Jul 20, 2015

طرزِ فکر

ایک طر ز فکر بندے کو خالق سے قریب کر تی ہے دو سری طر ز فکر خالق کو بندے سے دور کر تی ہے ۔ہم جس طر ز فکر سے جس قدر قریب ہو جا تے ہیں اسی منا سبت سے ہمارے اوپر رحمتوں اور صعوبتوں کے دروازے کھلتے رہتے ہیں ۔انعام یافتہ شخص آلام و مصائب کی زندگی سے نا آشنا ہو جا تا ہے اور یہ دنیا اس لئے جنت کا گہوارہ بن جا تی ہے ۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
از آوازِ دوست

Jul 12, 2015

رُوحانی علاج - ملازمت و روزگار کا حصول


ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ تقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔  اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا
اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ ( ایک دن کا کھانا) خیرات کر دیں یااس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ ادا کر دے۔

یا بدیع العجائب


Jul 7, 2015

رمضان المبارک 21-20 - یومِ شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ - فضائل و سیرت - از محمد احمد ترازی





(http://www.aalmiakhbar.com) از :محمد احمد ترازی

جنگ خیبر کا موقع ہے،لشکر اسلام نے قلعے کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے،مرحب کا پایہ تخت خیبرکا قلعہ فتح کرناآسان کام نہ تھا،اس قلعہ کو سر کرنے کے لیے پیغمبرانقلاب ﷺنے ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ر ضی اللہ تعالی عنہ کو جھنڈا عنایت فرماے اوردوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو، لیکن فاتح خیبر ہو نا تو کسی اور کے لیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے قلعہ فتح نہ ہوا،جب اس مہم میں بہت زیادہ دیر ہوئی تو ایک دن پیغمبرانقلاب ﷺنے فرمایا کہ کل میں  جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص اللہ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں،حضور ﷺکی اس خوشخبری کو سن کر صحابہ کرام نے وہ رات بڑی بیقراری میں کاٹی،ہر صحابی کی یہ تمنا تھی کہ اے کاش!رسول اللہ ﷺکل صبح اسے جھنڈا عنایت فرمائیں تو اس بات کی سند ہو جائے کہ ہم اللہ و رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ و رسول ہمیں چاہتے ہیں اور اس نعمت عظمیٰ و سعادت کبریٰ سے بھی سرفراز ہو جاتے کہ فاتح خیبر جاتے۔

دراصل وہ صحابی تھے ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ ﷺنے جو کچھ فرمایا ہے وہ کل ہو کر رہے گا، اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو سکتا،جب صبح ہوئی تو تمام صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین امید یں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ نبی کریم ﷺآج کس کو سرفراز فرماتے ہیں، سب کی ارمان بھری نگاہیں حضور ﷺکے لب مبارک کی جنبش پر قربان ہو رہی تھیں کہ پیغمبرانقلاب ﷺنے فرمایا،
این علی بن ابی طالب،یعنی علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟
 لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں ان کی آنکھیں دکھتی ہیں
 آپﷺ نے فرمایا کوئی جاکر ان کو بلالائے،
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ لائے گئے تو رحمت عالم ﷺنے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں، پھر حضور ﷺنے ان کو جھنڈا عنایت فرمایا،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ،
حضور ﷺنے فرمایا تم ان کو اسلام کی طرف بلاو اور پھر بتلاو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا حقوق ہیں،خدا قسم اگر تمہاری کوشش سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہوگا۔ بخاری، مسلم

لیکن اسلام قبول کرنے یا صلح کرنے کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرنے کےلئے مرحب رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر نکلا،وہ بڑے گھمنڈ سے آیا تھا لیکن شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا، اس کے بعد آپ نے فتح کا اعلان فرما دیا،
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز آپ نے خیبر کا دروازہ اپنی پیٹھ پر اٹھالیا تھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کر لیا،اس کے بعد آپ نے وہ دروزہ پھینک دیا،جب لوگوں نے اسے گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اٹھا نہ سکے۔ تاریخ الخلفاءصفحہ 114

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی ذات وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوںکی جامع ہے کہ آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفےٰ ﷺبھی ،حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی ،حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر نامدار بھی اور حسنین کریمین کے والد بزرگو ار بھی ،صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی ،عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی ،علم والے بھی اور حلم والے بھی ،فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی،غرضیکہ آپ بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہیں اور ہر ایک میں ممتاز ویگانہ روزگار ہیں اسی لئے دنیا آپ کو مظہر العجائب والغرائب سے یاد کرتی ہے اور قیامت تک اسطرح یاد کرتی رہے گی۔

