Aug 16, 2014

ارشادات حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ - انسان، جن، فرشتےاور کائنات کیا ہے !

حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ


حضور بابا تاج الدین ناگپوری ؒ سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاؒکے نانا ہیں ۔ حضور قلندر بابااولیاؒ نے تقریبا 14 برس  حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒؒ سے  تربیت حاصل کی ۔
حضور بابا تاج الدین ناگپوری ؒ کا89 واں عرس مبارک مورخہ 17 اگست بروز اتوار  سلسلہ عظیمیہ کے زیرِ اہتمام دُنیا بھر کے مراقبہ ہالز میں عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔حضور بابا تاج الدین ناگپوری ؒ  کے وہ فرمودات جو تخلیق ، سائنس اور تکوین کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔  اس بابرکت موقع کی مناسبت سے یہاں پیش کیئے جا رہے ہیں۔

انسان، جن، فرشتےاور  کائنات کیا ہے  !

حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ
انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے ۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتاہوں یہ چیزیں دور پرے کی ہیں ۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں ۔ ان پربھی نظر ڈالتے جاو۔ دن طلوع ہوتا ہے ۔ دن کا طلوع ہونا کیا شے ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ طلوع ہونےکا مطلب ہم نہیں جانتے ۔ دن رات کیا ہیں۔ اس کے جواب میں اتنی بات کہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے ، اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوع انسانی کا یہ تجربہ ہے۔
دن رات فرشتے نہیں ہیں ، جنات نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر ہم کہیں کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے اس لئے قابل یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کر لو۔ سب کے سب گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کو حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ہر ذی ہوش تفکر ہے۔  
اس گفتگو میں ایک ایسا مقام آجاتا ہے جہاں کائنات کے کئی راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ ، غور سے سنو ، ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں اُبھرتی رہتی ہیں ۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنےتفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے – فرشتے اور جنات- ان سے انسان کا تفکر اسی طرح متاثر ہوتا رہتا ہے۔قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ لامتناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے۔  ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرز عمل کا ایک جزو ہے۔ انسان پابہ گُل ہے۔ جنات پابہ ہیولیٰ ہیں ، فرشتے پابہ نُور۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔ اگر یہ تینوں مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں تو ربط ٹوٹ جائے گا۔ اور کائنات منہدم  ہو جائے گی۔
عام زُبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتا ہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یا تو بالکل نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ،ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ ان کی انا  یعنی کی لہریں ہمیں بہت کچھ دینی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلہ خیالات کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سےہمارے زیادہ قریب ہیں اور تبادلہ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔
کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے ۔ پے درپے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہین وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لا شُمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زُبان میں توہم ، خیال ، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام  دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں ، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ ِمشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطہِ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے ۔ یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصر ہے ۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتا ہے  تصویر خانے اس ہی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرز عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ قرآن پاک م یں انسان ، فرشتہ اور جنات کے نام سے کیاگیا ہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام تخلیق کیا ہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کا رُکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہو کر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور ب یہ لہریں معین مسافت طے کر کے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
میں یہ کہ چُکا ہوں کہ تفکر ، انا اور شخص ایک ہی چیز ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کر سکتے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انا ، تفکر اور شخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جو لاشمار کیفیات کی شکلوں اور سراپا سے بنی ہیں۔ مثال کے طور پر بصارت ، سماعت، تکلم ، محبت، رحم، ایثار، رفتار، پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت ایک شکل اور سراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے حساب سراپا لے کر ایک جگہ اس طرح جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان ہو گئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے ۔ یہ تینوں ساخت اس لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیات کے پرت دوسرے انواع سے زیادہ ہیں ۔ کائنات کی ساخت میں ایک پرت بھی ہے اور کثیر تعداد پرت بھی ہیں۔ تاہم ہر نوع کے افراد میں مساوی پرت ہیں۔
انسان لاشمار سیاروں میں آباد ہیں۔ اور ان کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اور جنات کے بارے میں کہ سکتے ہیں۔ انسان ہوں ،  جنات  ہوں یا فرشتے، ان کے سراپا کا ہر فرد ایک پائندہ کیفیت ہے۔ کسی پرت کی زندگی جلی ہوتی ہے یا خفی۔ جب پرت کی حرکت جلی ہوتی ہے تو شعور میں آجاتی ہے ، خفی ہوتی ہے تو لاشعور میں رہتی ہے۔ جلی حرکت کے نتائج کو انسان اختراع و ایجاد کہتا ہے۔ لیکن خفی حرکت کے نتائج شعور میں نہیں آتے ۔ حالانکہ وہ زیادہ عظیم الشان اور مسلسل ہوتے ہیں۔ یہاں یہ راز غور طلب ہے کہ ساری کائنات خفی حرکت کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظاہر سے بھری پڑی ہے۔ البتہ یہ مظاہر محض انسانی لاشعور کی پیداوار نہیں ہیں ۔ انسان  خفی کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل ربط قائم نہیں رکھ سکا۔ اس کمزوری کی وجہ نوعِ انسان کے اپنے خصائل ہیں۔ اس نے اپنے تفکر کو کس مقصد کے لیئے پابہ گل کیا ہے۔ یہ بات اب تک نوع ِ انسانی کے شعور سے ماورأ ہے ۔ کائنات میں جو تفکر کام کر رہاہے اس کا تقاضا کوئی ایسی مخلوق پورا نہیں کر سکی جو زمانی ، مکانی فاصلوں کی گرفت میں بے دست و پا ہو۔ اس شکل میں ایسی تخلیق کی ضرورت تھی جو اُس کے خالی گوشوں کو مکمل کر نے کی طاقت رکھتی ہو۔ چنا نچہ کائناتی تفکر سے جنات اور فرشتوں کی تخلیق عمل میں آئی تا کہ خلا پُر ہو جائے۔ فی الواقع انسانی تفکر سے وہ تمام مظاہر رُونما نہیں ہو سکے  جن سے کائنات کی تکمیل ہو جاتی ۔
کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے ۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔ دراصل زمان اور مکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دُخان جس کے بارے میں دُنیا بہت کم جانتی ہے اس مخلوط کا نتیجہ اور مظاہر کی اصل ہے۔ یہاں دُخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دُھواں نظر آتا ہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا ۔ انسان مثبت دُخان کی پیداوار ہے اور جنات منفی کی پیدوارہیں ۔ رہا فرشتہ ، ان دونوں کے ملخص سے بنا ہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے ترکیبی غیب و شہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعور اور لاشعور حیات سے دُور نابود میں گُم ہو جاتا ہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب و غریب کرشمہ برسرِعمل ہے۔ مثبت دُخان کی ایک کیفیت کا نام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دُخان کی منفی کیفیت نمکین ہے ، اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں ۔ اگر ایک انسان میں مثبت کیفیت کم ہو جائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ اور وہ جنات کی طرح عمل کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہو جائے تو اس میں ثقلِ وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر مثبت ور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے طور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے۔ اور منفی کے زور پر جنات کی۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہو جائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔
طریقہ کار بہت آسان ہے۔ مٹھاس اور نمک کی معین مقداریں کم کر کے فرشتوں کی طرح زمانی مکانی فاصلوں سے وقتی طور پر آزاد ہو سکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر کے جنات کی طرح زمانی و مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی روحانی انسان کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔
   

No comments:

Post a Comment