Sep 23, 2015

حجۃالوداع - یوم العرفہ


" لوگو!میری بات غورسے سن لومجھے نہیں معلوم کہ تم سے اس سال کے بعداس مقام پرکبھی مل سکوںیانہیں ۔لوگواللہ تعالیٰ کاارشادہ پاک ہے کہ اے انسانو!ہم نے تم سب کوایک ہی مردوعورت سے پیداکیاہے اورتمہیں جماعتوں اورقبیلوںمیں بانٹ دیاہے کہ تم الگ الگ پہچانے جاسکوتم میں سب سے زیادہ عزت وکرامت والااللہ پاک کے ہاں وہ ہے جواللہ پاک سے سب سے زیادہ ڈرنے والاہو"۔
نہ کسی عربی کوعجمی پرکوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کوعربی پرنہ کالاگورے سے افضل ہے اورنہ گوراکالے سے ہاں بزرگی اورفضیلت کامعیارہے تووہ تقویٰ ہے سب انسان آدمؑ کی اولادہیں اورآدم ؑ مٹی سے بنائے گئے اب فضیلت وبرتری کے سب دعوے،خون مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاﺅں تلے دفن اور پامال ہو چکے ہیں -بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت باقی رہے گی۔
اے لوگو!ایسانہ ہوکہ اللہ پاک پاس تم ایسے آکہ تمہاری گردنوں پرتودنیاکابوجھ لداہواہواوردوسرے لوگ سامان آخرت لے کرپہنچیں اوراگر ایساہوا تومیں اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔
اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تمہاری جھوٹی نخوت کوختم کرڈالااورباپ داداکے کارناموںپرتمہارے لئے فخرومباہات کی گنجائش نہیں اے لوگو!تمہارے خون ،مال اورتمہاری عزتیںایک دوسرے پرہمیشہ اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کے دن کی ماہ مبارک (ذی الحج )کے مہینے کی اور اس شہر(مکہ)کی حرمت قائم ہے تم سب نے اللہ کے پاس جاناہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے پوچھناہے۔ خبردار!میرے بعدگمراہ نہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جا
اگرکسی کے پاس امانت رکھی جائے تووہ اسکاپابندہے کہ امانت رکھوانے والے کوامانت واپس دے دے۔
لوگو!ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے اورسارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو انکاخیال رکھواورانہیں وہی کھلاجوتم خودکھاتے ہو۔ایساہی پہناجوتم خودپہنتے ہوجاہلیت کی ہربات کومیں اپنے پاں تلے روندتاہوں جاہلیت کے قتل وخونریزی کے تمام جھگڑوں کاملیامیٹ کرتاہوں پہلاخون میرے خاندان کاہے یعنی ابن ربیعہ بن الحارث کاجوبنی سعدمیں دودھ پیتاتھا اوربنوہذیل نے اسے قتل کرڈالامیں اسے چھوڑتاہوں دورجاہلیت کاسودختم کردیاگیاپہلاسوداپنے خاندان کاجومیں ختم کرتا  ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا ہے وہ سارے کاساراچھوڑدیاگیا"۔
لوگو!اللہ تعالیٰ نے ہرحقدارکواسکاحق دے دیااب کوئی کسی وارث کے حق کے لئے وصیت نہ کرے بچہ اسی کی طرف منسوب کیاجائے جس کے بسترپرپیداہواجس پرحرامکاری ثابت ہوجائے اسکی سزاپتھرہے ۔حساب وکتاب اللہ تعالیٰ کے ہاں ہوگاجوشخص اپنے آباءکوچھوڑکراپنانسب بدلے گایاکوئی غلام اپنے آقاکومقابلے میں کسی اورکواپناآقاظاہرکرے گااس پراللہ پاک کی لعنت!قرض قابل واپسی ہے ادھارلی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے تحفے کابدلہ دیناچاہیے اورجوکوئی کسی کاضامن ہووہ تاوان اداکرے کسی کے لئے یہ جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے سوائے اسکے جس پراسکابھائی راضی ہواورخوشی خوشی اسکودے دے تم خودایک دوسرے پرزیادتی نہ کرو"۔
ہاں اے لوگو!عورتوں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈروکیونکہ تم نے انہیں اللہ پاک کے نام پرحاصل کیااوراسی کے نام پرتمہارے لئے حلال ہوئیں عورت کے لئے یہ جائزنہیں کہ وہ اپنے شوہرکامال اسکی اجازت کے بغیرکسی کودے ۔تم پرتمہاری عورتوں کے کچھ حقو ق            ہیں اسی طرح ان پرتمہارے حقوق واجب ہیںعورتوں کے بارے میں خداسے ڈرنا-
 میں تم میں ایسی چیزچھوڑے جارہاہوں کہ اگرتم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھاتواسکے بعدہرگزگمراہ نہ ہوگے اوروہ ہے کتاب ہاں یادرکھنادینی معاملے میں حدودسے تجاوزنہ کرناکہ تم سے پہلے لوگ انہیں کے سبب ہلاک ہوئے "۔
