہ تعالیٰ نے ہر نوع کی امت میں سے ایک رسول انہی کی جنس میں سے منتخب کیا گیا ہے۔ اور ان کے زریعے باقی نوع کے افراد کو اللہ کا امر تقسیم ہو رہا ہے۔ آیت میں اس اصول و نظام کو بیان کیا ہے۔ ہر نوع میں سے ایک فرد اُنہی کی جنس سے منتخب ہوتا ہے۔ جو پیغمبر کے ذریعے اللہ کے پیغام کو وصول کر کے اپنی قوم میں پھیلاتے ہیں۔ انسان اور فرشتوں کے سوا باقی تمام انواع جنہیں اجنہ، نوعِ حیوانات اور ہوا شامل ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی کا پیغام پہنچانے والے رسول حضرت سلیمان ؑ ہیں۔ شہد کی مکھی پر وحی حضرت سلیمان ؑ کی جانب سے ہے یہ پیغام اور یہ وحی تمام شہد کی مکھیوں پر نہیں ہے بلکہ آپؑ کی منتخب کردہ ایک مکھی جو اس وحی کے وصول کی سکت رکھتی ہے۔ اسے تمام قوم پر سردار بنا کر یہ پیغام دے کر بھیجا جاتا ہے وہ آگے پھیلاتی ہے۔ یہی وحی شہد کی مکھی کی فطرت بن جاتی ہے۔  جس پر وہ جبلی طور پر کاربند ہو جاتی ہے۔ قدرت کا قانون اور نظام یکساں طور پر یہاں سے وہاں تک جاری و ساری ہے۔ جس طرح اللہ تعالٰیکے دربار میں براہِ راست سوائے پیغمبروں کے اور کسی کی رسائی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ اور یہ حکمت ہے کہ خالق کی عظمت و جلال کا اندازہ ہر کوئی نہیں لگا سکتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی تسبیح کا بیان کیا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کے ہاتھ پر کنکریاں تسبیح کرتی تھیں۔ اور ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے۔ اب ہم قرآن کے حوالے سے اس بات پرغور کرتے ہیں کہ یہ تسبیح اللہ کی جانب سے کس طرح پیغمبروں تک پہنچتی ہے ۔ پہلے ہم وہ تمام آیتیں بیان کرتے ہیں جو اس امر پر ہیں ۔

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ایسی کوئی چیز نہیں جو ا سکی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے بے شک وہ بردبار بخشنے والا ہے - سورۃ الاسرا
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اور پرند جو پر پھیلائے اڑتے ہیں سب الله ہی کی تسبیح کرتے ہیں ہر ایک نے اپنی نماز اور تسبیح سمجھ رکھی  ہے اور الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں - سورۃ النور
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اور پرند جو پر پھیلائے اڑتے ہیں سب الله ہی کی تسبیح کرتے ہیں ہر ایک نے اپنی نماز اور تسبیح سمجھ رکھی ہے اور الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں- سورۃ النور
ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑ او رپرندے تابع کیے جو تسبیح کیا کرتے تھے اور یہ سب کچھ ہم ہی کرنے والے تھے- سورۃ الانبیاء 
جو مخلوقات آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے الله کی تسبیح کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے - سورۃ الحشر

