Aug 31, 2014

نفی اثبات از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  

میں ایک پتلا تھا۔پُتلے میں خلاء تھا۔ خلاء میں کل پرزے تھے۔ ہر کل دوسری کل سے جڑی ہوئی تھی اور ہر پرزہ دوسرے پرزے میں پیوست تھا اس طرح کہ کہیں بھی کوئی حرکت ہوتو سارے کل پرزے متحرک ہو جاتے تھے۔ کل پرزوں سے بنی مشین کو چلانے کے لئے پتلے میں چابی بھر دی گئی تو پتلا چلنے پھرنے لگا۔ چلنے پھرنے‘ اچھلنے کودنے اور محسوس کرنے کے عمل سے پتلے میں ’’میں‘‘ پیدا ہو گئی۔ ’’میں‘‘ جانتی ہے کہ چابی ختم ہو جائےگی۔ ’’میں‘‘ کا وجود عدم ہو جائے گا اور پتلا باقی رہ جائے گا۔
لوگ اس ’’میں‘‘ کو ایک فرد مانتے ہیں۔ ’’میں‘‘ کو ایک ہستی تسلیم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ بات ہے بھی سچی میں ایک فرد ہوں میری ایک ذات ہے۔
میری ذات‘میری انا‘ میری ہستی کیوں ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ ’’میں‘‘ بھی نہیں جانتی۔جب میں خود کو فرد کے روپ میں دیکھتا ہوں تو ظاہر الوجود نظر آتا ہوں اور جب خود کوہڈیوں‘پٹھوں اور کھال میں منڈھے ہوئے صندوق کے اندر تلاش کرتا ہوں تو مجھے اپنی ذات نظر نہیں آتی۔ البتہ باطن الوجود آنکھ دیکھتی ہے۔ عالم ایک نہیں‘ بے شمار عالمین ہیں اور ان عالمین میں لاکھوں کہکشائیں جھماکوں کے ساتھ قائم ہیں۔ لگتا ہے ساری کائنات Sparkling کا مسلسل اور متواتر عمل ہے‘ لیزر بیم سے لطیف روشنی کی کرن ہے جس سے اندرونی دنیا بندھی ہوئی ہے اور اس اندرونی دنیا میں وہ کچھ ہے‘ظاہر الوجود آنکھ جسے دیکھ نہیں سکتی۔ شعور ادراک نہیں کر سکتا۔ عقل کی وہاں تک رسائی نہیں۔ میری اصل باطن الوجود ہے اور ظاہر الوجود باطن الوجود کا عکس یا فوٹو اسٹیٹ کاپی ہے۔
میں اس وقت ’’میں‘‘ ہے جب زمین پر موجود ہوں لیکن تماشہ یہ ہے کہ زمین بھی ایک نہیں ہے یعنی زمین بھی ظاہر الوجود اور باطن الوجود کے غلاف میں بند ہے۔ زمین جب ظاہر الوجود ہے تو ٹھوس ہے اور زمین جب باطن الوجود ہے تو خلاء ہے۔ ظاہر الوجود زمین کشش ثقل ہے اور باطن الوجود 

روشنی ہے۔ زمین بھی عقل و شعور رکھتی ہے۔ نہ صرف عقل و شعور رکھتی ہے وہ ادراک بالحواس بھی ہے۔ زمین یہ جانتی ہے کہ انار کے درخت میںامرود نہیں لگیں گے اور امرود کے درخت میں انار نہیں لگے گا۔ وہ مٹھاس‘کھٹاس‘ تلخ اور شیریں سے بھی واقف ہے۔ اس کے علم میں یہ بات بھی ہےکہ کانٹے بھرے پودے میں پھول زیادہحسیں لگتا ہے۔ کانٹوں سے بغیر پودے میں پھول کتنا ہی خوش رنگ ہو‘ پھول میں کتنے رنگوں کا امتزاج ہو لیکن پھول کی قیمت وہ نہیں ہو گی جو کانٹوں کے ساتھ لگے پھول میں ہوتی ہے۔ زمین اس بات کا بھی علم رکھتی ہے کہ اس کی کوکھ میں رنگ رنگ‘ قسم قسم بیجوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ زمین جہاں بے شمار رنگوں سے مزین پھول پیدا کرتی ہے‘ تلخ و شیریں پھل اگاتی ہے‘ پرندوں‘چوپایوں کی تخلیق کرتی ہے وہاں اپنی حرکت کو متوازن رکھنے کے لئے پہاڑ بھی بناتی ہے لیکن یہ میلوں میل طویل اور آسمان سے باتیں کرتے بلند وبالا پہاڑ جب ظاہر الوجود زمین پر نظر آتے ہیں تو جمے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب باطن الوجود پہاڑ دیکھے جاتے ہین تو اڑتے ہوئے بادل دکھائی دیتے ہیں۔
ظاہر الوجود پتلا نہیں تھا تب بھی زمین تھی۔ ظاہر الوجود پتلا نہیں ہو گا تب بھی زمین رہے گی۔ ظاہر الوجود پتلا ایک ذرہ تھا۔ ذرے میں دوسرا ذرہ شامل ہوا تو ایک سے دو ذرات ہوئے اور ذرات کی تعداد اتنی بڑھی کہ ایک وجود بن گیا۔
قلندر دو حروف جانتا ہے اور وہ دو حروف یہ ہیں۔
کوئی نہیں‘ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔
دانشور‘ سائنسدان‘ علامہ‘مفتی‘مشائخ کہتے ہیں لفظ دو ہیں۔
نفی‘ اثبات۔۔۔۔۔۔
قلندر کہتا ہے‘ اثبات نہیں‘ صرف نفی ہے اور نفی ہی مادے کی اصل ہے۔
آیئے! تجزیہ کریں تا کہ تجربہ مشاہدہ بن جائے۔ یہ سامنے مٹی کا ایک ڈھیلا رکھا ہوا ہے۔ اس کا وزن دو کلو ہے اس دو کلو وزنی ڈھیلے کو اس آدمی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگےگی۔ مٹی کے ڈھیلے کو کُوٹ کر ’پیس کر‘ آٹے کی طرح کر لیں۔ 
سوال یہ ہے کہ دو کلو وزن کدھر گیا۔ کیا اس پسے ہوئے ڈھیلے کے ذرات کو اگر کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی؟
تجربہ شاہد ہے کہ چوٹ نہیں لگے گی۔ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ مٹی کے ڈھیلے کو کتنا ہی پیس لیا جائے ذرات موجود رہیں گے اور کسی طریقے پر  ان ذرات کو پھر ایک جگہ کر دیا جائےاور کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔ حقیقت یہ منکشف ہوئی کہ بہت زیادہ ذرات کا ایک جگہ جمع ہو جانا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہو جانا یا باہم دیگر ہم آغوش ہو جانا کشش ثقل یعنی اثبات ہے اور یہ ظاہر الوجود ہے۔۔۔۔۔۔ظاہر الوجود تو ہے مگر ظاہر الوجود کی اصل یا بنیاد فنا ہے۔
قلندر جب فنائیت کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ ظاہر الوجود کی نفی کرتا ہے۔ کیوں نفی کرتاہے اس لئے کہ اس کی نظر باطن الوجود کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
قلندر بجز دو حرف لا الہ کچھ نہیں رکھتا

فقیہہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
 آج چھٹا روزہ ہے۔ فجر کی نماز کے بعد مراقبے میں دیکھا کہ روزہ دراصل ترک اور نفی ہے۔
یعنی ظاہر الوجود انسان باطن الوجود انسان کے لئے خود کو نفی کرتا ہے۔ جیسے جیسے نفی کا عمل آگے بڑھتا ہے ظاہر الوجود انسان باطن الوجود انسان میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ جب کوئی انسان باطن الوجود بن جاتا ہے اور خود کو باطن الوجود دیکھ لیتا ہے تو مادی دنیا سے نکل کر
نور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ سراغ پا لیتا ہے۔ پتلا ظاہر الوجود ہے اور پتلے کے اندر چابی باطن الوجود ہے۔۔۔۔۔۔چابی ہو گی تو پتلا حرکت کرے گا چابی نہیں ہو گی تو پتلا حرکت نہیں کرے گا۔
تیس دن تیس راتوں کے ترک سے انسان ایسے حواس میں داخل ہو جاتا ہے جن کی رفتار ظاہرالوجود کے حواس سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ یہی وہ حواس ہیں جو غیب کی دنیا میں وسیلہ سفر بنتے ہیں۔ غیب کی دنیا کے مشاہدے کے بعد انسان کے اوپر کیف چھا جاتا ہے اور یہ سرور و کیف ہی تقریب عید ہے۔
مبارک کے مستحق ہیں وہ سعید بچے اور بزرگ جنہوں نے رمضان کے پروگرام ترک کو اپنایا، ظاہر الوجود حواس کی نفی کے لئے جدوجہد اور کوشش کی۔ اعتکاف کی برکتوں سےمستفیض ہوئے اور اپنے دلوں کو نورانی دنیا کے انوار سے منور کیا۔ 


 قوسِ قزاح و صدائے جرس

Aug 26, 2014

ﷲ القوی العزیز


تحریر: خُرم شہزاد عظیمی ، ویانا ، آسٹریا

اﷲ کے دوست حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے فرماتے  ہیں
اﷲ اتنا بڑا سخی ہے کہ بندے کا ہر کام خود کر کے نام بندے کا کر دیتا ہے
ایک کیلوری توانائی کی وہ مقدار ہے جو ایک گرام پانی کو ایک درجہ سینٹی گریڈ حرکت دینے کے لیئے درکار ہوتی ہے۔۔۔۔
ماں کے پیٹ میں ایک جان آگئی،خود کار میکانکی طریقے سے اسے غذا ملنا شروع ہو گئی،بڑ ھوتری کا عمل جاری ہو گیا،بچہ دنیا میں آگیا،غذاکا طریقہ کار تبدیل ہو گیا مگر غذا کا عمل جاری ہے اور بڑھوتری کا عمل بھی جاری ہے۔اسی بچہ نے بڑھنا ،پھیلنا شروع کر دیا۔غیر جانبدار اور گہری نظر سے دیکھا جائے توغذا کے ذریعے ملنے والی کیلوریز۔۔حرارت۔۔طاقت۔۔بچہ کے وزن اور حرکات میں صرف ہونے والی قوت سے کہیں کم ہے۔۔۔وہی بچہ جوان ہوگیا،کھیلنے کودنے لگا،معاش کے حصول میں کوشش کرنے لگا۔
   
اور تمہاری پیدائش میں بھی۔ اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں  - سورة الجاثیہ

ایک۔پاؤ روٹی ۔۔یا ایک کلو دودھ سے کیا اسے وہ کیلوریز ۔۔۔حرارت ۔۔قوت مل جاتی ہے ۔جو اس کی تمام ضروریات اور اعمال کو سر انجام دینے کے لیئے کافی ہوں۔۔۔
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اعمال سے مراد ساٹھ ۔ستر۔اسی کلو کی کمیت ۔۔مٹی مادہ یعنی جسم اٹھا کر دور دراز جگہوں پر لے جانا ،سوچنا دیکھنا ۔سننا۔چلنا
 سب کچھ شامل ہے،
ہوا کی طرف غور کیجئے۔ہوا کی حرکت کیسے ممکن ہوئی۔کونسی قوت ہے۔۔جو ہوا کو چلا رہی ہے۔
سمندر کی طرف غور کیجئے کہ سمندر میں اگر حرکت نہ ہو تو سمندری حیات کا حاتمہ ہو جائے۔سمندری حیات کی زندگی کس کے تابع ہے۔۔سمندر کے پانی کی حرکت کس کے تابع ہے۔ہوا اور مدوجذر ، ہوا ور چاند کی حرکت کس طاقت کے کنٹرول میں ہے۔ 
                         الله ہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو تابع کر دیا تاکہ ا س میں اس کے حکم سے جہاز چلیں اورتاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کا شکر کرو -سورة الجاثیہ                                   
بادلوں کی طرف آئیے۔ہزاروں لاکھوں ٹن پانی کس قوت نے میلوں اوپر پہنچا دیا۔۔دس بالٹیاں لے کر پانچ منزل اوپر چڑھئیے،آپ کو اپنی قوت کا احساس ہو جائے گا۔کہیں گے کہ جی سورج کی روشنی سے بخارات بنے ۔وہ اوپر گئے اور بارش برس گئی۔۔سورج کی روشنی کیسے پیدا ہوئی۔۔اور کس قوت کے تحت اس نے سورج سے زمیں تک کا سفر طے کیا۔۔کیونکہ مشاہدہ اور قانون یہ ہے کہ جب تک ساکن شے پر قوت نہ لگے شے حرکت نہیں کرتی۔۔سورج کے گرد نو سیارے ۔۔۔اور سیاروں کے گرد مختلف تعداد میں گردش کرتے چاند۔کس قوت کے تحت حرکت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔آسمان سے زمیں پر بارش ہوئی۔پرندے خوش ہو گئے۔درختوں کو نئی زندگی مل گئی۔کیڑے مکوڑوں کو غذا میسر آگئی۔مطلب یہ کہ مادی زندگی کا تسلسل قائم رکھنے کی نئی قوت میسر آگئی۔۔۔۔اور یہ قوت کس قوت نے دی۔۔۔۔
کھربوں در کھربوں ستارے۔۔۔ستاروں کے گرد گھومتے سیارے ۔۔۔سیاروں کے گرد گھومتے چاند۔۔سیارچے۔۔چکر کھاتی کہکشائیں۔۔آخر کونسی ہستی کونسی ذات حرکت دے رہی ہے ۔اور اس ہستی کی کونسی صفت ہے جس سے حرکت کا یہ چکر چل رہا ہے۔۔۔۔
قرآن اس حرکت کے اس سائیکل ۔۔چکر۔۔۔کو متعارف کراتے ہوئے فرماتا ہے۔۔۔
وھو القوی العزیز 
اور وہی ہے قوت(غلبے)والا

