Aug 22, 2017

فضائلِ حج - تحریر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

فضائل حج:
قرآن پاک اور احادیث میں حج کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب بیت اللہ شریف کی تعمیر پوری مکمل کر دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔
 حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا: ’’یا اللہ! میری آواز کس طرح پہنچے گی۔ یہاں ہم تین آدمیوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ابراہیم! آواز پہنچانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ نے حج کا اعلان کر دیا۔ اس آواز کو آسمانوں اور زمین میں اور اس کے درمیان جتنی بھی مخلوق ہے سب نے سنا۔
موجودہ دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ آواز ہزاروں میل دور سنی جا سکتی ہے۔ لاسکی نظام کے تحت یا برقی نظام کے بغیر ہوا کے دوش پر آواز پھیلتی ہے۔ اور جگہ جگہ سنائی دیتی ہے۔ یہ جتنے سائنسدان ہیں۔ اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں۔ دماغ، عقل، شعور و فہم و تفکر سب اللہ کا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر فکر و فہم نہ دے تو کوئی آدمی سائنسدان نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ ماں کے بطن سے پیدا نہ کرے تو کوئی سائنسدان نظر نہیں آئے گا۔ جس اللہ نے سائنسدان تخلیق کر دیئے ہیں۔ اس قادر مطلق کے لئے یہ مشکل نہیں تھا اور نہیں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی آواز کو پوری کائنات میں پھیلا دے اور کائنات کی مخلوق اس آواز کو سن لے۔ حج کا یہی وہ اعلان ہے جس کے جواب میں حاجی حضرات حج کے دوران لبیک الھم لبیک کہتے ہیں۔
 رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس شخص نے بھی خواہ وہ پیدا ہو چکا تھا یا ابھی عالم ارواح میں تھا حضرت ابراہیمؑ کی آواز سن کر لبیک کہا وہ حج ضرور کرتا ہے۔‘‘
یہ بھی ارشاد ہے کہ جس نے ایک مرتبہ ’’لبیک‘‘ کہا وہ ایک مرتبہ حج کرتا ہے جس نے دو مرتبہ حج کہا وہ دو مرتبہ حج کرتا ہے اور جس نے زیادہ مرتبہ لبیک کہا اس کو اتنے ہی حج نصیب ہوتے ہیں۔
ترجمہ: ’’حج کے چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں۔ پس جو شخص ان ایام میں اپنے اوپر حج مقرر کر لے تو پھر نہ کوئی فحش بات جائز ہے اور نہ حکم عدولی درست ہے اور نہ کسی قسم کا جھگڑا زیبا ہے اور جو نیک کام کرو گے اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۲۵)
یہود کے علماء نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کیا کہ تم قرآن پاک میں آیت پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم نازل ہوتی تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا۔’’وہ کون سی آیت ہے؟‘‘ یہودی علماء نے عرض کیا۔
’’الیوم اکملت لکم دینکمo‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کہاں نازل ہوئی۔ ہمارے یہاں دو عیدیں ہیں ایک جمعہ کا دن، دوسرا عرفے کا دن۔ عرفے کا دن بھی حاجی کے لئے عید کا دن ہے۔‘‘
یہ آیت جمعہ کے دن شام کے وقت عصر کے بعد اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہﷺ عرفات کے میدان میں اپنی اونٹنی پر تشریف فرما تھے۔
حدیث شریف میں ہے کہ اس آیت کے بعد حلال و حرام کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوا۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ کی اونٹنی بوجھ کی وجہ سے بیٹھ گئی۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب حضورﷺ اونٹنی پر سوار ہوتے اور وحی نازل ہوتی تو اونٹنی اپنی گردن گرا دیتی اور جب تک وحی کا سلسلہ قائم رہتا اونٹنی حرکت نہیں کر سکتی تھی۔
حج کے اہم فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تکمیل دین سے متعلق آیت مبارکہ حج کے موقع پر نازل ہوئی۔
ترجمہ: ’’آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے کامل اور مکمل بنا دیا اور تم پر اپنا انعام پورا کر دیا۔ اور میں نے اسلام کو تمہارے دین بننے کے لئے پسند کر لیا۔‘‘
(سورۃ المائدہ۔۱)