فرشتے بھی غیر مکلف مخلوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا امر جو اُن تک پہنچ رہا ہے اس امر پر وہ جبلی طور پر یا غیر اختیاری طور پر عمل کر رہےہیں۔ اس حکم پر ان کا اپنا اختیار اور ارادہ نہیں چلتا۔ بلکہ حکم دینے والے کے ارادے سے وہ عمل کرتے ہیں۔ فرشتوں میں حضرت جبرائیل ؑ وحی کے نظام سے باخبر ہیں۔ چنانچہ باقی تمام فرشتوں میں وحی پہنچانے کا ذمہ آپ ؑ کے ہی سپرد ہے۔ فرشتوں میں وحی کی تقسیم جس مقام سے ہوتی ہے وہ مقام بیت المعمور ہے جو عرش کی ایک بُلندی ہے ۔ بیت المعمور حضرت ابراہیم ؑ    کا مقام اور دربار ہے۔ اس دربار تک صرف ملاء اعلٰی کی رسائی ہے۔ باقی تمام فرشتوں کو ملاء اعلیٰ کے ذریعے احکامات صادر ہوتے ہیں ۔ اور ہر فرشتہ ان احکامات پر کام کرتا ہے۔ یہ احکامات مستقل حکم کے طور پر ہوتے ہیں کہ جن میں فرشتوں کا اپنا ارادہ کام نہیں کرتا۔ ان احکامات پر عمل کرنا ہی ان کی صلوٰۃ و تسبیح ہے ۔ یہاں صلوٰۃ اور تسبیح کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے  کہ مخلوق کے اندر واقع ہونے والی وہ حرکت جو امر الہیٰ پر ہو ، وہ حرکت مخلوق کی صلوٰۃ و تسبیح ہے۔ یعنی اللہ کے حُکم پر بے چون و چرا عمل کرنا اللہ کی صلوۃ قائم کرنااور تسبیح کرنا ہے۔ صلوٰۃ امرِ الہیٰ ہے، صلوۃ قائم کرنا امرِ الہیٰ کو جاننا اور علوم و حکم کا پہچاننا ہے اور تسبیح کرنا ،  اُس حکم ِ الہیٰ پر کاربند ہو کر عمل کرنا ہے۔
عرش کے فرشتوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ان کے لئے اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ مومنین کے لئے استغفار کریں۔ پس مومنین کے استغفار کرنے کا حکم ِ الہیٰ ان کی "صلوٰۃ " ہے اور اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے استغفار کرتے رہنا ان کی "تسبیح " ہے۔ جسے وہ حمد کے ساتھ یعنی اللہ پاک کی تعریف کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہاں حمد بمعنی رضا کے ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم سے راضی ہو کر خوشی خوشی اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے احکامات حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرشتوں میں وحی کا نظام حضرت ابراہیم ؑ کے ذمہ ہے۔ فرشتوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ میری تسبیح کرتے نہیں تھکتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے وہ اپنے ذاتی ارادے سے عمل نہیں کر رہے۔ بلکہ کام کا ارادہ اُنہیں لاشعوری طور پر منتقل ہو رہا ہے۔ شعور ی طور پر یا ذاتی ارادے سے کام کرنے میں رُکاوٹ اور مزاحمت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ شعور محدودیت کا ارادہ ہے مگر لاشعور لا محدودیت کا ارادہ ہے۔ جس میں کام پر یا عمل پر استقامت ہے۔ یہ استقامت اور حُکم و امر کی یکسانیت فطرت اور مستقل عادت بن کر مخلوق کے اندر کام کرتی ہے۔ جس پر مخلوق بغیر ذاتی ارادے کے قائم ہو جاتی ہے۔ جیسے شہد کی مکھی ازل سے شہد بنائے جا رہی ہے۔ عرش کےفرشتے ازل سے مومنین کے لئے استغفار کرتے جا رہے ہیں۔
صلوٰۃ اور تسبیح کا مفہوم قرآن نے نہایت ہی واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کا رشتہ بندگی کا ہے، بندگی ایمان ہے، خود سپردگی ہے اور بے چون و چرا حکم کی تابعداری کا نام ہے۔ ایسی ہی تابعداری و حکم بندے کے لئے دائمی صلوٰۃ و تسبیح ہے۔ جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق لیٹے ہوئے، کھڑے ہوئے، چلتے ہوئے ، جاگتے ہوئے ، ہر حال پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے پاس آنے والا ہر حکم اللہ کی فکر ہے، جس فکر کا مظاہرہ وہ اپنے بندوں کے ذریعے چاہتا ہے۔

Mar 20, 2015

دعوتِ فکر

جب آدمی کا انہماک دنیا میں ہوتا ہے تو مادی عناصر میں سڑاند اور تعفن میں انہماک ہوتا ہے حالانکہ وہ اس سڑاند اور تعفن کو محسوس نہیں کرتا لیکن اگر وہ عناصر کا تجزیہ کرے اور عناصر کی کنہ کو تلاش کرے تو اس کے علم میں یہ بات آ جاتی ہے کہ دنیا کی ہر شئے سڑاند اور تعفن سے بنی ہوئی ہے۔ انسان جو غذا کھاتا ہے وہ بھی سڑاند ہے اور انسان جس قطرے سے بن کر عالمِ وجود میں آیا ہے وہ بھی سڑاند ہے، آدمی جب مر جاتا ہے اس کا سارا جسم تعفن اور سڑاند میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔۔اس کے برعکس دوسرا جسم جو روشنی اور نور سے بنا ہوا ہے۔ اتنا لطیف ہے کہ عالم بالا کی سیر کرتا ہے اور خود کو فرشتوں کی مجالس میں دیکھتا ہے۔
صوفی جب ذکر الٰہی میں مشغول ہوتا ہے تو روشنی اور نور سے بنے ہوئے جسم میں نورانی کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔ خوشی کی لہریں اس کے اوپر سے خوف اور غم دور کر دیتی ہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی
 احسان وتصوّف


