Sep 23, 2014

عرس مبارک - عشق دا وارث - وارث شاہ ؒ

 
وارث شاہؒ برصغیر کی وہ ہستی ہیں جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وارث شاہؒ مشہور زمانہ تصنیف ”ہیر“ کے خالق اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔ وارث شاہؒ پنجاب کی دھرتی کے ایک تاریخی قصبہ جنڈیالہ شیر خان جوکہ شیخوپورہ سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے میں پیدا ہوئے۔ انکے سن پیدائش کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا بعض کتابوں میں آپکا سن پیدائش 1150ھ بتایا جاتا ہے۔ آپکے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ ابھی کمسن ہی تھے کہ علم حاصل کرنے کی غرض سے قصور کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت مولانا غلام مرتضٰی جوکہ اسوقت قصور میں ہی تشریف فرما تھے کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ خود ہی فرماتے ہیں
وارث شاہ وسنیک جنڈیالڑے دا
تے شاگرد مخدوم قصور دا اے

آپ نے بابا بُلھے شاہؒ کے ہمراہ اُن سے تعلیم حاصل کی۔ دنیاوی علم حاصل کر چکے تو مولوی صاحب نے اجازت دی کہ جا
اب باطنی علم حاصل کرو اور جہاں چاہو بیعت کرو۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ
بابا بلھے شاہؒ نے تو حضرت عنایت قادریؒ کی بیعت کی جبکہ سید وارث شاہ ؒنے حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کے خاندان میں بیعت کی
مودود دا لاڈلا پیر چشتی گنج شکر مسعود بھرپور ہے جی
خاندان وچ چشت دے کاملیت شہر فقر دا پٹن معمورہے جی

کچھ عرصہ پاکپتن شریف میں قیام کیا اور مراتب فقر طے کئے، واپسی پر جاہدکے ٹھٹھے میں جو پاکپتن شریف کے راستہ میں کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا سا گا
ں ہے رات بسر کی۔ کہتے ہیں کہ صبح جب روانہ ہونے لگے تو ایک خوبصورت عورت جس کا نام کتابوں میں بھاگ بھری لکھا گیا ہے کو جاتے دیکھا اور اس پہ فریفتہ ہو گئے اور واپسی کا ارادہ ملتوی کر کے وہیں گاں کے قریب ٹیلے پر واقع ایک چھوٹی سی مسجد میں رہائش اختیار کر لی۔ گاں کے باسیوں نے بسبب عالم و فاضل اور فقیر ہونے کے ناطے انکی خدمت اور تعظیم شروع کر دی۔ ان ہی دنوں میں آپ نے مشہور قصہ ”ہیر رانجھا“ کی تخلیق کا کام شروع کیا جوکہ وہیں پر اختتام پذیر ہوا جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے ہیر رانجھا کے قصہ کو آخری شکل اپنے آبائی گاں جنڈیالہ شیر خان میں دی جس کو مختلف کاغذوں پر الٹی سیدھی لکیروں میں ڈھالا جس کا نمونہ اب بھی موجود ہے۔
جب ”ہیر رانجھا“ کے قصہ کے متعلق آپکے استاد محترم حضرت غلام مرتضٰی کو علم ہوا تو انہوں نے اس واقعہ پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا وارث شاہؒ، بابا بلھے شاہ ؒنے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر لکھ ڈالی۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو مولانا نے اپنے مریدوں کو کہہ کر آپ کو ایک حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن آپکو باہر نکلوایا اور کتاب پڑھنے کا حکم دیا جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ سننے کے بعد فرمایا، وارثا! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دئیے ہیں۔ یہ پہلا فقرہ ہے جو اس کتاب کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ سید وارث شاہ ؒدرحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح بیان کرتے ہیں۔
اوّل حمد خدا دا ورد کیجئے
عشق کیتی سو جگ دا مول میاں
پہلاں آپ ای رب نے عشق کیتا
معشوق ہے نبی رسول میاں
وارث شاہؒ نے وہ ساری خوبیاں اور خصوصیات اپنی ہیر میں سمو دی ہیں جو کسی داستان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ”ہیر رانجھا“ کا قصہ سب سے پہلے دمودر نے پیش کیا آج بھی یہ قصہ دوسری تمام عشقیہ داستانوں سے زیادہ پڑھا اور سُنا جاتا ہے۔ وارث شاہ ؒنے ”ہیر رانجھا“ کی داستان میں شروع سے لیکر آخر تک مکالمہ نگاری سے کام لیا ہے اور ان مکالموں کے ذریعے کہانی کے کرداروں کو بڑی رعنائی کے ساتھ بیان کیا ہے ہر کردار اپنے کام میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
وارث شاہ ؒکا دور محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا دور ہے۔ وارث شاہ ؒنے اس سارے منظر کو شاعری کی شکل میں اس طرح بیان کیا ۔
حق سچ دی گل نہ کرے کوئی
جھوٹ بولنا رسم سنسار ہوئی
مجلس لا کے کرنا حرام ایکا
صوبیدار تے حاکم نہ شاہ کوئی
رعیت ملک تے سب اجاڑ ہوئی
پیا ملک دے وچ ہے بڑا رولا
ہر کسے دے ہتھ تلوار ہوئی
وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کو آپ نے ہی عروج بخشا ہے۔ پنجابی کی تدوین و ترویج میں وارث شاہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپکا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ ”ہیر“ میں بہت سی کہاوتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کیلئے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں مثال کے طور پر۔
وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں
بھاویں کٹیئے پوریاں پوریاں اوئے
وارث رن، فقیر، تلوار، گھوڑا
چارے تھوک ایہہ کِسے دا یار نہیں
ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا
تے شیطان استاد داستیاں دا
وارث شاہ خلق تو لکالئیے
بھاویں اپنا ای گڑ کھالئیے
وارث شاہ ؒکی ”ہیر“کے علاوہ دوسری تصانیف میں معراج نامہ، نصیحت نامہ، چوہریڑی نامہ اور دوہڑے شامل ہیں۔
وارث شاہؒ کا عرس مبارک ہر سال ساون کی 8، 9، 10 تاریخ کو جنڈیالہ شیر خان میں منایا جاتا ہے
عرس کے موقع پر ہیر پڑھنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ جن میں ہیر پڑھنے والے پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے آ کر حصہ لیتے ہیں۔ 1983ءمیں سید وارث شاہ میموریل کمیٹی نے 80 لاکھ روپے کی لاگت سے مزار کی عمارت کو تعمیر کروایا۔ وارث شاہ کمپلیکس آٹھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔
افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 1233ھ میں وفات پائی۔
وارث میاں انت خاک ہونا
لکھ آب حیات جے پیو نائیں
 
 

No comments:

Post a Comment