Aug 12, 2014

عورتیں ریاست کا ستُون ہیں




تحریر: محمد عاطف نواز
ہمارے معاشرے میں عورتوں کو اکثریت پسماندگی کا شکار ہے۔ ان کی یہ حالت معاشرے کی اخلاقی، سماجی، سیاسی، نفسیاتی، اخلاقی اور رُوحانی ابتری کا نتیجہ ہے۔ جہالت کے اندھیرے ہم پر مسلط ہیں۔ ہماری اکثریت صرف ایک قدرکو تسلیم کرتی ہے اور وہ قدر ہے "قوت" ۔



ظاہری چکا چوند سے متاثر ہونا اور اُس کی پرستش کرنا، کمزوروں سے نفرت کرنا اور اُن کی تذلیل کرنا اکثریت کا شُعار بن چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کے مردوں کی اکثریت عورت کو حقیر سمجھتی ہے۔



تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پسماندہ معاشرے ہمیشہ جہالت اور افلاس کا شکار رہتے ہیں۔ وہ اخلاقی اور روحانی قدروں کے لحاظ سے ارتقائی منازل طے کر سکتے ہیں۔

یہ سمجھنا کہ الہامی مذاہب یا اللہ کے فرستادہ پیغمبران علیہم السلام نے نعوذباللہ عورت کی تحقیر کا درس دیا ہو۔ ہمارا یہ یقین اور ایمان ہے کہ الہامی مذاہب تو انسان کو اعلٰی روحانی قدروں سے رُوشناس کرا کے اُسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرنے کا ذریعہ ہیں۔ تمام پیغمبران علیہم السلام کی تعلیمات ہیں کہ دولت، طاقت اور قوت کسی بھی طرح عزت و برتری کا پیمانہ نہیں بن سکتیں بلکہ اس کا اصل معیار تقوٰی ہے۔

مغرب میں آج بھی قدیم اہل یونان کو معقولیت پسند سمجھا جاتا ہے۔ لیکن معروف مغربی مورخ لیگی نے اپنی کتاب "تاریخ یورپ" میں تحریر کیا ہے کہ "بحیثیت مجموعی با عصمت یونانی عورتوں کا مرتبہ بہت پست تھا۔ ان کی زندگی غلاموں کی طرح بسر ہوتی تھی۔ بظاہر اُسے طلاق کا حق حاصل تھا لیکن عملًا اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس و حیا کے منافی تھا۔ افلاطون نے مرد و عورت کی مساوات کا دعوٰی کیا لیکن اُس کی یہ تعلیم محض زُبانی تھی۔ اس سلسلے میں عملی زندگی بالکل غیر متاثر رہی۔ مردوں کے لئے شادی کا مقصد خالصتًا سیاسی تھا کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہو جو مملکت کی حفاظت میں کام آئے "

پیغمبران کرام علیہم السلام نے نے توحید کا درس دیا اور یہ بتایا کہ اللہ کے بندوں میں وہی افضل ہے جو اللہ سے زیادہ قریب ہے جو اللہ سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ انہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے لئے زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں عورتوں کے متعلق نہایت تحقیر آمیز رویّہ موجود رہا۔

اس حوالے سے سیّدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ حدیث حقیقت واضح کرتی ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے اللہ نے کسی اُمّت میں مبعوث فرمایا ہو اور اس میں اس کے صحابی و حواری پیدا نہ فرمائے ہوں جو اُس کی سُنت کو تھام لیتے تھے۔ پھر اُن کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہو جاتے تھے۔ ایسے لوگ جو کہتے تھے وہ نہ کرتے تھے اور کرتے وہ تھے جن کا انہیں حکم نہیں ہوتا تھا"

حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی ایسے عُلماء سُو کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے
"جب سب لوگ سُن رہے تھے۔ تو اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا فقیہوں سے خبردار رہنا ، جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنے کا شوق رکھتے ہیں اور بازاروں میں سلام اور عبادت گاہوں میں اعلٰی درجہ کی کُرسیوں اور ضیافتوں میں صدر نشینی پسند کرتے ہیں۔ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہیں اور دکھاوے کے لئے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان کو زیادہ سزا ہو گی" انجیل لوقا باب 20