یعنی کائنات میں حرکت کا یہ سارا رنگ اﷲ کی صفات سے ہے
بندے میں اﷲ کے ارادہ کے تحت اﷲکی صفت قوی بھی کام کر رہی ہے۔۔۔۔۔قوت ۔۔۔طاقت سے ہی بندہ ۔۔۔بندے کے کام آرہا ہے۔۔کھا رہاہے۔کھانے کو ہضم کر رہا ہے۔ پی رہاہے۔کہیں جا رہا ہے۔۔قوت ۔۔طاقت سے ہی فرشتے کائنات میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں
سات ارب انسانوں میں کام کرنے والی قوت۔سیارہ زمین پر پروازکرتے پرندے۔چرندے۔درندے۔درخت،سمندرپہاڑ کو کون قوت دے رہا ہے۔۔۔کیونکہ قوت نہ ہوگی تو زندگی نہ ہوگی۔بڑھوتری نہ ہوگی۔۔جنات کی دنیا کی زندگی۔ حرکات ،تقاضے۔۔۔فرشتوں کی دنیا کے اعمال۔کونسی ہستی انہیں قوت دے رہی ہے۔۔
۔۔اﷲ القوی العزیز۔۔
اﷲکی صفت قوی ہے۔۔۔۔۔ساری باتوں اورغور فکر کے بعد انسان یہ بات سوچنے ۔ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے

اﷲ اتنا بڑا سخی ہے کہ بندے کا ہر کام خود کر کے نام بندے کا کردیتا ہے
لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل (روشن) آچکی ہے اور ہم نےتمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیج دیا ہے - 
سورة النساء
اﷲہمیں انبیا ء کرام ۔اولیا کرام کی طرز فکر عطا فرمائے۔۔۔آمین

Aug 21, 2014

روحانیت محدودیت سے آزادی ہے


تحریر : عارفہ خان عظیمی ، پاکستان
شرک محدودیت ہےمحدودیت سڑاند کا دوسرا نام ہے
توحید اخلاص اور پاکیزگی ہے
*************★******★**************
کیونکہ  حد ہی محدودیت ہے
اور 
محدودیت ہی شرک ہے
جس میں ذره برابر بھی تعصب ہے وه ہم میں سے نہیں فرمان رسولﷺ غور طلب ہے 
تعصب ،شرک، نفرت، حسد،کنجوسی،
زبان رنگ ،نسل، پرستی، بت پرستی، زر پرستی ،جاہ   پرستی سیاست بازی، منصب اور عہدوں کی پرستش
محدودیت ہے جو
انسان کو لامحدودیت سے خارج کردیتی ہے
لا محدودیت بادشاہت ہے
بہتا پانی ہمیشہ  پاک ہوتا ہے اور ٹھہرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے
Blood & Water meant to Circulate.
تو جو انسان محدودیت میں جیتا مرتا ہے وه سڑ جاتا ہے
یہ بدبو اور سڑاند نہ صرف اسے بیمارکرتی ہےبلکہ
اسکے ارد گرد کے لوگوں کو بھی۔
اسی لئے ہر پیغمبر نے
انسانیت بھائی چارے کا سبق دیا
ایثار، قربانی، خلوص، محبت، خدمت اور
لا محدود ہستی خدا پر ایمان کی تلقین کی نیز شرک کی مذمت کی
لا محدود ہستی پر ایمان انسان کو دریا اور سمندر کی طرح لامحدود اور پاک بنا دیتے ہیں ، جو تعفن پیدا نہیں کرتے۔ 
جب پوری زمین پر بسنے والے لوگ جوہڑ اور تالاب بن کر گل سڑ جاتے ہیں۔ 
تو پھر پوری زمین کو اس گندگی سے صافکرنے کے لئے طوفان نوح آتا ہے۔ 
اور ہم نے کسی پر پتھر برسائے اور کسی کو آندھیوں نے آدبوچا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنس دیا اور کسی کو ہم نے پانی میں بہا دیا۔ ہم نے اُن کےاُوپر ظلم نہیں کیا۔ اپنے اوپر آنے والی تباہی کے وہ خود ذمہ دار تھے۔ القرآن

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں۔
اوزون گیس صفائی کا کام کرتی ہے جب گندگی بڑھ جاتی ہے تو یہ نیچے آجاتی ہے
اسی لئے  مذهب اور روحانیت ہر طرح 
کی محدودیت کے خلاف هیں
سلسلہ عظیمیہ اسی لئےآدم ڈےکا انعقاد کرتا ہے
تاکہ نوع انسانی کو گروہوں میں بٹنے سے ،محدودیت سے بچایا جائے
امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں
محدودیت ( شک،شرک) شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے وہ آدم زاد کو اس کی روح سے دُور کر دیتا ہے۔ 


