Oct 30, 2014

عُرس مُبارک حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ ۔



فرموداتِ گنجِ شکر ؒ

* انسانوں میں رذیل ترین وہ ہےجوکھانےپینےاورپہننےمیں مشغول رہے۔
*   جوسچائی جھوٹ کےمشابہہ ہواسےاختیارمت کرو۔
*    نفس کواپنےمرتبہ کےلئےخوارنہ کرو۔
*اگر تم بزرگوں کامرتبہ چاہتےہوتوبادشاہوں کی اولادسےدوررہو۔
*     جب کوئی مومن بیمارہوتواسےمعلوم ہوناچاہیےکہ یہ بیماری اس کےلئےرحمت ہے۔جوگناہوں سےاس کوپاک کرتی ہے۔
*دوریش فاقےسےمرجاتےہیں مگرلذت نفس کےلئےقرض نہیں لیتے۔
*  جس دل میں اللہ کاذکرجاری رہتاہےوہ دل زندہ ہےاورشیطانی خواہشات اس پرغلبہ نہیں پاسکتیں۔
*وہ شےبیچنےکی کوشش نہ کروجسےلوگ خریدنےکی خواہش نہ کریں۔
*اچھائی کرنےکےلئےہمیشہ کسی بہانےکی تلاش میں رہو۔
*دوسروں سےاچھائی کرتےہوئےسوچوکہ تم اپنی ذات سےاچھائی کررہےہو۔
*ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھلا۔
* وہ لوگ جودوسروں کےسہارےجینےکاارادہ رکھتےہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس ہوتےہیں۔
*اطمینان قلب چاہتےہوتوحسدسےدوررہو۔

Oct 15, 2014

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا جذبہ خدمت خلق اور 1980 کی دہائی

1980 کی دہائی میں حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے میں خدمت خلق کے مشن کے تحت  روزنامہ جنگ اور روزنامہ مشرق میں لوگوں کے مسائل کا روحانی ، نفسیاتی اور رنگ و روشنی سے علاج پیش کیا۔ آپ سے بذریعہ خط و کتابت ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ سے زائد افراد نے اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں  استفادہ حاصل کیا۔ بالمشافہ  ملاقات کے ذریعے راہنمائی لینے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ سے خط و کتابت کے ذریعے ایک محتاط اندازے کے مطابق اوسطا  ماہانہ 9 ہزار  خطوط  کے ذریعے لوگوں کے انفرادی مسائل کا حل پیش کیا گیا۔  
سلسلہ عظیمیہ کے متوسلین ، عقیدت مندوں اور دوستوں کے لئے حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے مختلف اخبارات میں قارئین کےخطوط کے جواب میں شائع کردہ جوابات کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے۔