حج اور عمرہ کے فضائل کے بارے میں بہت ساری احادیث ہیں۔
ترجمہ:’’حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اس طرح کہ اس حج میں نہ رفث ہو(یعنی فحش بات) اور نہ فسق ہو(یعنی حکم عدولی) وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔‘‘
(متفق علیہ مشکوٰۃ)
* ایک مرتبہ حضرت عمرؓ صفا مروہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ ایک جماعت آئی جو اپنے اونٹوں سے اتری اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ صفا مروہ کے درمیان سعی کی حضرت عمرؓ نے سے دریافت کیا، ’’تم لوگ کون ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ عراق کے لوگ ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ انہوں نے کہا، حج کے لئے۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا۔’’کیا کوئی اور غرض بھی ہے۔ مثلاً اپنی میراث کا کسی سے مطالبہ ہو یا کسی قرض دار سے روپیہ وصول کرنا ہو یا کوئی اور تجارتی غرض ہو۔‘‘
انہوں نے کہا۔ ’’نہیں کوئی دوسری غرض نہیں ہے۔‘‘
آپؓ نے فرمایا:’’تمہارے پہلے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں۔‘‘
* نبی کریم نے ایک حدیث پاک میں ارشاد فرمایا کہ حج کی خوبی نرم کلام کرنا اور لوگوں کو کھانا کھلانا ہے لہٰذا کسی سے سختی سے گفتگو کرنا، نرم کلام کے منافی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں پر بار بار اعتراض نہ کرے، کسی کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئے، ہر شخص سے تواضع، حلم اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے۔
* حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے۔
’’نیکی والے حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
* ایک جماعت سعدون خولانیؒ کے پاس آئی اور ان سے یہ قصہ بیان کیا کہ قبیلہ کنامہ کے لوگوں نے ایک شخص کو قتل کر دیا۔
رات بھر اس پر آگ جلاتے رہے مگر آگ نے اس پر ذرا بھی اثر نہیں کیا۔ سعدونؒ نے فرمایا:
’’شاید اس شخص نے تین حج کئے ہونگے۔‘‘
لوگوں نے کہا۔ ’’جی ہاں! اس نے تین حج کئے تھے۔‘‘
سعدونؒ نے کہا۔’’مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ جس شخص نے ایک حج کیا اس نے اپنا فریضہ ادا کیا۔ جس نے دوسرا حج کیا اس نے اللہ کو قرض دیا اور جو تین حج کرنا ہے تو اللہ جل شانہ اس پر آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘
امام غزالیؒ نے ایک صاحب کشف صوفی کا قصہ لکھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
عرفہ کا دن شیطان نظر آیا۔ بہت ہی کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ نقاہت سے کمر جھکی ہوئی تھی۔ ان بزرگ نے شیطان سے پوچھا تو کیوں رو رہا ہے؟ اس نے جواب دیا۔ مجھے یہ بات رلا رہی ہے کہ حاجی لوگ بلا کسی دنیاوی غرض کے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ مجھے یہ غم ہے کہ اللہ پاک کی ذات ان لوگوں کو نامراد نہیں رکھے گی۔ انہوں نے پوچھا تو دبلا کیوں ہو گیا ہے؟ اس نے کہا۔ گھوڑوں کی آواز سے جو ہر وقت اللہ کے راستوں میں (حج، عمرہ، جہاد وغیرہ) پھرتے رہتے ہیں۔ کاش یہ سواریاں میرے راستے میں نہ ہوتیں۔ انہوں نے پوچھا۔ تیرا رنگ زرد کیوں پڑ گیا ہے؟ شیطان نے کہا۔ لوگ ایک دوسرے کو نیکیوں کی تلقین کرتے ہیں اور لوگ آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتے ان کی مدد کرتے ہیں۔ اگر یہ آپس کی امداد و اعانت گناہ کرنے میں ہوتی تو میں بہت خوش ہوتا۔ ان بزرگ نے پوچھا تیری کمر کیوں جھک گئی ہے؟ شیطان نے کہا۔ بندہ ہر وقت یہ کہتا ہے کہ یا اللہ خاتمہ بالخیر عطا کر۔ ایسا شخص جس کو اپنے خاتمہ کی ہر وقت فکر رہے نیک عمل کرتا ہے۔