Mar 19, 2015

خطا ب خواجہ شمس الدین عظیمی -بمقام عظیمیہ جامعہ مسجد جنوری 2014

اللہ سے دوستی



فرمایا ... " دوستی کا تقاضہ ہے کہ آدمی دوست کی طرز فکر میں خود کو نیست کردے - اگر تم کسی نمازی سے دوستی  چاہتے ہو تو نمازی بن جاؤ - شرابی کی دوستی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے ساتھ مے نوشی کی جائے - وسیع دسترخوان سخی کی دوستی ہے
پھر فرمایا .."  خواجہ صاحب ! الله سے دوستی کرنی ہے"
" میں نے عرض کیا .. " جی ہاں
فرمایا .. " ایسی دوستی کرنی ہے کہ الله میاں پیار کریں"
عرض کیا .. " بالکل ایسی دوستی کرنی ہے"
 یہ جواب سن کر انہوں نے سوال کیا کہ
  " خواجہ صاحب ! "بتائیے الله کیا کرتا ہے
میری سمجھ میں اس کا جواب نہیں آیا

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا .. " خواجہ صاحب ! الله یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے - اگر آپ کو الله سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس سے پکی دوستی کرنی ہے تو آپ بھی یہی کیجئے یعنی بےغرض ہوکر الله کی مخلوق کی خدمت کیجئے"
خواجہ شمس الدین عظیمی 

Mar 18, 2015

قانونِ باراں

ریگستان میں اگر بے شمار بانس کھڑے کردیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف رنگوں سے رنگ دیا جائے تو قانون یہ ہے کہ ریگستان میں بارش برسے گی اور جب تک یہ بانس لگے رہیں گے تب تک بارش برستی رہے گی تا آنکہ ریگستان نخلستان اور جنگل میں تبدیل ہوجائے
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     قلندر بابا اولیاء ؒ

Mar 17, 2015

لیکچر خواجہ شمس الدین عظیمی بموضوع " صوفی ازم کیا ہے"




حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی کنسلٹنٹ ڈاکٹرز کے ساتھ نشست اور سوال و جواب
"موضوع "صوفی ازم کیا ہے 
مورخہ 8 جنوری 2006

(پارٹ - 1/3)

(پارٹ - 2/3)



(پارٹ - 3/3)




مادہ رنگوں کا مجموعہ ہے

عالم رنگ میں جتنی اشیاء پائی جاتی ہیں وہ سب رنگین روشنیوں کا مجموعہ ہیں - ان ہی رنگوں کے ہجوم سے وہ شے وجود میں آتی ہے جس کو عرف عام میں مادہ  (Matter) کہا جاتا ہے

اگر مادہ کو شکست و ریخت کرکے انتہائی مقداروں تک منتشر کردیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی -اگر بہت سے رنگ پانی میں تحلیل کردئیے جائیں تو ایک خاکی مرکب بن جائے گا ، جس کو ہم مٹی کہتے ہیں 

امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ

Mar 15, 2015

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ


"ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے تو ہے کوئی سمجھنے والا "   القرآن
اس میں کسی جگہ یہ شرط نہیں کہ مخاطب عربی جانتا ہو یا اس نے عربی پڑھی ہو۔ اس کے معنی بہت ہی سادہ ہیں کہ چاہے وہ کسی بھی ملک کا رہنے والا ہو، چاہے اس کی مادری زبان کوئی بھی ہو، چاہے اس نے عربی کا ایک لفظ بھی نہ سُنا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے معنی ضمیر کے ذریعے اس کے لئے صاف کر دیئے ہیں۔
قلندر بابا اولیاءرحمۃ اللہ علیہ
   روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء 