Aug 20, 2014

رحمۃ اللعالمین ﷺ اور اللہ کے دوست


تحریر : خرم شہزاد عظیمی، آسٹریا

اللہ نے مخلوقات کو اپنا تعارف کرانے، اپنی پہچان بتانے کے لئے اپنے محترم بندے زمین پر بھیجے  تاکہ مادیت کی تاریک راہوں میں مخلوق روشنی کے ان سرچشموں سے اپنی منزل اور راہ تلاش کرے۔ اور اللہ کے قریب ہو کر اپنا کھویا ہوا مقام جنت پالے۔ جن سعید روحوں نے نور کے ان سرچشموں کی خلوص دل سے پیروی کی وہ خود بھی روشن ہوگئے اور اپنے خلق خُدا کے لئے بھی مینارہ نُور بن گئے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو اللہ کے دوست یعنی اولیاٗاللہ سے مخاطب کر کے اہمیت اور مقام بیان کیا ہے۔
کائنات میں اشرف اور بزرگ نبی کامل ، رحمت اللعالمین، سیدالمرسلین حضرت محمدﷺ ہیں۔ اللہ نے آپﷺ پر کائنات کی عظیم کتاب قرآن مجید نازل کی۔ تاکہ مخلوق اندھیروں سے نکل کر نُوراور روشنی کی طرف آئے۔
اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے ۔ سورۃ البقرہ
اللہ کا انبیاکرام کو دُنیا میں بھیجنا اور کتابیں نازل کرنا پھر انبیاکرام کے ورثا اولیاکرام کے زریعے اُمت کو ان الہامی کتابوں کے ظاہری اور باطنی علوم سے متعارف کروانا ، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ اور اس محبت کو ہمارے شعوری حواس کے پیمانے کے مطابق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ میں ستر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔  تاکہ مخلوق اللہ کی اس محبت کے نتیجے میں اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے اور خوف اور غم کی کیفیت سے آزاد ہو۔
 مخلوق سے محبت کے اظہار کے نتیجے میں ہی اللہ نے اپنے محبوب ﷺ پر قرآن نازل کیا۔ اور اولاد آدم کے لئے راہنمائی دی۔
بے شک تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے۔ القرآن
نُور الٰہی اور نور نبوتﷺ سے منور انعام یافتہ بندوں کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ کی نشانیوں پر تفکر کیا جاتا ہے تو بہت سے ایسے واقعات ہمیں فکر کے نئے زاویوں سے روشناس کرواتے ہیں۔
سیرت طیبہ ﷺ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے  کہ ایک ہرنی شکاری کے چنگل میں پھنس جاتی ہے اور آپ ﷺ سے فریاد کرتی ہے ۔ آپﷺ شکاری کو یقین دلاتے ہیں کہ ہرنی کو چھوڑ دو، یہ اپنے بچوں کو دودھ
پلا کر واپس آجائے گی۔
ہرنی بےقرار کیوں تھی۔ اس لئے کہ اللہ نے بطور ماں ہرنی کے دل میں جو محبت ڈال دی تھی ، اسی محبت کی وجہ سے اسے رہ رہ کر بچوں کا خیال آرہا تھا۔  محبت کیا ہے؟  محبت  رحمت ہے ۔ خود نبی رحمتﷺ کی ذات عالی مخلوقات سے ایسے ہی محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ خود اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔
ہرنی کی محبت کا دائرہ محدود تھا۔ صرف اپنے بچوں تک۔
نبی رحمتﷺ کی رحمت کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔
اللہ تعالٰی کی سب مخلوق میں تقاضے کام کر رہےہیں۔ یعنی بھوک، پیاس، سونا، جاگنا، محبت وغیرہ کی مسلسل اطلاعات مل رہی ہیں۔
ایک پرندے کو پتھر پھینکیں ، تو وہ پتھر کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ جائے گا۔ کیوں کہ اس کے اندر اطلاعات کی ایجنسی نے اسے خطرے کی اطلاع دے دی۔ اس لئے وہ اُڑ گیا۔ غرض جتنی مخلوقات پر غور کریں آپ کو اللہ کی نشانیاں نظر آئیں گی۔
اللہ کی سُنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ القرآن
لیکن ایک ہرنی کے واقعہ میں ہمیں کچھ الگ سبق  ملتا ہے۔ کہ ایک ہرنی آزاد ہو جانے کے بعد بھی دوبارہ قید یعنی عدم تحفظ میں آرہی ہے۔
کچھ گہرائی سے سوچا جائے تو مادی شعور میں ڈر ، خوف، لالچ، مکاری ، عیاری، روپے پیسے کی ہوس،تفرقہ بندی اور نفرت کے سوا کچھ نہیں دکھتا۔ مادی شعور ڈر اور خوف کا شعور ہے۔ اس لئے کہ اس شعور میں حقائق پس پردہ رہتے ہیں۔
ہرنی نے ڈر اور خوف کے شعور کی نفی کی تو رحمت کی چھاوں میں آگئی اور نتیجے میں آزادی کا مزہ چکھ لیا۔ اور شعور اور لاشعور  یعنی مادیت اور روحانیت کے اس معجزے سے ایک مادیت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں دبے شعور میں بھی نفی کی حرکت پیدا کر دی۔ نتیجے میں ایک انسان(شکاری) سلامتی کی راہ پر چل پڑا۔ جس طرح ایک ہرنی اپنے بچوں کے لئے رحمت ہے اسی طرح بلا شک وشبہ نبی رحمت ﷺ ہر انسان ، ہر مخلوق اور ہر عالم کے لئے رحمت ہیں۔
آج بحیثیت مجبوعی وہی سلامتی کی راہ پر چلنے والے پستی کا شکار ہیں۔ ہرنی والا واقعہ ہمارے لئے پیغام ہے کہ ہمیں مادی شعور اور اس میں پائی جانے والی برائیوں کی نفی کرنا ہے۔ مادی شعور کی برائیوں میں حسد ہے، جھوٹ ہے، لالچ ہے، نفرت ہے۔ظلم ہے۔ یہی نفی کا علم جب متحرک ہوتا ہے تو رحمت برستی ہے۔ کرم کے بادل برستے ہیں، بندہ مومن کو بشارتیں دی جاتی ہیں۔ عبادت میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ دعائیں مقبول بارگاہ ہوتی ہیں۔ بندہ اللہ کی قربت محسوس کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر بندہ سلامتی کی راہ پر چل کر رحمت کی چھاوں میں آجاتا ہے۔ بندہ مومن کے من میں تفکر، حضور ﷺ کی رحمت اور مرشد کریم کی نسبت سے یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ
پیار کا اس کے نہیں شمار                      اللہ تو ہے بس پیار ہی پیار
کیوں کہ اللہ کا ارادہ ، چاہت، اپنی مخلوق کے لئے محبت رحمۃ العالمین کے ذریعے کائنات میں تقسیم ہو رہا ہے۔ یہی محبت اور شفقت اس ہرنی کی اپنے بچے کے لئے بھی تھی۔ یعنی محبتوں کا ماخذ بوسیلہ نبی اکرمﷺ اللہ تعالیٰ ہے۔
مرشد بھی ایک روحانی ماں ہے۔ ایک روحانی باپ ہے، جوں جوں بندہ ہرنی کی طرح ڈر اور خوف کے شعور کی نفی کرتا جاتا ہے اور مرشد کی ذات میں جذب ہوتا جاتا ہے۔ توں توں رحمۃ العالمینﷺ کے انوار اور رحمت بندہ میں جذب ہوتی جاتی ہے۔ بندہ اللہ کی محبت ، شفقت، محسوس کرتا ہے۔ یہی راستہ دکھانے ، آپﷺ کے بعد بھی آپﷺ کے نائب اولیاکرامؒ آتے رہے۔ دور حاضر میں انہی محترم اور سعید ہستیوں میں ایک نام نامی ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ کا بھی ہے۔ آپ سلسلہ عظیمیہ کے امام ہیں۔  




