Aug 31, 2015

آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا


سائنٹسٹ پرندہ



بِیا 
اُردو۔  بیا, پُھدکی, چھوٹے پرندوں کی قسموں میں سے ایک پرندہ, قرقف, چھوٹے پرندوں / چڑیا  کی مختلف اقسام میں 
سے ایک پرندہ ، ایک قسم کی چھوٹی چڑیا
Titmouseانگریزی۔
عربی۔  قرقف, طيور صغيرة
اگست یا ستمبر کے مہینے میں گائوں سے باہر کھیتوں میں نکل جائیں تو شیشم اور ببول کے اونچے درختوں اور گنے کے کھیتوں یا سرکنڈے کے جھنڈ میں کسی پرندے کی باریک اور مترنم آوازیں سنائی دیں گی۔ یہ آوازیں اتنی میٹھی ہوتی ہیں کہ دل بے اختیار ان کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ غور سے دیکھیں‘ تو کھیتوں اور درختوں کی ٹہنیوں پر چھوٹے چھوٹے پرندے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.... جی ہاں‘ یہ دلکش آوازیں بیا کی ہیں جو اس وقت زور شور سے تعمیراتی کام میں مصروف ہے۔ جسامت میں بیا گھروں میں رہنے والی عام چڑیا کے برابر ہوتا ہے لیکن اس کی نسبت نہایت ذہین اور خوش طبع ہے۔ اپنے ذاتی فرائض ہوں یا بیگار کا کام‘ ہر جگہ خوش طبعی اور زندہ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جہاں کہیں آپ کو درختوں پر وسط ایشیا کے فقیروں کی ٹوپیاں الٹی لٹکی ہوئی نظر آئیں‘ سمجھ لیجئے یہ بیے کے گھونسلے ہیں۔ اپنی نوعیت اور بناوٹ کے لحاظ سے پرندوں کی دنیا میں ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ پرندہ عموماً گھنے جنگل پسند نہیں کرتا۔ معلوم ہوتا ہے انسانی آبادیوں سے اسے خاص مناسبت ہے‘ اسی لیے بستیوں کے آس پاس گھونسلے بناتا ہے۔ بے حد محتاط اور عاقبت اندیش ہے۔ دشمنوں کی یلغار سے بچنے کیلئے باقاعدہ پیش بندی کرتا ہے۔ دشمن سے حفاظت کیلئے ایسی جگہ گھونسلا بناتا ہے جہاں بھڑوں کے چھتے یا زہریلی چیونٹیوں کے بل ہوں۔ ان پیش بندیوں کی وجہ سے دشمن گھونسلے کے قریب نہیں جاسکتا البتہ حضرت انسان اس کی پیش بندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے محض تفریح طبع کی خاطر گھونسلے اٹھا لیتا ہے۔ بیاگھونسلے بنانے کا کام درخت کی کسی لچکدار شاخ کا انتخاب کرنے کے بعد شروع کرتا ہے۔ وہ گنے‘ دھان یا مونج کے پتوں سے باریک دھاگے بناتا اور شاخ سے لپیٹتا جاتا ہے۔ دھاگے بنانے میں اسے خداداد مہارت حاصل ہے۔ پتے کی جڑ کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور اس کی اگلی نوک پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ہے‘ پتہ درمیان سے مڑجاتا ہے‘ اب یہ ذہین جانور اسے پکڑ کر جھٹکا دیتا ہے۔ پتے کی لمبائی کے برابر باریک دھاگا تیار ہوجاتا ہے جسے گھونسلے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بیا دھاگوں کو رسی کی صورت میں شاخ کے گرد بڑی مضبوطی سے بن کر نیچے کی طرف لٹکا دیتا ہے۔ مناسب مقدار میں دھاگے کا ذخیرہ ہوجائے تو دھاگے کے نچلے حصے کو بلب کی صورت میں موڑتا ہے۔ گھونسلے کا قطر بالعموم اوپر سے چار انچ اور نیچے سے ساڑھے پانچ انچ ہوتا ہے۔ اب اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ انڈے دینے کا خانہ کہاں ہونا چاہیے‘ گھونسلے کے بیچوں بیچ ایک مضبوط اور لمبوتری دیوار بنائی جاتی ہے جو باہر نکلنے والے سوراخ اور انڈوںکی جگہ کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہے۔ اس وقت گھونسلے کی شکل الٹی لٹکی ہوئی ٹوکری سے مشابہہ ہوتی ہے۔ نر بیا مادہ پرندہ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے‘ لیکن مادہ اس وقت تک توجہ نہیں کرتی جب تک اس کا بنایا ہوا گھونسلہ نہ دیکھ لے۔ جو گھونسلا اسے پسند آجائے‘ اس میں بسیرا کرتی ہے۔ اب نر اور مادہ مل کر باقی کام مکمل کرتے ہیں۔ بڑی محنت سے دیواروں کو مضبوط‘ نرم اورملائم بناتے ہیں۔ نرباہر سے دھاگے اندر دھکیلتا ہے‘ مادہ اندر سے بنتی ہے۔ کام کے دوران میں نر کے ذوق و شوق کا عجب عالم ہوتا ہے وہ لمبے مترنم سروں میں خوشی کے نغمے الاپتا ہے۔ گھونسلے کی لمبائی ایک فٹ تک ہوتی ہے۔ اسے اتنا مضبوط بنایا جاتا ہے کہ اسے سخت آندھیاں نقصان پہنچا سکتی نہ زور دار بارشوں کا پانی اندر جاسکتا ہے۔ خود بیا گھونسلے میں اس احتیاط سے داخل ہوتا ہے کہ گھونسلا حرکت تک نہیںکرتا۔ دو پروں کو سمیٹ کر ایک ہی جست میں اندرچلا جاتا ہے۔ اس کے گھونسلے کی گانٹھ نہایت مضبوط ہوتی ہے اور اسے شاخ سے جدا کرنے کیلئے خاصا وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آندھی یا طوفان میں گھونسلا دائیں بائیں ڈولتا ضرور ہے لیکن شاخ سے الگ نہیں ہوتا۔ نر بیا کی ایک عجیب عادت یہ ہے کہ ایک گھونسلامکمل ہوجائے تو دوسرے کی تیاری میں مصروف ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی کوئی مادہ آکر گھر بسا لیتی ہے۔ اس طرح بعض اوقات ایک نر بیا تین تین گھر آباد کرلیتا ہے۔
Courtesy : 
www.ubqri.com
www.urduweb.com