ابن شمامہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمروبن العاصؓ کے پاس حاضر ہوئے ان کا آخری وقت تھا۔ حضرت عمرؓ بہت دیر روتے رہے۔ اس کے بعد اپنے اسلام لانے کا قصہ سنایا اور فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا کیا تو میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ بیعت کے لئے ہاتھ دے دیجئے۔ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ حضورﷺ نے اپنا دست مبارک پھیلایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔’’کیا بات ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا۔ حضورﷺ! میری ایک شرط ہے اور شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے پچھلے گناہ معاف کر دے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’عمر! تجھے یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام ان سب گناہوں کو دھو دیتا ہے جو کفر کی حالت میں کئے گئے ہوں۔ ہجرت ان سب نفرتوں کو ختم کر دیتی ہے جو ہجرت سے پہلے کی ہوں اور حج ان سب قصوروں کو صاف یعنی خاتمہ کر دیتا ہے جو حج سے پہلے کئے ہوں۔‘‘
حضورﷺ عرفہ کی شام عرفات کے میدان میں امت کی مغفرت کے لئے بہت الحام و زاری سے دعا مانگتے رہے۔ رحمت الٰہی کو جوش آ گیا۔ ارشاد ہوا۔ ’’میں نے تمہاری دعا قبول کر لی اور میرے بندوں نے جو گناہ کئے ہیں وہ معاف کر دیئے۔ البتہ ایک دوسرے پر جو ظلم کئے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر درخواست کی۔
’’یا اللہ! تو اس پر قادر ہے کہ مظلوم کے ظلم کا بدلہ عطا فرما دے اور ظالم کے قصور کو معاف کر دے۔‘‘ صبح مزدلفہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول کر لی۔ اس وقت حضورﷺ نے تبسم فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ میں ایسی حالت(الحام و زاری کی) میں تبسم فرمایا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کی تو شیطان آہ و واویلا کرنے لگا اور غم سے مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا۔‘‘
ایک صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کیا۔
’’یا رسول اللہﷺ! ہم اپنے مردوں کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں۔ حج کرتے ہیں۔ ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
یہ ان تک پہنچتا ہے؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔’’پہنچتا ہے اور وہ اس سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسا کہ تمہارے پاس طباق میں کوئی ہدیہ پیش کیا گیا ہو۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے۔
’’اللہ تعالیٰ(حج بدل میں) ایک حج کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں۔ ایک مردہ (جس کی طرف سے حج بدل کیا جا رہا ہے) دوسرا حج کرنے والا۔ تیسرا وہ شخص جو حج کرا رہا ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ:
’’حاجی کی سفارش چار سو گھرانوں میں مقبول ہوتی ہے اور حاجی اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا پیدائش کے دن تھا۔‘‘
حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے:
’’جب کسی حاجی سے ملاقات ہو تو اس کو سلام کرو۔ اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کے وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس سے اپنی مغفرت کے لئے دعا کراؤ۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
’’میں نے حضورﷺ سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ تمہارا جہاد حج ہے۔‘‘
ایک صحابی عورت نے حضورﷺ سے دریافت کیا۔ یا رسول اللہﷺ! میرے والد بوڑھے ہیں اور سواری پر سوار بھی نہیں ہو سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔’’ہاں! ان کی طرف سے حج کر سکتی ہو۔‘‘ ابن موفق کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کی طرف سے متعدد حج کئے۔ ایک مرتبہ خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپﷺ نے فرمایا۔’’اے ابن موفق! تو نے میری طرف سے حج کئے؟‘‘ میں نے عرض کیا۔ جی حضورﷺ کئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔’’تو نے میری طرف سے لبیک کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! جی ہاں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔’’میں قیامت کے روز اس کا بدلہ دونگا کہ حشر کے میدان میں تیرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کر دونگا۔