Aug 19, 2014

یک زمانہ صحبت با اولیاء : تحریر عارفہ خان عظیمی


تحریر : عارفہ خان عظیمی

انبیاء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور صوفیاء کرامؒ سورج اور چاند کی طرح نور کے ماخذ هیں۔ خود اپنی ذات کو بھی الله کے نور سے منور کرتے هیں اور خلق خدا جو ان کے پاس آتی هے اسے بھی منور کرتے هیں
انسان کی عبادت بھی نور پیدا کرنے کا ذریعہ ہے
مگر انسان اپنی عبادت میں اخلاص پیدا نہیں کر پاتا 
حرص و حوس ،جنت،د نیا کی محبت اور طلب کی آندھیاں اور دھواں اس نور کو دھندلا دیتے ہیں یا ایک وقت آتا ہے کہ بجھا دیتے ہیں۔ 
انبیاء و اولیاء کی صحبت شیطان کے مکرو فریب سے دور رکھتی هے
  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے لہذا اسے چاہئے کہ دوستی کرتے وقت احتیاط کرے۔
ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ 
نیک دوست عطر ساز کی طرح اور برا دوست لوہار کی طرح هے
لوہار سے کچھ نہ خریدو پهر بھی اسکی بھٹی کے دھوئیں سے کپڑے(روح) کالے ہو جائیں گے
اور عطر فروش دوست ( اولیاءالله) سے کچھ نہ بھی خریدو۔  صرف سلام دعا سے ہی تمھارے لباس( روح) سے خوشبو آئیگی۔
عطر فروش دوست رسول پاک ﷺ کے ارشاد کے مطابق الله کے ولی کی صحبت اختیار کرنے کی بہت خوبصورت نصیحت ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضورﷺ کی قربت میں فرشتے نظر آتے تھے
اور گھر پر یہ کیفیت ختم هوجاتی تھی یہ صحبت قربت کے اثر کی دلیل ہے

قربت کے ضمن میں حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ دور رسالت میں اہل ایمان کے لئے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس مرکز نگاہ تھی۔ صحابہ کی ارواح عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رنگین تھیں۔ ان کا بیشتر وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات بابرکات پر تفکر میں صرف ہوتا تھا۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کی حکمت تلاش کرنے میں حددرجہ انہماک تھا۔ خدمت نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں مسلسل موجود رہنے سے ان کے اندر تفکر و وجدان کا زاویہ از خود پیدا ہو گیاتھا۔ اس بات کو حاصل کرنے کے لئے انہیں کسی کوشش اور محنت کی ضرورت نہ تھی 
نبی پاکﷺ سب سے بڑے عطر ساز و عطر فروش (رحمۃ العالمین اور تقسیم کرنے والے) ہیں
 عام مکھی بدبو پرلپکتی هے اور شھد کی مکھی خوشبو کی شیدائی ہے
قرآن میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے 
اور هم نے شہد کی مکھی پر وحی کی چل اپنے رب کی سیدھی راه ، پس پاکیزه فطرت جان پر الہام اترتا ہے


نماز اور حضُور قلب


Aug 16, 2014

ارشادات حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ - انسان، جن، فرشتےاور کائنات کیا ہے !

حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ


حضور بابا تاج الدین ناگپوری ؒ سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاؒکے نانا ہیں ۔ حضور قلندر بابااولیاؒ نے تقریبا 14 برس  حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒؒ سے  تربیت حاصل کی ۔
حضور بابا تاج الدین ناگپوری ؒ کا89 واں عرس مبارک مورخہ 17 اگست بروز اتوار  سلسلہ عظیمیہ کے زیرِ اہتمام دُنیا بھر کے مراقبہ ہالز میں عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔حضور بابا تاج الدین ناگپوری ؒ  کے وہ فرمودات جو تخلیق ، سائنس اور تکوین کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔  اس بابرکت موقع کی مناسبت سے یہاں پیش کیئے جا رہے ہیں۔

انسان، جن، فرشتےاور  کائنات کیا ہے  !

حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ
انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے ۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتاہوں یہ چیزیں دور پرے کی ہیں ۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں ۔ ان پربھی نظر ڈالتے جاو۔ دن طلوع ہوتا ہے ۔ دن کا طلوع ہونا کیا شے ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ طلوع ہونےکا مطلب ہم نہیں جانتے ۔ دن رات کیا ہیں۔ اس کے جواب میں اتنی بات کہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے ، اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوع انسانی کا یہ تجربہ ہے۔
دن رات فرشتے نہیں ہیں ، جنات نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر ہم کہیں کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے اس لئے قابل یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کر لو۔ سب کے سب گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کو حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ہر ذی ہوش تفکر ہے۔  
اس گفتگو میں ایک ایسا مقام آجاتا ہے جہاں کائنات کے کئی راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ ، غور سے سنو ، ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں اُبھرتی رہتی ہیں ۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنےتفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے – فرشتے اور جنات- ان سے انسان کا تفکر اسی طرح متاثر ہوتا رہتا ہے۔قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ لامتناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے۔  ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرز عمل کا ایک جزو ہے۔ انسان پابہ گُل ہے۔ جنات پابہ ہیولیٰ ہیں ، فرشتے پابہ نُور۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔ اگر یہ تینوں مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں تو ربط ٹوٹ جائے گا۔ اور کائنات منہدم  ہو جائے گی۔
عام زُبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتا ہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یا تو بالکل نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ،ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ ان کی انا  یعنی کی لہریں ہمیں بہت کچھ دینی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلہ خیالات کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سےہمارے زیادہ قریب ہیں اور تبادلہ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔
کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے ۔ پے درپے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہین وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لا شُمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زُبان میں توہم ، خیال ، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام  دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں ، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ ِمشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطہِ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے ۔ یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصر ہے ۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتا ہے  تصویر خانے اس ہی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرز عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ قرآن پاک م یں انسان ، فرشتہ اور جنات کے نام سے کیاگیا ہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام تخلیق کیا ہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کا رُکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہو کر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور ب یہ لہریں معین مسافت طے کر کے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
میں یہ کہ چُکا ہوں کہ تفکر ، انا اور شخص ایک ہی چیز ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کر سکتے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انا ، تفکر اور شخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جو لاشمار کیفیات کی شکلوں اور سراپا سے بنی ہیں۔ مثال کے طور پر بصارت ، سماعت، تکلم ، محبت، رحم، ایثار، رفتار، پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت ایک شکل اور سراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے حساب سراپا لے کر ایک جگہ اس طرح جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان ہو گئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے ۔ یہ تینوں ساخت اس لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیات کے پرت دوسرے انواع سے زیادہ ہیں ۔ کائنات کی ساخت میں ایک پرت بھی ہے اور کثیر تعداد پرت بھی ہیں۔ تاہم ہر نوع کے افراد میں مساوی پرت ہیں۔
انسان لاشمار سیاروں میں آباد ہیں۔ اور ان کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اور جنات کے بارے میں کہ سکتے ہیں۔ انسان ہوں ،  جنات  ہوں یا فرشتے، ان کے سراپا کا ہر فرد ایک پائندہ کیفیت ہے۔ کسی پرت کی زندگی جلی ہوتی ہے یا خفی۔ جب پرت کی حرکت جلی ہوتی ہے تو شعور میں آجاتی ہے ، خفی ہوتی ہے تو لاشعور میں رہتی ہے۔ جلی حرکت کے نتائج کو انسان اختراع و ایجاد کہتا ہے۔ لیکن خفی حرکت کے نتائج شعور میں نہیں آتے ۔ حالانکہ وہ زیادہ عظیم الشان اور مسلسل ہوتے ہیں۔ یہاں یہ راز غور طلب ہے کہ ساری کائنات خفی حرکت کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظاہر سے بھری پڑی ہے۔ البتہ یہ مظاہر محض انسانی لاشعور کی پیداوار نہیں ہیں ۔ انسان  خفی کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل ربط قائم نہیں رکھ سکا۔ اس کمزوری کی وجہ نوعِ انسان کے اپنے خصائل ہیں۔ اس نے اپنے تفکر کو کس مقصد کے لیئے پابہ گل کیا ہے۔ یہ بات اب تک نوع ِ انسانی کے شعور سے ماورأ ہے ۔ کائنات میں جو تفکر کام کر رہاہے اس کا تقاضا کوئی ایسی مخلوق پورا نہیں کر سکی جو زمانی ، مکانی فاصلوں کی گرفت میں بے دست و پا ہو۔ اس شکل میں ایسی تخلیق کی ضرورت تھی جو اُس کے خالی گوشوں کو مکمل کر نے کی طاقت رکھتی ہو۔ چنا نچہ کائناتی تفکر سے جنات اور فرشتوں کی تخلیق عمل میں آئی تا کہ خلا پُر ہو جائے۔ فی الواقع انسانی تفکر سے وہ تمام مظاہر رُونما نہیں ہو سکے  جن سے کائنات کی تکمیل ہو جاتی ۔
کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے ۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔ دراصل زمان اور مکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دُخان جس کے بارے میں دُنیا بہت کم جانتی ہے اس مخلوط کا نتیجہ اور مظاہر کی اصل ہے۔ یہاں دُخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دُھواں نظر آتا ہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا ۔ انسان مثبت دُخان کی پیداوار ہے اور جنات منفی کی پیدوارہیں ۔ رہا فرشتہ ، ان دونوں کے ملخص سے بنا ہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے ترکیبی غیب و شہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعور اور لاشعور حیات سے دُور نابود میں گُم ہو جاتا ہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب و غریب کرشمہ برسرِعمل ہے۔ مثبت دُخان کی ایک کیفیت کا نام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دُخان کی منفی کیفیت نمکین ہے ، اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں ۔ اگر ایک انسان میں مثبت کیفیت کم ہو جائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ اور وہ جنات کی طرح عمل کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہو جائے تو اس میں ثقلِ وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر مثبت ور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے طور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے۔ اور منفی کے زور پر جنات کی۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہو جائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔
طریقہ کار بہت آسان ہے۔ مٹھاس اور نمک کی معین مقداریں کم کر کے فرشتوں کی طرح زمانی مکانی فاصلوں سے وقتی طور پر آزاد ہو سکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر کے جنات کی طرح زمانی و مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی روحانی انسان کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔
   

