Nov 28, 2014

عُرس حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ - تحریر خواجہ شمس الدین عظیمی



تحریر: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی 
حضرت بہاؤالدین ذکریا مُلتانی ؒ کا تعلق سلسلہ سُہروردیہ سے تھا۔ سلسلہ سہروردیہ شیخ عبدالقاہر سہروردیؒ سے منسوب ہے۔ اس سلسلے کے خانوادے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ہیں۔ سلسلہ میں تین سال کے مجاہدات کے بعد مرشد دیکھتا ہے کہ قلب کے اندر کتنی سکت پیدا ہوئی اور تزکیہ نفس میں کیا مقام حاصل ہوا ہے۔ تزکیہ نفس اور قلب مصفیٰ اور مجلیٰ ہونے کے بعد فیض منتقل کیا جاتا ہے۔ سلسلہ سہروردیہ میں سانس بند کر کے اللہ ھو کا ورد کرایا جاتا ہے اور ذکر جلی اور خفی دونوں کرائے جاتے ہیں۔

حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا قریشی تھے۔ ان کے جد امجد کمال الدین علی شاہ تھے۔ کمال الدین شاہ مکہ معظمہ سے خوارزم آئے اور مکہ معظمہ سے رخصت ہو کر ملتان میں سکونت اختیار کی۔ کمال الدین علی شاہ کے بیٹے کا نام وجیہہ الدین محمد تھا۔ وجیہہ الدین محمد کی شادی مولانا حسام الدین ترمذی کی بیٹی سے ہوئی۔ شیخ بہاؤالدین زکریاؒ مولانا وجیہہ الدین کے بیٹے ہیں۔
بہاؤالدین زکریاؒ ۱8سال کی عمر میں حج کے لئے تشریف لے گئے۔ مکہ سے مدینہ منورہ چلے گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ۲۱ سال کے ہوئے تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے قرآن حفظ کیا اور خراسان چلے گئے۔ سات سال تک علمائے ظاہر اور علمائے باطن سے اکتساب فیض کیا۔ شب و روز جوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ریاضت و مجاہدہ اور مراقبہ میں مشغول رہے۔ مدینہ منورہ کی نورانی فضاؤں سے معمور ہو کر بیت المقدس پہنچے اور وہاں سے بغداد شریف آ گئے۔ بغداد میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں ایک عرصہ حاضر باش رہے۔ اذکار و اسباق میں استقامت اور دلجمعی کے ساتھ مشغول رہے۔
مرشد کریم نے خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ شجرہ طریقت شیخ شہاب الدین سہروردی سے شروع ہو کر خواجہ حبیب عجمی۔ حضرت امام حسن۔ حضرت امام علی اور سرور کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔
مرشد کریم کے حکم سے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی ملتان کے لئے عازم سفر ہوئے۔ ان کے ساتھ پیر بھائی شیخ جلال الدین تبریزی بھی تھے۔ دونوں بزرگ بغداد پہنچے تو شیخ جلال الدین تبریزی حضرت شیخ فریدالدین عطارؒ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے، فریدالدین عطارؒ نے پوچھا کہ بغداد میں کون سا درویش مشغول بحق ہے۔ جلال الدین خاموش رہے۔ جب یہ بات بہاؤالدین کو معلوم ہوئی تو انہوں نے شیخ جلال الدین سے کہا۔ تم نے اپنے مرشد کا نام کیوں نہیں لیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ شیخ فرید الدین کی عظمت کا مرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کو بھول گیا۔ یہ سن کر شیخ بہاؤالدین کو بہت ملال ہوا۔
شیخ الاسلام:
سفر میں دونوں حضرات الگ الگ ہو گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتان آ گئے اور جلال الدین تبریزی خراسان چلے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد جلال الدین تبریزی دہلی چلے گئے۔
اس وقت سلطان شمس الدین التمش ہندوستان کا حکمران تھا۔ اللہ والوں سے محبت و عقیدت رکھتا تھا۔ حضرت جلال الدین تبریزیؒ کی آمد کی خبر سلطان کو ملی تو وہ آپ کے استقبال کے لئے شہر پناہ کے دروازہ پر حاضر ہوا گھوڑے سے اتر کر آپ کو تعظیم دی۔ نجم الدین صغریٰ اس وقت شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھا۔ اس نے سلطان کی عقیدت اور حضرت جلال الدین تبریزیؒ کی بے انتہا پذیرائی دیکھی تو اس کے اندر حسد کی آگ بھڑک گئی۔
بغض و عناد کے تحت اس نے ایک گھناؤنی سازش تیار کی اور حضرت جلال الدین تبریزیؒ پر تہمت لگا دی۔ گوہر نامی ایک طوائف کو اس گھناؤنی سازش میں شریک کیا اور سلطان التمش کے دربار میں مقدمہ پیش کر دیا۔ جب مقدمہ پیش ہوا تو گوہر نے سچ سچ بتا دیا کہ یہ ساری سازش شیخ الاسلام نجم الدین صغریٰ کی بنائی ہوئی ہے۔
شیخ بہاؤالدین زکریاؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے صوفیاء کے بارے میں یہ مشہور کر دیا ہے کہ ان کے پاس نذر و نیاز اور فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب روحانی بزرگوں پر تارک الدنیا ہونے کا لیبل لگا دیا جائے گا تو ان کے پاس روحانی افکار کے حصول اور معاشرتی مسائل کے حل کے لئے کوئی نیہں آئے گا۔ ظاہر پرستوں کو معلوم نہیں ہے کہ کم کھانا، کم سونا، کم بولنا، غیر ضروری دلچسپیوں میں وقت ضائع نہ کرنا۔۔۔۔۔۔تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے۔ ہم روزہ رکھتے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسلام فقر و فاقہ کا مذہب ہے۔
روزہ کے فوائد اس بات کے شاہد ہیں کہ کم کھانا، کم بولنا، کم سونا روح کی بالیدگی کے وظائف ہیں۔
تبلیغی سرگرمیاں:
سہروردیہ سلسلہ کے معروف بزرگ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کی تبلیغی کوششوں کا اپنا ایک الگ نہج تھا۔ اس منظم روحانی تحریک کے ذریعے سندھ، ملتان اور بلوچستان کے علاقوں میں ہزاروں افراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ روحانی تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور بے شمار خواتین و حضرات حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔
حضرت زکریا ملتانیؒ نے ایک اعلیٰ درسگاہ قائم کی تھی۔ اس درسگاہ میں بہت اچھے مشاہرہ پر اساتذہ کا تقرر کیا گیا تھا۔ طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بہترین ہوسٹل تھے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس پیدا کرنا اس درسگاہ کی پالیسی تھی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جو شخص جس علاقے میں فرائض انجام دینے کی درخواست کرتا۔ اس علاقے کی زبان و ثقافت کی تعلیم کا بندوبست کر دیا جاتا تھا۔ اس غرض کے لئے اسے دو برس مزید ٹریننگ دی جاتی تھی۔
دو برس بعد معلمین کو مناسب سرمایہ فراہم کر دیا جاتا تھا تا کہ معلم اس سرمایہ سے کاروبار کرے اور کاروبار کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ انجام دے۔
حضرت زکریا ملتانیؒ اساتذہ کو یہ ہدایت فرماتے تھے۔ ’’سامان کم منافع پر فروخت کرنا لین دین میں سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا۔ ناقص اشیاء فروخت نہ کرنا، خریداروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ جب تک لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو اسلام کی تعلیمات پیش نہ کرنا‘‘۔ اس کے بعد آپؒ اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے تھے۔
دین پھیلانے والے تاجر:
تاجروں کے روپ میں اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے والے یہ پاکیزہ بندے چین، فلپائن، جاوا، سماٹرا اور دیگر علاقوں تک پھیل گئے۔ یہ حضرات بڑے بڑے شہروں میں ایگزی بیشن منعقد کرتے، صنعتی نمائش کا اہتمام کرتے تھے۔
پیشہ وارانہ دیانت، صفائی، ستھرائی، حسن سلوک کی وجہ سے ہر شخص ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ان کے اعلیٰ کردار سے متاثر ہو کر لوگ ان سے محنت کرنے لگتے تھے اور خدا رسیدہ لوگ نہایت دلنشین انداز میں قلبی سکون کا راز ان لوگوں کے گوش گزار کرتے تھے اور اسلام قبول کر کے لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب سے آشنا ہو جاتے تھے۔ مشرق بعید کے بے شمار جزائر میں کروڑوں مسلمان ان ہی روحانی بزرگوں کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔
شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے تربیت یافتہ شاگردوں اور بزرگوں نے ساتویں صدی ہجری میں دین کی ظاہری اور روحانی تبلیغ کے لئے ساری دنیا میں مراکز قائم کئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریاؒ نے مختلف علاقوں میں جماعتیں روانہ کیں۔ آپؒ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے کشمیر سے راس کماری اور گوادر سے بنگال کو اسلام کی روشنی سے منور کر دیا۔
حضرت زکریا ملتانیؒ کی فلاحی خدمات:
حضرت زکریا ملتانیؒ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تربیت کا الگ الگ اہتمام فرماتے تھے۔ یہ روحانی تحریک Scientificاور جدید خطوط پر استوار تھی۔ قدرت نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کو فلاحی ذہن عطا کیا تھا۔ آپؒ نے جنگلوں کو آباد کروایا، کنویں کھدوائے، نہریں تعمیر کروائیں اور زراعت پر بھرپور توجہ دی۔ انہیں ہر وقت عوام کی خوشحالی کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت ان کے لئے سرمایۂ آخرت تھی۔
آپ عوام الناس کے خادم تھے اور عوام آپ سے محبت کرتے تھے۔ یہی حسن اخلاق اور محبت تھی کہ لوگ جوق در جوق مراقبوں میں شریک ہوتے تھے۔ لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے عرفان کیلئے ایمانداری اور خلوص نیت کو زندگی کا معیار بنا لیا تھا۔ روح کی تقویت کیلئے درود شریف اور اذکار کی محفلیں سجتی تھیں۔ لوگ خود غرضی اور خود پرستی کے ہولناک عذاب سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کرتے تھے۔
شیخ زکریا ملتانیؒ ڈولی میں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی۔
اے اہل ملتان! میرا سوال پورا کرو ورنہ میں ملتان شہر الٹ دوں گا۔ حضرت نے ڈولی رکوا کر کچھ دیر توقف کیا۔ اور کہاروں سے کہا۔ چلو۔۔۔دوسری آواز پر کہاروں سے کہا۔ ڈولی زمین پر رکھ دو۔ تھوڑی دیر بعد فرمایا۔۔۔چلو کچھ نہیں۔۔۔تیسری آواز پر کہاروں سے فرمایا ڈولی کندھوں سے اتار دو۔۔۔اور ڈولی سے باہر آ کر کہا۔۔۔اس فقیر کا سوال جس قدر جلد ممکن ہو پورا کر دو۔
لوگوں نے پوچھا۔۔۔یا حضرت آپ نے دو مرتبہ ڈولی رکوائی اور کچھ نہیں فرمایا۔۔۔تیسری دفعہ فرمایا کہ جتنی جلد ممکن ہو فقیر کا سوال پورا کر دو۔۔۔اس کے پس منظر میں کیا حکمت ہے؟
فرمایا۔۔۔پہلی دفعہ فقیر نے سوال کیا تو میں نے اس کی استعداد دیکھی۔ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ دوسری مرتبہ میں نے اس کے مرشد کریم کی استعداد پر نظر ڈالی۔ وہاں بھی کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ تیسری دفعہ آواز کا میرے دل پر اثر ہوا۔
میں نے توجہ کی تو دیکھا کہ اس فقیر کے سلسلہ کے دادا پیر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں با ادب کھڑے ہیں۔
حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ایک روز اپنے حجرہ میں عبادت میں مشغول تھے کہ ایک نورانی چہرہ بزرگ آئے اور ایک سربرمہر خط حضرت صدر الدین کو دے کر چلے گئے۔ انہوں نے خط والد بزرگوار کی خدمت میں پیش کر دیا۔
والد بزرگوار نے فرمایا۔ بزرگ سے میرا سلام کہو۔ اور عرض کرو کہ آدھے گھنٹہ کے بعد آئیں۔ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ نے امانتیں واپس کیں۔ بیٹوں سے کہا کہ درود شریف پڑھیں۔ آواز سنائی دی، ’’دوست بدست دوست رسید‘‘ یہ آواز سن کر حضرت شیخ صدر الدین دوڑے ہوئے حجرے میں گئے۔ دیکھا کہ والد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ تدفین کے بعد صاحبزادہ کو خیال آیا کہ وہ کون بزرگ تھے جن سے ابا نے کہا تھا آدھے گھنٹہ بعد آنا۔ صاحبزادے کو خط کی تلاش ہوئی۔ تکئے کے نیچے رکھے ہوئے خط میں تحریر تھا:
’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضوری میں طلب فرمایا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔
فرشتہ عزرائیل۔‘‘.

(احسان و تصوف از خواجہ شمس الدین عظیمی)

Nov 20, 2014

وولٹیج اور لہریں

نمک اور سنکھیا دونوں سفید ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دراصل ان کی وولٹیج میں فرق ہے۔ مختلف لوگوں میں مختلف وولٹیج کی لہریں کام کرتی ہیں۔ بعض اوقات آدمی کسی روحانی آدمی سے گلے ملتا ہے تو ساری زندگی اُس کیف کو یاد کرتا ہے۔ ایک دوسرے سے گلے ملنے میں یہ لہریں ایک دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں۔ بچوں میں بڑوں کی نسبت وولٹیج زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے انہیں گلے لگانے سے زیادہ سکون ملتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی چیز ہمارے اندر جا رہی ہو۔ آپ بچے کو سینے پر لٹائیں تو نیند آ جاتی ہے۔ گالی دینے سے یہ وولٹیج ضائع ہو جاتی ہے۔ اللصبح اُٹھنے کا ایک بڑا فائدہ اس وولٹیج کا زیادہ ہونا بھی ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

Nov 18, 2014

روحانی علاج - شادی کے لئے

ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب رُوحانی علاج سے  اُن پریشانیوں یا مسائل کا روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن کا سامنا فی زمانہ ہر گھر متاثر ہے۔ آج جب کہ صنفی طور پر دیکھا جائے تو خواتین کی تعداد زیادہ ہے اور تعلیمی میدان میں بھی خواتین آگے ہیں۔دیگر مسائل کے علاوہ اس وجہ سے بھی بے شمار بہنوں، بیٹیوں کے رشتے بروقت نہیں ہو پاتے۔  اس مسئلے کے روحانی حل کے لئے ایک وظیفہ پیشِ خدمت ہے۔ 
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔
 اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا
اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ کم ازکم ایک وقت کا کھانا خیرات کر دیں یا  اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ کم ازکم ایک وقت کا کھانا خیرات کر دے۔

روحانی علاج - کاروبار میں بندش

ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ ہرتقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔  اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا

اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ دو روپیہ خیرات کر دیں یا  اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ گیارہ روپے خیرات کر دے۔ 


Nov 17, 2014

روحانی علاج - نا فرمان اولاد

ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ ہرتقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔  اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا

اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ ایک وقت کا کھانا یا اتنے پیسے خیرات کر دیں یا  اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ ایک وقت کا کھانا یا اتنے پیسے خیرات کر دے۔ 


  فی زمانہ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی آسمان کو چھُو رہی ہے وہیں دوسری طرف بے شُمار معاشرتی اور اخلاقی بُرائیوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔  مادہ پرستی کے اس انتہائی دور میں معاشرے کو اللہ کی محبت کا درس دینے کے ساتھ اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کے دوستوں نے ہمیشہ لوگوں کے رستے زخموں پر مرہم رکھا ہے اور مخلوقِ خُدا کے مسائل اور مشکلات کا حل فی سبیل اللہ کرتے ہوئے سکون آشنا زندگی سے متعارف کروایا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے الحمداللہ گزشتہ 4 عشروں سے لاعلاج بیماریوں اور مشکلات کا حل بذریعہ روحانی علاج پیش کیا ہے۔ ان میں سے وہ مسائل جن کا سامنا معاشرے کو عموما کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اس بلاگ کےزریعے وقتا فوقتا پیش کئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب بنی نوع انسان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور حقیقی سکون سے آشنا کرے ۔ آمین

Nov 4, 2014

پسِ منظر واقعہِ کربلا از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی


تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

شاہ است حسینؓ ، پادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد، دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لااِلٰہ است حسین ؓ
(حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ)
غور کیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات میں دو طرزِ فکر کام کر رہی ہیں۔ ایک تعمیری طرزِ فکر ، دوسری تخریبی طرز فکر۔۔ تعمیری طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان سکون آشنا زندگی سے روشناس ہوجاتا ہے  اور تخریبی طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان غم آشنا زندگی، فکر و آلام، بیماریوں اور بے سکونی سے قریب ہو جاتا ہے۔
خالق ارض وسما نے کائنات محبت کے ساتھ تخلیق کی۔ اور انسان کے لئے اس دُنیا کو محبت ، خوشی ، مسرت و شادمانی اور ایثار کا گہوارہ بنایاہے۔ فضاوں میں رنگینی ، رات کی تاریکی میں روشن چاند ، دن کے اُجالے کو جِلا بخشنے والا سورج، نیلگوں آسمان کی بساط پر ستاروں کی انجمنیں، زندگی کو توانائی دینے والی گیسیس، درختوں کی حمد و ثنا، زمین کی تخلیق، آسمان کی رفعت۔۔، انسان کی شادمانی مسرت اور سکون کے لئے پیدا فرمائے ہیں ۔ ان نعمتوں سے کوئی تخلیق محروم نہیں۔ لیکن جب ہم خوشنمازندگی پر غور کرتے ہیں تو یہ زاویہ روشن ہوتا ہے کہ ایثار و قربانی ہر جذبے میں بُنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ زمین میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیت ایثار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بیج کو بطن میں محفوظ کر کے پروان چڑھانا اور اس کا مظاہرہ ، مستقل غذا فراہم کرنا۔ ’’ایثار‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
جب بندہ اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو دُنیا میں آنے سے پہلے وہ خود کو کہیں نہیں پاتا۔ پیغمبروں کی زندگی کے ساتھ ساتھ نبی مکرم ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں اور حیاتِ طیبہ کو بیان کیا جائے تو ان برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں اللہ وحدہ لا شریک کے لئے قربانی کے علاوہ کچھ نہیں کہ سکتے۔
حضرت امام حسین ؓ پوری زندگی ایثار و قربانی سے فیض یاب ہوتے رہے۔ وہ عالمین کے لئے رحمت اپنے نانا رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر پہلو سے واقف تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ حق کو ظاہر کرنے کے لئے جن آزمائش و مصائب سے صبر اور یقین کے ساتھ مظہر بنی، اس سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی بہت پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے جلیل القدر شوہر اور امام حسین ؓ کے والد بزرگوارؓ کو زندگی کی دستاویز بھی حضرت امام حسینؓ کے ذہن میں محفوظ تھی۔ اللہ کے لئے بلا خوف و خطر ہر تکلیف کو برداشت کرنے کا حوصلہ ان کے لئے مشعلِ راہ تھا۔ باب العلم ؓ کا مقدس خطاب ان کے لئے مشعل ِ راہ تھا۔ تسلیم و رضا ، ایثار و قربانی امام حسین ؓ کی روایات تھیں۔
معرکہ کربلا کا پس منظر اتنا عجیب اور غم آشام ہے کہ اپنے پرائے سب اشک بار ہو جاتے ہیں۔ اور پُر آشام حالات و واقعات ہر صاحبِ دل کو بے چین و بے قرار کر دیتے ہیں ۔
جس طرح یہ سازش کی گئی وہ قابلِ نفرین ہے، جگر گوشہ رسول ، سید الشہدا امام حسین ؓ کا ایثار و قربانی کا جذبہ بلا شبہ اپنے نانا رسول اللہ ﷺ اور اپنے باپ بابُ العلم حضرت علی ؓ کی صفات کا وہ باب ہے جو رسول اللہﷺ سے شروع ہوا اور اُنہی کے لختِ جگر سید الشہدا امام حسینؓ کی شہادت پر آخری مظہر بنا۔ امام حسین ؓ ایسی پاکیزہ ہستی ہیں جن کو قربانی سے حق اور باطل کی تصویریں اتنی واضح ہو گئیں کہ آنکھوں سے محروم کی بصیرت سے بھی مخفی نہیں رہ سکتیں۔
شہیدوں کے سردار، امام حسین ؓ حق اور باطل دونوں کی سرحدیں الگ کرنے کے لئے چاند کی رو پہلی کرنوں کی طرح اور سورج کی آتش فشانی کی مانند ، حق و صداقت کی سرحد ہیں۔
حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ تحقیق باطل مٹنے کے لئے ہی ہے۔ (۱۸:۱۷)
قتل حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

قلندرِ شعور نومبر 2013