Mar 13, 2015

روحانیت کا مقصد اللہ ہے


حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت عمرؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنیؓ سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت کریں - اس پر حضرت اویسؓ نے دو سوال کیے
  " یا عمرؓ ! آپ الله کو جانتے ہیں ؟
“  انہوں نے جواب دیا ..." ہاں ، میں الله کو جانتا ہوں
 " یا عمرؓ ! الله بھی آپ کو جانتا ہے ؟ "
جواب دیا . " الله بھی مجھے جانتا ہے
ان دونوں باتوں کا مطلب بالکل واضح ہے - صرف یہ کافی نہیں ہے کہ انسان الله کی راہ میں قدم اٹھائے اور کام پورا ہوجائے - وہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قدم صرف الله کے لیے اٹھایا گیا ہے یا اور بھی مصلحتیں شامل ہیں - اس میں جنت بھی ایک مصلحت ہے - اور بہت سے نیکیاں بھی مصلحت ہیں
 الله تعالیٰ کسی کو اس وقت تک نہیں پہچانتا جب تک کہ مقصد صرف الله کی ذات نہ ہو - اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے تو جنت اسے جانتی ہے - کہتی ہے " آؤ لبیک ! " یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ روحانیت میں الله کے ساتھ کوئی دوسرا مقصد ، کوئی دوسری غایت شریک کرنا کفر ہے

قلندر بابا اولیاء ؒ 

Mar 12, 2015

بے کیفی زندگی ہے


بے کیف ہونا  ہی اصل زندگی ہے  آپ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس منٹ بے کیف ہوگئے تو یہ چوبیس
 منٹ آپ کی اصل زندگی ہے۔ باقی سب ضائع ہو گیا....

بے کیفی درحقیقت رنج و خوشی سے بے نیاز ہوجانا ہے ---
                                                               خواجہ شمس الدین عظیمی

Mar 11, 2015

شانِ فقیری


"فقیر کی عجب شان ہے"  قلندر بابا ؒ  فرماتے تھے
میں نے عرض کیا     "حضور کیا شان ہے ؟" 
 فرمایا : "لوگ بے وقوف بناتے ہیں آخر تک بنتا رہتا ہے۔ فقیر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے بےوقوف بنا کر یہ خوش ہو رہا ہے تو چلو اسے خوش ہونے دو   وہ بے وقوف بنتا چلا جاتا ہے تاوقتیکہ وہ بندہ خود ہی بھاگ جائے یا اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے" 

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضورﷺ کے اُمتی


Mar 8, 2015

پُھونکوں کا علم


بڑائی اللہ کی


بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے۔ اگر کوئی آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، حسد کرتا ہے، بغض رکھتا ہے، اپنی جائز، ناجائز بات منوانے کی ضد کرتا ہے، چغل خوری کرتا ہے تو وہ بڑا آدمی نہیں ہے۔
آدمی اپنے اندر تکبر کی گٹھلی بو دیتا ہے اور جب یہ گٹھلی درخت بن جاتی ہے تو وہ شیطان بن جاتا ہے۔