Aug 12, 2014

عورتیں ریاست کا ستُون ہیں




تحریر: محمد عاطف نواز
ہمارے معاشرے میں عورتوں کو اکثریت پسماندگی کا شکار ہے۔ ان کی یہ حالت معاشرے کی اخلاقی، سماجی، سیاسی، نفسیاتی، اخلاقی اور رُوحانی ابتری کا نتیجہ ہے۔ جہالت کے اندھیرے ہم پر مسلط ہیں۔ ہماری اکثریت صرف ایک قدرکو تسلیم کرتی ہے اور وہ قدر ہے "قوت" ۔



ظاہری چکا چوند سے متاثر ہونا اور اُس کی پرستش کرنا، کمزوروں سے نفرت کرنا اور اُن کی تذلیل کرنا اکثریت کا شُعار بن چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کے مردوں کی اکثریت عورت کو حقیر سمجھتی ہے۔



تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پسماندہ معاشرے ہمیشہ جہالت اور افلاس کا شکار رہتے ہیں۔ وہ اخلاقی اور روحانی قدروں کے لحاظ سے ارتقائی منازل طے کر سکتے ہیں۔

یہ سمجھنا کہ الہامی مذاہب یا اللہ کے فرستادہ پیغمبران علیہم السلام نے نعوذباللہ عورت کی تحقیر کا درس دیا ہو۔ ہمارا یہ یقین اور ایمان ہے کہ الہامی مذاہب تو انسان کو اعلٰی روحانی قدروں سے رُوشناس کرا کے اُسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرنے کا ذریعہ ہیں۔ تمام پیغمبران علیہم السلام کی تعلیمات ہیں کہ دولت، طاقت اور قوت کسی بھی طرح عزت و برتری کا پیمانہ نہیں بن سکتیں بلکہ اس کا اصل معیار تقوٰی ہے۔

مغرب میں آج بھی قدیم اہل یونان کو معقولیت پسند سمجھا جاتا ہے۔ لیکن معروف مغربی مورخ لیگی نے اپنی کتاب "تاریخ یورپ" میں تحریر کیا ہے کہ "بحیثیت مجموعی با عصمت یونانی عورتوں کا مرتبہ بہت پست تھا۔ ان کی زندگی غلاموں کی طرح بسر ہوتی تھی۔ بظاہر اُسے طلاق کا حق حاصل تھا لیکن عملًا اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس و حیا کے منافی تھا۔ افلاطون نے مرد و عورت کی مساوات کا دعوٰی کیا لیکن اُس کی یہ تعلیم محض زُبانی تھی۔ اس سلسلے میں عملی زندگی بالکل غیر متاثر رہی۔ مردوں کے لئے شادی کا مقصد خالصتًا سیاسی تھا کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہو جو مملکت کی حفاظت میں کام آئے "

پیغمبران کرام علیہم السلام نے نے توحید کا درس دیا اور یہ بتایا کہ اللہ کے بندوں میں وہی افضل ہے جو اللہ سے زیادہ قریب ہے جو اللہ سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ انہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے لئے زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں عورتوں کے متعلق نہایت تحقیر آمیز رویّہ موجود رہا۔

اس حوالے سے سیّدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ حدیث حقیقت واضح کرتی ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے اللہ نے کسی اُمّت میں مبعوث فرمایا ہو اور اس میں اس کے صحابی و حواری پیدا نہ فرمائے ہوں جو اُس کی سُنت کو تھام لیتے تھے۔ پھر اُن کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہو جاتے تھے۔ ایسے لوگ جو کہتے تھے وہ نہ کرتے تھے اور کرتے وہ تھے جن کا انہیں حکم نہیں ہوتا تھا"

حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی ایسے عُلماء سُو کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے
"جب سب لوگ سُن رہے تھے۔ تو اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا فقیہوں سے خبردار رہنا ، جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنے کا شوق رکھتے ہیں اور بازاروں میں سلام اور عبادت گاہوں میں اعلٰی درجہ کی کُرسیوں اور ضیافتوں میں صدر نشینی پسند کرتے ہیں۔ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہیں اور دکھاوے کے لئے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان کو زیادہ سزا ہو گی" انجیل لوقا باب 20

یہی لوگ تھے جنہوں نے عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا جو اللہ کی طرف سے عورت کو عطا ہوئے تھے۔ پیغمبران علیہم السلام کے دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد جاہل اور جھوٹے مذہبی اجارہ داروں نے مرد کو نیک سرشت کردار اور عورت کو بن طینیت اور بدکردار باور کروایا۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں واضح طور پر تحریر ہے کہ
"یہودی قانون کی رو سے اگر مرد وارث موجود ہو تو عورت وراثت سے محروم رہے گی۔ اور عورت کو دوسری شادی کا کوئی اختیار حاصل نہیں"

عیسائی مذہب کے فقیہوں نے بھی عورتوں کے خلاف احکام اختراع کئے یہاں تک کہ وہ یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے۔ کتاب مقدس میں کرنتھیوں باب 11 میں ملاحظہ کیجئے کہ پولیس عورتوں کو سر ڈھانکنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے محکومی کی علامت قزار دیتے ہوئے کہتا ہے "مرد کو اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہئے۔ کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلالی ہے۔ اس لئے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے۔ اور مرد عورت کے لئے نہیں بلکہ عورت مرد کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ پس عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے"

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات میں اس قسم کی طرز فکر کے موجود ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ سب کچھ ان فقہا کے فتوے ہیں جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کا باعث بنے۔ تاریخ کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے عورتوں کو اس قدر عزت دی تھی کہ آپ کے پیروکاروں میں مردوں سے زیادہ عورتیں تھیں۔ جو دُور دراز کا سفر کر کے آپ سے بیعت ہونے کے لئے آتی تھیں۔

ہندو مذہب ہو یا عیسائیت و یہودیت یا دُنیا کا کوئی اور مذہب ، ان کے مراکز وہ علاقے ہیں جو تہذیب وتمدن کے لحاظ سے خاصے ترقی یافتہ تھے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے تمام علاقوں میں اقتدار اورقیادات ہمیشہ مرد ہی کے ہاتھ میں رہی ہے۔

اس لئے مرد نے مذاہب میں ایسی تحریفات کی ہیں جن کی بنا پر عورت کے ساتھ ہر طرح کا ظلم و استبداد جائز ہو جائے ورنہ تو اللہ تعالٰی عدل و انصاف کا سر چشمہ ہے۔

اللہ کے آخری نبی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم نے جس تہزیب و تمدن اور قوم میں اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا اعلان کیا اُس کا حال یہ تھا کہ وہ عورت کو سرچشمہ گناہ سمجھتے تھے۔عورت کی حیثیت اس معاشرے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھی کہ وہ مردوں کی تسکین کا ایک ذریعہ تھی۔ اس کا کام صرف یہ تھا کہ قبیلے کی بقا کیلئے جفاکش سپاہی پیدا کرتی رہے۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینے گھناؤنی رسم اسی جھُوٹے فخر کی پیدا کردہ تھی۔ زنا پر اعلانیہ عمل کیا جاتا تھا۔ عورت کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل نہ تھے اور نہ وہ کسی جائیداد کی وارث ہو سکتی تھی۔ بلکہ وہ خود مال مویشی کی طرح جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ جب اس کا انتقال ہو جاتا تو وہ شوہر کے بیٹے اور جانشین کے حصہ میں جائیداد کی طرح منتقل ہو جاتی تھی۔

اس پسماندہ اور بے شعور معاشرے میں سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن مجید کی آیات پیش کیں جن میں عورت کے حقوق اور اس کے مقام کا برملا لفظوں میں اظہار کیا گیا تھا۔

اے لوگو ! اپنے رب سے تقوٰی اختیار کرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر اس سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پیدا کیں - سورۃ النساء

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے ڈیڑھ ہزار برس قبل نازل ہونے والی امّ الکتاب میں واضح طور پر حقیقت کو بیان کر دیا تھا کہ
وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ - مذکر کبھی مؤنث کے برابر نہیں ہو سکتا۔ آل عمران

اس کی وجہ یہ ہے کہ مونث یعنی عورت کے پاس ایک ایسی صلاحیت موجود ہے جو دُنیا کے کسی بھی مذکر یعنی مرد کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اور وہ صلاحیت تخلیق کی صلاحیت ہے ۔۔ مرد ہو یا عورت وہ عورت کے ہی بطن سے تخلیق پاتے ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق عورت کے خون سے ہی اس کے بطن میں پرورش پانے والے بچے کا ایک ایک عضو ، ایک ایک رواں اور ایک ایک بال بنتا ہے۔

نوع انسانی کے نجات دہندہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے عورت کو اس کے اصل مقام سے متعارف کروایا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسّلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔

کوئی مرد ماں ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتا یہ شرف مخلوقات میں عورت کو ہی حاصل ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ان تمام نظریات کو جہالت کی پیداوار قرار دیتے ہیں جو عورت کو محض عورت ہونے کی وجہ سے ذلیل تصور کرتے ہیں کہ وہ مرد ہیں۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں واضح کر دیا کہ عزت اور سربلندی کا معیار صرف تقوٰی اور سیرت اخلاق ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ عورت شیطان کا آلہ کار ہرگز نہیں بلکہ اس کے برعکس شیطان کی یورش کے خلاف ایک مضبوط قلعہ ہے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نوع انسانی کو ہدایت دی کہ قانون، اخلاق اور حقوق کی فہرست میں عورت اور مرد کو مساوی حیثیت دی جائے ، دونوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی یکساں حفاظت کی جائے۔

قانون زوجیت اپنی وسعت میں کائنات کی ہر شے پر حاوی ہے۔ اس سے نہ انسان مستثنٰی ہیں اور نہ دُنیا کی کوئی اور چیز -

پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ نہیں جانتے - سورۃ یٰسین
اُس نے تمہیں میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے اور جانوروں میں بھی۔ اس طرح وہ تمہیں پھیلاتا ہے۔سورۃ الشوریٰ۔

اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کئے تا کہ تُم سمجھ سکو ۔ سورۃ الذریات
قرآن مجید کے مطابق عورت اور مرد دونوں کو ایک ہی جُز سے پیدا کیا گیا ہے۔ دونوں کے اجزائے ترکیبی ایک ہی ہیں اور ان کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں انسانوں ، مسلمانوں یا پھر مشرکوں اور منافقوں کو مخاطب کیا گیا ہے اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عورت پر صدیوں سے لگائے گئے تہمت کے اس داغ کو بھی صاف فرمایا جس کے مطابق آدم کو حوا یعنی عورت نے جنت سے نکلوایا تھا۔ قرآن پاک میں اپنی تخلیق کے بعد آدم و حوا دونوں کو جنت میں یکساں رہنے، مرضی کے مطابق یکساں طور پر کھانے پینے ، شجر ممنوعہ کے قریب دونوں کو ایک ہی طرح نہ جانے کا حکم دیا ہے پھر شیطان کا دونوں کو مخاطب کرنا ، پھر دونوں کا ممنوعہ کے قریب جانا یکساں طور پر قرآن میں تذکرہ موجود ہے۔ کسی بھی آیت میں کسی ایک کو بھی دوسرے پر ترجیح نہیں دی گئ۔ سورۃ الاعراف کی آیات 19 تا 25 ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
حضرت محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت سے قبل عورت معاشرے کے مردوں کی غلام تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُسے آزادی دی اور برابری بخشی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہی اسے خرچ و کمانے ، کاروبار کرنے، خریدوفروخت کرنے، جائیداد بنانے اور اپنے شوہر کے انتخاب کا اختیار عطا فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعلیمات کا ہی اعجاز تھا کہ مسلمان عورتیں ریاست کے اعلٰی ترین مناصب پر فائز ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی صحابیات رضی اللہ عنہا نے علم کی تدریس کی، جہاد میں حصہ لیا، کاروباری معاملات میں اپنا کردار ادا کیا ۔ غرض اسلامی ریاست کے جملہ امور میں عورتوں نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔
سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت کی تصدیق کرنے والی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو سہارا اور ہمت دلانے والی ہستی ایک عورت یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔


امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے ذہین بتایا جاتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 2210 تک شمار کی گئی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہہ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہہ اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہا جیسے اشخاص آپ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں میں شامل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا ایک اعلٰی درجہ کی عالمہ تھیں جب کوئی حدیث بیان کرتیں تو اس کے ساتھ اس کی علت و حکمت بھی بیان کر دیتیں۔

امّ المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا چمڑہ تیار کرتی تھیں اور یہ ان کا کاروبار تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہا خنجر لئے ہوئے اُحد کے میدان جنگ میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس طرح آنے کا مقصد پوچھا تو فرمایا کہ " میں نے اس کو اس لئے اپنے ساتھ رکھا ہے کہ کوئی مشرک قریب ہو تو اس کا پیٹ چاک کر دوں "
طبرانی کی روایت ہے کہ " جس دن احد کی جنگ ختم ہوئی، مشرکین واپس گئے تو خواتین ، صحابہ کی معاونت کے لئے روانہ ہوئیں، حضرت فاطم رضی اللہ عنہا بھی انہی میں تھیں"
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں کہیں جا رہے تھے تو راستے میں خولہ بنت ثعبلہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہو گئی۔ وہ وہیں حضرت عُمر رضی اللہ عنہہ کو نصیحت کرنے لگیں " عُمر ! ایک زمانہ تھا جبکہ میں نے تُم کو عکاظ کے میلے میں دیکھا تھا کہ تم بچوں کو ڈنڈا لئے ڈراتے دھمکاتے پھرتے تھے۔ اس وقت تم بہت چھوٹے تھے اور اس کم سنی کے باعث لوگ تم کو عمیر کہ کر پکارتے تھے۔ بعد میں لوگ تمہیں عمر کہنے لگے اور اب تُم امیر المؤمنین ہو۔ رعایا کے معاملے میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتے رہنا۔ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جس شخص کو اللہ کے عذاب کا خوف ہو گا وہ قیامت کو دور نہیں سمجھ سکتا اور جس کو موت کا کھٹکا ہو اس کی نیکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خدشہ ہر وقت رہے گا " 
یہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا لایا ہوا انقلاب تھا جس کے باعث اُس عرب میں جہاں عورت حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھی وہیں ایک عورت اپنے وقت کی سُپر پاور مملکت کے حاکم کو راہ چلتے ٹوک رہی ہے۔ 


یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرے میں سود و زیاں اور نفع اور ضرر سے مسلمان عورتیں محض کسی تماشائی کی طرح علیحدہ نہیں رہیں بلکہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیمات سے انہوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم کی خواتین کا کردار تاریخ میں موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں کسی نے نہ تو مسجد جانے سے کسی نے روکا نہ شریک جہاد ہونے سے، نہ عیدین کے اجتماعات سے روکا اور نہ ہی دوسرے بے شمار فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی نے روکنے کی کوشش کی۔ 



عورت کا مسئلہ دُنیا کے تمام معاشروں میں چاہے وہ مہذب ہوں یا نہ ہوں ہمیشہ سے ایک اہم نوعیت کا مسئلہ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں کہیں پر اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت ملی تو پورا معاشرتی ڈھانچہ عورت کے گرد گھومنے لگا اور کہیں پر اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا تو اس صنف نازک پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ جن کا تذکرہ کرنا بھی ایک درد مند انسان کے لئے آسان نہیں۔ لیکن میرے خیال میں عورت کی مظلومیت کا دور دراصل موجودہ دور بھی ہے کیونکہ عورت کے مفادات ، عورت کے حقوق، عورت کی آزادی کے بلند و بانگ دعووں کے پردے میں جس قدر زیادتی اس دور میں ہوئی قدیم معاشرے میں بھی کبھی ایسا نہ ہوا ہو۔ تجارتی مال کی خریدوفروخت سے لیکر تفریح گاہوں، رقص گاہوں یہاں تک کہ سیاسیات میں بھی عورت کو کہیں کھلونے کے طور پر اور کہیں مہرے کے طور پر کچھ اس انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ عورت خود بھی اس تذلیل کو اپنی عزت افزائی سمجھنے لگی ہے۔



اہل یورپ کا یہ دعوٰی کس قدر بڑا فریب ہے کہ عورتوں کو اعزاز و کرام اور مساوات سب سے پہلے اُنہوں نے عطا کیا۔ یہ اولیت تو اسلام کو ہی حاصل ہے ۔ اسی نے عورتوں کو اعزاز و کرام اور مساوات سے نوازا۔ یورپ کے مذہبی اور معاشرتی قوانین میں آج بھی مرد کی برتری قائم ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"عورتیں ریاست کا ستون ہیں اگر وہ اچھی ہوں گی تو ریاست بھی اچھی ہو گی اور اگر وہ خراب ہیں تو ریاست بھی خراب ہو گی"

قرآن کریم عورت اور مرد کی فضیلت کے بارے میں کہتا ہے 
تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے - سورة الأحزاب

(یہ مضمون ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی اور ہماری ویب ڈاٹ کام  پر شائع ہوا)