یہی لوگ تھے جنہوں نے عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا جو اللہ کی طرف سے عورت کو عطا ہوئے تھے۔ پیغمبران علیہم السلام کے دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد جاہل اور جھوٹے مذہبی اجارہ داروں نے مرد کو نیک سرشت کردار اور عورت کو بن طینیت اور بدکردار باور کروایا۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں واضح طور پر تحریر ہے کہ
"یہودی قانون کی رو سے اگر مرد وارث موجود ہو تو عورت وراثت سے محروم رہے گی۔ اور عورت کو دوسری شادی کا کوئی اختیار حاصل نہیں"

عیسائی مذہب کے فقیہوں نے بھی عورتوں کے خلاف احکام اختراع کئے یہاں تک کہ وہ یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے۔ کتاب مقدس میں کرنتھیوں باب 11 میں ملاحظہ کیجئے کہ پولیس عورتوں کو سر ڈھانکنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے محکومی کی علامت قزار دیتے ہوئے کہتا ہے "مرد کو اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہئے۔ کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلالی ہے۔ اس لئے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے۔ اور مرد عورت کے لئے نہیں بلکہ عورت مرد کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ پس عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے"

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات میں اس قسم کی طرز فکر کے موجود ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ سب کچھ ان فقہا کے فتوے ہیں جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کا باعث بنے۔ تاریخ کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے عورتوں کو اس قدر عزت دی تھی کہ آپ کے پیروکاروں میں مردوں سے زیادہ عورتیں تھیں۔ جو دُور دراز کا سفر کر کے آپ سے بیعت ہونے کے لئے آتی تھیں۔

ہندو مذہب ہو یا عیسائیت و یہودیت یا دُنیا کا کوئی اور مذہب ، ان کے مراکز وہ علاقے ہیں جو تہذیب وتمدن کے لحاظ سے خاصے ترقی یافتہ تھے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے تمام علاقوں میں اقتدار اورقیادات ہمیشہ مرد ہی کے ہاتھ میں رہی ہے۔

اس لئے مرد نے مذاہب میں ایسی تحریفات کی ہیں جن کی بنا پر عورت کے ساتھ ہر طرح کا ظلم و استبداد جائز ہو جائے ورنہ تو اللہ تعالٰی عدل و انصاف کا سر چشمہ ہے۔

اللہ کے آخری نبی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم نے جس تہزیب و تمدن اور قوم میں اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا اعلان کیا اُس کا حال یہ تھا کہ وہ عورت کو سرچشمہ گناہ سمجھتے تھے۔عورت کی حیثیت اس معاشرے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھی کہ وہ مردوں کی تسکین کا ایک ذریعہ تھی۔ اس کا کام صرف یہ تھا کہ قبیلے کی بقا کیلئے جفاکش سپاہی پیدا کرتی رہے۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینے گھناؤنی رسم اسی جھُوٹے فخر کی پیدا کردہ تھی۔ زنا پر اعلانیہ عمل کیا جاتا تھا۔ عورت کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل نہ تھے اور نہ وہ کسی جائیداد کی وارث ہو سکتی تھی۔ بلکہ وہ خود مال مویشی کی طرح جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ جب اس کا انتقال ہو جاتا تو وہ شوہر کے بیٹے اور جانشین کے حصہ میں جائیداد کی طرح منتقل ہو جاتی تھی۔

اس پسماندہ اور بے شعور معاشرے میں سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن مجید کی آیات پیش کیں جن میں عورت کے حقوق اور اس کے مقام کا برملا لفظوں میں اظہار کیا گیا تھا۔

اے لوگو ! اپنے رب سے تقوٰی اختیار کرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر اس سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پیدا کیں - سورۃ النساء

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے ڈیڑھ ہزار برس قبل نازل ہونے والی امّ الکتاب میں واضح طور پر حقیقت کو بیان کر دیا تھا کہ
وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ - مذکر کبھی مؤنث کے برابر نہیں ہو سکتا۔ آل عمران

اس کی وجہ یہ ہے کہ مونث یعنی عورت کے پاس ایک ایسی صلاحیت موجود ہے جو دُنیا کے کسی بھی مذکر یعنی مرد کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اور وہ صلاحیت تخلیق کی صلاحیت ہے ۔۔ مرد ہو یا عورت وہ عورت کے ہی بطن سے تخلیق پاتے ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق عورت کے خون سے ہی اس کے بطن میں پرورش پانے والے بچے کا ایک ایک عضو ، ایک ایک رواں اور ایک ایک بال بنتا ہے۔

نوع انسانی کے نجات دہندہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے عورت کو اس کے اصل مقام سے متعارف کروایا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسّلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔

کوئی مرد ماں ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتا یہ شرف مخلوقات میں عورت کو ہی حاصل ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ان تمام نظریات کو جہالت کی پیداوار قرار دیتے ہیں جو عورت کو محض عورت ہونے کی وجہ سے ذلیل تصور کرتے ہیں کہ وہ مرد ہیں۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں واضح کر دیا کہ عزت اور سربلندی کا معیار صرف تقوٰی اور سیرت اخلاق ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ عورت شیطان کا آلہ کار ہرگز نہیں بلکہ اس کے برعکس شیطان کی یورش کے خلاف ایک مضبوط قلعہ ہے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نوع انسانی کو ہدایت دی کہ قانون، اخلاق اور حقوق کی فہرست میں عورت اور مرد کو مساوی حیثیت دی جائے ، دونوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی یکساں حفاظت کی جائے۔

قانون زوجیت اپنی وسعت میں کائنات کی ہر شے پر حاوی ہے۔ اس سے نہ انسان مستثنٰی ہیں اور نہ دُنیا کی کوئی اور چیز -

پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ نہیں جانتے - سورۃ یٰسین
اُس نے تمہیں میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے اور جانوروں میں بھی۔ اس طرح وہ تمہیں پھیلاتا ہے۔سورۃ الشوریٰ۔

اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کئے تا کہ تُم سمجھ سکو ۔ سورۃ الذریات
قرآن مجید کے مطابق عورت اور مرد دونوں کو ایک ہی جُز سے پیدا کیا گیا ہے۔ دونوں کے اجزائے ترکیبی ایک ہی ہیں اور ان کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں انسانوں ، مسلمانوں یا پھر مشرکوں اور منافقوں کو مخاطب کیا گیا ہے اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عورت پر صدیوں سے لگائے گئے تہمت کے اس داغ کو بھی صاف فرمایا جس کے مطابق آدم کو حوا یعنی عورت نے جنت سے نکلوایا تھا۔ قرآن پاک میں اپنی تخلیق کے بعد آدم و حوا دونوں کو جنت میں یکساں رہنے، مرضی کے مطابق یکساں طور پر کھانے پینے ، شجر ممنوعہ کے قریب دونوں کو ایک ہی طرح نہ جانے کا حکم دیا ہے پھر شیطان کا دونوں کو مخاطب کرنا ، پھر دونوں کا ممنوعہ کے قریب جانا یکساں طور پر قرآن میں تذکرہ موجود ہے۔ کسی بھی آیت میں کسی ایک کو بھی دوسرے پر ترجیح نہیں دی گئ۔ سورۃ الاعراف کی آیات 19 تا 25 ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
حضرت محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت سے قبل عورت معاشرے کے مردوں کی غلام تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُسے آزادی دی اور برابری بخشی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہی اسے خرچ و کمانے ، کاروبار کرنے، خریدوفروخت کرنے، جائیداد بنانے اور اپنے شوہر کے انتخاب کا اختیار عطا فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعلیمات کا ہی اعجاز تھا کہ مسلمان عورتیں ریاست کے اعلٰی ترین مناصب پر فائز ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی صحابیات رضی اللہ عنہا نے علم کی تدریس کی، جہاد میں حصہ لیا، کاروباری معاملات میں اپنا کردار ادا کیا ۔ غرض اسلامی ریاست کے جملہ امور میں عورتوں نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔
سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت کی تصدیق کرنے والی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو سہارا اور ہمت دلانے والی ہستی ایک عورت یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔


امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے ذہین بتایا جاتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 2210 تک شمار کی گئی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہہ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہہ اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہا جیسے اشخاص آپ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں میں شامل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا ایک اعلٰی درجہ کی عالمہ تھیں جب کوئی حدیث بیان کرتیں تو اس کے ساتھ اس کی علت و حکمت بھی بیان کر دیتیں۔

امّ المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا چمڑہ تیار کرتی تھیں اور یہ ان کا کاروبار تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہا خنجر لئے ہوئے اُحد کے میدان جنگ میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس طرح آنے کا مقصد پوچھا تو فرمایا کہ " میں نے اس کو اس لئے اپنے ساتھ رکھا ہے کہ کوئی مشرک قریب ہو تو اس کا پیٹ چاک کر دوں "
طبرانی کی روایت ہے کہ " جس دن احد کی جنگ ختم ہوئی، مشرکین واپس گئے تو خواتین ، صحابہ کی معاونت کے لئے روانہ ہوئیں، حضرت فاطم رضی اللہ عنہا بھی انہی میں تھیں"
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں کہیں جا رہے تھے تو راستے میں خولہ بنت ثعبلہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہو گئی۔ وہ وہیں حضرت عُمر رضی اللہ عنہہ کو نصیحت کرنے لگیں " عُمر ! ایک زمانہ تھا جبکہ میں نے تُم کو عکاظ کے میلے میں دیکھا تھا کہ تم بچوں کو ڈنڈا لئے ڈراتے دھمکاتے پھرتے تھے۔ اس وقت تم بہت چھوٹے تھے اور اس کم سنی کے باعث لوگ تم کو عمیر کہ کر پکارتے تھے۔ بعد میں لوگ تمہیں عمر کہنے لگے اور اب تُم امیر المؤمنین ہو۔ رعایا کے معاملے میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتے رہنا۔ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جس شخص کو اللہ کے عذاب کا خوف ہو گا وہ قیامت کو دور نہیں سمجھ سکتا اور جس کو موت کا کھٹکا ہو اس کی نیکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خدشہ ہر وقت رہے گا " 
یہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا لایا ہوا انقلاب تھا جس کے باعث اُس عرب میں جہاں عورت حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھی وہیں ایک عورت اپنے وقت کی سُپر پاور مملکت کے حاکم کو راہ چلتے ٹوک رہی ہے۔ 


یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرے میں سود و زیاں اور نفع اور ضرر سے مسلمان عورتیں محض کسی تماشائی کی طرح علیحدہ نہیں رہیں بلکہ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیمات سے انہوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم کی خواتین کا کردار تاریخ میں موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں کسی نے نہ تو مسجد جانے سے کسی نے روکا نہ شریک جہاد ہونے سے، نہ عیدین کے اجتماعات سے روکا اور نہ ہی دوسرے بے شمار فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی نے روکنے کی کوشش کی۔ 



عورت کا مسئلہ دُنیا کے تمام معاشروں میں چاہے وہ مہذب ہوں یا نہ ہوں ہمیشہ سے ایک اہم نوعیت کا مسئلہ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں کہیں پر اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت ملی تو پورا معاشرتی ڈھانچہ عورت کے گرد گھومنے لگا اور کہیں پر اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا تو اس صنف نازک پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ جن کا تذکرہ کرنا بھی ایک درد مند انسان کے لئے آسان نہیں۔ لیکن میرے خیال میں عورت کی مظلومیت کا دور دراصل موجودہ دور بھی ہے کیونکہ عورت کے مفادات ، عورت کے حقوق، عورت کی آزادی کے بلند و بانگ دعووں کے پردے میں جس قدر زیادتی اس دور میں ہوئی قدیم معاشرے میں بھی کبھی ایسا نہ ہوا ہو۔ تجارتی مال کی خریدوفروخت سے لیکر تفریح گاہوں، رقص گاہوں یہاں تک کہ سیاسیات میں بھی عورت کو کہیں کھلونے کے طور پر اور کہیں مہرے کے طور پر کچھ اس انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ عورت خود بھی اس تذلیل کو اپنی عزت افزائی سمجھنے لگی ہے۔



اہل یورپ کا یہ دعوٰی کس قدر بڑا فریب ہے کہ عورتوں کو اعزاز و کرام اور مساوات سب سے پہلے اُنہوں نے عطا کیا۔ یہ اولیت تو اسلام کو ہی حاصل ہے ۔ اسی نے عورتوں کو اعزاز و کرام اور مساوات سے نوازا۔ یورپ کے مذہبی اور معاشرتی قوانین میں آج بھی مرد کی برتری قائم ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"عورتیں ریاست کا ستون ہیں اگر وہ اچھی ہوں گی تو ریاست بھی اچھی ہو گی اور اگر وہ خراب ہیں تو ریاست بھی خراب ہو گی"

قرآن کریم عورت اور مرد کی فضیلت کے بارے میں کہتا ہے 
تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے - سورة الأحزاب

(یہ مضمون ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی اور ہماری ویب ڈاٹ کام  پر شائع ہوا)

No comments:

Post a Comment