Mar 6, 2015

ہم کہاں کھڑے ہیں از عاطف نواز عظیمی


(تحریر : محمد عاطف نواز عظیمی     ( قطر 
لندن سے شائع ہونے والے ایک معروف ہفت روزہ اکانومسٹ نے عالم اسلام کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے      کہ پندرہویں صدی عیسوی ہجری میں مسلمان سماجی، تہذیبی اور سیاسی طور پر اس مقام پر ہیں جہاں یورپ پندرہویں صدی عیسوی میں تھا۔ اُس وقت یورپ کے عوام اپنے سیاسی اور مذہبی اُجارہ داروں سے بے زار تھے۔ اور ان میں اصلاح کے طالب تھے۔ خاص طورپر وہ کیتھولک چرچ کی دُنیا پرستی سے نالاں تھے۔ معاشی بدحالی اور حکمرانوں کے جبر کے خلاف برطانیہ اور فرانس میں بغاوتیں ہونے لگی تھیں اور یورپ میں ہر جگہ بے چینی پھیلنے لگی تھی۔ کم و بیش اسی قسم کے حالات آج کی مسلم دُنیا میں ہیں۔ جہاں عوام ارباب مذہب و اقتدار دونوں سے خوش نہیں ہیں۔
اسلام میں مذہبی اجارہ داری کا تصور موجود نہیں ہے۔ اسلام محض چند رسمی عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب کو محض ایک مذہبی کتاب تصور کرنا ہمارے خیال میں سراسر بے شعوری اور جہالت ہے۔ قرآن ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد انسان کو اس کے مقام و منزل سے آشنا کرنا ہے یہ وجہ ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ قرآن محض غلافوں میں لپیٹنے اور مصیبت کے وقت تلاوت کرنے کے لئے نہیں اتارا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن کو محض ان کاموں کے لئے ہی محدود کیا ہوا ہے۔ ممتاز مفتی مرحوم اپنی کتاب تلاش میں تحریر کرتے ہیں۔
یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی شکل مسخ کر دو۔ اسلام کو بھی عام مذاہب کی طرح رسم میں بدل دو۔ مسلمانوں کو توجہ علم، عقل اور تحقیق سے موڑ دو اور انہیں رسمی عبادات کی طرف متوجہ کر دو اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پڑھ اجارہ داروں کی ایک ایسی جماعت قائم کر دو جو مسلمانوں کو فروعات میں پھنسائے رکھے۔
غیرمسلم اقوام اپنی سازشوں میں کامیاب ہیں اب انہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب مسلمانوں میں ہی مذہبی لبادہ اوڑھے بہت سے لوگ اس کام میں مصروف ہیں۔ جن میں سے اکثر کی کوششوں سے آج مسلمان ایک خول میں بند ہو چُکے ہیں کیوں کہ علم کے حوالے سے ان کے سامنے انتہائی محدود تصور پیش کیا گیا، اس تصور میں چند معاشرتی احکامات کو حاوی کر کے دُنیا بھر کے تمام علوم کو خارج کر دیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے محض گاہک بن کر رہ گئے ہیں۔ مذہبی اجارہ داروں نے مغرب کی ہر ایجاد کو شیطانی فعل اور ان کے ہر علم کو اسلام کا دشمن اور کفر الحاد کی جڑ سمجھا ۔ بجائے اس کے کہ وہ سائنسی علوم کو سمجھنے کو کوشش کرتے،اکثر نے سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ایک ایسی جنگ چھیڑ دی جس میں ان کی کامیابی کے ایک فیصد بھی امکانات نہیں تھے۔
دور نبوتﷺ میں مساجد یونیورسٹی، پارلیمنٹ، مقننہ اور ہمہ جہت کمیونٹی سنٹر کا کردار ادا کرتی تھیں۔ ریاستی معاملات میں باہمی مشاورت ، شادی کی تقریبات، جہادی تربیت، مال غنیمت کی تقسیم، دینی علوم کے علاوہ معاشرتی علوم کی تعلیم اور دیگر روزمرہ معاشرتی تقریبات مساجد میں ہی منعقد کی جاتی تھیں۔ مسلم دُنیا کے نامور سائنسدان، مجاہدین اور علمائے باطن مساجد سے ہی تربیت حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئے۔ لیکن جب گزشتہ دو صدیوں سے مذہبی اُجارہ داروں کی طرف سے سائنسی تعلیم کے خلاف محاذ کُھلا تو مساجد میں چند ظاہری علوم اور بے روح عبادات رہ گئیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں ہمیں ایسا کوئی قابل ذکر نام نہیں ملتا جس نے مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم میں اپنا لوہا منوایا ہو۔ جب کہ اس سے قبل اُندلس، مراکش، سپین، شام اور بغداد وغیرہ کی تاریخ میں ایسے بےشمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں جنہوں نے مساجد نما مدرسوں سے تعلیم حاصل کر کے علم طب، ریاضی، جغرافیہ، طبیعات، کیمیا، فلکیات اور دوسرے بے شمار علوم میں اپنی ریسرچ سے اور ان علوم کی پیش رفت سے انقلاب برپا کر دیا۔ جب کہ موجودہ دور میں مذہبی طبقے نے سائنسی تحقیق کو شجر ممنوعہ کے طور پر پیش کیا۔ کبھی ریلوے انجن اور ٹیلیفون کے خلاف فتوے جاری کئے اور کبھی لاؤڈ اسپیکر کو شیطانی آلے کا نام دیا۔ یہ دوسری بات کہ لاؤڈ سپیکر کا بے تحاشا اور بے جا استعمال اس طبقے کے افراد نے ہی کیا۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ مسلمان سائنسدانوں کی تحریروں میں قرآن کے حوالے جابجا ملتے ہیں۔ پھر بدقسمتی سے مسلمانوں کی توجہ کائناتی تفکر سے ہٹا کر محدود کر دی گئی۔ اور اس حقیقت پر ایک سازش کے تحت پردہ ڈال دیا گیا کہ قرآن حکیم کی ساڑھے سات سو آیات میں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی ہدایات موجود ہیں۔ ہمارے خیال میں جب سے مسلمانوں نے علم کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ لیا ہے ۔ اس وقت سے مسلمان زبوں حالی کا شکار ہیں۔ علم انسان کی شعوری استعداد بڑھا کر اس کے اخلاق اور معاشرتی رویوں  میں مثبت تبدیلی پیدا کر کے اسے حیوانی سطح سے بلند کر دیتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی دُنیا کے دیگر معاشروں کے لئے قابل تقلید ہوتا ہے ۔ بے شعور لوگوں کو ساری دُنیا ہی حقارت سے دیکھتی ہے۔ علمی پسماندگی اور سائنسی ٹیکنالوجی سے بے رُغبتی کی بناء پر 56 اسلامی ممالک جن کے پاس دُنیا کے 70فیصد پٹرولیم کے ذخائر ہیں اور آدھے سے زیادہ افرادی قوت اور معدنیات کی طاقت موجود ہے۔ آج ان کی کُل قومی پیداوار تقریبا گیارہ سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ جو قومی پیداوار کے حوالے سے دُنیا کے پہلے چار ممالک امریکہ (7821 ارب ڈالر)، جاپان (4089 ارب ڈالر)، جرمنی (2122 ارب ڈالر) اور فرانس (4662 ارب ڈالر) کے مقابلے میں کئی گناکم ہے۔
اُمت مسلمہ تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بقیہ پورے کُرہ ارض کے خشکی کے رقبے کا پانچواں حصہ ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے پوری دُنیا کا چوتھائی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی کی سیاسی ، جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہےکہ چار براعظموں یعنی امریکہ کو چھوڑ کر ایشیاء، افریقہ، یورپ اور آسٹریلیا کے بری ، بحری اور فضائی راستوں کا باہمی رابطہ اس خطے میں سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے سمندروں اور بحیرہ روم کی تنگ پٹیاں، جو بین الاقوامی تجارت کے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عالم اسلام میں واقع ہیں۔ اس شہہ رگ کو دبانے اور بند کرنے سے بین الاقوامی اقتصادی زندگی مفلوج ہو سکتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تنگ پٹیاں از خود امریکہ کے حوالے کر دی ہیں۔ 
ملت اسلامیہ کے اکثر ممالک بظاہر شدومد سے اپنی آزادی کا دعوٰی کرتے ہیں لیکن ان کی معاشیات مکمل طور پر مغرب کی مٹھی میں ہے۔  اقتصادی عدم مساوات کا اتنا بڑاتضاد ہے کہ پاکستان کی آبادی کُل اسلامی ممالک کی آبادی کا 13 فیصد ہےکن اس کی سالانہ آمدنی مسلم دُنیا کی آمدنی کا صرف 4 فیصد ہے یہ تضاد بہت تکلیف دہ ہے۔ کوئی ایک مسلمان ملک بھی بجا طور پر صنعتی ملک کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک اسلامی ملک نے اربوں کا سرمایہ مغرب کو ادا کرکے محض فیشن کے طور پر انتہائی جدید اور اعلیٰ ترین ریفائنری اور کیمیکل کے کارخانے نصب کئے ، جبکہ وہ ایک ایسی مشین بھی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو معمولی سی سوئی بھی بنا سکے۔ 