Oct 13, 2014

حضرت خواجہ شمس الدین کی علمی خدمات - ایک طائرانہ جائزہ


حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے الہٰی مشن کی ترویج کے لیئے تمام ذرائع ابلاغ کو استعمال فرمایاہے۔ اس سلسلہ میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے مختلف نشریاتی اداروں میں آپ کے لیکچرز ،اور  سوال و جواب کی نشستیں، روحانی علوم کے فروغ میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح کے ریڈیو اور ٹیلی وژن  چینلز کی فہرست جو عظیمی صاحب کے پروگرام نشر کر چُکے ہیں ، کچھ اس طرح ہے۔
پی ٹی وی، پاکستان
پی ٹی وی ورلڈ، پاکستان
انڈس ٹی وی، پاکستان
ویژن آف پاکستان، کینیڈا
چینل ایسٹ، برطانیہ
این، بی ، سی، امریکہ
اے – آر – وائی، متحدہ عرب امارات
آئی ٹی وی، نیو یارک ، امریکہ
ٹی وی ایشیا، برطانیہ
ریڈیو پاکستان، پاکستان
ایف ایم 100، پاکستان
ایف ایم 101، پاکستان
وائس آف امریکہ ، پاکستان
ریڈیو ابو ظہبی، متحدہ عرب امارات
ریڈیو کینیڈا، کینیڈا
ریڈیو ڈنمارک، ڈنمارک
ریڈیو بریڈ  فورڈ، برطانیہ
بی بی سی، برطانیہ
سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن ہے کہ تڑپتی ، سسکتی ، بے حال اور درماندہ مخلوق کو سکون سے آشنا کیا جائے۔ شیطانی گرفت سے اسے نجات دلائی جائے۔ مادیت کے دبیز پردوں سے اسے آزاد کر کے اس کے اوپر غیب کی دُنیا کے دروازے کھول دئیے جائیں۔ اور اسے دکھایا جائے کہ اس کا اصل مقام جنت ہے۔ جہاں آرام و آسائش اور سکون کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے ملکی اور بین الاقوامی دورے اس مقصد کے حصول کی ایک کڑی ہیں۔ ان دوروں کے دوران آپ نے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو انتہائی حد تک استعمال فرمایا ہے، جس کے باعث آپ اکثر اوقات بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کو آرام کا مشورہ دیا گیا تو آپ نے فرمایا۔
جسمانی بیماری کا کچھ نہیں، روح بیمار نہیں ہونی چاہئے۔ اگر میری زندگی میری نسل کو لگ جائے تو سودا مہنگا نہیں۔
ملکی اور بین الاقوامی دوروں کے دوران مجموعی طور پر 12لاکھ میل سے زائد مسافت طے کرنے کے لئے عظیمی صاحب نے تمام ذرائع نقل و حمل استعمال فرمائے ہیں۔ گزشتہ 35 سالوں میں بحیثیت سرپرست سلسلہ عظیمیہ، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم کی تعمیل اور صدرالصدور امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاؒ کی منشا کے مطابق توحیدی مشن کی ترویج کے لئے  آپ کی خدمات  کا ایک نہایت مختصر جائزہ حسب ذیل ہے۔
ـ 80 سے زائد ملکی اور بین الاقوامی شہروں کے دورے کئے۔
سیرت طیبہ ﷺ پر 3 جلدوں پر مشتمل شہرہ آفاق کتب تالیف فرمائی ہیں۔ ان میں سے محمد الرسول اللہ ﷺ حصہ دوئم کے موضوع کو تاریخ میں پہلی بار احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے، جس میں حضور ﷺ کے معجزات کی سائنسی تشریح اور توجیہہ پیش کی گئی ہے۔
ـ  دُنیا بھر میں 73 سے زائد مراقبہ ہالز قائم فرمائے۔
ـ 15 بین الاقوامی روحانی ورکشاپس کا انعقاد ہوا۔
ـ  مقتدر اخبارات و جرائد میں کالم نویسی کی۔
ـ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور ڈائجسٹ کا اجرا ہوا۔
ـ 49 سے زائد کُتب تحریر فرمائیں۔
