Nov 15, 2016

عُرس مبارک - شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ 1689 میں حیدر آباد ضلع، ہالہ تحصیل کی ہالہ حویلی میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد کا نام سید حبیب اللہ تھا، شاہ حبیب ہالا کو خیرآباد کہہ کر کوٹری میں آکر مقیم ہوئے، ہالا حویلی بھٹ سے نو کوس (ایک کوس تین ہزار گز یعنی 2743.2میٹر کے برابر ہوتا ہے) اور کوٹری سے چار میل دور ہے۔ شاہ کے زمانے میں عربی اور فارسی زبان و ادب کو مقبولیت حاصل تھی، ان حالات میں انھوں نے سندھی زبان میں شاعری کرکے نہ صرف سندھی زبان کو شاعرانہ معیار بخشا بلکہ وطن اور سندھ سے عقیدت کا ثبوت فراہم کیا۔
اپنی شاعری میں شاہ صاحب نے قرآن و حدیث سے اصطلاحیں ضرور استعمال کیں مگر اپنی مادری زبان میں ترجمہ کیا۔ صوفیانہ تخیل شاہ کے کلام کی خصوصیات ہیں، ان کی شاعری میں سادگی اور بے لوث خلوص شامل ہے۔ وادی مہران کے عظیم المرتبت شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ ان کا مکمل کلام انسانیت کے گرد گھومتا ہے۔ آپ بے حد متقی اور پرہیز گار تھے، دنیاوی آلائشوں سے آپ کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، ساری عمر عبادت و ریاضت میں گزری ان کی شاعری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انھوں نے جہالت کے چراغوں کو گل کرنے اور اخلاقیات کا بہترین درس دیا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا قابل قدر کارنامہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ ہے۔
روایت ہے کہ شاہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے خلیفہ ثمر فقیر نے عقیدت کے ساتھ اس شعری ذخیرے کو قلمبند کروایا جو بہت سے مریدوں اور ان کے چاہنے والوں کے دل و دماغ میں محفوظ تھا۔ بھٹ شاہ میں یہ تبرک یادگار کے طور پر آج بھی محفوظ ہے۔ شاہ بھٹائی کا پیغام بذریعہ شاعری جذبہ محبت، علم و دانش اور حسن و راستی کا آئینہ دار ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں سندھ کی منظوم تاریخ رقم کی گئی ہے۔ وہ تصوف کے بڑے شاعر تھے انھوں نے تمثیل کے انداز میں حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے جو بھی کردار پیش کیے ہیں وہ سرزمین سندھ کے ہیں۔ شاہ صاحب نے ایرانی طرز فکر کو ترک کرکے خالصتاً سندھی شاعری کے انداز میں عارفانہ فکر کی تائید کی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سماع‘‘ کے بے حد شوقین تھے۔ ہندوستان کی گائیکی سے پوری طرح واقف تھے۔ گائیکی کے سروں کے آپ نے مختلف نام رکھے تھے، یہ سُر (آواز) داستانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور ہر داستان کے پیچھے ’’وائی‘‘ ہے جوکہ عبداللطیف کی اپنی ایجاد ہے، اس کی ہیئت غزل سے ملتی جلتی ہے۔ ’’سُر حسینی‘‘ میں سسّی کی دردناک صدائیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح شاہ صاحب نے ماروی کو دیس کی محبت کی علامت کے طور پر نمایاں کیا ہے۔
شاہ صاحب اپنے اشعار میں اس طرح انسانوں سے مخاطب ہیں کہ ’’لوگوں سے زیادہ پرندوں میں پہچان ہے کہ وہ جھنڈ بناکر آپس میں بیٹھتے ہیں، مگر انسان، انسان سے دور بھاگتا ہے‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’آخر سب فنا ہے، انسان کو کس بات پر غرور ہے؟ جب کہ بڑے بڑے عظمت و مرتبے والے لوگ خاک میں مل گئے، ہم جس پر چل رہے ہیں اسی زمین کے نیچے بے شمار انسان دفن ہیں، انسان کا کام ہے کہ وہ بیدار رہے، کھلی آنکھوں سے دیکھے اور حقیقت کو پہچانے، اور تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے جو دونوں جہانوں کا سردار ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
شاہ عبداللطیف کی شادی کا احوال بھی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب شاہ حبیب کوٹری میں رہائش پذیر ہوئے۔ کوٹری میں مرزا مغل بیگ ارغوان کا ایک باعزت خاندان سکونت پذیر تھا، وہ شاہ حبیب کی پاکبازی و تقویٰ سے بے حد متاثر ہوا اور اپنے خاندان کے ساتھ شاہ کے مریدوں میں شامل ہوگیا، جب کبھی مرزا کے گھر میں دکھ، بیماری ہوتی تو شاہ حبیب کو ہی دعا کے لیے کہا جاتا۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ مرزا مغل بیگ کی بیٹی بیمار ہوگئی۔ جب شاہ کو بلایا گیا تو وہ بوجہ علالت خود نہ جاسکے اپنے نوعمر بیٹے کو ملازم کے ساتھ بھیج دیا۔ نوجوان شاہ لطیف نے مرزا مغل بیگ کی نوعمر بیٹی کو دیکھا جو بے حد حسین وجمیل تھی۔
دونوں کی نگاہیں بیک وقت ایک دوسرے کی طرف اٹھیں تو دونوں کے دلوں کو محبت کی آگ گرماگئی۔ اس بات کا اندازہ مرزا کو اچھی طرح ہوگیا، بیٹی کی حالت بھی چھپی نہ رہ سکی کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ مرزا نے انھی حالات کے پیش نظر شاہ حبیب سے ترک تعلق کرلیا، شاہ حبیب کو بھی جب صورت حال کا علم ہوا تو انھوں نے بھی دلبرداشتہ ہوکر کوٹری کو چھوڑ دیا۔ اس حادثے نے شاہ عبداللطیف کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ جب آپ گھومتے پھرتے ٹھٹھہ پہنچے تو وہاں کے عالم مخدوم علامہ محمد معین جو حضرت شاہ ابوالقاسم نقشبندی کے خلیفہ تھے ان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بے حد محبت کے ساتھ کہا کہ وہ اپنے سلوک سے دکھے دل کو تسکین پہنچائیں۔
ایسی ہی خدمت کے جذبے نے شاہ عبداللطیف کو والدین کے در دولت پر پہنچادیا۔ ان کے اس عمل سے شاہ لطیف کے والد بے حد خوش ہوئے، شاہ کی واپسی کے بعد ایک واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جس کی بدولت شاہ لطیف کے ہاتھ میں گوہر مراد آگیا۔ ہوا یوں کہ ’’دل‘‘ قوم کے سرکش افراد نے مرزا مغل بیگ کی حویلی پر حملہ کیا۔ یہ واقعہ 1713 کا ہے۔ مرزا مغل کے خاندان کے تمام مرد قتل کردیے گئے، صرف ایک نو عمر لڑکا اور خواتین بچ سکیں، اس قتل و غارت میں مغل خواتین کو سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں اس بات کا وہم ہوگیا کہ ان کی تباہی سید خاندان کی ناراضگی کا سبب ہے۔
لہٰذا سب لوگ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، معافی مانگی، سرپرستی فرمانے کی درخواست بھی کی اور اپنی صاحبزادی کا نکاح شاہ عبداللطیف بھٹائی سے کرنے کی نوید سنائی۔ صاحبزادی کا نام سیدہ تھا اور یہ وہی لڑکی تھی جس کے علاج کے لیے شاہ صاحب گئے تھے اور ان ہی کی خاطر جنگلوں کی خاک چھانی۔ اس طرح شاہ عبداللطیف کا عقد اس لڑکی سے کردیا گیا۔
شادی کے بعد شاہ کے مریدوں نے آپ کو تاج المخدورات کا لقب دیا۔ اس خوشگوار واقعے کے بعد شاہ لطیف نے ایک پرفضا مقام کو اپنے رہنے کے لیے منتخب کیا، اسے بھٹ شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جگہ اونچے اونچے ٹیلے تھے شاہ صاحب کی کوشش نے اسے ایک خوبصورت بستی میں تبدیل کردیا۔
شاہ صاحب اسی بھٹ میں تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ ان کے والد صاحب بیمار ہیں وہ ان سے ملنے کے لیے روانہ ہوگئے لیکن ابھی راستے میں ہی تھے کہ شاہ حبیب انتقال کرگئے، والد صاحب کی موت نے آپؒ کو بے حد دلگرفتہ کیا اور کئی دن تک آپ روتے رہے، والد صاحب کے انتقال کے بعد شاہ لطیف 10 سال تک زندہ رہے۔ دور دور سے آکر لوگ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، آپ کے ہاں سارا وقت سرود و سماع جاری رہتا۔
زندگی کے آخری دنوں میں شاہ صاحب کربلا شریف کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں کسی مرید نے کہا کہ آپضعیفی کے عالم میں کہاں جارہے ہیں جب کہ بقول آپ کے آپ کا کفن دفن تو بھٹ میں ہوگا، آپ نے ارادہ ترک کردیا۔ 21 دن تک تنہائی میں رہے اس دوران عبداللطیف بھٹائی نے صرف دو وقت کا کھانا تناول فرمایا۔ باہر آکر غسل کیا اور ایک چادر اپنے اوپر ڈال کر مراقبے میں بیٹھ گئے، تیسرے دن جب فقراء شاہ کے نزدیک گئے تو دیکھا کہ آپؒ کی روح پرواز کرچکی تھی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ میں ہی تدفین کی گئی۔