 حوالہ کتاب روحانی حج و عُمرہ 
از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
http://iseek.online/?p=11902


Apr 25, 2017

ٹی بی - تپِ دق کا روحانی و رنگ و روشنی سے علاج



ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب رُوحانی علاج سے اُن پریشانیوں یا مسائل کا روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن سے ہمارا معاشرہ عمومی طور پر متاثر ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔
اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا
اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ کم ازکم ایک وقت کا کھانا خیرات کر دیں یا اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ کم ازکم ایک وقت کا کھانا خیرات کر دے۔

Apr 24, 2017

Sufism (Sufi Order Azeemia) and Universal Brotherhood



Published in "The Nation" Dated 24-04-2017
http://nation.com.pk/E-Paper/Lahore/2017-04-24/page-6/detail-4

China and Pakistan adhere to two completely different socio-political systems, languages, customs, cultures and religions. The exemplary government-to-government relations and diplomatic ties were never impeded despite these glaring differences. Yet, Sino-Pakistan cultural exchanges do not complement these ties. It is evident from the fact that there are only 3 Confucius centers in Pakistan, which are in Islamabad only. But now when Beijing has launched China-Pakistan Economic Corridor in Pakistan, it needs to enhance cultural understanding. This only underlines the necessity of finding cultural similarities and shared identities based on the principles of constructivism.

It is interesting to analyse that how many similarities are found between Sufism in Pakistan and Taoism in China. The congruity of these two philosophies is a point of intellectual synchronisation between the two countries.

Father of Taoism, Lao Zhou, promoted passive behavior and harmony within one’s own self and nature. Taoism is acceptance of life, following one’s breath to find peace and practicing meditation for inner peace and harmony. Dao is the path to embrace wonder of life and joy in living. It is the acceptance of one’s own self, others and nature. It is the path to enlightenment and the practice of trusting one’s own intuitions. Therefore, to follow the Dao is to recognise the inner harmony and balance in all living things and systems.

These distinct features of Taoism are in conformity with the beliefs and practices of Sufi orders in Pakistan.

Pakistan inherited a culture of Sufism which always lived up to the principles of harmony, inner peace and eternal love. Sufis embraced people irrespective of their beliefs, norms and regions. All Sufi orders spread the message of brotherhood and humanity. Pakistani Sufi poet, Baba Bulhey Shah wrote extensively on avoiding labels. He did away with labels and worked for humanity only. Meditation has been a core practice in Sufi practices in one form or the other. A great Sufi sage, Muhammad Azeem Barkhia’s spiritual teachings of considering pleasure and pain as one and coming to the reality above all rightdoing and wrongdoing resonates with Ying-Yang theory of Taoism. Pakistani spiritual scholar of international repute, Khawaja Shamsuddin Azeemi has established a chain of 53 meditation halls worldwide. He has also been celebrating Adam Day annually to promote harmony in mankind. A genre of music, Qwali, is sung in nearly all Sufi orders. It is relatable to the chanting and instrumentations the Taoist priests use to achieve Dao. Sultan Bhao laid special emphasis upon breathing which he thought was the means to connecting to advanced forms of reality.

If this shared bond is rejuvenated, Chinese and Pakistani nation can be brought to the point of a shared cultural identity.

In Defense and Strategic Studies, Sun Zhou is taught at the universities of Pakistan. It sets a precedence for teaching Sufi traditions in both the nations. Extensive research should be undertaken to find common points and translate the Sufi sages of both the nations. Azeemi Sufi Order in Pakistan publishes a journal-cum-magazine, Qalander Shaoor (Neutral Thinking), in which it endeavours to find gleams of Sufism in civilisations all over the world, China being the one. This Sufi order also translates its publications in international languages including Chinese. Chinese government can do the same to familiarise its sages with Pakistani people and institutionalise this bond of shared identity. These studies need to be taught in school, college and university books. Special importance should be given to Sufi poetry, prose and music in holding bilateral cultural exchanges. Chinese embassy should hold these events of promoting harmony such as Adam Day in Pakistan and establish Pak-China meditation centers. More Confucius centers should be opened as they are a means to promote shared eastern values.

Utilising the force of Sufism in foreign policy and public diplomacy is not an entirely new idea. Sufism, in fact, is based on universal values which transcend times and boundaries and way more durable than economic pacts and strategic alliances. This was the reason that, in 2003, Nixon Centre held a conference on the role of Sufism in American foreign policy. Being a civilization rich in Sufi traditions, China only needs to rejuvenate this bond, which already exists within its cultural matrix, to develop a stronger people-to-people bond.

The writer is a researcher at the Institute of Strategic Studies, Islamabad.