ان میں سے  13 کُتب کا انگریزی، 2 کا عربی، 1 کا پنجابی، 1 کا تھائی ، 3 کافارسی، 3 کا سندھی اور 2 کُتب کا روسی زبان میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔
ـ  رنگ و روشنی سے علاج پر آپ کی معرکۃ الآر کُتب کی اشاعت جس میں لاعلاج بیماریوں کا علاج پیش کیا گیا ہے۔
ـ  تقاریر کے 4  مجموعے شائع ہوئے۔
ـ  پاکستان بھر میں  100 سے زائد فری عظیمیہ روحانی لائبریریز کا قیام عمل میں آیا۔
ـ 35  سے زائد تعلیمی اور سماجی اداروں میں لیکچرز دیئے۔ جن میں سے چند  قابل ذکر ادارے حسب ذیل ہیں۔
گلاسگو یونیورسٹی، برطانیہ
آرتھر فنڈلے کالج ، برطانیہ (دُنیا بھر کے تمام روحانی چرچز اس کالج کے ماتحت ہیں اور تاریخ میں پہلی بار کسی مسلم سکالر کو مدعو کیا گیا)
انسٹیٹیوٹ آف سیلف اوئیرنیس، برطانیہ
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور
پنجاب یونیورسٹی لاہور
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد
سالٹ کوسٹ ٹاون ہال، اسکاٹ لینڈ
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ملتان
بار ایسوی ایشن، لاہور، آزاد کشمیر، چنیوٹ
کامرہ ایئر بیس، کامرہ
گلاسگو ٹاون ہال ، گلاسگو
آرٹلری ہیڈ کوارٹر میس، پاکستان آرمی، کوہاٹ
ـ 6 بین الاقوامی روحانی کانفرنسز کا انعقاد  بالترتیب کراچی (1990)، لاہور (1991)، برطانیہ (1992)، متحدہ عرب امارات (1995)، حیدر آباد (1995) اور لاہور (2004) میں ہوا۔
ـ ملکی اور بین االاقوامی سطح کے مختلف نشریاتی اداروں میں 27 سے زیادہ لیکچرز اور سوال و جواب کی نشستوں کا ابلاغ
ـ کلاس اول سے کلاس ہشتم تک کے بچوں کے لئے اردو قاعدے اور اسلامیات کی کُتب تحریر فرمائیں۔
ـ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں ’’آدم ڈے ‘‘ کا سالانہ انعقاد  جس میں تمام مذاہب کے مذہبی سکالرز کی شرکت اور باہمی ہم آہنگی، امن اور بھائی چارے کی کوششیں۔
ممتاز تعلیمی اداروں کی طرف سے حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی خدمات کو خراج تحسین :
ـ کراچی یونیورسٹی میں سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئےشعبہ علوم اسلامیہ میں ’’قلندر بابا اولیاؒ چیئر‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔
ـ بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان نے آپ کی تعلیمات و خدمات کے صلہ میں شعبہ علوم اسلامیہ کے اعزازی پروفیسر کے طور پر نامزد کیا۔
ـ کراچی یونیورسٹی نے ’’سلسلہ عظیمیہ کی روحانی، علمی اور سماجی تعلیمات ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اجرا کیا۔
ـ کراچی یونیورسٹی کی شعبہ اردو کی طالبہ نے ’’خواجہ شمس الدین عظیمی کی تحریروں میں اردو ادب‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
ـ بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان نے آپ کی کُتب ’’احسان و تصوف ‘‘ اور ’’باران رحمت‘‘ کو یونیورسٹی کی طرف سے شائع کرتے ہوئے اپنے ایم اے اسلامیات کے سلیبس میں شامل کیا۔
سالفورڈ یونیورسٹی ، سالفوڈ، برطانیہ نے آپ کی تعلیمات اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی2 کُتب اپنے بی ایس آنرز  کے سلیبس میں شامل کیں۔  
حکومت متحدہ عرب امارات (ابو ظہبی) نے آپ کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں آپ کی کُتب تجلیات اور روحانی نماز کو حکومتی سطح پر عربی زبان میں شائع کیا۔