تحریر: نسیم انجم – روزنامہ ایکسپریس
 

Oct 24, 2016

Khwaja Shamsuddin Azeemi - Question & Answers 2010 (Azeemia Jamia Masjid)

سوال و جواب سیشن 
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی 
بمقام عظیمیہ جامعہ مسجد، مرکزی مراقبہ ہال، کراچی ، پاکستان
بعد از نمازِ عصر جنوری 2010

Oct 23, 2016

خصوصی خطاب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی-پانچویں سالانہ انٹرنیشل روحانی ورکشاپ 1999

خصوصی خطاب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
بموضوع : محمد الرسول اللہﷺ
پانچویں سالانہ انٹرنیشل روحانی ورکشاپ
کتاب محمدالرسول اللہﷺ جلد اول از خواجہ شمس الدین عظیمی
مورخہ 26 جنوری 1999
بمقام : مرکزی مُراقبہ ہال، سُرجانی ٹاون کراچی، پاکستان

Oct 22, 2016

عُرس مبارک 2010 - سوال و جواب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی


سوال و جواب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
 بموقع عُرس مبارک حضور قلندربابا اولیاء 2010
عظیمیہ جامعہ مسجد، مرکزی مراقبہ ہال کراچی

Oct 20, 2016

قرآن اور لیزر بِیم - خطاب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

خطاب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی 
بموضوع : قرآن اور لیزر بِیم
بموقع : انٹرنیشنل روحانی ورکشاپ ، مرکزی مراقبہ ہال، کراچی ، پاکستان

Oct 18, 2016

Mehfil-e-Melaad 2006 - Lecture Khwaja Shamsuddin Azeemi

محفلِ میلادﷺ 2006 بمقام علامہ اقبال آڈیٹوریم، لاہور
خصوصی خطاب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

Oct 16, 2016

حالاتِ زندگی - حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی - سوال و جواب


سلسلہ عظیمیہ کے دوستوں اور روحانی سالکین کے لئے
سوال و جواب اور خطاب بموضوع
جنت کیا ہے ۔ شجرِ ممنوعہ کیا ہے۔ جنت میں کون لوگ رہ سکتے ہیں۔

قلندر بابا اولیاء ؒ  اور محترم عظیمی صاحب کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں سوال و جواب کی ایک نایاب نشست۔

Jannat - Lecture By Khwaja Shamsuddin Azeemi

Aug 26, 2016

Friend of God

The spirit has demands just as the body has. The spiritual demands stir the human consciousness to fulfill these demands. Spiritual requirements and their fulfillment are more important than the requirements of the physical body, and they are also result-oriented. Their results, in comparison to the requirements of the physical body, are continuous and magnificent. One of the most important spiritual demands, which are created in every human being, is, among of demands, that a person feels that he must establish a contact with his Creator and must feel the joy and happiness that come as a result of this closeness and contact. God states in The Quran that 
“The friends of God are neither afraid nor have they any fear.”

KASHKOAL (BOWL)

By: Khwaja Shamsuddin Azeemi
(Page-33)

Aug 10, 2016

رُوحانی علاج - بچوں کا گُم ہو جانا


ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ تقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔  اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا
اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ گیارہ  روپیہ خیرات کر دیں یا  اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ گیارہ روپے خیرات کر دے

Aug 1, 2016

ڈینگی کا روحانی علاج - دوئم




ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ تقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔ اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا

اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ ( ایک دن کا کھانا) خیرات کر دیں یااس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ ادا کر دے


ڈینگی کا رُوحانی علاج - اول

ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ تقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔ اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا

اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ ( ایک دن کا کھانا) خیرات کر دیں یااس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ ادا کر دے
 

Jun 24, 2016

سترہ رمضان کریم غزوہ بدر - ابتداء تا اثرات - تحریر: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی



غزوہ بدر کا معرکہ 17 رمضان، 2 ہجری میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان پیش آیا۔ بدر کا مقام مدینہ سے 80 میل اور مکہ سے 220 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مقام شام کے راستے سے قریب ہے۔
پس منظر
۱…… قریش کا خط بنام عبداﷲ بن ابی
مسلمانوں نے جب قریش کی گرفت سے آزاد ہوکر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی توقریش کا غیض وغضب بہت زیادہ ہوگیا، چنانچہ انہوں نے عبداﷲ بن اُبی کو خط لکھا:
’’آپ لوگوں نے محمد رسول اﷲ ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو پناہ دے رکھی ہے ہم اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ آپ ان سے لڑائی کیجئے یا انھیں نکال دیجئے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ کردیں گے۔ آپ کے سارے مرد ختم ہوجائیں گے اور ساری عورتوں کی عزت پامال ہوجائے گی۔‘‘
اس خط کے پہنچتے ہی عبداﷲ بن اُبی اپنے بھائیوں کے حکم کی تعمیل میں مستعد ہوگیا۔ وہ پہلے سے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف تھا۔ اسکے ذہن میں یہ بات تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مدینے میں اس کی بادشاہت ختم کی ہے۔ چنانچہ عبداﷲ بن اُبی اور اسکے رفقا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جنگ کیلئے جمع ہوئے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کواس کی خبر ہوئی توآپ علیہ الصلوٰۃوالسلام اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:
’’قریش کی دھمکی نے تم لوگوں پر بہت بُرا اثر کیاہے تم لوگ خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہچانا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، تم لوگ اپنے بیٹے اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو۔‘‘
چونکہ عبداﷲ بن اُبی اور اسکے ساتھیوں کے اکثر رشتہ دار ایمان لاچکے تھے اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات باآسانی ان کی سمجھ میں آگئی اور ان حالات میں عبداﷲ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا اب اس کے ساتھی بھی لڑنا نہیں چاہتے تھے۔
۲…… حضرت سعد ؓبن معاذ کی ابوجہل سے تکرار
حضرت سعد ؓبن معاذنے جب عمرے کا ارادہ کیا تو وہ امیہ بن خلف کے ہاں مہمان ہوئے۔ ایک دن حضرت سعدؓ امیہ کو ساتھ لیکر بیت اﷲ کی طرف نکلے تو ابوجہل سے ملاقات ہوگئی۔ ابوجہل نے پوچھا:’’تمہارے ساتھ کون ہے؟‘‘
امیہ نے کہا:’’میرے ساتھ سعدؓ ہیں۔‘‘
ابوجہل نے حضرت سعدؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’تم لوگوں نے ’’بے دین لوگوں‘‘ (مسلمانوں) کو پناہ دے رکھی ہے اور ان کی ہر طرح سے امداد و تعاون کررہے ہو! میں ہرگز یہ نہیں دیکھ سکتا کہ تم لوگ آکر کعبہ کا طواف کرو۔ خدا کی قسم! اگر تم امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو زندہ بچ کر نہیں جاسکتے تھے۔
’’اگر تم ہمیں حج اور طواف سے منع کروگے تو ہم بھی تمہارا مدینہ والا راستہ بند کردیں گے۔‘‘ حضرت سعدؓ نے با آواز بلند کہا:
 اہل مکہ کی معیشت کا سارا دارومدار اس تجارت پر تھا جو اہل مکہ شام کے ساتھ کیا کرتے تھے، کیونکہ مکہ کی سرزمین تو ’’وادی غیر ذی زرع‘‘ (ناقابل زراعت ) تھی، وہاں غلہ کی پیداوار سرے سے ہوتی ہی نہیں تھی۔ ان کی دولت اون، کھالیں اور چمڑا وغیرہ تھی۔ اہل مکہ یہ چیزیں شام لے جا کر فروخت کردیا کرتے تھے اور وہاں سے ضروریاتِ زندگی خرید لاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے ان کے تجارتی قافلے اکثر و بیشتر شام کی طرف آتے جاتے رہتے تھے اور شام جانے کیلئے بہر صورت مدینہ کے پاس سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا۔ اگر اہل مدینہ تجارت کا یہ راستہ بند کردیتے تو اہل مکہ فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے۔ ابوجہل اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا، اس لئے حضرت سعد ؓ کی دھمکی سننے کے بعد اسے کچھ بولنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
 قریش نے مسلمانوں کو پیغام پہنچایا کہ تم اس بات پر مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے باحفاظت نکل آئے ہو ہم مدینے پہنچ کر تمھارے ساتھ جنگ کریں گے۔ ان حالات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رات جاگ کر گزارتے تھے یا صحابہ کرام ؓکے پہرے میں سوتے تھے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کوحفاظت کی بشارت فرمائی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’لوگو! واپس جاؤاﷲ تعالیٰ نے میری حفاظت کاوعدہ فرمایاہے۔‘‘
حالات جب دگرگُوں ہوگئے اور قریش کسی بھی طرح باز نہ آئے تواﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دے دی ۔
 اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی تھی، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اﷲ تعالیٰ یقینا ان کی مدد پر قادر ہیں۔‘‘
(سورۃ الحج۔ آیت 39)
۳…… تجارتی شاہراہ
جنگی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح قبیلہ قریش نے مدینہ کو معاشی محاصرے میں لیا ہوا تھا اسی طرح وہ بھی مکہ کے تجارتی قافلوں کو مدینہ سے گزرنے نہ دیں۔
۴ ...... ابوسفیان کا تجارتی قافلہ
قریش نے مسلمانوں کی ہجرت کیساتھ ہی مدینے پر جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔حملے کیلئے سب سے بڑی ضرورت جنگ کے اخراجات تھے۔ قریش کا جو کاروان تجارت کے لئے شام روانہ ہوا تو مکے کی آبادی نے رقوم مہیا کیں۔ اس تجارتی قافلے میں عورتوں نے بھی حصہ لیا۔
 مدینے کی حدود سے گزر کر مکہ جانے والے اس قافلہ میں ایک ہزار اونٹ تھے جن پر قیمتی سامان تھا۔ روایت کے مطابق اس سامان کی مالیت کم و بیش باسٹھ کلو سونے کے برابر تھی (سال2011ء میں باسٹھ کلو سونے کی قیمت اکتیس لاکھ،نواسی ہزار،سات سودس امریکی ڈالر ہے اس قافلے کی حفاظت کیلئے چالیس آدمی مقرر تھے۔
ابو سفیان کا یہ تجارتی قافلہ مکے سے شام جاتے ہوئے بچ نکلا تھا۔ یہی قافلہ جب شام سے واپس آنے والا تھا تو کسی فتنہ پرداز نے افواہ اُڑادی کہ مسلمان اس قافلے کو لُوٹ لیں گے۔
          ابو سفیان کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ سخت خوفزدہ ہوگیا۔ اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد ضمضم بن عمروالغفاری کو مکہ کی طرف روانہ کیا اور ہدایت کی کہ قریش کو اطلاع کردے کہ جس قدر ممکن ہو اپنے اس مالِ کثیر سے بھرے ہوئے تجارتی قافلہ کی خبر لیں اور اپنا سرمایہ بچائیں کیونکہ مدینہ سے محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) اپنے اصحاب کے ہمراہ اس قافلہ سے تعارض کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔

ضمضم کا واویلا
ضمضم بہت جلد مکہ پہنچ گیا۔ اپنی فریاد کو مؤثر بنانے کے لیے اس نے اپنے اونٹ کے ناک اور کان کاٹ دئیے۔ کجاوا الٹ دیا اور اپنی قمیض پھاڑ کر نہایت درد ناک آواز میں چلانے لگا ۔   
’’اے جماعت ِقریش!قافلے کو پہنچو، قافلے کو پہنچو۔ ابو سفیان تمہارا جو مال لے کر آرہا ہے ، اس پر محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) اوران کے ساتھیوں نے حملہ کردیا ہے۔مجھے امید نہیں ہے کہ تم اس کو بچا سکو ۔ فریاد ہے، فریاد ہے۔‘‘
ضمضم کا واویلا سن کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے اور کہنے لگے کیا محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا مال رائیگاں چلا جائے۔ ہم اپنے مال کی حفاظت کے لئے جائیں گے اور دیکھیں گے کہ ان مسلمانوں پر کیا گزرتی ہے۔ اس طرح بظاہر تو انہوں نے شجاعت و حمیت کا مظاہرہ کردیا ، مگر اندرسے سب کے دل لرز رہے تھے کیونکہ انہی دنوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پھوپی عاتکہ نے ایک خواب دیکھا تھا۔
بی بی عاتکہ بنت عبد المطلب کا خواب
 بی بی عاتکہ نے خواب دیکھا کہ شتر سوار مکہ سے باہر کھڑا ہے اور باآواز بلند کہہ رہا ہے
’’اے دھوکے بازو! تین دن کے بعد اس طرف روانہ ہوجاؤ جہاں تم نے قتل ہوکر گرنا ہے۔‘‘
اس کی آواز سن کر مجمع لگ گیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ وہاں سے چل کر وہ سوار مسجد حرام میں آیا اورکعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر لوگوں سے مخاطب ہوکر وہی اعلان کیا ہے۔
پھر دفعتاً وہ سوار جبل ابو قبیس کی چوٹی پر نظر آیا اور یہی اعلان کرنے لگا۔ اسکے بعد اس نے جبل ابو قبیس کی چوٹی سے ایک پتھر نیچے کی طرف لڑھکا دیا۔ وہ پتھر نیچے آیا اور ٹوٹ گیا اور اس کے ٹکڑے اُڑ اُڑ کر اہلِ مکہ کے گھروں میں گرنے لگے۔ بی بی عاتکہ کہتی ہیں کہ مکہ کا کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں اس کا کوئی ٹکڑا نہ گرا ہو۔
صبح ہوئی تو بی بی عاتکہ نے یہ خواب اپنے بھائی عباس کو سنایا اور کہا کہ کسی اور سے اس کا ذکر نہیں کرنا۔ عباس نے راز داری کے ساتھ یہی خواب اپنے دوست کو سنایا۔ اس طرح جلد ہی یہ بات سارے مکہ میں پھیل گئی۔
تیسرے دن حضرت عباس حرم میں گئے تو وہاں ابو جہل چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے حضرت عباس کو دیکھتے ہی کہا:
’’تمہارے مرد تو نبوت کے دعوی دار تھے ہی…… اب تمہاری عورتوں نے بھی نبوت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے۔ ‘‘
کیا مطلب……؟
کس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ حضرت عباس نے حیرت سے پوچھا۔
یہ عاتکہ نے جو خواب بیان کیا ہے یہ نبوت کا مظاہرہ نہیں تو اور کیا ہے؟
 عاتکہ کے بیان کے مطابق کسی سوار نے اہل مکہ سے کہا ہے کہ تین دن کے بعد اس طرف روانہ ہوجاؤ جہاں تم نے قتل ہوکر گرنا ہے۔ اب ہم تین دن تک انتظار کریں گے۔ اگر تین دن تک کچھ نہ ہوا تو ہم سب متفقہ طور پر تم لوگوں کے بارے میں لکھ دیں گے کہ تمہارا گھرانہ عرب کا سب سے جھوٹا گھرانہ ہے۔
ابھی گفتگو ہورہی تھی کہ ابو سفیان کا قاصد ضمضم بن عمر و الغفاری مکہ میں داخل ہوا اور اس نے چیخ چیخ کر ابو سفیان کا پیغام سنانا شروع کردیا۔ گویا تیسرے دن ہی عاتکہ کے خواب کی صداقت ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔

اہل مکہ کی تیاریاں
ابو سفیان کا پیغام سنتے ہی مکہ میں ہلچل مچ گئی۔ قریش میں کوئی مرد و عورت ایسا نہ تھا جس نے اپنی پوری پونجی و سرمایہ اس لشکر کے لئے خرچ نہ کیا ہو۔ قریش کے غیظ و غضب کا بادل بڑے زور سے اُٹھا اور تمام عرب پر چھا گیا۔
قریش کے بڑے بڑے سردار اور ہر قبیلے کے لوگ جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ مکہ میں دو طرح کے لوگ تھے یا تو آدمی خود جنگ کے لئے تیار تھا یااس نے اپنی جگہ کسی دوسرے کو نامزد کردیا تھا۔
معززین مکہ میں سے کوئی پیچھے نہ رہا۔ صرف ابولہب نے اپنی جگہ ایک آدمی کو بھیجا جو اس کا مقروض تھا۔ گردو پیش کے قبائل کو بھی قریش نے بھرتی کیا۔
ان کے پیش نظر یہ نہیں تھا کہ قافلے کو بچایا جائے بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے اور قبائل کو اس حد تک مرعوب کردیں کہ آئندہ کے لئے یہ تجارتی شاہراہ بالکل محفوظ ہوجائے۔
لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زرہ تھیں۔ اونٹ کثرت سے تھے۔ لشکر کا سپہ سالار ابو جہل تھا۔
قریش بڑے تکبر و غرور سے گانے بجانے والی عورتوں اور طبلوں کو ساتھ لے کر اکڑتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے بہت سارے اونٹ ساتھ لیے۔ جہاں پڑاؤ ہوتا اونٹ ذبح کیے جاتے، گوشت بھونا جاتا، گانے والی عورتیں شجاعت و انتقام کے مضامین پر مشتمل نظمیں گا کر جذبات اُبھارتیں۔قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے قریش کے اس لشکر کے بارے میں فرمایا:
’’ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اﷲ کی راہ سے روکتے تھے ، جو کچھ وہ کررہے ہیں اﷲ اسے گھیر لینے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الانفال۔ آیت 47)
مجلسِ شوریٰ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر وقت حالات سے باخبر رہتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت طلحہؓ بن عبید اور حضرت سعیدؓ بن زید کو حالات کا پتہ لگانے کیلئے روانہ فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ان حالات کی اطلاع ملی توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اور قریش کے لشکر کی روا نگی کے بارے میں ان کو بتایا۔
’’ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر آرہا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے ان دونوں میں سے ایک پر ہمارا غلبہ ہوجائے گا۔‘‘
’’اور (یاد کرو) جب وعدہ کر رہا تھا تم سے اﷲ تعالیٰ ایک کا دو گروہوں میں سے کہ وہ تمہیں مل جائے گا اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور گروہ مل جائے تمہیں اور ارادہ تھا اﷲ تعالیٰ کا یہ کہ ثابت کر دکھائے حق کو اپنے ارشادات سے اورکاٹ دے جڑ کافروں کی تاکہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کردے خواہ ناگوار گزرے مجرموں کو۔‘‘ (سورۃ الانفال۔آیت7تا 8)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار و مہاجرین سے فرمایا:
’’ بتاؤ تم کس سے مقابلہ کرناچاہتے ہو؟‘‘
ایک گروہ نے عرض کیا:
’’ ابوسفیان کے قافلے پر حملہ کیاجائے ۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر دریافت فرمایا۔
حضرت مقدادؓبن عمرو نے عرض کیا:
’’یارسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام !جس طرف آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے رب آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حکم دے رہے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس طرف چلیے۔ جس طرف بھی آپ جائیں،ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ ہیں۔ ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ اس وقت تک رہیں گے جب تک ہمارے جسم میں جان ہے ۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کیے بغیر اپنا سوال دہرایا۔ حضرت سعدؓبن معاذ اٹھے اور عرض کیا:
’’شاید حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روئے سخن ہماری طرف ہے ؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:’’ہاں‘‘
حضرت سعدؓ نے کہا:
’’ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے ہیں، حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تصدیق کرچکے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اورحضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام سے عہد کر چکے ہیں۔ اے اﷲ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام !جو کچھ آپعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارادہ فرمایاہے ہم اس سے متفق ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حق کیساتھ بھیجا ہے۔ اگر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہمیں سمندر میں لے جائیں توہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ سمندر میں اُتر جائیں گے اور ہم میں سے ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم دل وجان سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ ہیں۔ انشاء اﷲ جنگ میں ثابت قدم رہیں گے اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جنگ میں ہماری جان نثاری دیکھ لیں گے۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ساتھیوں کے پُر جوش جذبے اور ہمت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پر حملہ نہیں کریں گے بلکہ جنوب کی طرف سے آنے والے قریش کے لشکر کی طرف پیش قدمی کریں گے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مال و دولت کو اہمیت نہیں دی ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کایہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا۔
اسلامی لشکر کی تعداداورکمان کی تقسیم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام روانگی کیلئے تیارہوئے توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہمراہ تین سو افراد تھے (یعنی ۳۱۳ یا ۳۱۴ یا ۳۱۷) جن میں سے ۸۲ یا ۸۳ یا ۸۴ مہاجر تھے اور باقی انصار تھے۔ اس لشکر نے غزوے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا نہ مکمل تیاری تھی۔
لشکر میں صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے، جن میں سے ہر اونٹ پر دو یاتین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ ایک اونٹ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام، حضرت علی ؓ اور حضرت مرثدؓ بن ابی مرثدغنویٰ کے حصے میں آیا تھا جن پر تینوں حضرات باری باری سوار ہوتے تھے۔ لشکر کی تنظیم اس طرح کی گئی کہ ایک لشکر مہاجرین کا بنایا گیا اور ایک انصار کا۔
 مہاجرین کا علم حضرت علی ؓبن ابی طالب کو دیا گیا اور انصار کا علم حضرت سعدؓ بن معاذ کو اور جنرل کمان کا پرچم جس کا رنگ سفید تھا حضرت مصعبؓ بن عمیر کو دیا گیا۔ میمنہ (دائیں جانب) کے افسر حضرت زبیرؓ بن عوام مقررکئے گئے اور میسرہ (بائیں جانب) کے افسر حضرت مقدادؓ بن اسود۔پورے لشکر میں صرف یہی دونوں بزرگ شہسوار تھے۔ لشکر کے ساقہ (آخری حصہ) کی کمان حضرت قیسؓ بن ابی صعصعہ کے حوالے کی گئی اور سپہ سالار اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل کمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود سنبھالی۔
سامان جنگ ناکافی تھا، مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھی سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر انہوں نے جنوب مشرق کی طرف مارچ (march) کیا۔ اس طرف سے قریش کالشکر آرہا تھا۔
مکی لشکر میں پھوٹ
قریش کو بدر کے قریب حجفہ کے مقام پر پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ ابوسفیان کا قافلہ خطرے سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اورعدی کے سرداروں نے کہا:
’’اب لڑنا ضروری نہیں ہے۔‘‘
ابوجہل کھڑا ہوگیا اور نہایت غرور و تکبر سے بولا:
’’خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے۔ بدر جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے، خوب کھائیں گے، پئیں گے اور جشن منائیں گے اور سارا عرب ہمارے ا س سفر کا حال سنے گا اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔‘‘
زہرہ اور عدی کے لوگوں نے ابوجہل کی جب یہ بات سنی تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ محض اقتدار کی جنگ ہے۔ ابوجہل کے دل میں بنوہاشم کے بارے میں حسد اور بغض ہے اور محض اس لئے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی مخالفت کر رہا ہے۔ چنانچہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے۔
 لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اب لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی اور اس کا رخ بدر کی جانب تھا۔ بدر پہنچ کراس نے ایک ٹیلے کے قریب پڑاؤ ڈالا۔یہ ٹیلہ وادیٔ بدر کے جنوب میں واقع ہے اور انہوں نے مناسب جگہوں پر چوکیاں بنالیں۔