آپ کا نام نامی ”علی بن ابی طالب ،بن عبد المطلب، بن ہاشم بن عبد مناف ہے “ اور کنیت ابوالحسنین و ابو تراب ہے،طالب کے صاحبزادے ہیں یعنی حضور ﷺکے چچازاد بھائی ہیں،آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت اسد ہاشمی ہے اور وہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔ تاریخ الخلفاءص113

لوگ آپ کو حیدربھی کہتے ہیں،حیدر دراصل حضرت علی کے نانا اسد کا نام تھا ،جب آپ پیدا ہوئے تو اس وقت آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے باپ کے نام پر ''حیدر '' رکھا پھر بعد میں ابو طالب نے اپنی طرف سے بیٹے کا نام ''علی '' رکھا اورجیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے حضرت علی فرمایا کرتے تھے ، خود میرے نزدیک ”ابو تراب“ سے زیادہ پسندیدہ کوئی نام نہیں ہے،آپ 30 عام الفیل میں پیدا ہوئے اور اعلان نبوت سے پہلے ہی مولائے کل سید الرسل جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺکی پرورش میں آئے کہ جب قریش قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو حضور ﷺنے ابو طالب پر عیال کا بوجھ ہلکا کرنے کےلئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو لے لیا تھا،اس طرح حضور ﷺکے سائے میں آپ نے پرورش پائی اور انہی کی گود میں ہوش سنبھالا،آنکھ کھو لتے ہی حضور ﷺکا جمال جہاں آرا دیکھا ،انہی کی باتیں سنیں اور انہی کی عادتیں سیکھیں،اس لئے بتوں کی نجاست سے آپکا دامن کبھی آلو دہ نہ ہوا اور آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی ، اسی لئے کرم اللہ وجہہ الکریم آپ کا لقب ہوا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے،تاریخ الخلفاءمیں ہے کہ جب آپ ایمان لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک دس سال تھی بلکہ بعض لوگوں کے قول کے مطابق نو سال اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ سال اور کچھ لوگ اس سے بھی کم بتاتے ہیں،
آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل محمد بن اسحاق نے اس طرح بیان کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺکو اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺسے پوچھا کہ آپ لوگ یہ کیا کر رہے تھے،حضور ﷺنے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا دین ہے جس کو اس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے اور اسی کی تبلیغ و اشاعت کےلئے اپنے رسول کو بھیجا ہے،لہٰذا میں تم کو بھی ایسے معبود کی طرف بلاتا ہوں جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں تم کو اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہوں،
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا کہ جب تک میں اپنے باپ ابو طالب سے دریافت نہ کر لوں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا،چونکہ اس وقت حضور ﷺکو راز کا فاش ہونا منظور نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا 
اے علی! اگر تم اسلام نہیں لاتے ہوتو ابھی اس معاملہ کو پوشیدہ رکھو کسی پر ظاہر نہ کرو،حضرت علی رضی اللہ عنہ اگر چہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایمان کو راسخ کر دیا تھا دوسرے روز صبح ہوتے ہی حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کو قبول کر لیا اسلام لے آئے۔

پیغمبر انقلاب ﷺنے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکہ معظمہ سے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بلا کر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے لہٰذا میں آج مدینہ روانہ ہو جاوں گا تم میرے بستر پر میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر سو رہو تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی ساری امانتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں انکے مالکوں کو دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا،
یہ موقع بڑا ہی خوفناک اور نہایت خطرہ کا تھا،حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ کفار قریش سونے کی حالت میں حضور ﷺکے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺکو اپنے بستر پر سونے سے منع فرمادیا ہے،آج حضور ﷺکا بستر قتل گاہ ہے،لیکن اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ ﷺکے اس فرمان سے کہ"تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی امانتیں دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا"