شایدمسلم ممالک کی اکثریت اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک نے ترقی کی معراج کسی معجزے کے تحت حاصل نہیں کی۔ وہ ممالک جو بیسویں صدی کی ابتداٗ میں ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے تھے بیسویں صدی کے آخر میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ دراصل ترقی کی دوڑ میں اگلی صف میں نظر آنے والی اقوام کی ترجیحات میں تعلیم پہلے نمبر پر تھی اور اب بھی ہے۔ فروغ علم کے ساتھ ہی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی وابستہ ہے ۔ جہاں تعلیم ہو، سائنسی شعور ہو، وہاں زراعت بھی ترقی کرتی ہے۔ اور صنعت بھی۔ ۔۔ اور افراد و معاشرہ زندگی کی بُنیادی سہولتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ بیسویں صدی کے دوران جہاں دُنیا بھر میں تعلیم بلعموم ترجیحاتی بُنیاد پر فروغ حاصل ہوا۔ بیشتر مسلم ممالک میں تعلیم کو کلیدی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے کوئی شعوری اور سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی۔
مسلمانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کو کس درجے اہمیت دی اس کا اندازہ ذیل میں دیئے گئے سائنسی مصنفین کے چارٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
ہم مسلمان جو اسرائیل کی مذمت و ملامت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، مندرجہ بالا ااعدادوشمار ہمیں اپنے تجزیہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسرائیل کے مقابلے میں دو سو گُنا زیادہ ہے اور اسرائیل کے سائنسی مصنفین کی تعداد مسلمان سائنسی مصنفین کی تعداد سے دُگنی ہے۔
یاد رکھئے! یہ نظریات اور عقائد کی بات نہیں ہے ۔ جن سے اختلاف ممکن ہو۔ یہ تو اعدادوشمار کی بات ہے جن کی تردید نہیں کی جاسکتی۔
اس وقت کرہ ارض پر مسلمانوں کی تعداد تقریبا ایک ارب سے زائد ہے۔ ان میں سے ساٹھ کروڑ ان پڑھ اور بالکل ناخواندہ ہیں۔ بیشتر تو قرآن مجید بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔
56 اسلامی ممالک میں سے بیشتر ممالک نے اپنی آزادی اور موجودہ سرحدوں کو نسلی، قومی، لسانی، جغرافیائی یا ثقافتی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں آزادی کی بنیادیں کلمہ توحید پر استوار کی گئیں۔ یہ خطہ ارضی اس لئے حاصل کیا گیا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی ، معاشی اور روحانی نظام کو نافذ کیا جائے گا۔ لیکن اس مملکت خداداد میں بھی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جس کی یہاں ضرورت تھی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اپنی افرادی اور مادی قوت کو بہتر اور مضبوط بنانے میں زیادہ وسائل استعمال نہیں کئے۔ موجودہ دور کے تمام ترقی پزیر ممالک جن میں کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دوسرے بہت سے ممالک شامل ہیں نے 60 کی دہائی میں اپنی کُل قومی پیداوار کا 10 سے 15 فیصد  تعلیم پر خرچ کیا اور مکمل شرح خواندگی حاصل کی۔ پاکستان میں آج بھی شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ملکی آمدنی کا صرف 2.5 اوسط خرچ کیا جاتا ہے۔ تعلیم پر کئے گئے اس خرچ کو اونٹ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اور اس میں سے بھی کُل رقم کا 70 سے 80 فیصد غیر ترقیاتی اخراجات میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ان غیر ترقیاتی اخراجات میں زیادہ تر اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل 
ہیں۔
مندرجہ بالا چارٹ کو غور سے دیکھیں۔ اس چارٹ میں 2002 سے 2012 تک کچھ اہم ممالک کی شرح خواندگی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا نے 2008 میں 100 فیصد شرح خواندگی کا ٹارگٹ حاصل کیا۔ ایران کا گراف دیکھا جائے تو وہ مسلسل اوپر جا رہا ہے۔ انڈونیشیا اورترکی اور جنوبی کوریا کی اس معاملے میں  ان ممالک کی کاوشیں اور ترقی حیرت انگیز ہے۔  پاکستان ان سب ممالک میں خواندگی کی شرح میں سب سے پیچھے ہے جو کہ  تقریبا 55 ۔ فیصد پر فلوٹ کرر ہی ہے۔یار رہے کہ خواندہ کا مطلب محض  وہ  افرادجوکم ازکم اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں

اعلٰی تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ارباب اختیار نے ہمیشہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چند سال قبل آغا خان یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر راجر سٹن اور دیگر ڈاکٹروں کے پینل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کے صرف تیرہ فیصد ڈاکٹر صحیح نسخہ لکھنا جانتے ہیں۔
یہ تجزیہ پاکستان کے اخلاقی ، تعلیمی اور معاشرتی نظام کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوریاں اور نقل کے رُجحان کو مدنظر رکھئے تو ڈگریاں لے کر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی قابلیت ہی مشکوک محسوس ہونے لگتی ہے اور یہ نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو علمی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل جن میں ریسرچ اور ترقی سے عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی شامل ہے کا سبب بن جاتے ہیں۔
مذہبی افراد تو سائنسی تحقیق اور ترقی کو شجر ممنوعہ قرار دے کر اس سے الگ تھلگ ہو گئے۔ اور لوگوں کی اکثریت نے بھی ان کی پیروی کی۔ لیکن معاشرے کے تعلیم یافتہ اور باشعور اور صاحب اختیار افراد بھی معاشرے کی علمی زبوں حالی سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کی عدم توجہی اور غفلت کی بنا پر پاکستان اعلٰی ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والے ملکوں میں شامل نہیں ہو سکا اور اس کی پیداواری صلاحیت اور برآمدات کم رہیں اور درآمدات پر انحصار بڑھ گیا۔ ملک میں کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ تخلیقی اور تحقیقی اذہان کو ان کی مرضی کا ماحول اور مناسب معاشی سپورٹ دی جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ضرورت سے بہت کم ایم ایس اور پی ایچ ڈی افراد ہیں اور کافی لوگ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ملک میں موجود سائنسی تحقیق و ترقی سے متعلق 160 ادارے موجود ہیں جن کا 95 فیصد بجٹ تحقیق برعکس تنخواہوں اور دوسرے اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک میں تحقیق کے سب سے بڑے ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں 280 پی ایچ ڈی افراد کام کرتے تھے جن کی تعداد مزید کم ہو چکی ہے۔ اس ادارے کا 99.7 فیصد بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کا جامعات میں تحقیق پر عدم توجہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا تحقیق کے لئے مختص بجٹ صرف بیس ہزار روپے تھا۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ عمومی قابلیت کے افراد کئی اداروں میں تعینات ہیں اور ان کے زیر انتظام ادارے ملک کے قیمتی وسائل ضائع کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے لئے مراعات حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں اور صرف زبانی طور پر کہ کہا جاتا ہے کہ ہم سائنسی ترقی کے بغیر دُنیا میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن ان ارباب اختیار کو یہ نظر نہیں آتا کہ کسی شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے فرد کو صرف 1500 روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے (نوٹ: اس وظیفہ میں کچھ اضافہ کیا جا چُکا ہے) ۔ اس قدر کم وظیفے میں وہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکتے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس میں اپنی تمام ضروریات بھی پوری کریں۔ اور ساتھ ساتھ ریسرچ کا کام بھی جاری رکھیں۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارے ملک کے تحقیقی شعبوں میں جستجو اور فکری گہرائی رکھنے والے افراد کا فقدان نظر آتاہے ۔ اگر ریسرچ کرنے والے افراد کو ان کی معاشی فکر سے آزاد کر دیا جائے تو تحقیقی اذہان ترقی یافتہ ممالک کی طرف کُوچ کرنے کی بجائے ملک میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اتنے کم وظیفے میں تو وہی لوگ اس کام میں آگے آئیں گے جو یا تو اپنی ملازمت میں ترقی کے لیئے پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں یا ایسے غیر پیداواری ذہن کے افراد جو شاعروں کے مصرعوں اور ان کے مخطوطات پر بے مقصد تحقیق کاکام انجام دیتے ہیں۔ ہماری قوم کو ریسرچ سے دُور کرنے والے صرف مذہبی اجارہ دار ہی نہیں ، ایسے لوگ بھی اس المیے میں برابر کے شریک ہیں جو وسائل پر دسترس اور اختیارات رکھنے کے باوجود قوم کے مستقبل سے جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 66 سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمارے پاس نہ تو سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے لئے غیر روایتی ادارے ہیں نہ افراد۔ اگر آج بھی اس حوالے سے قدم آگے نہ بڑھایا گیا تو ہماری روایتی کاہلی ہمیں ترقی یافتہ دُنیا کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کے درمیان کہیں گُم کر سکتی ہے اور پھر شاید ہمارے شناخت بھی باقی نہ رہے۔
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  ، کراچی، پاکستان کے جولائی 2000 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ لہذا اس کے بعض  اعدادوشمار  آوٹ ڈیٹڈ ہو سکتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ عالمی حالات
 مضمون سے تاحال مطا بقت رکھتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ مضمون پڑھا جا سکتا ہے۔