ممتاز دانشور اور
ادیب، ڈرامہ و افسانہ و کالم نگار اور
مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل ’’من چلے کا سودا‘‘ کے مصنف اشفاق احمد لکھتے ہیں۔
عظیمی صاحب کی تحریر کا اپنا اسلوب ہے۔ میں نے آپ کو اوائل
دور میں کام کرتے دیکھا ہے۔ آپ کی میز کرسی ٹیڑھی تھی، پھر میں نے نوٹ کیا کہ آدمی کے اندر سچائی ہو اپنی طرز کی
تو وہ ٹیڑھی جگہ پر بیٹھ کر بھی سیدھے جواب دے سکتا ہے۔ آپ نے میلوں کا سفر ایک
جست میں طے کیا ہے۔
انسان صرف روٹی کپڑا اور مکان ہی نہیں ہے۔ ہم ایک تین منزلہ ایسی عمارت میں رہتے ہیں جس
میں ہمارا جسم ، روٹی ، کپڑا اور مکان ہے۔ اس کے اوپر ایک چوبارہ ہے۔ جو عقل کا چوبارہ ہے۔ جو ذہن کا ہے۔ بھیڑیا، کتا،
شیر، مچھلی ، بھینس، یہ سب روٹی ، کپڑا اور مکان ہیں۔ میں اوور منزل چوبارہ رکھتا
ہوں جو ذہن سے تعلق رکھتا ہے۔ میں سردیوں
کی رات میں ٹھٹھرتا سائیکل پر چڑھ کر سات میل کا فاصلہ طے کر کے نصرت فتح
کا ایک سُر سننے جاتا ہوں۔ اس میں نہ روٹی ہے، نہ کپڑا ہے، نہ مکان ہے، نہ بنک بیلنس
بڑھتا ہے۔ میں تو بلکہ کوئی نقصان کر کے آتا ہوں لیکن میں جاتا ہوں۔ میں مشاعرہ
سننے جاتا ہوں۔ اس میں مجھے کیا ملتا ہے۔ یہ انسانیت کا عقل کا چوبارہ ہے۔ جس کو
وہ بھرتا رہتاہے اگر وہ کاٹ کر پھینک دیا
جائے تو وہ مر جائے گا۔ بھینس نہیں مرتی۔ بھینس اگر مشاعرہ میں نہ جائے تو کچھ
نہیں ہوتا اس کو۔ ٹھیک ہے وہ زندہ ہے وہ۔ شیر ببر ہے، وہ اگر پکا راگ نہ سُنے تو
ٹھیک رہتا ہے۔ اب اس چوبارے کے اوپر ایک اور چوبارہ ہے جو عقل سے بھی اونچا ہے، وہ
روحانیت کا ہے۔
اس کے اندر گند بلا، گدڑ پھونس، ٹوٹے ہوئے چرغے، پرانی
چارپائیاں، بان کے پنے، پرانے ٹین کنستر، بوریاں، سیمنٹ کے تھیلے پڑے ہوئے ہیں۔
تالا ڈالا ہوا ہے۔ اس کے اندر کبھی کبھی کوئی اوپر چڑھ کر کہتا ہے کہ امی! یہ اچھا
بھلا تو کمرہ ہے، اس کو تو صاف کروائیں۔ کہنے لگیں۔ دفع کرو، کوئی اوپر نہیں جاتا،
چھوڑ دو۔ اس نے کہا، میں اسے صاف کر کے اس میں دری بچھا لوں۔ کہنے لگیں، نہ نہ،
خبردار ! یہاں جا کر کیا کرنا ہے۔ اتنے سارے کمرے ہیں اسی میں رہو۔ ہمارا تیسرا
چوبارہ تو ہے لیکن آسیب زدہ ہے۔ تو جب کوئی بندہ اس کے قریب کھڑا ہو کر بات کرے
تو وہ کہتا ہے کہ ہاں! آج پہلی دفعہ اس کے دروازے جھنجنائے ہیں یا اس کے اوپر
بارش ہوئی ہے۔ اس میں سے سوندھی خوشبو نکلتی ہے۔
عظیمی صاحب کا کمال ہے کہ
انہوں نے وہ پرانے چوبارے، گدڑ پھونس والے، گند بلا والے صاف کئے ہیں۔
عظیمی صاحب کاہی کمال ہے کہ جو گرہیں ہم نے اپنی شخصیت میں خود ہی لگائی ہوتی ہیں۔ وہ گرہیں عظیمی صاحب ہمارے ہی ہاتھوں سے اس طرح کھُلواتے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں اس دوران اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور ہم ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔
تذکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی
boht hi khubsoorat MASHAALLAH...salam hai pehchan karwane walon ko aur pehchan kar lene walon ko :)
ReplyDeleteMasha ALLAH ALLAH karim Hazrat sahab ko sehat or tandrusti atta farmaye or ap k drarjat mai or zeyad Bulandi atta farmay Ameen suma Ameen
ReplyDelete