Nov 8, 2015

روحانی علاج - دائمی نزلہ و سانس میں دشواری



ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ ہرتقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔ اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا

اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ ایک وقت کا کھانا یا اتنے پیسے خیرات کر دیں یا اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے


Oct 27, 2015

زلزلے اور آفات کی وجوہات و الہٰی قانون - تحریر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی


  قدرتی آفات کے قانون پر مشتمل یہ تحریر  2004  کے ہولناک زلزلے کے بعد لکھی گئی، جسے گزشتہ روز  آنے والے زلزلے کی مناسبت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ 

زلزلے اور آفات کی وجوہات


تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

روحانیت ایک علم ہے! جو مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔
روحانیت پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن کاغذ اور قلم سے نہیں۔
روحانیت تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی ہے۔لیکن پریکٹیکل کیلئے بظاہر کوئی لیب نہیں ہے۔ روحانیت ایک مکمل تجرباتی علم ہے۔ اس Knowledgeکے حصول کے لئے لیبارٹری انسٹرومنٹس، مائیکرواسکوپ، گیس ہیٹر، فنل، جار، اسپرٹ اور دوسرے کیمیکلز کا سہارا نہیں لیا جاتا۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ روحانیت ایک نادیدہ مربوط علم ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ علم انسانی شعور سے مارواء ہے۔ لیکن انسانی شعور اسے سمجھتا ہے اور کسی حد تک بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان دنیوی علوم سیکھ کر تجربہ کرتا ہے اور تجربہ کی بنیاد پر نئے نئے فلسفے بنتے ہیں۔ اسی طرح روحانی انسان شعوری حدوں سے گزر کر لاشعور میں داخل ہونے کے بعد علم سیکھتا ہے۔ اور مشاہدات کی بنیاد پر اسے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ ہر انسان میں دیکھنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور مفہوم اخذ کرنے کی دو صلاحیتیں ہیں۔
ہر صلاحیت ایک حواس ہے۔ یعنی صلاحیت اور حواس دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارے حواس ہر چیز کو مادی آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن دیکھتے اور سمجھتے وقت ہم اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ مادی حواس تغیر و تبدل کا ایک پورا نیٹ ورک ہے۔
ایک آدمی بغیر عینک کے دھوپ کو سفید دیکھتا ہے۔ وہی آدمی جب نیلے رنگ کی عینک لگا لیتا ہے تو اسے دھوپ اور ہر سفید چیز نیلی نظر آتی ہے۔نیلے گلاسز اتار کر جب وہی انسان سرخ رنگ گلاسز کی عینک لگاتا ہے تو اسے وہ سفید چیز جو نیلی نظر آ رہی تھی سرخ نظر آتی ہے۔ اور جب وہ عینک اتار کر دیکھتا ہے تو وہی چیز جو نیلی اور سرخ نظر آ رہی تھی، اس کو سفید نظر آتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ حواس جو کچھ دکھا رہے ہیں ان کی حقیقت تغیر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ہر انسان کے دو وجود یا دو جسم ہیں۔ ایک وجود جو ہمیں نظر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں بااختیار ہوں۔ لیکن اسی وجود کو اگر پیاس نہ لگے تو پانی نہیں پیتا۔ اگر بھوک نہ لگے تو کھانا نہیں کھاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مادی وجود کے علاوہ جو جسم یا وجود ہے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ پانی پیو! اور کہتا ہے کہ کھانا کھاؤ۔  چھپے ہوئے جسم کی معرفت اگر ہمیں پیاس اور بھوک کا احساس منتقل نہ ہو تو ہم کھانا نہیں کھا سکتے، پانی نہیں پی سکتے، مفہوم یہ ہے کہ ہمارا مادی وجود تابع ہے باطنی وجود کے۔  اور جب باطنی وجود مادی وجود سے رشتہ منقطع کر لیتا ہے تو بھوک پیاس کی اطلاع ہمیں نہیں ملتی۔