Aug 27, 2015

عرس مبارک بابا بُلھے شاہ قادریؒ


تحریر : انیس ناگی (نوائے وقت)
حضرت بابا بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں مصدقہ معلومات بہت کم دستیاب ہیں ۔ ابھی تک جو باتیں اس کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق زبانی روایت سے ہے ۔ ان زبانی معلومات کا تعلق بھی حضرت بابا بلھے شاہ کی صوفیانہ زندگی اور کرامات سے ہے شاعری سے بہت کم ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات جیسی کیسی بھی ہیں ان سے حضرت بلھے شاہ کی شخصیت کا ایک نقش قائم کیاجاسکتا ہے۔
حضرت بابا بلھے شاہ کی جیون کہانی میں تسلسل نہیں ہے،اس کمی کو قیاسات اور کہیں کہیں ان کی شاعری کے حوالے سے پورا کیاجاسکتا ہے۔ پرانے تذکروں میں خزینہ الاصفیا، نافع السالکین میں حضرت بلھے شاہ کے بارے میں چند ایک معلومات ہیں لیکن ان میں بھی تضاد ہے۔
حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔ حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورشن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہوناچاہئے۔
اسی قسم کا ابہام حضرت بلھے شاہ کے سال پیدائش کے بارے میں بھی ہے کسی نے تاریخ کا حتمی تعین نہیں کیا.... خزینہ الاصفیا1858 میں شائع ہوئی تھی، اس کے مصنف مفتی غلام سرور لاہور ی نے حضرت بلھے شاہ کے حالات کے بیانات میں ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے لیکن 1750 ان کا سن وفات بتایا ہے۔ سب سے پہلے ایک انگریز افسر سی ایف آسبورن نے حضرت بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر ایک کتابچہ جس میں ان کا سن پیدائش 1680اور سن وفات1753 بتائی ہے۔ کلیات بلھے شاہ کے مرتب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں ” بلھے شاہ تے پمفلٹ دے منصف مسٹر آسبورن نیں اوہدی تاریخ پیدائش 1680 تے تاریخ وفات 1785لخی اے ایس حساب نال اوہدی عمر اک سوپنج ورہے بن دی اے پر آسبورن صاحب کول ایس دعوے دا کوئی ثبوت نہیں“۔
فقیر احمد فقیر نے اوسبورن کا اصل انگریزی متن نہیں دیکھا کیونکہ اصل متن میں حضرت بلھے شاہ کا سن وفات 1753 لکھا ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی عمر 78 سال بنتی ہے۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا نے اپنی کتاب پنجابی صوفی شعرا میں اوسبورن کی بیان کردہ تواریخ پر اعتماد کیا ہے۔ یہی غلطی تاجونتی راما کرشنا نے بلھے شاہ پر اپنے مضمون میں کی ہے۔اس نے بھی غالباً اوسبورن کا مضمون نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے حضرت بلھے شاہ کی عمر کے تعین کے بارے میں اردو کے اہم محقق مولوی محمد شفیع کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے ایک پرانامسودہ تعویذات اور فالناموں وغیرہ کے بارے میں دیکھا ہے جس کی تحریر میں حضرت بلھے شاہ کی اجازت بھی شامل ہے،اس پر حضرت بلھے شاہ کی مہر ثبت ہے جو حسب ذیل ہے۔
1181 بلھا شاہ قادری
اگر اس مہر کو واقعی حضرت بلھے شاہ کی مہر تصور کرلیاجائے تو اس کے مطابق وہ 1760 بحیات تھے، اس انکشاف سے آسبورن اور دوسرے مصنفوں کے حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اور وفات کے بارے میں بیانات قیاسیات میں بدل جاتے ہیں۔اس مخطوطے میں حضرت بلھے شاہ کا نام ان القابات کے ساتھ لکھا گیا ہے ۔
” حضرت سید عبداللہ عشقی عرف میاں بلہ شاہ جیو فقیر جناب سید عبدالقادر جیلانی“۔
جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورشن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں۔
پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔
حضرت بلھے شاہ کی وجہ سے یہ گمنام قصبہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے اس کی اہمیت کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یہاں حضرت بلھے شاہ کی جوانی کا کچھ حصہ بسر ہوا تھا، یہاں وہ مسجد بھی موجود ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے اور جس کی تعمیر پانڈو خاں نے کی تھی حضرت بلھے شاہ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے پانڈو کے میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بلھے شاہ کے والدہ کی ہے جس کا نام فاطمہ بی بی تھا اس کے دائیں اور بائیں اس کی دو بہنوں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی کی قبریں ہیں ۔حضرت بلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہےں ۔ اس سے ملحقہ پانڈو خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے۔ مسجد کے احاطے میں چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ایک خستہ سا کنواں ہے جو اب بھی جاری ہے۔
حضرت بلھے شاہ پانڈو کے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ایک اجنبی سکھ گھوڑے پر سوار پانڈو کے میں سے گزررہا تھا کہ اہل دیہہ نے اعتراض کیا کہ وہ گھوڑے سے نیچے اتر کر گاں میں سے گزرے۔ اس بات پر تکرار شروع ہوگئی حضرت بلھے شاہ نے مصالحت کرانے کی کوشش کی تو اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ پر پتھرا شروع کردیا، اس سکھ اور حضرت بلھے شاہ نے ایک قریبی گاں دفتور کے گردوارے میں جان بچائی۔ بعد میں سکھوں نے پانڈوکے پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے گاں واپس آجائےں لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اہل دیہہ کے بزدلانہ رویے پر حضرت بلھے شاہ نے کہا تھا....
بلھیا جے توں غازی بننا ایں لک بن تلوار
پہلے رہنگڑ مارکے پچھوں کافرمار
حضرت بلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بلھے شاہ کے علاوہ وارث شاہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔
مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔
حضرت بلھے شاہ کا حقیقی نام سید عبداللہ شاہ تھا لیکن عرف عام میں وہ بلھے شاہ کے nick name سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ پنجابی کلچر میں اصل ناموں سے عرف بنانا ایک عام سی بات ہے، بلھے شاہ نے یہ نام اپنے لئے خود تجویز کیا تھا یا ان کے جاننے والوں نے یہ نام رکھا تھا اس بارے میںکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ اگر حضرت بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں اسے ایک تخلص کے طورپر استعمال کیا۔اس کی ایک اور صوفیانہ تاویل کی جاسکتی ہے۔ بُھلا سے مراد بھولا ہوا بھی ہے، یعنی وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ بلھے شاہ کا nick name اتنا مشہور ہوا کہ لوگ ان کے اصل نام سید عبداللہ شاہ کو بھول گئے ہیں۔
یہ معلوم نہیں کہ حضرت بلھے شاہ کتنا عرصہ قصور میں زیر تعلیم رہے اور وہ کب واپس اپنے گاں گئے اور وہاں ان کی مصروفیات کیا تھیں۔ حضرت بلھے شاہ امام مسجد کے بیٹے تھے اوردن بھر وہ مویشی چراتے رہتے۔ حضرت بلھے شاہ نے کس عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا روحانی سفر کس طرح شروع ہوا یہ حقائق پوشیدہ ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی شاعری میں بھی ان کی شخصی زندگی کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیتی۔ اس صورتحال میں حضرت بلھے شاہ کی سوانح کو چند ایک حقائق اور بہت سے مفروضات اور قیاسات کے ذریعے ہی مکمل کیاجاسکتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے بار ے میں قصے کہانیوں میں بھی ان کی کرامتوں اور غیر معمولی روحانی طاقت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے شارحین نے بھی ان کی شاعری کی وضاحت اسی نقطہ نظرسے کی ہے۔
بلھے شاہ کی زندگی کے چند ایک واقعات کا بیان بھی ضروری ہے جن سے کم سے کم ان کی افتاد طبع کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک حد تک erratic بھی تھے وہ اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے وہ نہ صرف پانڈو کی سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔
حضرت بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہوتا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، لاہور میں اچی مسجدکے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہوکر گاں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا جو حضرت بلھے شاہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔ حضرت بلھے شاہ اپنے گاںکے لوگوں کیلئے odd man out تھے۔ حضرت بلھے شاہ کے وقائع نگاری اس کی زندگی کے ہر پہلو کو معجزہ یا کرامت ثابت کرنے کیلئے اسے انسانی خصائص سے محروم کردیتے ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں بہت قلیل مواد کے باوجود ان کے بعض رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔
پانڈو کے آج بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ گاں کے درمیان ایک چھوٹی سی نیم پختہ گلی ہے جس کے اردگرد کچے پکے مکان ہیں، چند ایک دکانوں کے علاوہ وہاں کوئی کاروبار نہیں ہے، آج کے پانڈو کے اور حضرت بلھے شاہ کے پانڈوکے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے والد نے انہیں چرواہا بنایا لیکن حضرت بلھے شاہ کو یہ پیشہ منظور نہیں تھا۔ حضرت بلھے شاہ کی اپنے والد کے خلاف یہ بغاوت تھی وہ مسجد کا امام بھی نہیں بنناچاہتے تھے۔
وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرناچاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے۔اس زمانے میں قصور کا حاکم ایک پٹھان نواب تھا جس کی بداعمالیوں کی وجہ سے قصور ایک بے برکت شہر تھا جہاں بد امنی تھی وہاں حضرت بلھے شاہ کس کام میں مصروف رہے اس کے بارے میں ان کی سوانح حیات خاموش ہے....
قصور بے دستور اوتھے جانا بنیا ضرور
نہ کوئی پن نہ کوئی دان ہے نہ کوئی لاگ دستور
حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو واقعات ہم تک پہنچتے ہیں ان کے مطابق اس میں انسانی برابری، لوگوں کی مدد، طبیعت میں درویشی کے رجحانات نمایاں تھے، اسی ناطے اس کی ابتدائی کرامتوں کا ذکر بھی کیاجاتا ہے۔


عُرس مبارک بابا بُلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ


Aug 25, 2015

روحانی علاج - قد میں اضافہ کے لئے


 ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ تقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔  اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا
اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ  کسی مستحق کو کم ازکم  ایک وقت کا کھانا  (یا اس کے برابر رقم) خیرات کر دیں یااس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ  خیرات کر دے۔

Aug 17, 2015

بابا تاج الدین ناگپوریؒ - چند پشین گوئیاں


ایک زمانہ میں روزانہ گاندھی جی حاضر دربار ہوتے اور بابا تاج الدینؒ ہمیشہ ان کو ڈانٹتے مگر وہ پرواہ نہ کرتے حاضری روزانہ جاری رہی-
اسی زمانہ میں محمد علی، شوکت علی ناگپور آئے انھوں نے حاضر ہونے کے بجائے راجہ صاحب کو لکھا کہ بابا مرشد سے ملنے کا وقت مقرر کریں- راجہ صاحب پریشان تھے بابا مرشد بھلا کس کو وقت دینے والے تھے- اتفاقاََ خود بابا تاج الدینؒ نے فرمایا ۔ جمعہ کے دن چار بجے ہمارے ساتھ چائے پئیں- چنانچہ راجہ صاحب نے ان کو مطلع کر دیا- جمعہ کو چائے کا وسیع پیمانے پر انتظام ہوا، بابا تاج الدینؒ  ٹھیک وقت پر برآمد ہوئے، چائے طلب کی اور حکم دیا ، حاضرین کو چائے پلاؤ، چنانچہ حاضرین کو چائے پلا دی گئی - مولانا شوکت علی، محمد علی وقت مقررہ پر نہ آ سکے تھے- پانچ بجے بابا تاج الدینؒ نے سواری طلب کی، زائرین نے بابا تاج الدینؒ کے گلے میں ہار ڈالے ، گاڑی شہر کی طرف جا رہی تھی کہ سامنے سے علی برادران کی موٹر آئی اور بابا تاج الدینؒ کی گاڑی والے ہیرا کوچوان (آپؒ کا مزاج آشنا اور ذاتی کوچوان تھا)  نے گاڑی روک لی، علی برادران کار سے اترے اور بابا مرشد سے سلام کیا-
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا  !  بابا السلام علیکم
علی برادران نے کہا ۔  بابا دعا کرو اسلام کی فتح ہو-
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا ! بابا دعا کرو اسلام کی فتح ہو۔
اس کے بعد بابا تاج الدینؒ نے ہیرا کوچوان سے فرمایا  ! کیوں رے ! ان کو ہار دے دوں۔
اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ہاں ! بابا دے دو-
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا  " میں کیا دوں گا تو ہی دے دے"  
یہ سن کر ہیرا نے کچھ ہار اٹھا کر علی برادران کو دے دیئے بابا تاج الدینؒ نے فرمایا  !"  جاؤ ، پھاٹک دیکھو"
علی برادران اس کا مطلب کچھ نہ سمجھے، بابا تاج الدینؒ کی سواری شہر کی طرف روانہ ہو گئی، ادھر نکلی جہاں اس رات کانگریس کا جلسہ ہونے والا تھا، خلافت اور کانگریس کی چل رہی تھی، علی برادران خلافت کے سلسلہ میں جلسہ کرنے والے تھے، گاندھی جی، بابا تاج الدینؒ  کی آمد آمد کا شہرہ سن کر لب راہ آئے اور سلام کیا ، بابا تاج الدینؒ نے فرمایا
"جاؤ ، آٹھ سو کوے اڑا دیئے"
وہ کچھ بھی نہ سمجھے، رات کو جلسہ ہوا تو آٹھ سو ممبران کٹ کر گاندھی جی کی طرف آ گئے تو ان کی سمجھ میں آ گیا-
علی برادران کو بابا تاج الدینؒ نے اپنے ہندو کوچوان کے ہاتھ سے جو ہار دلائے تھے اس کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ ہندو سے ہار گئے، پھر جب وہ بمبئی پہنچے اور گرفتار ہو کر داخل جیل ہوئے تو ان کی سمجھ میں آیا۔ "جاؤ پھاٹک دیکھو"   کا کیا مطلب ہے۔ یہاں پہنچ کر علی برادران کو احساس ہوا کہ بابا تاج الدینؒ ولی ِکامل ہیں اور ہم نے غلطی کی جو حاضر دربار ہونے میں کوتاہی کی، وقت طلب کیا، پھر وقت پر نہ پہنچے اور پہنچے تو اخلاص نہ تھا، محض لوگوں کے کہنے سننے سے حاضر ہو گئے، نادم ہو کر بابا تاج الدینؒ  کو خط لکھا، معافی چاہی، پھر علی برادران کی والدہ حاضر ہوئیں تو بابا تاج الدینؒ نے فرمایا-
محمدعلی، شوکت علی گھاس کو کہتے ہیں
 ایک بار محمد علی صاحب سے آپ نے فرمایا
"تمہاری مراد لندن میں ہے"
چنانچہ وہ لندن گئے اور وہاں انتقال ہو گیا-
ایک بار گاندھی جی سے فرمایا
"جھاڑو لے کر پہاڑ پر چڑھ جاؤ"
جھاڑو سے مراد اتحاد باہمی اور پہاڑ پر چڑھ جانے سے مطلب حکومت انگلینڈ پر غالب آنا تھا

 جنگ بلقان اور بابا تاج الدین کی پیش گوئی
1909ء کے ابتدائی زمانہ میں واکی شریف میں بابا تاج الدینؒ مقیم تھے۔ پروفیسر محمد عبدالقوی صاحب لکھنوی کے ساتھ میں حاضر ہوا- بابا مرشد واکی سے سات آٹھ میل دور کسی جنگل میں تھے، ہم وہاں پہنچے - حضور ایک کھیت میں تشریف فرما تھے، چاروں طرف ببول کے درخت تھے، حاضرین درخت کے سایوں میں بیٹھے تھے، بابا مرشد کھیت میں پتھر چن چن کر ڈھیر بنا رہے ھے- ہم دونوں بھی سلام کرنے کے بعد یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ دو ڈھائی فٹ اونچا ڈھیر تیار ہو گیا- اس کے بعد حضورؒ نے ایک لکڑی ہاتھ میں میں لے کر فوجی احکام جاری فرمانا شروع کر دیئے، لکڑی سے اشارہ کرتے تھے اور فرماتے تھے-
" فلاں ڈویژن ادھر مارچ کرو، فلاں ڈویژن ادھر مارچ کرو، فلاں ڈویژن ادھر جاؤ"
"اٹیک - فائر – شوٹ"
اس قسم کے احکام ایک خاص کیفیت میں جاری فرما رہے تھے- اس کے بعد آپ نے فرمایا
" وہ بھاگے یونانی ، یونانی بھاگے، پکڑو پکڑو "
اس کے بعد حضور نے فرمایا " یونانیوں کی ہم نے کمر توڑ دی، اب کبھی مقابلے میں کھ‍ڑے نہ ہوں گے" اس کے بعد وہ لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی،آپ نے پتھر کی بڑی ڈھیری پر یہ کہہ کر نصب کر دی کہ "یہ ترکی کا جھنڈا ہے ترکوں کی فتح ہوگی"
حضور کے چہرے پر اس وقت بشاشت تھی، مژدہ فتح سنا رہے تھے
دو تین روز بعد اخباروں میں خبر آ گئی کہ یونانیوں کو شکست فاش ہوئی ، ترکوں کے ہاتھ زبردست مال غنیمت آیا- جنگ بلقان کی فتح ترکوں کو نصیب ہوئی -
راوی فرید صاحب فضا – عقیدتمند بابا تاج الدین ناگپوریؒ
--
عالمگیر جنگ
ایک مرتبہ میری موجودگی میں آپ نے پانی مانگا ، اور پینا شروع کیا آپ گلاس پر گلاس پیتے جاتے تھے اور لوگ دوڑ کر لالا کر دیتے جاتے تھے ، پیتے رہے ، پیتے رہے یہاں تک کہ اندر محل کا اور مٹکوں کا ، گھڑوں کا پانی ختم ہو گیا ۔ جب ڈھائی تین گھنٹہ کا وقت گزر گیا، تب لوگوں نے دیکھا کہ حضور خاموش بیٹھے ہیں ،خدا جانے وہ پانی کدھر گیا اور کہاں گیا اور اپنی وہی محمدی بیٹھک بیٹھے رہے پھر شام کے وقت فرمایا کہ "سارے ہی پیاسے تھے۔ جی وہ حضرت اور زخمی بھی تھے انکو وہاں پانی کہاںملتا جی ، وہ جنگ کا میدان جی حضرت " 
 یہ دوران ِ جنگ کا واقعہ ہے اور اس وقت عالمگیر جنگ لگی ہوئی تھی جس وقت یہ کرامت ظہور پذیر ہوئی ۔عام طور پر بلا تخصیص مذہب و ملت خواہ ہندو ، خواہ مسلمان ، سکھ، عیسائی ، برہمن ، پارسی وغیرہ سارے لوگ اپنی اپنی مرادیں عرض کرتے اور جھولیاں بھرلے جاتے ، روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے۔