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو پورا یقین تھا کہ دشمن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے میں زندہ رہوں گا اور مدینہ ضرور پہنچوں گا،لہٰذا پیغمبر انقلاب ﷺکا بستر جو آج بظاہر کانٹوں کا بچھونا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا، اس لئے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے مگر حضور ﷺکے فرمان کے خلاف نہیں ہو سکتا،حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام سے سویا صبح اٹھکر لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو سونپنا شروع کیں اور کسی سے نہیں چھپا اسی طرح مکہ میں تین دن رہا پھر امانتوں کے ادا کرنے کے بعد میں بھی مدینہ کی طرف چل پڑا،راستہ میں بھی کسی نے مجھ سے کوئی تعارض نہ کیا یہاں تک کہ میں قبا میں پہنچا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ پیغمبر انقلاب ﷺکے داماد اور چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ”عقد مواخات “ میں بھی آپ کے بھائی ہیں جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے جب مدینہ طیبہ میں اخوت یعنی بھائی چارہ قائم کیا دو دو صحابہ کو بھا ئی بھائی بنایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ نے سارے صحابہ کے درمیان اخوت قائم کی،ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا بھائی بنایا مگر مجھ کو کسی کا بھائی نہ بنایا میں یوں ہی رہ گیا، تو پیغمبر انقلاب ﷺنے فرمایا
انت اخی فی الدنیا والاٰخرت
" تم دنیا اور آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو"۔ مشکوٰۃ شریف564
  
جنگ احد میں جب کہ مسلمان آگے اور پیچھے سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کے سبب بہت سے لوگ شہید ہوئے تو اس وقت پیغمبر انقلاب ﷺبھی کافروں کے گھیرے میں آگئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اے مسلمانو! تمہارے نبی قتل کر دیئے اس اعلان کو سن کر مسلمان بہت پریشان ہو گئے یہانتک کہ اِدھر ادھر ہو گئے بلکہ ان میں سے بہت لوگ بھاگ بھی گئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے مسلمانوں کو آگے پیچھے سے گھیر لیا اور رسول اللہ ﷺمیری نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو پہلے میں نے حضور ﷺکو زندوں میں تلاش کیا مگر نہیں پایا پھر شہیدوں میں تلاش کیا وہاں بھی نہیں پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ حضور ﷺمیدان جنگ سے بھاگ جائیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک ﷺکو آسمان پر اٹھالیا،اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ میں بھی تلوار لیکر کافروں میں گھس جاوں یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاوں۔

فرماتے ہیں کہ میں نے تلوار لیکر ایسا سخت حملہ کیا کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھ لیا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے یقین کیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے حبیب ﷺکی حفاظت فرمائی،میں دوڑ کر حضورﷺکے پاس جا کر کھڑا ہوا کفار گروہ در گروہ حضورﷺپر حملہ کرنے کےلئے آنے لگے،آپ نے فرمایا علی ان کو روکو ،تو میں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ پھیر دیئے اور کئی ایک کو قتل بھی کیا،اس کے بعد پھر ایک گروہ اور حضور ﷺپر حملہ کرنے کی نیت سے بڑھا آپ نے پھر میری طرف اشارہ فرمایا تو میں نے پھر اس گروہ کا اکیلے مقابلہ کیا،اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر حضور ﷺسے میری بہادری اور مدد کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا 
انہ منی وانا منہ،یعنی” بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،
مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمال قرب حاصل ہے نبی اکرم  ﷺکے اس فرمان کو سن کر حضرت جبرائیل نے عرض کیا 
"وانا منکما، یعنی”میں تم دونوں سے ہوں
  
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی فضیلت میں اتنی حدیثیں وارد ہیں بلکہ امام احمد رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں کسی اور صحابی کی فضیلت میں اتنی حدیثیں نہیں ہیں، بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم فرمایا اور اپنے ساتھ نہ لیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے یہاں عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں،تو سرکار مدینہ ﷺنے فرمایا،کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے،البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا،مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جانے کے وقت چالیس د ن کے لئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ بنایا تھا اسی طرح جنگ تبوک کی روانگی کے وقت میں تم کو اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر جا رہا ہوں، لہٰذا جو مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام کا تھا وہی مرتبہ ہماری بارگاہ میں تمہارا ہے،اس لئے اے علی !تمہیں خوش ہونا چاہےے،تو ایسا ہی ہوا کہ اس خوشخبری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی ہو گئی،

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺنے فرمایا 
علی سے منافق محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا  ۔ ترمذی


طبرانی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور ترمذی و حاکم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں،
علامہ جلال الدین سیوطی رحمت اللہ علیہ اس حدیث کو حدیث حسن قرار دیتے ہیں ۔ تاریخ الخلفاءصفحہ116

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے بلایا اور فرمایا کہ تمہاری حالت حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے کہ یہودیوں نے ان سے یہاں تک دشمنی کی کہ ان کی والدہ حضرت مریم (رضی اللہ عنہا) پر تہمت لگائی اور نصاریٰ نے ان سے محبت کی تو اس قدر حد سے بڑھ گئے کہ ان کو اللہ یا اللہ کا بیٹا کہہ دیا،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو کان کھول کر سن لو،میرے بارے میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے،ایک میری محبت میں حد سے تجاوز کرے گا اور میری ذات سے ایسی باتوں کو منسوب کرے گا جو مجھ میں نہیں ہیں اور دوسرا اگر وہ اس قدر بغض و عداوت رکھے گا کہ مجھ پر بہتان لگائے گا ۔ تاریخ الخلفاء

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں،پیغمبر انقلاب ﷺکی بہت سے حدیث آپ سے مروی ہیں،آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے انمول جواہر پارے ہیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ کو دریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علم فرائض اور مقدمات کے فیصلہ کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺکے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو،(تاریخ الخلفاء)

شہادت
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے 17رمضان المبارک 40 ھ کو علی الصبح بیدار ہو کر اپنے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا آج رات خواب میں رسول اللہ ﷺکی زیارت ہوئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی امت نے میرے ساتھ کجروی اختیار کی ہے اور سخت نزاع برپا کر دیا ہے،حضور ﷺنے فرمایا تم ظالموں کے لئے دعا کرو،تو میں نے اس طرح دعا کی کہ یا الٰہ العالمین ! تو مجھے ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے اور میری جگہ ان لوگو پر ایسا شخص مسلط کر دے جو برا ہو،ابھی آپ یہ بیان ہی فرمارہے تھے کہ موذ ن نے آوازدی الصلات الصلات،حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لئے گھر سے چلے،راستے میں لوگوں کو نماز کے لئے آواز دے دے کر آپ جگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں ملعون  ابن ملجم آپ کے سامنے آگیا اور اس نے اچانک آپ پر تلوار کا بھرپوروار کیا وار اتنا سخت تھا کہ آپ کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری، شمشیر لگتے ہی آپ نے فرمایا :
فزت برب الکعبت ۔  یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا،
آپ کے زخمی ہوتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اور قاتل کو پکڑ لیا۔  تاریخ الخلفاء

حضرت عقبہ بن ابی صہبا کہتے ہیں کہ جب بد بخت ابن ملجم نے آپ پر تلوار کا وار کیا یعنی آپ زخمی ہو گئے تو امام حسن رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آپ کی خدمت میں آئے،آپ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا بیٹے!میری چار باتوں کے ساتھ چار باتیں یاد رکھنا،حضرت امام حسن نے عرض کیا وہ کیا ہیں فرمایئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا۔
اول سب سے بڑی تو نگری عقل کی توانائی ہے۔
دوسرے بیوقوفی سے زیادہ کوئی مفلسی اور تنگدستی نہیں۔
تیسرے غرور و گھمنڈ سب سے سخت و حشت ہے۔
چوتھے سب سے عظیم خلق کرم ہے۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ دوسری چار باتیں بھی بیان فرمائیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ
اول احمق کی محبت سے بچو،اس لئے کہ نفع پہچانے کا ارادہ کرتا ہے لیکن نقصان پہنچ جاتا ہے۔
دوسرے جھوٹے سے پرہیز کرو،اس لئے کہ وہ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور کر دیتا ہے۔
تیسرے بخیل سے دور رہو،اس لئے کہ وہ تم سے ان چیزوں کوپھرادے گا جنکی تم کو حاجت ہے۔
چوتھے فاجر سے کنارہ کش رہو،اس لئے کہ وہ تمہیں تھوڑی سی چیز کے بدلے میں فروخت کر ڈالے گا۔
 تاریخ الخلفاء

حضرت علی رضی اللہ عنہ سخت زخمی ہونے کے باوجود جمعہ و ہفتہ تک بقید حیات رہے لیکن اتوار کی رات میں آپ کی روح بارگاہ قدس میں پرواز کر گئی اور یہ بھی روایت ہے کہ 19رمضان المبارک جمعہ کی شب میں آپ زخمی ہوئے اور 21رمضان المبارک شب اتوار 40 ہجری میں آپ کی شہادت ہوئی،

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون،