Sep 11, 2014

سخی اللہ کا دوست ہے (تحریر : خُرم شہزاد عظیمی، آسٹریا)


تحریر : خُرم شہزاد عظیمی، ویانا، آسٹریا

اﷲ کے محبوب بندے ،ہادی برحق،رحمت اللعالمین،اﷲکے دوست،محمد رسول اﷲ ﷺ  ارشادمبارک   ہے۔
سخی اﷲکا دوست ہے، جنت کے قریب ہے،لوگوں کے قریب ہے،جہنم سے دور ہے۔
بخیل اﷲدور ہے،جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے ،جہنم سے قریب ہے۔
سخاوت اﷲکا ایک وصف ہے۔اﷲکی ایک صفت ہے۔ایسی صفت جس پر کائنات قائم ہے۔باریک بین ،اور اﷲکے دوستوں کی طرزفکر کے رنگ میں دیکھا جائے ۔تو سخاوت کو خدمت کے علاوہ کوئی نا م نہیں دے سکتے۔یہی خدمت وسخاوت کا نُور ۔امر ۔ارادہ جب کسی بندے میں متحرک ہوتاہے۔تو وہ سونے کی ڈھیریوں۔چاندی کے سکوں۔اپنے من اور ذہن میں پائے جانے والے نُور۔علم۔جان ،مال و اولاد کے مقابلے میں  اﷲکی راہ میں سخاوت کرتا ہے۔اﷲ کے بندوں کی خدمت کرتا ہے۔
 جب اللہ کریم کی صفت سخی ہے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی بخیل کو اپنا دوست بنائے آپ چاہیں سیرت اولیاءَاللہ کی ہزاروں کُتب پڑھ لیں اُن میں آپکو ایک بھی جاہل، شقیُ القلب، اور بخیل، نہیں مِلے گا اور جس میں یہ مذموم صفات ہونگی وہ اللہ کریم کا دوست ہر گز ہرگز نہیں ہوگا جِسے اللہ کریم اپنی دوستی کے لئے چُن لیتا ہے وہ عام نہیں رہتا خاص ہوجاتا ہے
سخاوت اور بُخل دو متضاد صفات ہیں۔
سخاوت کا تعلق ایسے خیالات و احساسات سے ہے جو براہ راست اﷲ سے وابستہ ہوتے ہیں۔
بخل میں ایسے خیالات و احساسات کام کرتے ہیں۔جن کا تعلق۔اور رُخ اعلیٰ کی بجائے مادی دنیا و  مادی شعور کی طرف ہوتا ہے
ہادی برحق محمد رسول اﷲﷺکے ارشاد مبارک ارشاد کی گئی دونوں صفات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ
کہ ایک صفت میں ہم اپنے خالق، اپنے مالک، اپنے اﷲسے قریب ہوجاتے ہیں۔اﷲ سے قربت کا مطلب ہے۔بندے کے اندر خوشی،ہلکا پن،سرور،وجد ،احساس بندگی کا شعور متحرک ہوتا ہے۔۔۔
اور دوسری صفت یعنی بُخل اپنانے سے ہم اﷲسے دور ہوجاتے ہیں ۔اﷲسے دوری کا مطلب ہے کہ 
 شیطان کی قربت اور اسکی قربت اللہ سے دُوری ہے۔ 
حدیث پاک میں ہمیں دونوں صفات کے دو رخ ملتے ہیں ۔
ایک صفت کا رخ لامحدودیت ہے۔
دوسری صفت کا رخ محدودیت ہے۔
سخاوت وخدمت کی صفت چونکہ اﷲ کی صفت ہے۔اس لیئے یہ صفت لامحدود ہے۔اس صفت کی بندے کے من میں حرکت سے بندے کا اپنا کوئی مطمع نظر نہیں ہوتا۔صرف اﷲکی رضاہوتی ہے۔اور اس کی مخلوق کی خدمت ہوتی ہے
بخل کی صفت میں محدودیت ہوتی ہے۔
یعنی بندہ صرف اپنی ذات،اپنے گروہ،اپنے فرقہ تک سوچتاہے۔
چونکہ اس صفت کی حرکت محدود ہوتی ہے۔اور اﷲسے بھی اس کا تعلق نہیں ہوتا ۔اﷲ محدودیت کو ناپسندکرتے ہیں۔ اس لیئے اس صفت کی حرکت ادبار بن جاتی ہے۔محدودیت کی وجہ سے مفادات آڑ ے آتے ہیں ۔اور یہیں سے لڑائی جھگڑوں کی ابتدا ہوتی ہے۔جو آگے بڑھ کر جہنم بن جاتی ہے۔
پیغمبرانہ طرز فکر سے دیکھا جائے توہمیں اس مبارک ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ
لامحدودیت میں داخل ہونے کے لیئے محدودیت کی نفی کر دی جائے۔
یعنی بندہ میں کلمہ کا پہلا حرف لا حرکت میں آجائے۔بخل یعنی محدودیت خواہ علم کی ہو ،خواہ روپے پیسہ کی ہو،خواہ فرقہ بندی کی ہو۔خواہ معاشرتی اونچ نیچ کی ہو۔غرض ہر طرح کے بخل کی نفی کردی جائے۔
سخاوت یعنی خدمت اﷲ کا شعار ہے۔جس کو تمام انبیا کرامؑ ،اولیا اﷲؒ نے اپنایا۔
حضرت علی کرم اﷲوجہہؓ   کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ
ایک دن آپ شام کو روزہ افطار کرنے لگے۔سائل آگیا، آپ نے روٹی سائل کو دے دی۔دوسرے دن پھر سائل آگیا،تیسرے دن پھر سائل آگیا۔آپ تین دن مسلسل شام کا کھانا اسے دیتے رہے۔
یہ کیا تھا۔۔۔یہ سخاوت و خدمت تھی ۔۔۔۔اﷲکے محبوب بندے کی اس کی مخلوق کے لیئے۔۔۔
یعنی اہل بیت کے محترم اور سعید گھرانے نے مسلسل تین محدود شعور کی نفی کی اور لامحدودیت یعنی روحانی شعور سے رابطہ استوار رکھا۔
کسی کے گھر بکری کی سری آگئی۔اس گھرانے نے سخاوت و خدمت کردی ۔دوسرے گھر کی۔دوسرے سے تیسرے ۔۔غرض سات گھروں کا چکر کاٹ کر بکری کی سری پھر پہلے گھر آگئی۔۔۔۔
سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ صرف مال کا خرچ ہی سخاوت نہیں
سخاوت یہ ہےبندے میں کلمہ کا پہلا حرف ۔۔۔لا ۔۔۔متحرک ہو۔۔۔
کیوں۔۔۔۔ اس لیئے کہ اﷲکے ان بندوں میں ۔۔۔۔لا۔۔۔۔کا علم متحرک تھا۔۔سب نے  ایک دوسرے کے لیئے نفی کردی۔۔۔۔ 