قانون یہ بنا کہ مادی وجود کھانا نہیں کھاتا، پانی نہیں پیتا۔ اگر مادی وجود کھانا کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے تو مرنے کے بعد بھی اسے کھانا پینا اور چلنا پھرنا چاہئے۔ جس طرح ہر انسان کے دو وجود یا جسم ہیں اسی طرح کائنات میں موجود ہر مخلوق کے دو وجود ہیں۔
زمین بھی ایک مخلوق ہے! اس کے بھی دو وجود یا دو جسم ہیں۔ جس طرح مادی وجود میں مختلف گیسز کا عمل دخل ہے یا  مادی وجود کی وریدوں اور شریانوں میں خون دوڑ رہا ہے۔ اسی طرح زمین کے مادی وجود میں بھی گیسز کا براہ راست عمل دخل ہے اور زمین کی وریدوں اور شریانوں میں بھی انرجی، توانائی اور پانی دوڑ رہا ہے۔
ہمارا دوسرا جسم لاشعور! جب زمین کو دیکھتا ہے تو زمین  پپیتے کی طرح نظر آتی ہے، گیند کی طرح نظر نہیں آتی۔ لاشعور دیکھتا ہے کہ زمین کے اوپر جو آبادیاں ہیں وہ مستقل نہیں ہیں۔ ہر وقت ان میں تغیر واقع ہوتا رہتا ہے۔
لاشعور دیکھتا ہے کہ  پپیتے کی طرح زمین پر گول کڑوں (Ring) کی طرح پہاڑ ہیں۔ گول کڑوں (Ring) کی طرح پہاڑوں نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ زمین مسلسل محوری اور طولانی گردش میں سفر کر رہی ہے۔ اس گردش کو پہاڑ کے گول کڑے کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’بھلا کیا نگاہ نہیں کرتے اونٹوں کی تخلیق پر اور آسمان پر ،  کیسا بلند کیا اور پہاڑ پر کیسے کھڑے کئے ہیں۔ اور زمین پر کیسی صاف بچھائی‘‘۔(سورۃ الغاشیہ۔ آیت 17-20)
’’کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا۔اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا‘‘ (سورۃ النباء۔ آیت6-7)
دماغ میں اسپارک ہوا کہ کسی ایسے آدمی سے رابطہ کیا جائے جو اپنے باطنی وجود کے ساتھ ساتھ زمین کی زندگی سے بھی واقف ہو۔ تلاش ایک عمل ہے جس کا نتیجہ حصول ہے۔ بالآخر ایک ایسے بندے سے ملاقات ہوئی جو حیات و ممات کے رموز سے واقف ہے۔ بہتی آنکھوں، روتے دل، پاش پاش جگر اور غمزدہ حواس کے ساتھ اس بندے سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کیسے ہو گیا؟
اللہ تعالیٰ کی اتنی مخلوق زیر زمین نہیں برزمین موت کی نیند سو گئی ، درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے، جانور مر گئے۔ آبشاروں اور چشموں نے راستے تبدیل کر لئے۔ پہاڑوں میں دراڑیں آ گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے روشنیاں تاریک ہو گئیں۔ زندگی موت بن گئی اور موت تعفن میں تبدیل ہو گئی۔
آخر یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟
اس بندے نے بتایا کہ  میں نے زمین سے سوال کیا۔
اے ماں!
تو نے ہمیں پیدا ہونے کے بعد سہارا دیا۔ تو نے ہر قسم کے وسائل فراہم کئے۔ ہمارے آسائش و آرام کیلئے تو نے ہمیں وہ سب کچھ دیا۔ جس کی ہمیں ضرورت تھی۔
اے زمین تو نے ہمیں کھانے کیلئے پھل دیئے۔ اپنی کوکھ سے ہمارے لئے اناج اگایا۔ ہم اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں تھے تو نے ہمیں طاقت اور توانائی عطا کی۔ ہم تیری پشت پر دندناتے پھرتے رہے اور تو نے سب کچھ برداشت کر کے ہمیں پروان چڑھایا۔ ہم جوان ہوئے۔ اور تیری کوکھ سے غذا اور توانائی حاصل کر کے ہم نے شادیاں کیں۔ ہمارے بچے ہوئے۔ وہ بچے بھی تو نے پروان چڑھائے۔
اے ہماری ماں زمین!
تو اتنی اچھی ہے کہ تو نے ہماری گندگی اور تعفن کو بھی سمیٹ کر اپنے اندر چھپا لیا اور ہمیں مرنے کے بعد بھی بے آبرو نہیں ہونے دیا۔
پھر یہ سب کیوں ہوا؟
تو نے کیوں اپنے آپ کو الٹ دیا۔کیوں تو نے اپنی بانہیں اس طرح کھول دیں کہ ہم تیرے بچے تیری آغوش میں آرام پانے کے بجائے تیرے اندر غرق ہو گئے۔
زمین نے جب یہ بات سنی تو زمین رونے لگی۔
ہچکیاں بندھ گئیں۔ہچکولے کھانے لگی۔ اور اس نے کہا۔
اے میرے بچو!
میں بھی تمہاری طرح کا ایک وجود ہوں۔جس طرح تمہارے دو دجود ہیں اسی طرح میرے بھی دو وجود ہیں۔جس طرح تمہارے جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکلتی ہیں۔اور جس طرح تمہارے جسم پر سرانڈ پھیل جاتی ہے اور جس طرح تمہارے جسم زہریلے ہو جاتے ہیں۔اسی طرح میرے ظاہر وجود میں بھی تمہارے برے اعمال سے۔خود غرضی سے۔حق تلفی سے۔اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی سے۔اور دولت پرستی سے داغ پڑ گئے ہیں۔زخم ناسور بن گئے ہیں۔جب ایسا ہوا تو میں بیمار ہو گئی۔
میرے بچو!
یہ دنیا Frequencyکے نظام پر چل رہی ہے۔فریکوئنسی سے مراد  Vibration ہے۔وائبریشن انسان میں بھی ہے۔وائبریشن درختوں میں بھی ہے۔پہاڑ بھی وائبریشن پر قائم ہے۔اور میں بھی وائبریشن کی پابند ہوں۔
وائبریشن میں اعتدال ہوتا ہے تو ہر چیز ٹھیک ٹھیک چلتی ہے اور جب وائبریشن میں خلل واقع ہو تو ہر چیز بے ہنگم ہو جاتی ہے۔
وائبریشن ضرورت سے زیادہ کم ہو جائے تو جمود طاری ہو جاتا ہے۔ وائبریشن ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو تباہی پھیل جاتی ہے۔
بربادی زمین پر اپنا ڈیرہ جما لیتی ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے۔وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ فریکوئنسی کے نظام میں مقداروں کی بے اعتدالی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
میرے بچو!
کائنات اور ہماری دنیا اور ہماری دنیا کی طرح بے شمار دنیائیں ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہیں۔ ہر فرد کی اپنی ڈیوٹی ہے۔ کہ اس نظام کو صحیح طریقے سے چلائے۔ سورج کی اپنی ڈیوٹی ہے۔ چاند کی اپنی ڈیوٹی ہے۔ ہوا کی اپنی ڈیوٹی ہے۔  بہتے سمندر اور سبک خرام دریاؤں کی اپنی ڈیوٹی ہے۔ زمین کی اپنی ڈیوٹی ہے اور انسانوں کی اپنی ڈیوٹی ہے۔
جب زمین پر بے انصافی، حق تلفی، حسد، لالچ، خود غرضی، دولت پرستی، غرور و تکبر اور اللہ تعالیٰ سے انحراف اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ سسٹم میں اعتدال قائم نہ رہے تو سسٹم ٹوٹ جاتا ہے۔ اور سسٹم ٹوٹنے کیلئے آندھیاں چلتی ہیں۔طوفان آتے ہیں، ہریکن، ٹائیفون،  اور سونامی (سمندری زلزلے) آتے ہیں۔قوموں کے عروج و زوال اور عذاب و ثواب میں یہ قانون کارفرما ہے کہ قومیں جب تک قدرت کے بنائے ہوئے فارمولوں کے مطابق زندگی گزارتی ہیں۔ اپنے اور دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرتی ہیں۔ اپنے وطن اور اپنی زمین سے محبت کرتی ہیں۔ انسان کی قدر کم نہیں ہوتی۔ قدرت ان کی مدد کرتی ہے۔ (جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ
۱۔ زمین کی قیمت زیادہ ہے اور انسان کی قیمت کم ہے۔
۲۔ ایک بھائی کا بچہ ڈھائی ہزار ماہانہ فیس پر پڑھتا ہے اور دوسرے سگے بھائی کا بچہ اس لئے اسکول نہیں جاتا کہ اس کے پاس اسکول کی یونیفارم اور کتابیں خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
۳۔ ہر امیر ہمارا رشتہ دار ہے۔اور ہر غریب کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہے۔
۴۔ انسان اپنے نفع کیلئے دودھ میں ملاوٹ کرتا ہے۔مرچ مصالحہ میں ملاوٹ کرتا ہے۔گھی میں گریس ملاتا ہے۔پیٹرول میں ملاوٹ کرتا ہے۔دواؤں میں ملاوٹ کرتا ہے۔اور اس کو کامیاب زندگی قرار دیتا ہے۔
**
جب کوئی قوم اپنی زمین اور اپنے وطن سے محبت نہیں کرتی تو دراصل وہ زمین کے تحفظات سے خود کو دور کرتی ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ایسے لوگوں کی مدد نہیں کرتا۔جب کوئی قوم الٰہی قوانین سے انحراف کرتی ہے تو دراصل وہ قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرتی ہے۔قدرت اس کو سسٹم سے باہر پھینک دیتی ہے۔زمین تو محفوظ رہتی ہے۔لیکن آدم زاد ہلاکت کے گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتا ہے۔یہ بات کون نہیں جانتا۔؟ کون ہے جو برملا اس بات سے انکار کر سکے۔؟  کس کی جرأت ہے کہ وہ اس بات کو رد کر دے؟  کہ آج کے دور میں دولت پرستی عام ہو گئی ہے! دولت پرستی شرک ہے! اور شرک اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ غفار الذنوب ہیں۔ گناہ معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن شرک معاف نہیں کرتے۔مادی استحکام کیلئے انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ہر فنا ہو جانے والی چیز پر بھروسہ کر لیا گیا۔عارضی آسائش و آرام اور زر پرستی زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے اختلاف،تفرقے بازی،  زمین پر فساد، قدرت سے انحراف ہے۔ قدرت سے انحراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی قدرت کا تعاون نہیں چاہتا۔خود غرضی عام ہو گئی ہے۔ واعظوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو کاروبار بنا لیا ہے۔ ہر آدمی صالح بن گیا ہے۔کسی کو اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ دوسرے کی اصلاح ہو جائے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ سے معاشرہ زہرناک بن گیا ہے۔ترقی کے فسوں میں ہر آدمی بیمار ہے۔ لوٹ کا بازار گرم ہے۔ کوئی جادو کے نام پر لوٹ رہا ہے اور کوئی سحر کے نام پر لُٹ رہا ہے۔ زندگی ٹوٹ رہی ہے۔بکھر رہی ہے۔
یاد رکھئے! ہر شئے چاہے وہ ریت کا ذرہ ہی کیوں نہ ہو۔شعور رکھتی ہے۔زندگی مقداروں سے مرکب ہے۔اور مقداروں کا نظام براہ راست قدرت کے ہاتھ میں ہے۔جب قدرت ناراض ہو جاتی ہے تو نظام ٹوٹ جاتا ہے۔نظام توڑنے کیلئے قدرت کیا طریقے اختیار کرتی ہے، یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔آندھی کے ذریعے، ہوا یا پانی کے طوفان کے ذریعے، چنگھاڑ کے ذریعے یا  زلزلے کے ذریعے۔
آیئے!  ہم سب استغفار پڑھیں۔حق تلفی نہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور کائناتی سسٹم کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔
**
بچے، جوان، بوڑھے، مرد حضرات اور خواتین نے جس طرح اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی ہے اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا ہے۔یہ بہت روشن مثال اور اعلیٰ کردار ہے۔
اس عظیم حادثہ میں جس طرح پورا پاکستان ہم ذہن اور متحد ہو گیا ہے، یہ عمل ملک و قوم کے عروج کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔زندہ اور آزاد قومیں، ناگہانی آفات اور مصیبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں۔اور ملک و قوم کی ترقی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
پاکستانی افواج بلاشبہ قابل تحسین ہیں۔کہ انہوں نے بڑے بڑے خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مصیبت زدہ اور معذور افراد کی خدمت کی ہے۔افواج پاکستان اور پاکستانی عوام کے اس منظم ایثار سے پوری قوم کا حوصلہ بلند ہوا ہے اور عزم میں استحکام پیدا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو اجرِ عظیم عطا فرمائے اور شہید ہونے والوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ہمیں یقین ہے کہ پوری قوم اپنے بے گھر، بے آسرا بہن بھائیوں کی فلاح و بہبود اور ان کے آباد ہونے تک انشاء اللہ اسی ایثار اور جذبہ سے کام کرتی رہے گی۔
آمین یا رب العالمین۔


حوالہ کتاب : وقت

قدرتی آفات کیوں آتی ہیں


Oct 7, 2015

کتاب محمد الرسول اللہﷺ جلد اول از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی- فری ڈاؤنلوڈ

 فری ڈاؤنلوڈ
مسلمانوں کے باعزت ہونے کاباوقار ہونے کا اور پوری دُنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے  کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بار بارپڑھیں، اللہ کے محبوب ﷺ نے جن باتوں کو پسند کیا ہے وہ باتیں اختیار کر لی جائیں اور جن باتوں سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ان کو چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے سب کچھ کر کے دکھادیا ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب صدائے جرس از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی - فری ڈاؤنلوڈ

Oct 6, 2015

عُرس مبارک حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ


حضرت سید ابو محمد عبد اللہ الاشتر (المعروف) عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ
حضرت عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے 98ھ میں حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے ہاں  مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ یہ بنی امیہ کی حکومت کا آخری دور تھا۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ یہ بات آپ کے شجرہ مبارک سے ثابت ہے۔
شجرہ نسب:
آپ کا شجرہ سید ابومحمد عبداللہ العشتر بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن محمد سید عبداللہ بن سید حسن مثنی بن سیدنا امام حسن بن حضرت سید نا امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔  اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں
تعلیم:
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے تو آپ کو محدث  بھی لکھا ہے۔
سندھ آمد:
بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضر ت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل' جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔
آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت' ابن خلدون' طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔
والد کی شہادت:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔
گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیم:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔
ساحلی ریاست آمد:
گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت' عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ کو چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔
سندھ میں اسلام کی تبلیغ:
کہاں سندھ کہاں سعودی عرب ۔ کتنی مسافت ہے۔ کتنا لمبا سفر ہے۔ صحابہ کرام کے بعد کوئی اسلام کی تعلیم دینے یا تبلیغ کرنے کیلئے سندھ نہیں آیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ ہی سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کے بعد سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت' اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ اس لئے کہ جو کام ان کے ذمہ تھا وہ صرف ظاہر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تاریخ کو رخ عطا کرنے والے ظاہر کے ساتھ باطن کی دنیا کے شاہسوار بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ظاہر پر کم اور باطن پر زیادہ زور اور توجہ ہوتی ہے۔
 
اسباب غیب:
دراصل ان ہستیوں کیلئے اس دارلعمل میں جس جگہ کا انتخاب کیا ہوتا ہے وہاں ان کیلئے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں۔ (گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص کا مطیع ہونا۔ اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے خلیفہ منصور کے احکامات ٹالنا۔ آپ کو بحفاظت دوسری ریاست میں بھیجنا یہ سب غیبی اعانت تھی اور آپ کے عمل کی تائید تھی) اگرچہ عباسی خلیفہ منصور آپ سمیت تمام سادات کے قتل کے در پہ تھا اس نے اطلاع ملنے پر بارہا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے لیکن قدرت نے جو کام آپ سے لینا تھا اس کیلئے پورا پورا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک ایسا گورنر سندھ میں متعین تھا جو آپ کی تعظیم اور خیال کرتا تھا اور کسی قیمت پر آپ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہتا تھا بلکہ ان نیک بخت گورنر یعنی عمر بن حفص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی اور در پردہ آپ کی حمایت کرتا تھا۔
 مزار شریف کی ایک قدیم اور نایاب تصویر
سیر و شکار:
تاریخ سے ثابت ہے کہ اس زمانے میں جب آپ سیر اور شکار کی غرض سے کہیں جاتے تھے تو شان و شوکت اور کروفر سے اور سازو سامان بھی ساتھ ہوتا تھا جس سے آپ کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ کیوں نہ ہو حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کس نسب کے چشم و چراغ تھے۔ یہ غالباً اس لئے بھی تھا کہ آپ کی درویشی پر امارت کا پردہ بھی پڑا رہے۔ اورجو امانت آپ کے سپرد تھی آ پ کے سینے میں محفوظ و مخفی رہے۔ 
وفات:
20ذی الحج 151ھ میں آپ علیہ الرحمۃ   پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہرخاص وعام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔

Reference:
http://www.alahazrat.net/islam/hazrat-syed-abdullah-shah-ghazi.php
www.wikipedia.com