لوگو!شیطان کواب اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی کہ اس کی اس شہرمیں عبادت کی جائے لیکن اس کاامکان ہے کہ ایسے معاملات جن کوتم کم اہمیت دیتے ہواس کی بات مان لی جائے اوروہ اس پرراضی ہواسلئے تم اس سے اپنے دین اورایمان کی حفاظت کرنا"۔
لوگو!حرمت والے مہینے کوآگے پیچھے کرناکفرمیں اضافہ کرتاہے اس سے وہ لوگ اوربھی گمراہ ہوتے     ہیں جوکافرہیں اورجوایک سال اُسے حرام رکھتے ہیں اوردوسرے سال حلا ل کرلیتے ہیں تاکہ یہ کافرلوگ اللہ پاک کے حلال کیے ہوئے مہینوں کی گنتی پوی کرلیں اس طرح یہ اللہ پاک کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحلال اورحلال کی ہوئی چیزوں کوحرام قراردیتے ہیں"۔
لوگو!یادرکھومیرے بعدکوئی نبی نہیں اورتمہارے بعدکوئی امت نہیں لہذااپنے رب کی عبادت کروپانچ وقت کی نمازاداکرو،سال بھرمیں ایک مہینہ  کے روزے رکھواپنے مال کی زکوٰة خوش دلی سے اداکرتے رہواللہ کے گھرکاحج کرواپنے اہل امرکی اطاعت کروتوتم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جا
گے۔
لوگو!اورتم سے میرے متعلق اللہ پاک قیامت کے دن پوچھے گابتاتم کیاجواب دوگے؟
صحابہ کرام ؓ نے عرض کیاہم شہادت دیں گے کہ آپ نے اللہ پاک کاپیغام پہنچادیااورخیرخواہی کاحق اداکردیایہ سن کرآپﷺ نے شہادت کی انگلی کوآسمان کی طرف اٹھاتے اورلوگوںکی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا
اے اللہ پاک!گواہ رہنا،گواہ رہنا۔
اس خطبے میں آپﷺ نے کئی اموربیان فرمائے اورجب فارغ ہوئے توآپﷺپراللہ تعالیٰ کایہ ارشادنازل ہوا۔
(ترجمہ)آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیااورتم پراللہ پاک کی نعمت پوری کردی اورتمہارے لئے اسلام کوبحیثیت دین پسندکیا۔سورة المائدة آیت۳
خطبہ دینے کے بعدآپﷺنے حضرت بلالؓ سے فرمایاکہ اے بلالؓ اذان پڑھو۔ حضرت بلال ؓ نے اذان پڑھی توحضورﷺنےنماز اداکی  پھرآپﷺنے نہایت تضرع اورانکساری سے دعافرمائی یہ دعااتنی طویل تھی کہ سورج غروب ہوگیا۔غروب آفتاب کے بعدآپﷺاونٹنی پرسوارہوئے اورواپس مزدلفہ تشریف لائے ۔ اورمشعرالحرام کے پاس آکردعافرمائی حتیٰ کہ سورج نکلنے کے قریب ہوگیاحضورﷺنے حضرت فضل بن عباس ؓسے فرمایاکہ کنکریاں چن لواُنہوں نے سات کنکریاں حضورﷺکی خدمت میں پیش کیں۔
منیٰ کوواپسی
جب آپﷺواپس منیٰ میں پہنچے تونشیب میں جمرة العقبٰی کوکنکرمارنے کے لئے قیام فرمایااورایک ایک کرکے کنکریاں پھینکیں ہرکنکری مارتے وقت تکبیرپڑھتے تھے ۔حضرت اسامہ بن زیداورحضرت بلالؓ سے جوقریب حاضرتھے فرمایاسیکھ لوشایدآئندہ سال میں حج نہ کرسکوں یہاں پر حضورﷺنے پھرایک مرتبہ خطبہ دیاجس میں قربانی کے فضائل اورطریقہ بیان فرمایااس خطبہ کے چندارشادات یہ ہیں
"لوگو!میرے بعدکافرنہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کوقتل کرنے لگ جاجان لوجوشخص گناہ کرتاہے اسکی جواب دہی اسکے ذمے ہے جولوگ حاضرہیں وہ ان لوگوں کواحکام بتائیں جوحاضرنہیں"
پھرآپﷺپہاڑکے دامن میں تشریف لائے اورقربانی فرمائی ۳۶اونٹ حاضرتھے قربانی کے بعدآپﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایاکہ قربانی کی کھال مساکین میں تقسیم کردو۔ پھرآپ ﷺنےبال مبارک کٹوائے۔یہاں سے فارغ ہوکرآپﷺواپس کعبة اللہ آئے اورطواف کیااسکے بعدآبِ زم زم پہ تشریف لائے اورکھڑے ہوکرقبلہ کی طرف منہ کرکے پانی نوش فرمایا۔پھراسی وقت آپﷺمنیٰ کوتشریف لے گئے رات کومنیٰ میں قیام فرمایاصبح اٹھ کرزوال سے پہلے جمرہ اولیٰ ،جمرہ وسطیٰ،اورپھرجمرہ عقبے کوکنکریاں ماریں یونہی۳ دن تک عمل فرمایا۔ پھرآپﷺمکہ واپس آئے اورطواف وداع فرمایااس طواف میں آپﷺنے رمل نہیں فرمایایعنی پہلے تین چکروں میں جلدی جلدی اورچھوٹے چھوٹے قدم نہیں اٹھائے۔صبح کی نمازکعبة اللہ میں ادافرماکرواپس مدینہ منورہ کاارادہ فرمایا۔
خطبہ حجة الوداع کے اہم نکات
٭انسانی جان،مال ،عزت وآبرو،اولادکاتحفظ ٭امانت کی ادائیگی ٭قرض کی واپسی اور جائیداد کے تحفظ کاحق ٭سودکے خاتمے کاتاریخی اعلان ٭پُرامن زندگی اوربقائے باہمی کاحق ٭ملکیت،عزت نفس اورمنصب کے تحفظ کاحق
٭انسانی جان کاتحفظ،قصاص ودیت ٭قانونی مساوات کاحق،نسلی تفاخراورطبقاتی تقسیم کاخاتمہ
٭غلاموں کے حقوق کاانقلابی اعلان ٭عورتوں کے حقوق کاتاریخی اعلان

* ترتیب : محمد عاطف نواز عظیمی*

وقوفِ عرفات کی دُعا : از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی


یہ دعا قرآن پاک کی آیتوں اور مشہور و مقبول دعاؤں کا اردو ترجمہ ہے تا کہ ہر شخص سمجھ کر اور دل لگا کر پڑھے، ہر زبان کا پیدا کرنے والا آپ کی زبان کو جانتا اور سمجھتا ہے۔ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس کو پڑھئے۔ دل اور آنکھیں بھی دعا میں زبان کا ساتھ دیتی ہیں۔
’’اے میرے اللہ! تو نے ہمیں دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے کہ ’’مجھ سے مانگو میں پورا کرونگا۔‘‘
اے ہمارے اللہ! ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما، اپنی رحمت و کرم سے ہمارے تمام کاموں میں آسانیاں پیدا کر۔
اے اللہ! میں اس مبارک سفر میں اور اس میدان عرفات میں تجھ سے تیری دائمی خوشنودی اور رضامندی کے ساتھ ہر قسم کی آسانی اور سہولت کا طلبگار ہوں، تو ہی ہمارا رفیق و مددگار ہے تو ہی ہمارے بال بچوں اور گھر والوں کا محافظ و نگہبان ہے، اس سفر کی ہر زحمت کو قبول فرما اور ہر کام میں ہمیں نیک نیتی پر قائم رکھ۔ میں اس میدان عرفات میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ تیرے سوا میرا کوئی معبود و مالک نہیں اور حضرت محمدﷺ تیرے خاص بندے اور برحق رسول اور پیغمبر ہیں۔
اے دنیا اور آخرت کے مالک، اے بے پناہ رحمت اور بخشش والے، مجھ پر تیری کس قدر بے شمار نعمتیں ہیں جن میں ہر نعمت پر تیرے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا، مجھ پر رحم و کرم کرنے والے، مجھے فقر و تنگدستی سے ذلیل نہ کر، قرض کی بدنامی سے مجھے بچا اور جو نعمتیں تو نے مجھے دی ہیں ان کو مجھ سے واپس نہ لے، صحت، عافیت کی زندگی عطا فرما، اپنی تمام نعمتوں پر تجھے یاد کرنے، تیرا شکر اور عبادت کا پورا حق ادا کرنے میں میری مدد فرما، ہر قسم کے شر فساد اور اس زمانے کے ہر فتنہ سے میری اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما تو ہی اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔
اے ہمارے اللہ! ہماری نماز، ہمارا حج، ہماری زکوٰۃ، ہمارے روزے، ہماری طرف سے قربانی، ہماری زندگی اور موت صرف تیرے لئے ہے۔ میں تجھ سے تیری رضا، تیری رحمت، تیری خوشنودی کا طلبگار ہوں۔ یہ سب کچھ میری عاجزانہ کوشش ہے اور تجھ پر میرا بھروسہ ہے۔
اے میرے اللہ! میں اس وقت تیری پاک سر زمین اور رحمت کے زیر سایہ ہوں۔ یہ وقت تیری رحمت و مغفرت اور بخشش کا ہے، توبہ کرنے، گناہ معاف کرانے اور تیرے کرم و احسان کی امید کا ہے، ہماری دعاؤں کے سننے اور قبول کرنے کا یہ خاص مقام ہے۔ ہر شخص اپنی دعائیں تیری بارگاہ میں پیش کر رہا ہے اور تو ہی اپنی رحمت سے ان کو قبول کرنے والا ہے۔ اس میدان عرفات میں جو آج تیری تجلیات اور برکتوں کا ایک خاص دن اور مقام ہے میری یہ حاضری عمر بھر میں آخری نہ ہو اور بار بار مجھے یہاں حاضری کی سعادت و نعمت حاصل رہے۔
اے اللہ! ہمیں ہدایت نصیب فرما، ہمارے ظاہر اور باطن کی اصلاح فرما تا کہ ہم گمراہیوں سے دور رہیں اور ان مقبول بندوں میں شامل فرما جو سچے دل سے ایمان لائے ہیں۔ تو پاک ہے اور بے عیب ہے، ہم تیری نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتے۔ ہم تیری نعمتوں کے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ تو ہی سب سے زیادہ رحیم و کریم ہے اور ہر مانگنے والے کو سب کچھ دینے والا ہے۔ اے کریم ہمیں عافیت و سلامتی عطا کر، اپنی اطاعت فرمانبرداری کی ہمت و توفیق نصیب کر، ہماری یہ زندگی تیری امانت ہے۔ اس لئے برحق دین اسلام پر ایسی حالت میں تیرے سامنے حاضر ہوں کہ تو ہم سے ہر طرح خوش اور راضی ہو۔ تیرے سوا میرا کوئی مالک، میرا کوئی پالنے والا اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس کلمہ پر میری زندگی ختم ہو۔
اشھدان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
تو ہی آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور دنیا و آخرت میں ہمارا مالک و مددگار ہے، اس تمنا کو قبول فرما کر سچے مسلمان کی طرح میرا انجام بخیر ہو۔ تیرے نیک اور مقبول بندوں کی رفاقت حاصل رہے۔ تو نے ہر چیز کو اپنی رحمت میں لے رکھا ہے تو ہر چیز سے باخبر ہے تیری بتائی ہوئی راہ پر ہمیشہ چلنے، گناہوں سے بچنے اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔ تو نے ہمیں جتنا علم دیا ہے ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے تو ہی سب کچھ جاننے والا ہے۔ میں تجھ سے دین و دنیا میں ہر طرح کی خیر، ہر آفت سے سلامتی اور ہر مصیبت سے عافیت کا امیدوار ہوں، اپنے گناہوں کی معافی کے ساتھ تیرے غضب اور دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتا ہوں۔
اے اللہ! میرے سننے، میرے سمجھنے اور دیکھنے کی قوت کو ہمیشہ قائم رکھ اور میرے دل کو اپنے نور سے بھر دے، مجھے مال و دولت کے شر اور اس کی برائیوں سے پناہ میں رکھ، فقر و تنگدستی کی ذلت اور برے انجام سے ہمیشہ مجھے بچا، دل کی تاریکی، قبر کی سختی اور عذاب سے اپنی پناہ میں رکھ، تیرے سوا کوئی بچانے اور نجات دینے والا نہیں۔
اے اللہ! میری التجا ہے کہ ہر وقت تیری یاد، تیری عبادت، تیری بندگی، ہر صورت سے تیری تابعداری کا حق ادا کروں، قرآن پاک کی تلاوت کو میرے دل کی بہار، میری آنکھوں کا نور اور میرے رنج و غم کو دور کرنے کا ذریعہ بنا دے۔
اے اللہ! تو اپنے کسی بندے پر اس کی طاقت اور برداشت سے زیادہ بار نہیں ڈالتا، ہر ایک جو کچھ کرے گا، اس کا نتیجہ پائے گا اور اپنے کئے کو بھگتے گا، اگر ہم بھول چوک سے کوئی غلطی کر جائیں تو ہماری گرفت نہ کر، ہمیں ہر قسم کے کفر و نفاق، باہمی مخلالفت، بداخلاقی، بدنیتی سے اپنے حفظ و امان میں رکھ، دل میں پیدا ہونے والے برے خیالات، اپنے کاموں کی ابتری میں ہر بلا اور مصیبت سے تیری پناہ مانگتا ہوں تو ہمیں اچانک اور بے خبری میں نہ ہلاک کر، ہمیں یکایک اپنی پکڑ اور گرفت میں نہ لے، ہم کو ہر حق ادا کرنے، حق بات ماننے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! میں ایسے علم سے جو آخرت میں کام نہ آئے اور ایسے عمل سے جو تیرے یہاں قبول نہ ہو اور ایسے قلب سے جو تیری یاد سے غافل رہے اور ایسی نفس پرستی سے جس کی حرص و ہوس کسی طرح کم نہ ہو اور ایسی دعا سے جو تیرے یہاں منظور نہ کی جائے ان سب چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
اے اللہ! تو پاک اور ہر طرح سے بے عیب ہے، ہم تیری عبادت، تیری فرمانبرداری اور تیری نعمتوں کے شکر کا پورا حق ادا نہ کر سکے تو اپنی محبت اور ایمان کو ہمارے دلوں کی زینت بنا دے، بداعمالی اور سرکشی سے ہمیں بچا۔ دین دنیا میں اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کے لئے جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے ان سب کے لئے تیری رحمت تیری پردہ پوشی کا طلبگار ہوں۔ مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو دوبارہ زندگی دے کر اٹھائے گا۔
اے اللہ! تو ہی ہماری تمام ضرورتوں اور کاموں کو پورا کرنے والا، دنیا و آخرت میں ہمارا مرتبہ بلند کرنے والا، ہماری درد بھری آواز کو سننے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ اے سب کچھ جاننے والے ہمارے دلوں کو پاک کر، ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما۔ ہمارے گھر والوں اور تمام مسلمان بھائیوں کو ہر مصیبت، ہر پریشانی اور تمام آفتوں سے اپنے حفظ وامان میں رکھ۔ اے بے کسوں کے سننے والے ہم سب کو پھیلنے والی بیماریوں، خاص طور سے لاعلاج بیماریوں، بلاؤں، قحط، گرانی سے بچا اور ہر قسم کے کھلے ہوئے یا پوشیدہ گناہوں سے، ناپسندیدہ کاموں سے ہم سب کی حفاظت فرما۔
اے اللہ! مسلمان اپنی بداعمالی، سرکشی اور گمراہیوں کی بدولت ہر جگہ بہت سخت مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہیں۔ اے پریشان حالوں کی دعا کو قبول کرنے والے، ہمارے گناہوں کی پاداش میں ہم پر ان لوگوں کو غالب اور برسر اقتدار نہ کر جو تجھ سے نہیں ڈرتے اور ہم پر رحم نہیں کرتے۔
اے ہمارے اللہ! جو تیری راہ میں سربکف ہیں، جم کر صبر اور ہمت سے تیرے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، تیرا نام بلند کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو دین کی خدمت و مدد کر رہے ہیں، جو اسلام کو دشمنوں سے بچانے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ مسلمان جو تیرے دشمنوں کے ملک میں بے کس اور بے بس ہیں، تیرے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں، بے یار و مددگار مظلوموں کی طرح اپنے ملک میں رہتے ہیں، اے زبردست قدرت والے اللہ! اپنی رحمت و کرم سے ان سب کی مدد فرما، اسلام اور مسلمانوں کو عزت اور قوت اور برتری عطا فرما، دین کا نام بلند کر اور جو تیرے دین کی سچی خدمت و مدد کرتے ہیں ان کی تائید اور امداد فرما اور جو مسلمانوں کو ذلیل کریں، ان کو ذلت و خواری میں مبتلا کر، اے مدد چاہنے والوں کے زبردست مددگار، اے مظلوموں کی فریاد سننے والے ہماری حفاظت فرما۔ ہمیں نصرت اور کامیابی عطا فرما۔
اے ہمارے اللہ! اے عزت و عظمت کے مالک، اے ہمیشہ قدرت اور اختیار رکھنے والے، اے سخت گیر اور زبردست قوت والے، اپنے حکم و ارادے کو فوراً پورا کرنے والے، ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت اور اپنا غضب نازل فرما جو تجھ سے ہمارا تعلق ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تیرے چاہنے والوں اور تیرے ان بندوں کی خوں ریزی کرتے رہتے ہیں جو حضرت محمدﷺ کی امت میں سے ہیں۔ تو ہمارے دشمنوں کی مدد کرنے والوں میں جدائی اور اختلاف پیدا کر دے اور دشمنوں کی ہر جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔
اے اللہ! حضرت محمدﷺ کے تمام دشمنوں پر اپنا وہ غضب و عذاب نازل فرما جس سے کسی ظلم و ستم کرنے والے کو کبھی پناہ نہ مل سکی، وہ ظالم جنہوں نے بے گناہ مسلمانوں کی خوں ریزی کی ان کے مال و دولت پر قبضہ کیا، ان کی آبرو و عزت پر دست درازی کی، تو ہی ہماری جانب سے ان دشمنوں کا مقابلہ کر، ان کے شر و فساد سے ان کی سازشوں سے، ان کے خطرناک ارادوں سے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھ۔
اے اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد اور تمام متعلقین کو ان تمام چیزوں اور بلاؤں سے جو ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں جن سے ہمارا ایمان کمزور اور بصیرت ختم ہو گئی۔ ہمارے دل پتھر بن گئے۔ حیاء، غیرت اور شرم کم ہو گئی۔ ہم میں ہر قسم کے گناہ پھیل گئے۔ ہم ہر طرف سے ان گناہوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ہمارا ملک، ہماری آبادیاں تیرے نبی کریمﷺ کے دشمنوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اے رحیم و کریم! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان دشمنوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ، ہماری ہدایت اور اصلاح فرما، ہماری حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ہماری دعاؤں کے لئے قبولیت کے دروازے کھول دے، تو ہی ہر پریشان حال اور بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے، اے بے پناہ قدرت و عظمت والے پروردگار ہم کو دوسری قوموں کے لئے لقمہ تر نہ بنا، جس طرح کہ کھانے والے بھوک میں دسترخوان پر لپکتے ہیں ہم کو اپنی کثرت تعداد کے باوجود خس و خاشاک کی طرح سیلاب بہا کر نہ لے جائے۔ ہمیں وہ ایمانی قوت عطا کر جس سے ہمارے دشمنوں کے دلوں پر ہماری ہیبت اور رعب قائم رہے۔ ہمارے دلوں میں کمزوری اور خوف پیدا نہ ہو اور ہمارے دلوں پر دنیا کی محبت غالب نہ آئے۔
اے اللہ! رحمتہ للعالمین محمدﷺ کے دین کی تائید اور حفاظت فرما۔ دین کی مدد کرنے والوں کی نصرت فرما جس نے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی، توہین، بے عزتی کی تو اسے ذلیل و خوار کر دے۔
اے اللہ! تو جبار و قہار ہے۔ اپنا غضب، اپنا عذاب اور ہر قسم کی بلائیں اپنے دشمنوں پر نازل فرما، ان کے دلوں میں خوف و دہشت پیدا کر دے، ان کی شکل و صورت کو بگاڑ دے، تو ہی ہمارے دکھ درد کو سن سکتا ہے، تجھ ہی سے ہم مدد کے طلبگار ہیں، تیرے سوا ہمارا کوئی معبود و مددگار نہیں۔
اے اللہ! ہمارے دلوں کی اصلاح فرما دے، ہم میں باہمی محبت و ہمدردی پیدا کر دے اور آپس کے جھگڑوں، ایک دوسرے کی اذیت، بغض و عداوت سے محفوظ رکھ۔ ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ محبت کا تعلق اور بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! ہم تیری بارگاہ اور اس میدان رحمت میں اپنے تمام گناہوں کی معافی کی امید لے کر آئے ہیں۔ ہمیں اپنی رحمت سے محروم نہ رکھ، تو بڑا رحیم و کریم ہے، ہمارے حال پر رحم و کرم فرما، گناہوں سے ہماری حفاظت فرما تا کہ ہم تیرے عذاب سے ہمیشہ محفوظ رہیں۔
اے اللہ! ہمارے ملک اور ہمارے وطن پاکستان کی بھی حفاظت فرما، اسے اپنی امان میں رکھ اور اسے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھ۔ اے رب العزت اگر کچھ لوگ ملک میں بدامنی، انتشار اور عصبیت پھیلانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ناپاک ارادوں سے باز رکھ اور انہیں توفیق دے کہ ان کے دلوں میں اپنے ملک کی محبت، اپنے ملک کے استحکام اور بقا کے لئے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اے اللہ! اگر کچھ لوگ منفی انداز میں سوچتے ہوں انہیں مثبت انداز میں سوچنے کی توفیق عطا فرما۔ جو لوگ تخریبی ذہن رکھتے ہوں انہیں تعمیری ذہن میں بدل دے۔ اے ہمارے پروردگار! پاکستان کے ہر شہری کو یہ توفیق دے کہ اس کا دل تعصب، گروہ بندی اور فرقہ پرستی کے گھناؤنے خیالات سے پاک ہو اور وہ ہر فرقے اور ہر طبقے کے بھائیوں کے ساتھ محبت و آشتی اور امن اور سکون کے ساتھ رہے۔ اے اللہ ہم سب کو حلال روزی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ رشوت، نفع خوری، ذخیرہ اندوزی اور حرام و ناجائز طریقوں سے کمانے کے رجحان کو مٹا دے اور تو نے اپنے کلام کے ذریعے قرآن حکیم میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کے جو اصول بتائے ہیں اور جن احکامات کی تلقین کی ہے لوگوں کو ان پر کاربند کر اور ان کے دلوں میں اپنا خوف پیدا کر۔ اے پروردگار!
ہماری سرزمین پاک کو ہر برائی سے پاک کر دے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کا مضبوط قلعہ بنا دے اور ان لوگوں کو ہمت، جرأت اور استقامت دے جو اس پاک سر زمین پر اپنی اپنی بساط کے مطابق تیرے احکامات کے نافذ کرنے کی سعی اور کوشش کر رہے ہیں۔ اے اللہ! ان لوگوں کو کامیابی سے ہمکنار کر جو زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کی خدمت کر رہے ہیں انہیں اس کا اجر جمیل عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔

 حوالہ کتاب : روحانی حج و عمرہ

خاتم النبیینﷺ کا آخری خطبہ: تحریر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی



خاتم الانبیاء ﷺ کا آخری خطبہ
ہجرت کے آغاز سے دسویں سال تک پیغمبر اسلامؐ نے جزیرۃ العرب کی سر زمین پر روزانہ 822 مربع کلو میٹر کے حساب سے پیش قدمی کی۔ اسلام کے آغاز میں مسلمان اتنے تہی دست اور بے بضاعت تھے کہ پہلی تین جنگوں میں ہر دو سپاہیوں کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور ان کے لشکر میں صرف دو گھوڑے شامل تھے۔ لیکن بعد میں مسلمان اتنے طاقتور اور مالدار ہو گئے کہ جنگ حنین میں ان کے پاس ایک ہزار گھوڑے تھے۔ اس طرح جنگ تبوک میں اسلامی لشکر دس ہزار گھوڑے لے کر چلا تھا۔ مسلمانوں نے اپنی پہلی لڑائی صرف چار افراد کے بل بوتے پر لڑی اور وہ لڑائی نخلہ کے مقام پر پیش آئی تھی۔ دوسری لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی۔ جنگ اُحد میں سات سو مسلمان سپاہی میدان کا رزار میں اُترے تھے لیکن جنگ تبوک میں انہوں نے تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ میدان جنگ میں قدم رکھا تھا۔ بعض جنگوں میں مسلمانوں کا نقصان بہت کم ہوا اور بعض میں انہیں بھاری نقصان اُٹھانا پرا۔ لیکن مسلمانوں کے تصرف میں آنے والے جزیرۃالعرب کے عظیم حدود اربعہ کے پیش نظر ان کا نقصانب برائے نام تھا۔ ہجرت کے نویں سال سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام قدرے علیل ہو گئے اور مدینہ میں ہی مقیم رہے۔ بہر حال اس سال سیدنا علیہ الصلوٰۃو السلام نے مدینہ میں سفیروں اور اطراف و اکناف کے قبائل کی نمائندہ جماعتوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام پورے جزیرۃالعرب کے مذہبی ، سیاسی اور عسکری پیشوا تھے، لیکن اس کے باوجود جب کوئی سفیر یا وفد ان سے ملنے آتا تو دیکھتا کہ آپ ﷺ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر بیٹھے ہیں اور آپؐ کا اسباب زندگی وہی ہے جو برسوں پہلے تھا۔
ہجرت کے دسویں سال سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام چودہ ہزار مسلمانوں کی معیت میں مناسک حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکہ تشریف لائے۔ 9ذی الحج سن 10 ھ کو جب سورج ڈھل گیا تو سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر وادی نمرہ میں جبل الرحمت پر جلوہ افروز ہوئے۔
خطبہ حجتہ الوداع اسلام میں اساسی دستور اور بنیادی اصول کی حیثیت کا حامل ہے۔وفات سے تقریباً80 روز پہلے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حج کے زمانے میں فرمایا:
لوگو ! میری باتیں غور سے سنو!
کیونکہ شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں پھر تم سے نہ مل سکوں۔
اے لوگو ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا ہے اور تمہارے خاندان اور قبیلے اس لئے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اس لئے کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، اسی طرح کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت نہیں۔
اے قبیلہ قریش !
ایسا نہ ہو کہ قیامت میں تم دنیا کا بوجھ سمیٹ کر اپنی گردن پر لادے ہوئے آؤ اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لائیں ۔ اگر ایسا کیا تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا۔
اے لوگو !  آج کا دن اور اس مہینہ کی تم جس طرح حرمت کرتے ہو اس طرح ایک دوسرے کا ناحق خون کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔خوب یاد رکھو کہ تمہیں خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ تمہارے سب کاموں کا پورا جائزہ لے گا۔
اے لوگو ! جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا۔
یاد رکھو !
خدا کی ذمہ داری پر عورتیں تم پر حلال ہوئیں اور اسی کے حکم سے تم نے ان پر تصرف کیا ہے۔ پس ان کے حقوق کی رعایت میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنا۔ جیسا تم کھاتے ہو ویسا ان کو کھلانا۔ جیسے تم کپڑے پہننا ویسے ہی ان کو کپڑے پہنانا۔ اگر ان سے کوئی خطا ہو جائے اور تم معاف نہ کر سکو تو ان کو جدا کر دینا کیونکہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں۔ ان کے ساتھ سخت برتاؤ نہ کرنا۔
لوگو ! میری بات غور سے سنو!
خوب سمجھو اور آگاہ ہو جاؤ !
جتنے کلمہ گو ہیں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب مسلمان اخوت کے سلسلے میں داخل ہو گئے ہیں۔تمہارے بھائی کی چیز تم کو اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ خوشی سے نہ دے۔
خبردار !  زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے کچل دی گئی ہیں۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔
خبردار ! نا انصافی کو پاس نہ آنے دینا۔ میں نے تم میں ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مضبوط پکڑے رکھو گے اور اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز خدا کی کتاب ہے۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔
خبر دار !  اپنے رب کی عبادت کرتے رہو ، صلوٰۃ قائم کرو۔ ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر (بیت اللہ) کا طواف کرو۔
مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو۔ کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی عمل سے برباد ہو چکی ہیں۔
خبردار ! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا ۔ تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔
اگر کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر ہو وہ تم کو اللہ کی کتاب کے مطابق چلائے تو اس کی اطاعت کرو۔
اے لوگو!
عمل میں اخلاص ، مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی اور جماعت میں اتفاق یہ باتیں سینہ کو صاف رکھتی ہیں۔
اے لوگو! تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گا۔ تو بتاؤ ، تم کیا کہو گے؟
لوگوں نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام ہمیں پہنچا دیا ہے اور اپنا فرض پوراکر دیا ہے تو آپؐ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اُٹھایا پھر لوگوں کی طرف جھکا کر فرمایا۔
یا اللہ! تو گواہ ہے
پھر فرمایا:
خبردار !   جو حاضر ہیں وہ یہ کلام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں خواہ وہ اس وقت موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہوں گے کیونکہ بہت سے وہ لوگ جن کو میرا کلام پہنچے گا خود سننے والوں سے زیادہ اس کی حفاظت کریں گے۔
حوالۂ کتاب : محمد رسول اللہ ﷺ

Sep 19, 2015

سُوئے مدینہ


دربارِ مآبﷺ


نمازِ پنجگانہ، مراقبہ اور مرتبہ احسان


 روحانیت شاگرد کے اندر ایسی حالت پیدا کر دیتی ہے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق اس حد تک محسوس کر لیتا ہے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ صلوٰۃ کا پروگرام اس بات کی تکرار ہے کہ بندے کا تعلق ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ سے قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ہر آن اس کے ساتھ موجود ہے۔ جب انسان صلوٰۃ کے اندر اس بات کی مشق مکمل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا ادراک مشاہدہ بن جاتا ہے۔ اس مقام کو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مرتبہ احسان کا نام دیا ہے۔
نماز فجر
* نماز فجر سے تقریباً بیس منٹ پہلے تمام ضروریات سے فارغ ہو کر مصلے پر اس طرح بیٹھ جائیں جیسے التحیات پڑھتے وقت
بیٹھتے ہیں۔
* آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ آپ اللہ کے حضور حاضر ہیں اور اللہ آپ کے سامنے موجود ہے۔
* پانچ سے دس منٹ تک یہ تصور کرنے کے بعد نماز فجر قائم کریں۔ دوران نماز اللہ کو اپنے سامنے موجود دیکھنے کا تصور قائم رکھیں۔ نماز اس تصور میں ادا کریں کہ اللہ آپ کے سامنے موجود ہے اور آپ نماز کے تمام ارکان بارگاہ ایزدی میں انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گا اور جسم نماز کے ارکان ادا کر رہا ہو گا۔ نماز میں آیات کی تلاوت کے وقت یہ تصور کریں کہ آپ اللہ سے مخاطب ہیں۔
سلام پھیرنے کے بعد التحیات کی نشست میں بیٹھے بیٹھے چند منٹ تک اللہ کی موجودگی کا تصور جاری رکھیں۔
اگر آپ کو اللہ کو دیکھنے کا تصور قائم کرنے میں دشواری محسوس ہو تو یہ تصور کریں کہ آپ اللہ کے حضور موجود ہیں اور اللہ آپ کی تمام حرکات و سکنات ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک تصور قائم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ابتداء میں تصور قائم نہ ہو سکے تو فکر مند نہ ہوں۔ متواتر اسی طریقے پر عمل پیرا رہیں۔ انشاء اللہ جلد تصور قائم ہو گا اور نماز میں اللہ کی قربت کا حقیقی لطف حاصل ہو گا۔
نمازِ ظہر اور نمازِ عصر
نماز ظہر اور عصر میں نماز سے پہلے چند منٹوں کے لئے اللہ حاضری اللہ ناظری کا ورد کریں اور اللہ کی موجودگی کا تصور کریں۔ پھر ساری رکعتیں اسی تصور کے ساتھ ادا کریں۔
نمازِ مغرب
مغرب کی نماز میں وقت کی کمی کے باعث نماز سے پہلے استغراق کی مشق اور تصور نہ کریں بلکہ ساری رکعتیں اس تصور میں ادا کریں کہ میں اللہ کے سامنے ہوں۔
نمازِ عشاء
نماز عشاء سے پہلے التحیات کی نشست میں بیٹھ کر اللہ کی موجودگی کا تصور پانچ منٹ تک کرنے کے بعد فرض نماز اسی تصور میں قائم کریں۔
رات کو سونے سے پہلے کسی بھی آرام دہ نشست میں بیٹھ کر اللہ کو دیکھنے کا تصور یا یہ تصور کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے، دس منٹ تک قائم رکھیں اور پھر سو جائیں۔
اگر نماز میں دل نہ لگے یا نمازیں بار بار قضا ہوتی ہیں تو چالیس روز نماز فجر کی نماز با جماعت ادا کریں۔ انشاء اللہ کوئی نماز قضا نہیں ہو گی۔



Sep 10, 2015

شیطان کو کنکریاں مارنے کی حکمت


آبِ زم زم اور امرِ ربی


سعی کی حِکمت




حرم میں40 نمازوں کی حکمت - تحریر: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی


۴۰ نمازیں پڑھنے کی حکمت



ثواب، نیکی اور اجر اللہ کا خصوصی انعام ہے۔ نظام کائنات کا پورا سسٹم نور اور روشنی پر قائم ہے۔ یہ نور اور روشنی لہروں میں نازل ہوتا رہتا ہے۔ ایک نیکی کا مطلب ہے کہ بندہ ایک روشنی سے سیراب ہو گیا ہے۔ صلوٰۃ کا مطلب ہے کہ اللہ سے تعلق قائم کرنا۔
ایک نماز کے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کا اپنے رب سے یک گونہ تعلق مزید بڑھ گیا ہے۔ اور ایک لاکھ ثواب کا مطلب ہے کہ صلوٰۃ قائم کرنے والے بندے یا بندی کا اپنے اللہ سے ایک لاکھ گنا تعلق میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مذہبی اعتبار سے چالیس کے عدد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن میں کئی جگہ اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر بلایا اور چالیس دن رات مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کے دھیان میں رہنے کا حکم دیا۔ ان چالیس دن راتوں میں حضرت موسیٰ ؑ  پر لاشعوری حواس کا غلبہ رہا۔ چالیس دن بعد شریعت موسوی کے احکامات تختیوں پر لکھے ہوئے نازل فرمائے۔
حضرت محمدﷺ کو نبوت سے چالیس سال کی عمر میں سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ قرآن کی رو سے چالیس سال کی عمر تک بندے کو عارضی دنیا سے اپنا دامن ہٹا لینا چاہئے اور زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہنا چاہئے۔ چالیس سال کی عمر تک عقل انسانی میں فہم داخل ہو جاتا ہے اور آدمی کائنات کے نظام کو سمجھنے لگتا ہے۔ وظائف اور چلے بھی عموماً چالیس دن کے ہوتے ہیں۔
روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لئے جو اسباق دیئے جاتے ہیں وہ بھی عموماً چالیس دن کے ہوتے ہیں۔ غرض کہ چالیس کا عدد ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حضور پاکﷺ کے روضہ مبارک پر ۴۰ نمازیں پڑھنے کے متعلق روایت ہے۔
لوگ حج سے پہلے یا حج کے بعد مدینہ منورہ میں قیام کر کے چالیس نمازیں مسجد نبوی میں پابندی سے ادا کرتے تھے۔ مسجد نبوی میں حضور پاکﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ جہاں آپ رسول اللہﷺ محو استراحت ہیں۔ مسجد نبوی آپ رسول اللہﷺ کا حرم ہے۔ یہاں جنت کا راستہ ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کا مسجد نبوی میں آنا جانا رہتا ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اکثر زائرین آپ رسول اللہﷺ کی خواب میں یا حالت بیداری میں زیارت کرتے ہیں۔
چالیس نمازیں ادا کرنے کے لئے کم از کم آٹھ دن مسجد نبوی میں پانچوں وقت کی حاضری ہوتی ہے۔ ذہن زیادہ تر حضور پاکﷺ کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے حضور پاکﷺ کے انوار اور روشنیاں ذہن میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ لوگوں کے اندر آپ رسول اللہﷺ کی طرز فکر منتقل ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کی محبت کی کشش دلوں کو آپ کی جانب کھینچتی ہے۔
ذہن و دل میں یہ بات یقین کے درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ آپ رسول اللہﷺ کی ذات اعلیٰ ترین تخلیق ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کی ذات اقدس سید البشر ہے۔ جس کا بنانے والا احسن الخالقین ہے۔ بشری پیراہن میں رہتے ہوئے جس طرح آپ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ بشر ہونے کے ناطے انسان کے دل میں یہ خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ میں بھی اپنی اندر کی صلاحیتوں سے کام لوں اور میری وجہ سے آخرت میں میرے پیارے نبی حضورﷺ مجھ سے خوش ہوں۔
چالیس نمازیں قائم کرنے کی حکمت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ تا کہ حضورﷺ سے ذہنی اور قلبی رابطہ قائم ہو جائے۔ ذہن نور نبوت کو قبول کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور جس طرح آپ رسول اللہﷺ نے اللہ کو جانا، پہچانا اور اپنی روحانی صلاحیتوں کے ساتھ اللہ پاک کی ہستی کا مشاہدہ کیا۔ رحمت العالمین کی رحمت سے یہ صلاحیتیں آپ رسول اللہﷺ کے روضہ مبارک پر نمازیں ادا کرنے سے ہمارے اندر بھی بیدار ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ کائنات میں ہر تخلیق معین مقداروں میں بنائی گئی ہے۔ چالیس کا عدد بھی ایک معین مقدار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فکر میں اس کا تعلق پیغمبروں کے ساتھ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن رات کے لئے کوہ طور پر بلایا گیا۔
حضور پاکﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت و رسالت سے سرفراز کیا گیا۔ مسجد نبوی میں چالیس نمازیں قائم کرنے سے رسول اللہﷺ کے امتی میں آپ رسول اللہﷺ کی روشنیاں منتقل ہوتی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول دونوں کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
شعور، قربت اور ماحول سے بنتا ہے۔ آدمی جس ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثرات اس کے اوپر مرتب ہوتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان بندہ مسجد نبوی میں مسلسل آٹھ دن آٹھ رات حضورﷺ کے حرم سے وابستہ رہتا ہے اور ذہنی مرکزیت قائم رہتی ہے تو مسجد نبوی کا منور ماحول اس کے اوپر اثر انداز ہوتا ہے اور بندے کا دل محبت و عشق کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اجر اور ثواب کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں نور کی لہریں حضورﷺ کے امتی میں ذخیرہ ہو جاتی ہیں۔ روح توانا اور سرشار ہو جاتی ہے۔ نماز میں حضور قلب نصیب ہو جاتا ہے۔ شکوک و شبہات اور وسوسوں سے نجات مل جاتی ہے اور بندہ اللہ کے فضل و کرم اور رسول اللہﷺ کی نسبت سے ایسی نمازیں قائم کرتا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ
’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘

 حوالہ کتاب : روحانی حج وعمرہ