جب حاتم طا ئی کی بیٹی قیدیوں میں حضورﷺ کے سامنے پیش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اِ س کے سَر پر چادَر دو ،یہ سخی کی بیٹی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ سخی بندہ اللہ کا دوست ہے اگرچہ وہ گنہگار ہے۔ شیطان سے پوچھا گیا کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن کون ہے اس نے کہا کہ سخی گنہگار اور اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا سب سے بڑا دوست کون ہے تو اُس نے کہا کہ کنجوس عبا دت گزار۔

اﷲکے دوست میاں محمد بخشؒ  فرماتے ہیں کہ
مالا ں والے سخی نہیں ہوندے تے سخیاں مال نہیں ہوندا
اس اوس دوو ے جہانی سخی کنگال نہیں ہوندا
آپ کیا سمجھے کہ میاں صاحبؒ نے یہ شعر ایسے ہی لکھ دیا ہوگا۔۔نہیں ۔ اللہ کے دوست کی بات میں اللہ کا رنگ نُمایاں ہوتا ہے۔ ۔۔۔بلا شک و شبہ وہ گہری لا شعوری کیفیات سے گزرے ہوں گے۔۔۔یعنی؂
جن کے پاس مال سونے چاندی کی ڈھیریاں ہیں وہ اصل سخی نہیں۔۔کیونکہ اصل سخی میں ۔۔لا۔متحرک ہوتا ہے۔۔۔اس لیئے اس کے پاس اتنا تو مال بھی نہیں ہوتا۔۔۔مگر جب مخلوق ایسے سخی کے پاس جاتی ہے۔جس میں لا ۔۔متحرک ہے۔۔۔چونکہ ۔۔ لا ۔۔ متحرک ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی ذات کی نفی ہو چکی ہوتی ہے۔۔اس لیئے اس کا رشتے لا محدودیت یعنی اﷲ سے قائم ہوتا ہے۔۔اور ایسے اﷲ کے دوست سخی بندے میں جنت کا شعور متحرک ہوتا ہے۔۔۔اس لیئے ایسے سعید اور محترم بندوں کی دعا ،توجہ ،نظر کرم ۔ہی سخاوت ہوتی ہے۔۔۔جو مشکلات کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔۔بھٹکے ہوؤں کو راہ مل جاتی ہے۔بے قراروں کو قرار آجاتا ہے۔
ایسے ہی سعید اور محترم بندوں اور اﷲکے دوستوں کی سخاوت نسل در نسل چلتی ہے۔اور آنے والی نسلیں ،رسول اﷲﷺکے ان غلاموں،اﷲکے دوستوں کی اتباع کرتے ہوئے اپنی راہ تلاش کرتی ہیں ۔۔
چونکہ ایسے محترم بندوں میں جنت کا شعور متحرک ہوتا ہے۔۔اس لیئے مخلوق کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی مخلوق کے لیئے ان کی سخاوت و خدمت یعنی شفاعت جاری رہتی ہے۔۔۔کیوں جاری رہتی ہے اس لیئے کہ انہوں نے اﷲکی عادت ۔اﷲکے شعار ۔۔یعنی مخلوق کی خدمت کو اپنا لیا۔۔۔۔
حضورنبی کریم ﷺ کے روحانی علوم کے وارث،موجودہ دور کے لیئے مینارہ نور،ابدال حق ،حامل علم لدنی،نظام تکوین میں صدر الصدور ،سید محمد عظیم المعروف قلندر بابا اولیاؒ اﷲسے محبت اور دوستی کا فارمولہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
۔۔اﷲسے دوستی کا شارت کٹ راستہ اﷲکی مخلوق کی خدمت ہے۔۔
سخی اﷲ۔کے سخی رسول ﷺ کے سخی گھرانہ کے چشم و چراغ حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی ہیں ۔۔جن کی سخاوت اتنی عام ہے کہ آپ نے اﷲکے محبوب ﷺکے حکم سے صدیوں سے سر بستہ روحانی علوم اﷲکے بندوں کے لیئے عام کردئیے ہیں ۔تاکہ اﷲکے بندوں میں اﷲ کی صفت خدمت و سخاوت رچ بس جائے اور معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔۔۔۔۔سیرت طیبہ، صوفیا کرام اور سلسلہ  عظیمیہ کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کیجئے۔۔دوست احباب کو بھی متعارف کرائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲکی مخلوق کی خدمت کیجئے اور اﷲ کے قریب ہوجایئے۔۔۔
نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ۔۔۔۔
۔۔۔مخلوق اﷲکا کنبہ ہے۔۔اﷲکے قریب وہ ہے جو اﷲکی مخلوق کو زیادہ نفع دے

No comments:

Post a Comment