کولمبو انٹرنیشنل یونیورسٹی ، سری لنکا کی طرف سے عظیمی صاحب کی  رنگ و روشنی کے علاج میں علمی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے پی ایچ ڈی (کلرتھراپی) کے لئےبطور  سپروائزر تعیناتی اورڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اجراٗ

ترتیب : محمد عاطف نواز عظیمی
(اقتباس / کتابیات   - تزکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی، تقاریر، ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ)

Oct 12, 2014

اشفاق احمد کا حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کو خراج تحسین


ممتاز دانشور  اور ادیب، ڈرامہ و افسانہ  و کالم نگار اور مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل ’’من چلے کا سودا‘‘ کے مصنف اشفاق احمد لکھتے ہیں۔
عظیمی صاحب کی تحریر کا اپنا اسلوب ہے۔ میں نے آپ کو اوائل دور میں کام کرتے دیکھا ہے۔ آپ کی میز کرسی ٹیڑھی تھی، پھر میں نے  نوٹ کیا کہ آدمی کے اندر سچائی ہو اپنی طرز کی تو وہ ٹیڑھی جگہ پر بیٹھ کر بھی سیدھے جواب دے سکتا ہے۔ آپ نے میلوں کا سفر ایک جست میں طے کیا ہے۔
انسان صرف روٹی کپڑا اور مکان ہی نہیں ہے۔  ہم ایک تین منزلہ ایسی عمارت میں رہتے ہیں جس میں ہمارا جسم ، روٹی ، کپڑا اور مکان ہے۔ اس کے اوپر ایک چوبارہ ہے۔ جو  عقل کا چوبارہ ہے۔ جو ذہن کا ہے۔ بھیڑیا، کتا، شیر، مچھلی ، بھینس، یہ سب روٹی ، کپڑا اور مکان ہیں۔ میں اوور منزل چوبارہ رکھتا ہوں جو ذہن سے تعلق رکھتا ہے۔ میں سردیوں  کی رات میں ٹھٹھرتا سائیکل پر چڑھ کر سات میل کا فاصلہ طے کر کے نصرت فتح کا ایک سُر سننے جاتا ہوں۔ اس میں نہ روٹی ہے، نہ کپڑا ہے، نہ مکان ہے، نہ بنک بیلنس بڑھتا ہے۔ میں تو بلکہ کوئی نقصان کر کے آتا ہوں لیکن میں جاتا ہوں۔ میں مشاعرہ سننے جاتا ہوں۔ اس میں مجھے کیا ملتا ہے۔ یہ انسانیت کا عقل کا چوبارہ ہے۔ جس کو وہ بھرتا رہتاہے  اگر وہ کاٹ کر پھینک دیا جائے تو وہ مر جائے گا۔ بھینس نہیں مرتی۔ بھینس اگر مشاعرہ میں نہ جائے تو کچھ نہیں ہوتا اس کو۔ ٹھیک ہے وہ زندہ ہے وہ۔ شیر ببر ہے، وہ اگر پکا راگ نہ سُنے تو ٹھیک رہتا ہے۔ اب اس چوبارے کے اوپر ایک اور چوبارہ ہے جو عقل سے بھی اونچا ہے، وہ روحانیت کا ہے۔
اس کے اندر گند بلا، گدڑ پھونس، ٹوٹے ہوئے چرغے، پرانی چارپائیاں، بان کے پنے، پرانے ٹین کنستر، بوریاں، سیمنٹ کے تھیلے پڑے ہوئے ہیں۔ تالا ڈالا ہوا ہے۔ اس کے اندر کبھی کبھی کوئی اوپر چڑھ کر کہتا ہے کہ امی! یہ اچھا بھلا تو کمرہ ہے، اس کو تو صاف کروائیں۔ کہنے لگیں۔ دفع کرو، کوئی اوپر نہیں جاتا، چھوڑ دو۔ اس نے کہا، میں اسے صاف کر کے اس میں دری بچھا لوں۔ کہنے لگیں، نہ نہ، خبردار ! یہاں جا کر کیا کرنا ہے۔ اتنے سارے کمرے ہیں اسی میں رہو۔ ہمارا تیسرا چوبارہ تو ہے لیکن آسیب زدہ ہے۔ تو جب کوئی بندہ اس کے قریب کھڑا ہو کر بات کرے تو وہ کہتا ہے کہ ہاں! آج پہلی دفعہ اس کے دروازے جھنجنائے ہیں یا اس کے اوپر بارش ہوئی ہے۔ اس میں سے سوندھی خوشبو نکلتی ہے۔
 عظیمی صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے وہ پرانے چوبارے، گدڑ پھونس والے، گند بلا والے صاف کئے ہیں۔
عظیمی صاحب کاہی کمال  ہے کہ جو گرہیں ہم نے اپنی شخصیت میں خود ہی لگائی ہوتی  ہیں۔  وہ گرہیں عظیمی صاحب ہمارے ہی ہاتھوں سے اس طرح کھُلواتے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں اس دوران اس کا   احساس بھی نہیں ہوتا اور ہم ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔ 
تذکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی

Oct 3, 2014

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ - تحریر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

 تحریر:  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں۔
" اور لوگوں پر خدا کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو اس حُکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خدا سارے جہاں والوں سے بےنیاز ہے"
"اور نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش  میں احترام والے گھر کی طرف جارہے ہیں۔"
"حج اور عُمرے کو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے پورا کرو''
"اور سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لے لو اور سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے۔"
"اور حج میں لڑائی جھگڑے کی باتیں نہ ہوں"
"پھر جب تُم حج کے تمام ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب خدا کا ذکر کرو بلکہ اس سے بڑھ کر"

حج کا سفر کرنے والا مسافر خدا کا خصوصی مہمان ہوتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ حج کے ذریعے دونوں جہان کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور سعید لوگ کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ حج ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان خدا کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ بندہ حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے جو اس نے عالم ارواح میں اپنے رب کے سامنے قالو بلیٰ کہ کر اپنی بندگی اور خالق کے سامنے مخلوق ہونے کا اقرار کیا تھا۔ بندہ دوران حج ہر اس بات پر عمل کرتا ہے جو اس کے لئے سرمایہ آخرت ہے۔ مخلوق کے اژدھام میں، سفر کی صعوبتیں اور زخموں میں، قدم قدم پر ٹھیس لگنے کے باوجود فراخدلی اور ایثار سے کام لیتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ عفو و درگزر اور فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے اور اس سے برملا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پابندی ہوتی ہے۔
"ولا جدال فی ا لحج"
حج کے زمانے میں ہوائی باتوں سے بچنے کی ہدایت اور نفس و شیطان سے خود کو محفوظ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ شوہر یا بیوی ہم سفر ہے تو نہ صرف یہ کہ مخصوص تعلقات قائم نہ کریں بلکہ ایسی باتوں سے بھی بچتے رہیں جو شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ قادر مطلق و غفور رب العالمین نے فرمایا ہے
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ، جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران شہوانی باتیں نہ ہوں۔
احرام باندھنے کے بعد ، ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر پستی کی طرف اُترتے وقت اور ہر قافلے سے ملتے وقت اور ہر صبح کو نیند سے بیدار ہو کر حاجی حضرات تلبیہ پڑھتے ہیں۔
آئیے ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہو کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوں۔
 لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ
میں حاضر ہوں، خدایا میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بیشک ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے۔ نعمت تیری ہی ہے۔ ساری بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ 

Oct 2, 2014

***~ حجۃالوداع ~*** ( از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی)


*تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی*

خطبہ حجۃ الوداع  اسلام کا اساسی دستور اور بُنیادی اصول کی حیثیت کا حامل ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ حجۃ الوداع وفات سے تقریبا۸۰ روز قبل فرمایا۔