بدر کا میدان
سرور دو عالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عدوۃ الدنیاکی طرف سے وادی بدر میں داخل ہوئے۔ مسلمانوں نے جس جگہ قیام کیا وہاں کوئی چشمہ یا کنواں نہیں تھا۔ زمین ریتیلی تھی۔ اونٹوں کے پاؤں ریت میں دھنس رہے تھے۔
 حضرت خبابؓ بن منذر نے عرض کیا:
 ’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام! اس جگہ پر قیام کا حکم آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے یا یہ ایک جنگی تدبیر ہے؟۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’یہ محض ایک جنگی تدبیر ہے ۔ ‘‘
حضرت خبابؓ بن منذر نے عرض کیاـ
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام یہ جگہ قیام کیلئے مناسب نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے نزدیک جو چشمہ ہے اس پر قبضہ کرلیں، اس طرح سارے پرانے کنویں ہمارے عقب میں ہوجائیں گے پھر ہم سارے کنوؤں کو بند کردیں گے اور صرف ایک کنواں رہنے دیں گے اور وہاں ایک حوض بناکر پانی جمع کرلیں گے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ رائے پسند فرمائی اور اس پر عمل کیا گیا۔
اس رات اﷲ تعالیٰ نے بادل بھیج دیئے خوب موسلادھار بارش ہوئی۔ مسلمان ریتیلے علاقے میں خیمہ زن تھے۔ بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور مسلمان آسانی سے چلنے پھرنے لگے۔ لیکن قریش نے جس جگہ خیمے ڈالے تھے وہاں بارش سے ہر طرف کیچڑ بن گئی۔ چلنا پھرنا دُشوار ہوگیا۔ رات بھر وہ اپنے خیموں میں محصور ہوکر بیٹھے رہے۔
 اس احسان کا اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے ـ:
’’اورجبکہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایاکہ تم کو پاک کرے۔‘‘
(سورۃالانفال۔ آیت 11)
 جگہ جگہ پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنالئے گئے۔اگرچہ پانی اس طرح محفوظ کرلیا گیا تھا لیکن اﷲ تعالیٰ کے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دشمنوں کو بھی پانی لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
مرکزقیادت
صحابہ کرام ؓ چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعدؓ بن معاذ نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے ایک مرکزِ قیادت تعمیرکردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست ہوجائے یا ہنگامی حالات پیش آجائیں تو اس کیلئے ہم پہلے ہی سے تیار رہیں، چنانچہ انہوں نے عرض کیا:
’’اے اﷲ کے نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام!کیوں نہ ہم حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے ایک چھپر تعمیر کردیں جس میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریف رکھیں گے اور ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کیلئے سواریاں تیار رکھیں گے۔ اس کے بعد اپنے دشمن سے لڑیں گے۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے عزت بخشی اور ہم دشمن پر غالب آگئے تو ہم پر اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوگا اور اگر خدانخواستہ دوسری صورت پیش آئی توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سوار ہوکر ہماری قوم کے لوگوں کے پاس چلے جائیں گے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ کے حبیب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت سعدؓ بن معاذ کی تعریف فرمائی اور ان کیلئے دعائے خیر کی۔
 مسلمانوں نے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر سائبان بنایا جہاں سے پورا میدان نظر آتا تھا۔ حضرت سعدؓبن معاذ کی کمان میں انصاری نوجوانوں کا ایک دستہ بنادیا گیا۔
 جمعہ کی رات تھی ہر شخص پر نیند مسلط تھی اور وہ اونگھ رہا تھا۔ مسلمانوں اور قریش کے خیموں کے درمیان ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عمارؓ بن یاسر اورحضرت عبداﷲؓ بن مسعود کو قریش کا حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا انہوں نے واپس آکر بتایا کہ وہ لوگ سخت پریشان ہیں۔
جبکہ اس رات مسلمانوں کو خوب نیند آئی۔ ان میں اعتماد تھا۔ انہیں یہ توقع تھی کہ صبح اپنی آنکھوں سے اپنے رب کی بشارتیں دیکھیں گے۔
صبح اٹھے تو مسلمان ہشاش بشاش تھے۔ سفر کی ساری تھکن دور ہوچکی تھی۔ مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پوری رات جاگتے رہے اور اﷲ تعالیٰ سے فتح کی دعا کرتے رہے۔ صبح ہوئی تو لوگوں کو نماز کے لئے آواز دی اور نماز ادا کرنے کے بعدجہاد سے متعلق وعظ فرمایا۔
بدر کی جانب کوچ
قریش نے وادی کے باہر اپنے خیموں میں رات گزاری اور صبح فوجی دستوں کے ساتھ ٹیلے سے نیچے اترے اور بدر کی جانب کوچ کیا۔ پانی نہ ملنے سے مشرکین کی حالت غیر ہوگئی، آخر مجبور ہوکر اسی کنوئیں پر آئے جس پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’انہیں چھوڑ دو، انہیں جی بھر کے پانی پی لینے دو۔‘‘
قریش نے مسلمانوں کے لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کیلئے عمیر بن وہب جمحی کو بھیجا۔ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہو کر چکر لگایا پھر واپس جاکر بولا:
’’تقریباًتین سو آدمی ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہرو میں دیکھ لوں کہ لشکر کے لوگ اور کسی جگہ تو جمع نہیں ہیں؟‘‘
 اس کے بعد وہ وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہوا دور تک نکل گیا لیکن اسے مزید فوج نظر نہیں آئی۔
آمنے سامنے لشکر
۱۷؍ رمضان بروز جمعہ علی الصبح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حربی اصولوں کے مطابق فوج کو منظم کیا۔ اس موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صفیں درست فرماکر مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ میری اجازت کے بغیر لڑائی شروع نہ کیجائے۔ جب تک آخری احکام نہ سن لو، اپنی جگہ پر قائم رہو۔ اس کے بعد طریقہ جنگ کے بارے میں خصوصی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’جب مشرکین تمہارے قریب آجائیں تو تم ان پر تیر چلانا۔‘‘
دوسری طرف مشرکین کا یہ حال تھا کہ ابوجہل نے دعاکی۔اس نے کہا:
’’اے خدا! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں کرنے والاہے اسے آج آپ ہلاک کردیجئے۔ اے خدا! ہم میں سے جو فریق آپ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرمائیے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی :
’’ اگر تم فیصلہ چاہتے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا؛اور اگر تم باز آجاؤ تویہی تمہارے لیے بہتر ہے؛لیکن اگر تم (اپنی اس حرکت کی طرف) پلٹو گے تو ہم بھی (تمہاری سزا کی طرف) پلٹیں گے اور تمہاری جماعت اگرچہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ اور یاد رکھو اﷲ تعالیٰ مومنین کے ساتھ ہیں۔‘‘ (سورۃالانفال۔آیت19)
لشکر اسلام سے خطاب
اس موقع پر جب کہ فریقین پوری تیاری کے ساتھ صفیں باندھ کر جنگ کے لئے تیار تھے۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ کے محبوب علیہ الصلوٰۃوالسلام نے لشکر اسلام سے خطاب فرمایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد وثنا کی ۔ پھر فرمایا:
