Dec 15, 2014

اشرف المخلوقات - تحریر خواجہ شمس الدین عظیمی


تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی 

مختصر طور پر زندگی کا تذکرہ کیا جائے تو یہ کہنا مناسب ہے کہ زندگی جذبات سے تعبیر ہے یعنی زندگی بیشمار جذبات پر رواں دواں ہے اور حواس کے دوش پر سفر کر رہی ہے۔ ان جذبات کو کنٹرول کرنا بھی حواس کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مثال۔۔۔۔۔۔ایک آدمی کو پیاس لگی۔ پیاس ایک تقاضہ ہے۔ پیاس کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے حواس ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ پانی گرم ہے۔ یہ پانی سرد ہے۔ یہ پانی کڑوا ہے یا یہ پانی شیریں ہے۔ پیاس کا عمل یا پیاس کا تقاضہ پانی پینے سے پورا ہوتا ہے۔
پانی کی پہچان بھی حواس کے ذریعے ممکن ہے۔ ایک تقاضہ پیاس ہے ایک تقاضہ بھوک ہے۔
کسی کو چاہنا ایک الگ تقاضہ ہے آدمی کے اندر یہ تقاضہ پیدا ہونا کہ کوئی مجھے بھی چاہے الگ تقاضہ ہے۔ ان تقاضوں کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو اس کا نام زندگی ہے اور جب ان تقاضوں کو الگ الگ کر کے دیکھا اور سمجھا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر تقاضہ اس لئے الگ الگ ہے کہ تقاضوں کے اندر مقداریں الگ الگ کام کرتی ہیں۔
پیاس کے تقاضے میں جو مقداریں کام کر رہی ہیں وہ بھوک کے تقاضے میں موجود نہیں ہیں۔ اس لئے صرف پانی پی کر ہی بھوک کا تقاضہ رفع نہیں ہوتا۔ بھوک کے اندر جو معین مقداریں کام کر رہی ہیں اس کی اپنی الگ ایک حیثیت ہے اس لئے کہ صرف کچھ کھا کر پیاس کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔ تمام حواس الگ الگ تقاضوں کو جانتے ہیں، سمجھتے ہیں۔
انسانی زندگی میں ایک تقاضہ محبت ہے۔ محبت ایک ایسا مجموعی تقاضہ ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری اور نامکمل رہتی ہے۔ حواس محبت کے اس تقاضے کو الگ الگ حیثیت دیتے ہیں۔ مثلاً یہ حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ خاتون ہماری بیوی ہے اور یہ لڑکی بیٹی ہے اور یہ خاتون ہماری ماں ہے۔ جب ہم محبت کا نام لیتے ہیں تو محبت کا مجموعی مفہوم ہمارے ذہن میں ہماری بیٹی آتی ہے لیکن جب ہم حواس کے ذریعے محبت کو سمجھتے ہیں تو محبت کا مفہوم ایک رہتا ہے لیکن محبت کا طرز عمل بدل جاتا ہے۔ ایک عورت ہر حال میں عورت ہے لیکن حواس اس عورت کو الگ الگ تقسیم کرتے ہیں۔ حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ عورت بہن ہے۔ یہ عورت بیٹی ہے اور یہ عورت ماں ہے اور یہ عورت بیوی ہے۔ بحیثیت عورت اور مرد سب میں قدریں مشترک ہیں لیکن حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ مشترک قدروں میں بھی ایک ضابطہ اور قانون موجود ہے۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی زندگی جس بنیاد پر قائم ہے اس کے دو پیر یا دو ستون ہیں۔ ایک پیر یا ستون جذبہ ہے اور ایک پیر یا ستون حواس ہیں۔ جب تک آدمی جذبات کے دائرہ میں رہتا ہے اس وقت تک اس کی حیثیت دوسرے حیوانات سے الگ نہیں ہے اور جب ان جذبات کو وہ انسانی حواس کے ذریعے سمجھتا ہے اور جذبات کی تکمیل میں حواس کا سہارا لیتا ہے تو وہ حیوانات سے الگ ہوتا ہے۔ جذبات اور حواس کا اشتراک انسانوں کی طرح حیوانوں میں بھی موجود ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ایک بکری یا گائے حواس میں معنی نہیں پہنا سکتی۔ اس کا علم زندگی کو قائم رکھنے کی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہے۔ وہ صرف اتنا جانتی ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے۔ پتے کھانے سے بھوک رفع ہوتی ہے۔ اس بات سے اسے کوئی غرض نہیں کہ پانی کس کا ہے۔ اس کے اندر قائم رہنے کیلئے ایک تقاضہ ابھرتا ہے اور وہ تقاضہ پورا کر لیتی ہے اس کے برعکس انسان کے اندر زندگی کو قائم رکھنے کیلئے جب تقاضہ ابھرتا ہے تو وہ حواس کے ذریعے یہ بات سمجھتا ہے یہ تقاضہ کس طرح پورا کیا جاتا ہے۔
چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے حواس کے ذریعے ایک علم عطا کر دیا ہے اس لئے انسان دوسری مخلوق کے مقابلے میں ممتاز ہو گیا ہے اور یہ ممتاز ہونا ہی مُکلف ہونا ہے۔ یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی ہے کہ زندگی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں تقاضے یکساں ہیں، آدمی کو بھی بھوک لگتی ہے اور بکری اور بیل کو بھی بھوک لگتی ہے، پیاس آدمی کو بھی لگتی ہے اور پیاس دوسرے حیوانات کو بھی لگتی ہے، دونوں بھوک اور پیاس کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں لیکن انسان تقاضوں اور حواس کی الگ الگ حیثیت سے واقف ہے۔ یہ وقوف ہی انسان کو اشرف کے درجہ پر فائز کرتا ہے۔ حواس کے قانون سے واقف ہونا روحانیت میں داخل ہو جانا ہے۔ روحانی علوم میں یہ بات پڑھائی جاتی ہے اور دکھا دی جاتی ہے کہ حواس اور جذبات کس طرح تخلیق ہوتے ہیں۔
انسان کے اندر کئی کھرب کل پرزوں سے مشین کام کر رہی ہے۔ کچھ کل پرزے ایسے ہیں جو حواس بناتے ہیں۔ کچھ کل پرزے ایسے ہیں جو جذبات کی تخلیق کرتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ علم عطا کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو یہ جان لیتا ہے کہ اس کے اندر نصب شدہ مشین میں یہ کل پرزے کس طرح فٹ ہیں اور ان کے ذریعے جذبات اور حواس کس طرح بنتے ہیں۔
جذبات اور حواس کے اعتبار سے انسان اور تمام حیوانات ایک دائرے میں کھڑے ہیں لیکن بکری کے اندر یہ صلاحیت نہیں کہ وہ حواس بنانے کی مشین یا حواس بنانے کے کل پرزوں کو سمجھ سکے۔ اگر کوئی انسان بکری کی طرح اپنے اندر نصب شدہ اس کائناتی نظام کو نہیں سمجھتا تو اس کی حیثیت بلی اور کتے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ بھوک کتے کو بھی لگتی ہے۔ پیٹ کتا بھی بھرتا ہے۔ بھوک آدمی کو بھی لگتی ہے۔
پیٹ آدمی بھی بھرتا ہے، پیاس چوہے کو بھی لگتی ہے، پانی چوہا بھی پیتا ہے، پیاس آدمی کو بھی لگتی ہے، پانی آدمی بھی پیتا ہے۔ جبلی طور پر ایک آدمی بھی اپنی اولاد کی پرورش کرتا ہے۔ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے۔ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بلی بھی اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے، اولاد کی پرورش بھی کرتی ہے۔ اپنی اولاد کو دودھ پلاتی ہے اور زندگی گزارنے کیلئے تمام ضروری باتوں سے آگاہ کر کے اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ روحانی نقطہ نظر سے اگر کوئی آدمی سب وہی کام کرتا ہے جو ایک بلی کرتی ہے تو اس کی حیثیت بلی کے برابر ہے۔ اسے بلی سے افضل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کوئی انسان بلی، کتے، چوہے سے اس لئے افضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نصب شدہ مشین یا کمپیوٹر کا علم عطا کر دیا ہے۔

صدائے جرس

Dec 12, 2014

عُرس مبارک داتا گنج بخش علی ہجویریؒ




میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو جنگل و صحرا اور بیابانوں کو طے کرتا ہوا خدا کے گھر اور حرم تک تو پہنچتا ہے کیونکہ اس میں اس کے نبیوں کے آثار ہیں -
لیکن وہ اپنے نفس کے جنگل اور اپنی خواہشات کی وادیوں کو طے کر کے اپنے دل تک پہنچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا کیونکہ دل میں تو اس کے مولیٰ کے آثار ہیں
کشف المحجوب - داتا گنج بخش حضرت علی ہجویری رحمتہ الله علیہ

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’میری سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔‘‘
اپنی مشیئت کے تحت اللہ تعالیٰ نے اچھائی، برائی کا تصور قائم کرنے اور نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کے لئے پیغمبروں کے ذریعے احکامات صادر فرمائے۔ سب پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کر کے نوع انسانی کو بتایا ہے کہ اللہ کے حکم کی تعمیل ہی نجات کا راستہ ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔ اور دین کی تکمیل ہو چکی ہے۔ اس لئے اللہ کی سنت جاری رکھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء اولیاء اللہ کی جماعت نے اس بات کا اہتمام کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور احکامات کا تسلسل قائم رہے۔ ہر زمانے میں اولیاء اللہ خواتین و حضرات نے اس فرض کو پورا کیا اور قیامت تک یہ سلسلہ قائم رہے گا۔
ہندو پاکستان، برما، ملائیشیا، انڈونیشیا، افریقہ، ایران، عراق، عرب، چین اور ہر ملک میں اولیاء اللہ نے تبلیغ کی، اللہ کی مخلوق کی خدمت کی، زمانے کے تقاضوں کے مطابق توحید کی دعوت دی۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں، اگر شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ ، خواجہ حسن بصریؒ ، حضرت داتا گنج بخشؒ ، شیخ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ ، بہاؤالحق نقشبندؒ ، لعل شہباز قلندرؒ ، شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، قلندر بابا اولیاءؒ اور دوسرے مقتدر اہل باطن صوفیاء اسلام کی آبیاری نہ کرتے تو آج دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتے۔ صوفیاء کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیابت و وراثت کا حق پورا کرنے کے لئے اپنا تن، من، دھن سب قربان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور انہیں کامران و کامیاب کیا۔

------------------

داتا گنج بخش ؒ
تحریر :  عبدالرزاق

حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ تعالیٰ ان قافلہ سالارانِ عشق میں سے ہیں جنہوں نے اس سر زمین میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا بیج بویا اور محبت کے ذریعہ سے یہاں اسلام روشناس کرایا۔ یہ بھی فاتحین تھے، لوگوں کے نگاہ سے زخمی کرتے اور اعلیٰ اخلاق سے جکڑ لیتے۔ ان کے قلوب عشقِ الہی سے زندہ تھے، اس لئے موت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی، آج بھی ان کا فیض عام ہے۔ خواص عوام دونوں یہاں سے فیض پاتے ہیں۔خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چلہ کاٹا، بابا فرید گنجِ شکر رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سے فیض پایا۔ حضرت بو علی قلندرپانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ یہاں معتکف رہے۔میاں شیر محمد شرقپوری رحمہ اللہ تعالیٰ یہاں باقاعدہ حاضری دیتے رہے ۔
بزرگوں کی توجہ سے قلوب میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، طبیعت نیکی کی طرف راغب ہوتی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے جمنیزیم میں رسہ پکڑکر اوپر چڑھنے والے کو نیچے سے سہارا مل جائے ۔حضرت پیرپیران رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے فلاں کی طرف توجہ رکھو،ہم اسے توجہ دیتے ہیں حکم ہوتا ہے فلاں سے توجہ ہٹالو، ہم ہٹالیتے ہیں۔یہ سارا نظامِ کائنات اللہ تعالیٰ کی توجہ ہی سے چل رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی وجہ کے تحت ہی بزرگوں کی توجہ بھی کام کرتی ہے ۔
؂ نہ بادہ ہے،نہ صراحی، نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگین ہے بزمِ جانانہ
لاہور کی فضاان بزگوں کی روحانیت کی خوشبوسے ہی مہک رہی ہے جیسے موسم بہار میں باغ کی فضامیں خوشبوبسی ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے لاہور لاہور ہے، اور جو یہاں آجائے، وہ یہیں کاہورہتا ہے۔میرے ایک مرحوم دوست حج کر کے آئے، حضرت صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر حاضری کے لئے گئے، توکہنے لگے :ان گلیوں سے تو مدینہ منورہ کی گلیوں کی خوشبو آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا پرتوہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی صفات ان کی اپنی اور لامحدودہیں۔اور بندوں کی صفات اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ اور محدود ہیں۔اللہ تعالیٰ سخی ہیں،ان کے بندوں میں سخاوت کا وصف پایا جاتا ہے ۔داتا سخی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔قطب الدین ایبک کو لکھ داتا کہتے تھے۔داتا گنج بخش کے معنی ایسا سخی ہے جو خزانے لٹادیتا ہے ۔اس میں شرک کی کوئی بات نہیں۔سورہ البقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے لئے الفاظ ’’اَنْتَ مَوْلَاناَ‘‘ آئے ہیں ، آج کل کے سارے علماء مولانا کہلاتے ہیں۔
کئی برس ہوئے ایک ’’مولانا‘‘نے یہ ہوائی چھوڑی تھی کہ سیدعلی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ یہاں مدفون نہیں،بلکہ قلعہ لاہور کے اندر مدفون ہیں۔بعد میں انھوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیاتھا۔آج کل پھر کسی نے اس قسم کا مضمون لکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کے بیسیوں ایسے بندے ہیں جنہیں کشف القبور حاصل ہے، وہ جانتے ہیں،بلکہ دیکھتے ہیں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ یہی ہے۔قلعہ کی زمین دوزقبر والے بزرگ اور ہیں ‘اگرچہ ان کا نام بھی سیدعلی ہے۔
داتا سرکار کا اسم مبارک
آپ سر کار کا نام نامی علی ہے۔آپ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔آپ نجیب الطرفین یعنی حسنی حسینی سید ہیں۔ آپ کے والد کا نام سید عثمان ہے۔ لہذا آپ کا مکمل نام سید ابولحسن علی بن عثمان ہے۔ روایت مشہور ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چلہ کاٹا اور بعد میں یہ فرمایا۔
؂ گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
لہٰذا عرف عام میں آپ سرکار کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور داتا صاحب کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپ کا دور
اسلامی ہجری قمری اعتبار سے یہ پانچویں صدی ہے۔ اکثر تذکرہ نگار اس پر متفق ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ400ہجری کو پیدا ہوئے۔ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ 465ہجری میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ عیسوی شمسی اعتبار سے یہ گیارھویں صدی تھی۔ اور یہ دورانیہ تقریباً 1010 ؁ء سے لے کر 1072 ؁ء تک ہے۔
ہجویری اور جلابی 
داتا حضوررحمۃ اللہ علیہ کوہجویری بھی کہا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں آپ کو ’’الہجویری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہجویر اور جلاب، غزنی شہر کے دوعلاقے یا محلے ہیں۔ جو افغانستان میں واقع ہیں۔ آپ جلاب میں پیدا ہوئے اور ہجویرمیں بھی آپ کا قیام رہا اس لئے آپ کو ’’الجلابی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد محترم سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ جلاب کے رہنے والے تھے اور والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں۔والد محترم کی وفات کے بعد آپ ہجویر منتقل ہو گئے تھے۔
محکمہ اوقاف کی جانب سے نسیم عباسی صاحب کی تحقیقی تحریر 2011ء میں شائع ہوئی اس کے مطابق آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت کچھ اس طرح سے ہے۔
سلسلہ نسب
آپ حسنی سید ہیں۔آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے: حضرت سید علی رحمۃ اللہ علیہ بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ، بن علی رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ بن شاہ شجاع رحمۃ اللہ علیہ بن ابو الحسن علی رحمۃ اللہ علیہ بن حسین اصغر رحمۃ اللہ علیہ بن سید زیدشہید رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔
پیر غلام دستگیر نامی کے نزدیک جو دورِ حاضر کے بڑے ماہر انساب مانے جاتے ہیں، پانچویں بزرگ کا نام عبداللہ ’’ شجاع شاہ ‘‘ ہے اور آٹھویں بزرگ سید زید کے ساتھ جو لفظ ’’ شہید‘‘ لکھا ہے، وہ درست نہیں ہے کیونکہ سید زید شہید امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بن امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند تھے نہ کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے۔
سلسلہ طریقت
آپ کے مرشد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علہ ہیں۔ ان کا سلسلہ طریقت نو واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے: 
حضرت سید علی ہجویریرحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابو الفضل ختلی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو الحسن حصری رحمۃ اللہ علیہ،شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔
پیر و مرشد
داتا سرکار حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشِدکا نام حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ جوکہ حضور سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ کے مسلک طریقت پر قائم تھے۔ داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر و مرشد علیہ الرحمہ کا تذکرہ اپنی کتاب میں ان الفاظ میں فرمایاہے۔
حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ
آئمہ طریقت میں سے زین اوتاد شیخ عباد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ ہیں طریقت میں پیروی انہیں سے ہے۔وہ علم تفسیر وروایات کے عالم اور تصوف میں حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کے مذ ہب پر تھے حضرت خضری کے مر ید حضرت سردانی کے مصاحب تھے، حضرت ابو عمر فزونی، حضرت ابو احسن بن سالبہ رحیم اللہ علیہم کے ہم زمانہ تھے۔ آٹھ سال صادق گوشہ نشینی اختیار کرکے پہاڑوں کے غاروں میں رہے اور اپنا نام لوگوں کے درمیان گم رکھا۔ اکثر لگام نامی پہاڑ پر رہتے۔ عمدہ زندگی گزاری ان کی نشانیاں اور براہین بکثرت ہیں لیکن وہ عام صوفیوں کے رسم لباس کے پابند نہ تھے۔ اور اہل رسوم سے سخت بیزار تھے۔ میں نے اس سے بڑھ کر رعب و دبدبہ والا کبھی کوئی مرد خدا نہ دیکھا۔ ان کا ارشاد ہے
الدنیا یوم ولنا فیھا صوم
ترجمہ: دنیا ایک دن کی طرح ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔
مطلب یہ کہ ہم نے دنیا سے کچھ حاصل نہیں کیا اور نہ اس کی بندش میں آتے ہیں کیونکہ ہم نے دنیا کی آفتوں کو دیکھ لیا ہے اور اس کے حجابات سے باخبر ہوگئے ہیں ہم اس سے بھاگتے ہیں۔
حکایت: ایک مرتبہ میں ان کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کیونکہ وہ وضو فرما رہے تھے میرے دل میں خیال گزرا کہ جبکہ تمام کام تقدیر و قسمت سے ہیں تو آزاد لوگ کیوں کرامت کی خواہش میں پیروی کے غلام بنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے فرزند من! جو خیالات تمہارے دل میں گزر رہے ہیں میں نے ان کو جان لیا ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر حکم کے لیے کوئی سبب ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی سپاہی بچہ کو تاج و حکومت عطا فرماتا ہے تو وہ اسے توبہ کی توفیق دے کر اپنے کسی دوست ومحبوب کی خدمت میں مشغول فرماتا ہے تاکہ یہ خدمت اس کی درامت کا موجب بن جائے۔
اس قسم کے لطیفے بکثرت مجھ پر ہر روز ان سے ظہور پذیر ہوتے تھے۔ جس دن کہ ان کا نتقال ہوا بیت الجن میں تھے یہ بانیاں رود اور دمشق کے مابین گھاٹی کے کنارے ایک گاؤں ہے ان کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ اس وقت میرے دل میں اپنے کسی دوست کی طرف سے کچھ رنج تھا جیسا کہ آدمیوں کی عادت ہے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا اے فرزند! دل کو مضبوط کرنے والا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر خود کو اس پر درست کرلو تو تمام رنج و فکر سے محفوظ ہو جاؤ گے فرمایا ہر محل اور ہر حالت خواہ نیک ہو یا بد اسے اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا فرمایا ہے لہٰذا اس کے کسی فعل پر جھگڑنا نہیں چاہیے اور دل کو رنجیدہ نہ کرنا چاہیے اس کے سواء کوئی وصیت نہ فرمائی اور جان دے دی واللہ اعلم بالصواب۔
کشف المحجوب، اردو ترجمہ(جو ترجمہ حضرت مفتی سید غلام معین الدین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ) ،مطبوعہ لاہور،صفحہ نمبر 241 ،242
آپ کی تصانیف
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی ایک کتب تصنیف فرمائیں جن میں شاعری کا ایک دیوان بھی تھا لیکن دیگر لوگوں نے آپ کی ان علمی خدمات کو اپنے نام سے شائع کردیا۔ ان کتابوں کا ذکر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں کیا ہے۔ ایک چھوٹا رسالہ کشف الاسرار جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بقول کشف المحجوبکی تلخیص ہے وہ رسالہ اور کشف المحجوب ابھی تک دستیاب ہیں۔ آپ کی چندتصانیف کے نام یہ ہیں۔
1. کشف المحجوب
2. کشف الاسرار
3. منہاج الدین
4. الرعایۃ الحقوق اللہ تعالیٰ
5. کتاب فناء وبقاء
6. اسرار الحزق المؤنات
7. بحر القلوب
8. کتاب البیان لاہل العیان
غریب نوازؒ نے آپ سے متاثر ہو کر ایک شعر کہا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

Dec 9, 2014

ابدی زندگی سے رُوشناسی


 جب ذہن انسانی ایک ذرہ سے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ 
اتارنے کا کام لے سکتا ہے تو وہ کیوں اس صلاحیت سے براہ راست پوری نوع کو ابدی زندگی سے روشناس نہیں کر سکتا؟

اقتباس : آگہی از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

Dec 8, 2014

روح کیا ہے - تحریر خواجہ شمس الدین عظیمی



تحریر: خواجہ شمس الدین عظیمی

روح کیا ہے؟
روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔
اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔
یہ جو دل دھک دھک کر رہا ہے۔
اللہ ھو، اللہ ھو کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ربانیت اور خالقیت کا اظہار کر رہا ہے۔
جو بندہ روح سے واقف ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے واقف ہو جاتا ہے۔
جسم کیوں سڑ جاتا ہے اس لئے کہ روح نکل جاتی ہے۔
انسان Commaمیں ہوتا ہے تو وہ زندہ رہتا ہے۔
ایک لڑکی بچپن سے 22سال تک Commaمیں رہی لیکن روح چونکہ جسم کی نگرانی کرتی ہے اس لئے جسم سلامت رہتا ہے اور اس کی نشوونما بھی ہوتی رہتی ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ سمندر کے قطرہ میں سمندر کی تمام خصوصیات ہوتی ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ
’’کوئی علم قربت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
روحانیت کیلئے قربت ضروری ہے۔ جس طرح بچے کیلئے ماں باپ کا قرب ضروری ہے کہ وہ اپنی مادری زبان اور خاندانی روایات سیکھے۔ اسکول میں استاد کا قرب ضروری ہے۔ اسی طرح روحانیت میں مرشد کی قربت ضروری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ روحانیت پھونکوں کا علم ہے، اگر پھونکوں سے روحانیت آ جاتی تو پھونکوں سے آدمی میٹرک بھی کر لیتا۔ دنیاوی علوم اور روحانی علوم سیکھنے کیلئے استاد کی قربت ضروری ہے۔ استاد کے بغیر کوئی بھی علم نہیں سیکھا جا سکتا۔
گونگے، بہرے ماں باپ کے بچے ان کے ساتھ رہ کر بولنا نہیں سیکھ سکتے۔ ایک انسان کے بچے کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا اور بھیڑیے نے اس کی پرورش کی۔ بھیڑیے کی صحبت اور پرورش کا یہ اثر ہوا کہ بچہ چاروں ہاتھوں پیروں سے چلنے لگا اور وہ بہت تیز بھاگتا تھا۔
اگر ہم صفاتی اعتبار سے جانوروں کی زندگی گزاریں تو انسان کے اندر بھی جانوروں کی صفات آ جاتی ہیں۔ جب بچہ بداخلاق لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو وہ بھی بداخلاق ہو جاتا ہے۔ ماں باپ گالیاں بکتے ہیں تو بچہ بھی گالیاں بکنے لگتا ہے۔ ماں باپ صاف ستھرے رہتے ہیں، ان کا اخلاق اچھا ہوتا ہے اور وہ محب وطن ہوتے ہیں تو بچہ کے اندر بھی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ بچہ کے اندر وہی صفات ہوتی ہیں جو والدین اور ماحول میں ہیں۔
انسان دو پیروں سے چلتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں اور انسانی برادری دو پیروں سے چلتی ہے۔ بکری کا بچہ چار پیروں سے چلتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں بکری بھی چار ہاتھ پیروں سے چلتی ہے۔ چڑیا کا بچہ اڑتا ہے اس لئے کہ اس کے ماں باپ اڑتے ہیں۔ یہی حال رینگنے والے کیڑوں کا ہے وہ بھی اسی طرح رینگتے ہیں جس طرح کیڑے کے ماں باپ رینگتے ہیں۔
چڑیا ایک پرندہ ہے، اس پرندہ کی آواز چوں چوں ہے۔ چڑیا کے بچے بھی یہی آواز بولتے ہیں جو چڑیاکے ماں باپ بولتے ہیں۔ کوئل کی آواز نہایت خوبصورت آواز ہے۔ کوئل کے بچے بھی خوبصورت آواز میں کوکو کی صدا لگاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔
’’اچھی آواز سے بات کرو۔ اور آواز تو گدھے کی بھی ہے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت۱۹)
جس طرح دنیاوی زندگی میں ماحول کا اثر ہوتا ہے اور آدمی اس ماحول کی نقل کرتا ہے جس ماحول میں وہ رہتا ہے۔ اسی طرح روحانی دنیا کا بھی ایک ماحول ہے۔ اس ماحول میں رہنے والے لوگوں کا اخلاق اچھا ہوتا ہے۔ ان کے اندر شک اور وسوسے کی جگہ یقین کام کرتا ہے۔ جس طرح آدمی کے اوپر ماحول اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح اخلاق اور شرافت کا اثر ہوتا ہے۔ روحانی دنیا میں بھی ماحول کا اثر ہوتا ہے اور اس کی ابتداء یقین سے ہوتی ہے۔ جب کوئی بندہ روحانی دنیا سے واقف ہو جاتا ہے اور روحانی دنیا کی طرزیں اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ
’’میرا اس بات پر یقین ہے کہ دنیا میں آخرت میں، دنیا میں آنے سے پہلے اور دنیا سے جانے کے بعد کی دنیا میں، یعنی جی اٹھنے کے بعد عالم میں، صبح، دوپہر، شام اور رات میں جو کچھ ہوتا ہے، ہو چکا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ آیت۷)
روحانی علوم سیکھ کر آدمی کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ
’’جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت ۷)
روحانی طالبات و طلباء کیلئے ضروری ہے کہ ان کے اندر استقامت اور اس بات کا یقین ہو کہ دنیا میں آنے سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور دنیا سے جانے کے بعد جو کچھ ہو گا وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ انسان دو پیروں سے چلتا ہے، دو ہاتھوں سے پکڑتا ہے، دو آنکھوں سے دیکھتا ہے، دماغ سے سوچتا ہے، یہ سب اعضاء مرنے کے بعد بے حس و حرکت ہو جاتے ہیں اور مٹی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
لیکن جو شےاعضاء کو متحرک رکھتی ہے، آنکھوں میں بینائی مستقل کرتی ہے، جسمانی اعضاء کو حرکت دیتی ہے، سوتے ہوئے کو جگاتی ہے، جاگتے ہوئے بندہ کو سلاتی ہے، وہ روح ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے۔ لیکن روح برقرار رہتی ہے اور اس کا علم بھی قائم و دائم رہتا ہے۔
آگہی از خواجہ شمس الدین عظیمی

Dec 3, 2014

معاشرتی اور مذہبی قدریں

قواعد و ضوابط سلسلہ عظیمیہ
ہر شخص کو چاہئے کہ کاروبار حیات میں مذہبی قدروں،اخلاقی اور معاشرتی قوانین کا احترام کرتے ہوئےپوری پوری جدو جہد اور کوشش کرےلیکن نتیجہ پر نظر نہ رکھے۔نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دےاس لئے کہ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔حالت جس طرح چابی بھر دیتے ہیں آدمی اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہےبیشک اللہ قادر مطلق اور ہر چیز پر محیط ہے۔حالت پر اس کی گرفت ہے۔وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے حالات میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔معاش کے حصول میں معاشرتی اخلاقی اور مذہبی قدروں کا پورا پورا احترام کرنا ہر شخص کے اوپر فرض ہے۔

دل آزاری اور معافی


قواعد و ضوابط سلسلہ عظیمیہ 



تم اگر کسی کی دل آزاری کا سبب بن جاو تو اس سے معافی مانگ لو،قطع نظر اس کے کہ وہ تم سے چھوٹا ہے یا بڑا۔اس لئے کہ جھکنے میں عظمت پوشیدہ ہے۔
تمہیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلا توقف معاف کر دو۔اس لئے کہ انتقام بجائے خود ایک صعوبت ہے۔ انتقام کا جذبہ اعصاب کو مضمحل کر دیتا ہے