لوگو ! میری باتیں غور سے سُنو۔  کیونکہ  شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تُم لوگوں سے مل نہ سکوں۔
اے لوگو ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبیلے اس لئے ہیں کہ تم  ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اسی لئے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، اسی طرح کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت  نہیں۔
اے لوگو! ایسا نہ ہو کہ قیامت میں تم دُنیا کا بوجھ سمیٹ کر اپنی گردن پر رکھے ہوئے آو اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لائیں۔ اگر ایسا کیا تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔
اےلوگو! آج کا دن اور اس مہینہ کی تم جس طرح حُرمت کرتے ہو اس طرح ایک دوسرے کا ناحق خون کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔ خوب یاد رکھو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ تمہارے سب کاموں کا حساب لیں گے۔
اے لوگو! جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا۔
یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ وہ عورتیں تم پر حلال ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر تم نے ان پر تصرف کیاہے ۔ پس ان کے حقوق کی رعایت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔
غلاموں سے اچھا برتاو کرنا۔ جیسا تم کھاتے ہو ویسا اُن کو کھلانا۔ جیسے تم کپڑے پہنتے ہو ویسے ہی ان کو کپڑے پہنانا۔ اگر ان سے کوئی خطا ہو جائے اور تم معاف نہ کر سکو تو ان کو جُدا کر دینا کیونکہ وہ بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ ان کے ساتھ سخت برتاو نہیں کرنا۔
لوگو ، میری بات غور سے سُنو !
خوب سمجھو اور آگاہ ہو جاو !
جتنی کلمہ گو ہیں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب مسلمان اخوت کے سلسلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ تمہارے بھائی کی چیز تم پر اس وقت تک جائز نہیں جب تک توہ تمہیں خوشی سے نہ دے۔
خبردار ! زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے کچل دی گئی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔
خبردار ! ناانصافی کو پاس نہ آنے دینا۔ میں نے تمہارے لئے ایسی چیز چھوڑ ی ہے کہ اگر تم اس کو مضبوط پکڑے رہو گے اور اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز اللہ کی کتاب ہے۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی  نئی اُمت نہیں۔
خبردار ! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔ صلوٰۃ قائم کرو۔ ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی سے ذکو ٰۃ ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر کا طواف کرو۔  مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی عمل سے برباد ہو چکی ہیں۔
خبردار ! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانااور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا ۔ اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیر ہواور وہ تمہیں اللہ کی کتاب کے مطابق چلائے تو اس کی اطاعت کرو۔
اے لوگو! عمل میں اخلاص  ، مسلمانوں کی خیر خواہی اور جماعت میں اتفاق کی یہ باتیں سینے کو صاف رکھتی ہیں۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام 9 ذوالحج کو زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اپنی اُمت کے لیے اور بنی نوع انسان کے لئے اپنے رحیم و کریم 
رب کی بارگاہ میں انتہائی عجز و نیاز سے دعا فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ تاریکی پھیل گئی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام مزولفہ کی طرف تشریف لے گئے ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کیا۔
جب صبح صادق طلوع ہوئی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز ادا کی۔ پھر حضرت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے اونٹنی پر سوار کیا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام بطن محسر سے گزرے تو انہوں نے اونٹنی کی رفتار تیز کر دی۔
یہ وہ وادی ہے جہاں ابراھہ کے ہاتھیوں کے لشکر پر اللہ تعالیٰ نے ابابیل کا لشکر بھیج کر تباہ و برباد کیا تھا۔ پھر وہاں سے واپس منیٰ تشریف لے گئے اور حاضرین کو اپنے دوسرے خطبے سے مشرف فرمایا۔
سرور عالم حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنابیان کی اور اس کے بعد یہ خطبہ ارشاد فرمایا
جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں ۔ ان میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو! جو حاضر ہیں وہ یہ کلام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں خواہ وہ اس وقت موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہوں گے کیونکہ بہت سے لوگ جن جو میرا پیغام پہنچے گا، سُنانے والوں سے زیادہ اس کی حفاظت کریں گے۔
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میر ی بات کو سُنا اور دوسروں تک پہنچایا۔
اے لوگو! تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گاتو تم کیا کہو گے ؟
لوگوں نے عرض کیا : ہم گواہی دیں گے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہمیں پہنچا دیا ہے اور اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا
یا اللہ تُو گواہ رہنا۔
اس کے ساتھ ہی دین مکمل ہو گیا اور جبرائیل ؑ یہ مژدہ جانفزا لے کر نازل ہوئے ۔
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دینپسند کر لیا ہے۔
سورۃ المائدہ
(باران رحمت ﷺ از خواجہ شمس الدین عظیمی)