’’میں تمہیں ان کاموں سے منع کرتا ہوں جن سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بڑی ہے۔ وہ حق کا حکم دیتا ہے اور سچائی کو پسند کرتا ہے اور نیک کام کرنے والوں کواپنی بارگاہ میں بلند منزلوں پر فائز کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اسی سے انھیں فضیلت حاصل ہوتی ہے اور آج تم حق کی منزلوں میں سے ایک منزل پر کھڑے ہو۔ اس مقام پر اﷲ تعالیٰ کسی سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا سوائے اس کے جو محض اس کی رضا کے لئے کیا گیا ہو اور جنگ کے موقع پر صرف صبر ہی ایسی چیز ہے جس سے اﷲ تعالیٰ حزن و ملال کو دور کرتا ہے۔ اور اسی صبر کی برکت سے غم سے نجات دیتا ہے اور اسی صبر سے تم آخرت میں نجات پاؤگے۔ تم میں اﷲ کا نبی موجود ہے جو تمہیں بعض چیزوں سے منع کرتا ہے اور بعض چیزوں کا تمہیں حکم دیتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا ہے ان پر عمل کرو اور جن نشانیوں کا ذکر ہے ان پر غور وفکر کرو۔اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے بعد عزت بخشی ہے۔ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑلو اس سے تمہارا رب تم سے راضی ہوگا۔بے شک اس کا وعدہ حق ہے اور اس کا قول سچا ہے۔ بے شک میں اور تم اﷲ تعالیٰ کی مدد طلب کرتے ہیں جو حی و قیوم ہے۔ وہی ہماری پشت پناہی کرنے والا ہے اور اسی کا دامن کرم ہم نے پکڑا ہوا ہے۔ اس پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہم لوٹ کر جائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری اورتمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔‘‘
قلیل تعداد
 قریش کا لشکر عتبہ بن ربیعہ کی قیادت میں تھا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کی:
’’یا اﷲ!یہ قریش ہیں اور غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ آپ کے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ یااﷲ !بس اب آجائے آپ کی مدد۔ وہ مدد جس کا وعدہ آپ نے مجھ سے فرمایا ہے۔‘‘
عین اسی وقت حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اور سارے اسلامی لشکر پر چند لمحوں کے لئے نیند طاری ہوگئی۔ اﷲ تعالیٰ نے خواب میں آپ علیہ الصلوٰۃ السلام کو قریش کی تعداد قلیل دکھائی۔ جس کو صحابہ کرامؓ نے بھی دیکھا۔
’’جب کہ اﷲ تعالیٰ نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی اور (اے مسلمانو) اگر ان کی زیادتی دکھاتا، تو تم بزدل ہوجاتے اور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اﷲ تعالیٰ نے بچالیا۔ وہ دلوں کے بھیدوں سے خوب آگاہ ہے۔ ‘‘  (سورۃ الانفال۔ آیت 43)
اﷲ تعالیٰ کا یہ کس قدر عظیم انعام تھا کہ میدانِ جنگ میں کفار کی تعداد کو تھوڑا کرکے دکھایا تاکہ مسلمان جنگی اقدام کریں اور کفار کو بھی مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دکھائی جس کی وجہ سے کفار نے لڑنے میں زیادہ کوشش نہیں کی۔
’’جبکہ اس نے بوقت ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھائے اور تمہیں انکی نگاہوں میں بہت کم دکھایااﷲ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچادے جو کرنا ہی تھا اور سب کام اﷲ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں۔‘‘
(سورۃ الانفال۔ آیت44)
کثیر تعداد
اور جب لڑائی شروع ہوگئی تو دوران جنگ کافروں کو مسلمان اپنے سے دو گنا نظر آتے تھے۔ بعد میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ دکھانے میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ مسلمانوں کی فوج کثرت میں دیکھ کر کفار کے اندر خوف اور ہیبت بیٹھ جائے۔
’’یقینا تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں کی راہ میں جو لڑ رہی تھیں اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے۔ یقینا اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ ‘‘
                                                           (سورۃ آلِ عمران۔ آیت 13)
مبارزت
 پہلے فرداً فرداً مقابلہ ہوا۔قریش کے تین بہترین شہسوار عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ مبارزت کے لئے میدان میں آئے اور تینوں ہلاک ہوگئے۔
قریش اپنے تین بہترین شہ سواروں اور کمانڈروں سے محروم ہوگئے، اس لئے انہوں نے غیض و غضب سے بے قابو ہوکر یکبار حملہ کردیا۔ دوسری طرف مسلمان اپنے رب سے نصرت اور مدد کی دعاکرتے ہوئے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ہوگئے اور مشرکین کے حملوں کو ناکام بنا دیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہؓ کو تاکید کی کہ میرے حکم کے بغیر حملہ نہیں کرنا۔ اگر دشمن تمہیں آکر گھیر لیں تو نیزوں سے انہیں دور رکھو۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ اس سائبان میں تشریف لے گئے جو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لئے بنایا گیا تھا۔ پہلے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دو رکعت نماز ادا کی پھر اﷲ تعالیٰ سے نصرت و مدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا کی۔
’’اے اﷲ تعالیٰ!آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیاہے اسے پورافرمادیجئے۔ اے اﷲ! میں آپ سے آپ کے وعدے کا سوال کرتا ہوں ۔ اے اﷲ! آپ پر ایمان لانے والے قلیل ہیں۔‘‘
 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رو کر اﷲ تعالیٰ کے حضور دعاکی۔ یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گرگئی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے چادر درست فرمائی اور عرض کیا:
’’اے اﷲ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام! بس فرمایئے، یقینا اﷲ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا فرمائیں گے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کوحکم دیا:
’’میں تمہارے ساتھ ہوں،تم اہل ایمان کے قدم جماؤ ،میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔‘‘ (سورۃالانفال۔آیت12)
اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس وحی بھیجی کہ
’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘ (سورۃالانفال۔آیت9)
فرشتوں کا نزول
اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر غنودگی طاری ہوگئی۔ چند لمحوں بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آنکھیں کھولیں پھر سر مبارک اٹھایا اور فرمایا:
’’ابوبکر خوش ہوجاؤ، اﷲ کی مدد آپہنچی۔ یہ جبرائیل ؑ ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے کھڑے ہیں۔‘‘
اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سائبان سے باہر تشریف لائے، حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے زرہ پہن رکھی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نہایت بہادری کے ساتھ آگے بڑھے اور فرمایا:
’’عنقریب دشمن شکست کھاجائے گا اور پشت پھیرکر بھاگے گا۔‘‘
(سورۃ القمر۔ آیت 45)
اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کنکریوں کی ایک مٹھی لی اور قریش کی طرف رخ کرکے فرمایا:’’شاھت الوجوہٗ- چہرے بگڑ جائیں‘‘۔
اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر مشرکین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں، نتھنے اور منہ میں ایک مٹھی مٹی میں سے کچھ نہ گیا ہو۔
حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے اس عمل کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا عمل قرار دیا۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’جب آپ ( علیہ الصلوٰۃوالسلام )نے پھینکا تو درحقیقت حضور( علیہ الصلوٰۃوالسلام )نے نہیں پھینکا،بلکہ اﷲ تعالیٰ نے پھینکا۔‘‘
                                                                    (سورۃالانفال۔آیت۱۷)
جوابی حملہ
جس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا، دشمنوں کی ہمت پست ہوگئی تھی اور ان کا جوش و خرو ش سرد پڑگیا تھا۔صحابہ کرام ؓکوجب حملہ کرنے کا حکم ملا اس وقت ان کا جوش جہاد شباب پر تھا۔ انہوں نے نہایت سخت حملہ کیا۔ وہ دشمنوں کی صفیں درہم برہم کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ یہ دیکھ کران کے جوش و خروش میں مزید تیزی آگئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بنفس نفیس زرہ پہنے ہوئے تیز تیز تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں:
’’عنقریب یہ دشمن شکست کھاجائے گا اور پشت پھیرکر بھاگے گا۔‘‘
(سورۃ القمر۔ آیت 45)
 مسلمانوں نے نہایت پر جوش جنگ کی اور فرشتوں نے ان کی مدد فرمائی۔ روایت ہے کہ ا س دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہیں چلتا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے اور آدمی کا ہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہیں چلتا کہ اسے کس نے کاٹاہے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’ ایک مسلمان مشرک کا تعاقب کر رہا تھاکہ اچانک کوڑے مارنے کی آواز آئی اور اس نے کسی شہسوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ تیز قدم آگے بڑھ۔
 مسلمان نے مشرک کو سامنے دیکھا کہ وہ زمین پر گرا ہواہے اور اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا، چہرہ زخمی تھا جیسے کسی نے کوڑے سے مارا ہو اور چہرے پر نیل پڑ گیا تھا۔
 انصاری مسلمان نے یہ واقعہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیان کیا توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا: ’’تم سچ کہتے ہو، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔‘‘
 ابوجہل کا قتل
 دو انصاری نوجوان حضرت معوذ ؓ اور حضرت معاذ ؓ ابوجہل کی تاک میں تھے، نظر پڑتے ہی ابوجہل پر حملہ کیا اور وہ مرگیا۔ ابوجہل کے قتل سے قریش میں بددلی پھیل گئی۔
اُمیّہ کا قتل
لیکن ابھی ایک سردارامیہ بن خلف باقی تھا۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اُمیّہ سے کسی زمانے میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ آئے گا تو اس کی جان کے ضامن ہوں گے۔ بدر میں اس دشمنِ خدا سے انتقام لینے کا خوب وقت تھا لیکن چونکہ وعدے کی پابندی اسلام کا شعار ہے اس لئے وہ امیہ اور اس کے بیٹے کو مسلمانوں کی نظر سے بچاکرنکال دینا چاہتے تھے۔اتفاق سے حضرت بلال ؓ نے جو مکہ میں اس کے مشق ستم رہ چکے تھے دیکھ لیا اور انصار کو خبر کردی، سپاہی ٹوٹ پڑے اور امیہ کے بیٹے کو قتل کردیا اور پھر امیہ کی طرف بڑھے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بچانے کے لئے امیہ سے لپٹ گئے لیکن لوگوں نے ا ن کی پرواہ نہیں کی اور نیزے سے امیہ کا کام تمام کردیا۔ امیہ کے مرتے ہی کفار نے میدان چھوڑدیا۔
شکست فاش
ْتھوڑی دیر کے بعد مشرکین کے لشکر میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمایاں ہوگئے۔ کفار کی صفیں مسلمانوں کے سخت حملوں سے درہم برہم ہوگئیں اور معرکہ اپنے انجام کو پہنچا۔ پھر مشرکین کا ہجوم بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹا اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ قریش اپنے غرور اور طاقت کے باوجود بے سر و سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ مسلمانوں کے کل چودہ آدمی شہید ہوئے اور قریش کے بہت سے نامور سردار ہلاک ہوگئے اور مشاہیر قریش میں سے کئی لوگ گرفتار ہوئے۔
مقتولین بدر سے خطاب
 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول تھا کہ فتح کے بعد تین دن تک وہیں قیام فرماتے تھے تاکہ تھکے ماندے سپاہی آرام کرلیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرکے واپسی کے سفر کے لئے تازہ دم ہوجائیں۔ بدر میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تین دن مقیم رہے اور تیسرے دن حکم دیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سواری لائی جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس پر سوار ہوئے، مجاہدین کی ایک جماعت بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہمراہ ہوئی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس کنویں پر تشریف لے گئے جس میں کفار کی لاشوں کو ڈال کر اسے مٹی سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک ایک کا نام لے کر آواز دی۔
اے عتبہ بن ربیعہ……!
اے شیبہ بن ربیعہ……!
اے ابوجہل بن ہشام……!
اے اُمیہ بن خلف……!
کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ تم اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی فرمانبرداری کرتے۔ اب جبکہ پردہ اُٹھ گیا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھ لیا تو تم مسلمان ہونے کی آرزو کرتے ہو…………
اس کے بعد فرمایا!
 بلاشبہ ہم نے اسے حق پایا ، جو اﷲ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے بھی اسے حق پایا، جس عذاب کی وعید تم سے کی گئی تھی۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا!
یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام!حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ان اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح موجود نہیں ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’قسم ہے اس اﷲ کی! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ تم ان سے زیادہ اس بات کے سننے والے نہیں ہو۔ جو کچھ میں بیان کررہا ہوں وہ خوب سُن رہے ہیں ۔ ‘‘
مالِ غنیمت
جنگ کے بعد مسلمانوں کے لشکر میں مال غنیمت کے بارے میں اختلاف ہوگیا اور جب یہ اختلاف شدت اختیار کرگیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حوالے کردے۔
صحابہ کرامؓ نے حکم کی تعمیل کی۔ اسکے بعد اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس مسئلے کا حل نازل فرمایا۔
’’(اے محمدؐ) لوگ آپ سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ( کہ کیا حکم ہے) کہہ دیجئے کہ غنیمت اﷲ اور اس کے رسول کا مال ہے تو اﷲ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اﷲ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔‘‘
(سورۃ الانفال۔ آیت 1)
اس کے بعد مالِ غنیمت کی تقسیم کاطریقہ بھی اﷲ تعالیٰ نے اس طرح بتایا :
’’جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو۔ اس میں پانچواں حصہ اﷲ کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کااور مساکین کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔‘‘
(سورۃ الانفال۔ آیت 41)
اس آیت کے نزول کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرمادیا۔
’’تو جو مال غنیمت تمہیں ملاہے، اسے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لئے ) حلال پاک (ہے) اور اﷲ سے ڈرتے رہو بیشک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(سورۃ الانفال ۔ آیت 69)
اسیرانِ جنگ کے ساتھ حسن سلوک
دوسرے روز اسیرانِ جنگ جب بارگاہ رسالت میں حاضر کیے گئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب سے پہلے ان کے قیام و طعام کی طرف توجہ فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں اپنے صحابہ کرامؓ کے درمیان حسب حیثیت تقسیم کرادیا اور ہر ایک کو تاکید فرمائی کہ وہ اپنے حصے کے قیدیوں کی خوراک لباس اور آرام کا پورا پورا خیال رکھیں۔
مدینہ منورہ پہنچ کر چند روز کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ اسیران بدر کے ساتھ کیا کرنا چاہیئے؟
تمام صحابہ کرامؓ نے اس مسئلہ کے متعلق اپنی اپنی رائے پیش کی ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی تجویز پیش کی:
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام ! ان سے فدیہ لیا جائے اور ان کو آزاد کر دیا جائے۔ فدیے سے جو سرمایہ اکٹھا ہوگا وہ مسلمانوں کے لئے تقویت کا باعث ہوگا اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کوئی بعید نہیں کہ ان میں سے کئی لوگ ایمان لے آئیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے باعث امت کی تقویت کا باعث بنیں۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔ فدیہ کے لئے کوئی خاص مقدار متعین نہیں تھی۔ ہر شخص سے حسب ِ حیثیت فدیہ لیا جاتا تھا۔
’’اے پیغمبر !جو قیدی تم لوگوں کے قبضہ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اﷲ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا تو جو (مال) تم سے چھین گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گااور تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(سورۃ الانفال۔ آیت 70)
اہل مدینہ کی غالب اکثریت ناخواندہ تھی۔ گنتی کے صرف چند افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ان اسیرانِ جنگ میں جو لوگ مفلس اور نادار تھے اور فدیہ کی رقم دینے سے قاصر تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نیفرمایاکہ جو شخص دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے گا، اسے آزاد کردیا جائے گا۔ جب کوئی قیدی مدینہ کے دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیتا تو اسے آزاد کردیا جاتا۔
ابولہب کا حشر
جنگ بدر میں کفار کی رسوا کن شکست کے بعد ابھی ایک ہفتہ ہی مشکل سے گزرا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب نے ابولہب کو آپکڑا۔ اسے ایک خطرناک پھنسی نکل آئی جسے عرب بہت بُرا سمجھتے تھے اور اس سے بہت خوفزدہ رہتے تھے ان کے نزدیک یہ ایک متعدی بیماری تھی۔ جب ابولہب کے بیٹوں کو پتا چلا کہ ان کے باپ کو یہ خطرناک پھنسی نکل آئی ہے تو انہوں نے اس کے پاس آنا جانا ترک کردیا چنانچہ وہ تنہا اس کی اذیت اور درد سے کئی روز تک تڑپتا رہا اور بے کسی اور کسمپرسی کی موت مرگیا۔ تین دن اس کی لاش بے گورو کفن پڑی رہی۔ مکہ کے رئیس اعظم کو دفن کرنے کیلئے بھی کسی نے زحمت گوارا نہیں کی جب اس کی لاش پھول کر پھٹ گئی تو اس کی بدبو سے سارے اہل محلہ پریشان ہوگئے۔
امام بیہقی دلائل النبوت میں لکھتے ہیں ایک شخص نے اس کے بیٹوں کے پاس جاکر انہیں ملامت کی کہ بدبختو! تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہارے باپ کی لاش سے بدبو آرہی ہے اور تم اسے دفن بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ بیماری ہمیں بھی نہ لگ جائے۔
بدنامی کے خوف سے اس کے بیٹے آئے لکڑیوں سے اس لاشے کو دھکیل کر ایک گڑھے میں ڈال دیا اور اس گڑھے سے دور کھڑے ہوکر پتھر پھینک کر اس کو بھر دیا۔
 اہمیت و نتائج
۱۔ غزوۂ بدر اسلام کی پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں کی فتح ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ چند بے کس غریب الوطن قریش مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ترکِ وطن کرکے مدینہ میں پناہ گزین ہوئے تھے ۔ وہ اس قابل ہوگئے کہ ظالموں کو بزور شمشیر مار بھگایا ۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقویت عطا فرمائی۔ درحقیقت اسلام کا عروج یہیں سے شروع ہوتا ہے اب مسلمان محض جلاوطن اور بے خانماں مہاجر نہ تھے بلکہ ایک آزاد اور زندہ قوم کے افراد تھے اور اس نعمت کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا:
’’یقینا اﷲ تعالیٰ نے تمہاری بدر میں مدد کی جب تم کمزور تھے ۔تو اﷲ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘
                                                          (سورۃ آل عمران۔ آیت 123)
۲۔ جنگ بدر میں عمل، دعا اور نصرت کا فارمولہ مسلمانوں کے لئے ہر شعبہ زندگی میں مشعل راہ ہے۔
جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کفار کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جنگ کیلئے میدان میں تشریف لے گئے اور پھر اﷲ تعالیٰ سے مددکی درخواست کی جدوجہداور عمل کے بعداﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں اور مناجات کو قبول فرمایا اور مدد کیلئے فرشتے نازل کردئیے اور مسلمانوں کو کامیابی ہوئی۔
غزوہ بدر ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ دعا کے ساتھ عمل ہو تو دعائیں مقبول بارگا ہ ہوتی ہیں۔ عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں روح نہیں ہے۔
۳۔ مسلمانوں کے پاس سازو سامان کی بے حد کمی تھی۔ نیز ان کی تعداد بھی کم تھی۔ اس کے برعکس کفار تعداد میں مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھے اور ساز و سامان بھی کثیر تعداد میں تھا۔ اس حالت میں مسلمانوں کا چند گھنٹوں میں کفار پر غالب آجانا معجزہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کوفتح و غلبہ دے کر واضح کردیا کہ اسلام حق ہے اور کفرو شر ک باطل ہے۔ اسی لئے قرآن میں اس دن کو یوم الفرقان کہا گیا ہے۔
’’اگر تم اﷲ پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو۔ اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن (یعنی میدان بدر) میں اُتارا جو دن حق و باطل میں جدائی (تمیز) کا تھا۔ جس دن دونوں فوجیں مقابلے پر آگئی تھیں۔‘‘
 (سورۃ الانفال۔ آیت 41)
۴ ۔ جنگ بدرمیں عجیب واقعات پیش آئے مسلمانوں نے دیکھا کہ کفار کے لشکر میں ان کے اپنے رشتہ دار شامل ہیں یہ بڑے امتحان کے لمحات تھے کہ وہ یا تو حق کا ساتھ دیں یا رشتہ داروں کی محبت میں کھوجائیں۔ الحمد اﷲ مسلمان ثابت قدم رہے۔
۵ ۔ مشاہیر قریش جو اسلام کے سخت دشمن تھے۔ اس جنگ میں ختم ہوگئے۔ ابو جہل، عتبہ، ولید، شیبہ اور اُمیّہ سب سرداروں میں سے تھے۔ جن کے قتل ہوجانے سے کفار مکہ کی قوت ہمیشہ کیلئیختم ہوگئی۔
۶۔ غزوہ بدر کی عظیم فتح نے مسلمانوں کی قسمت کا پانسہ پلٹ دیا۔ قبائل عرب کی نظروں میں ان کا اقتدار بہت بڑھ گیا۔ اب وہ محض ایک مذہبی جماعت اور نظام الٰہیہ کے داعی نہ تھے ، بلکہ وہ اُٹھتی ہوئی سیاسی قوت تھے۔ اس فتح کے بعد منافقین اور بہت سے قبائل عرب جو واقعات کا رُخ دیکھ رہے تھے۔ اب خوف زدہ ہوگئیاور مخالفت چھوڑ دی ۔ عرب قبائل مدینہ کی حکومت کو سب سے بڑی طاقت شمار کرنے لگے ۔
۷۔ غزوۂ بدر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورت ’’سورۃ الانفال‘‘ اس غزوہ کے بارے میں نازل فرمائی ہے جس میں فضائل صحابہؓ کے علاوہ دیگر مسائل بدر کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
۸۔ جنگ بدر کے سپہ سالارِ اعلیٰ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ مسلمان اپنے سپہ سالار کے احکامات کی پوری صداقت، دیانت اور جذبۂ اطاعت کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ مسلمانوں کا نظم و ضبط اور اپنے سپہ سالار اعلیٰ کی بے چُوں و چرا اطاعت ایک مثال بن گئی۔ ایک اچھی فوج کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے۔
۹۔ مشرکین کا عالم یہ تھا کہ وہ قیادت واحدہ سے محروم تھے۔ قریش کے اکثر سردار فوج میں شریک تھے۔ اس طرح ان کی قیادت بٹی ہوئی تھی۔
۱۰۔ بدر کی جنگ دو عقائد کے درمیان ایک بہت بڑی اور فیصلہ کن جنگ تھی اور اس عظیم جنگ میں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو کامیابی عطا فرمائی۔

حوالہ کتاب : باران رحمت
از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
پبلشر : بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان