Nov 15, 2016

عُرس مبارک - شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ 1689 میں حیدر آباد ضلع، ہالہ تحصیل کی ہالہ حویلی میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد کا نام سید حبیب اللہ تھا، شاہ حبیب ہالا کو خیرآباد کہہ کر کوٹری میں آکر مقیم ہوئے، ہالا حویلی بھٹ سے نو کوس (ایک کوس تین ہزار گز یعنی 2743.2میٹر کے برابر ہوتا ہے) اور کوٹری سے چار میل دور ہے۔ شاہ کے زمانے میں عربی اور فارسی زبان و ادب کو مقبولیت حاصل تھی، ان حالات میں انھوں نے سندھی زبان میں شاعری کرکے نہ صرف سندھی زبان کو شاعرانہ معیار بخشا بلکہ وطن اور سندھ سے عقیدت کا ثبوت فراہم کیا۔
اپنی شاعری میں شاہ صاحب نے قرآن و حدیث سے اصطلاحیں ضرور استعمال کیں مگر اپنی مادری زبان میں ترجمہ کیا۔ صوفیانہ تخیل شاہ کے کلام کی خصوصیات ہیں، ان کی شاعری میں سادگی اور بے لوث خلوص شامل ہے۔ وادی مہران کے عظیم المرتبت شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ ان کا مکمل کلام انسانیت کے گرد گھومتا ہے۔ آپ بے حد متقی اور پرہیز گار تھے، دنیاوی آلائشوں سے آپ کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، ساری عمر عبادت و ریاضت میں گزری ان کی شاعری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انھوں نے جہالت کے چراغوں کو گل کرنے اور اخلاقیات کا بہترین درس دیا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا قابل قدر کارنامہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ ہے۔
روایت ہے کہ شاہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے خلیفہ ثمر فقیر نے عقیدت کے ساتھ اس شعری ذخیرے کو قلمبند کروایا جو بہت سے مریدوں اور ان کے چاہنے والوں کے دل و دماغ میں محفوظ تھا۔ بھٹ شاہ میں یہ تبرک یادگار کے طور پر آج بھی محفوظ ہے۔ شاہ بھٹائی کا پیغام بذریعہ شاعری جذبہ محبت، علم و دانش اور حسن و راستی کا آئینہ دار ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں سندھ کی منظوم تاریخ رقم کی گئی ہے۔ وہ تصوف کے بڑے شاعر تھے انھوں نے تمثیل کے انداز میں حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے جو بھی کردار پیش کیے ہیں وہ سرزمین سندھ کے ہیں۔ شاہ صاحب نے ایرانی طرز فکر کو ترک کرکے خالصتاً سندھی شاعری کے انداز میں عارفانہ فکر کی تائید کی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سماع‘‘ کے بے حد شوقین تھے۔ ہندوستان کی گائیکی سے پوری طرح واقف تھے۔ گائیکی کے سروں کے آپ نے مختلف نام رکھے تھے، یہ سُر (آواز) داستانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور ہر داستان کے پیچھے ’’وائی‘‘ ہے جوکہ عبداللطیف کی اپنی ایجاد ہے، اس کی ہیئت غزل سے ملتی جلتی ہے۔ ’’سُر حسینی‘‘ میں سسّی کی دردناک صدائیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح شاہ صاحب نے ماروی کو دیس کی محبت کی علامت کے طور پر نمایاں کیا ہے۔
شاہ صاحب اپنے اشعار میں اس طرح انسانوں سے مخاطب ہیں کہ ’’لوگوں سے زیادہ پرندوں میں پہچان ہے کہ وہ جھنڈ بناکر آپس میں بیٹھتے ہیں، مگر انسان، انسان سے دور بھاگتا ہے‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’آخر سب فنا ہے، انسان کو کس بات پر غرور ہے؟ جب کہ بڑے بڑے عظمت و مرتبے والے لوگ خاک میں مل گئے، ہم جس پر چل رہے ہیں اسی زمین کے نیچے بے شمار انسان دفن ہیں، انسان کا کام ہے کہ وہ بیدار رہے، کھلی آنکھوں سے دیکھے اور حقیقت کو پہچانے، اور تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے جو دونوں جہانوں کا سردار ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
شاہ عبداللطیف کی شادی کا احوال بھی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب شاہ حبیب کوٹری میں رہائش پذیر ہوئے۔ کوٹری میں مرزا مغل بیگ ارغوان کا ایک باعزت خاندان سکونت پذیر تھا، وہ شاہ حبیب کی پاکبازی و تقویٰ سے بے حد متاثر ہوا اور اپنے خاندان کے ساتھ شاہ کے مریدوں میں شامل ہوگیا، جب کبھی مرزا کے گھر میں دکھ، بیماری ہوتی تو شاہ حبیب کو ہی دعا کے لیے کہا جاتا۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ مرزا مغل بیگ کی بیٹی بیمار ہوگئی۔ جب شاہ کو بلایا گیا تو وہ بوجہ علالت خود نہ جاسکے اپنے نوعمر بیٹے کو ملازم کے ساتھ بھیج دیا۔ نوجوان شاہ لطیف نے مرزا مغل بیگ کی نوعمر بیٹی کو دیکھا جو بے حد حسین وجمیل تھی۔
دونوں کی نگاہیں بیک وقت ایک دوسرے کی طرف اٹھیں تو دونوں کے دلوں کو محبت کی آگ گرماگئی۔ اس بات کا اندازہ مرزا کو اچھی طرح ہوگیا، بیٹی کی حالت بھی چھپی نہ رہ سکی کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ مرزا نے انھی حالات کے پیش نظر شاہ حبیب سے ترک تعلق کرلیا، شاہ حبیب کو بھی جب صورت حال کا علم ہوا تو انھوں نے بھی دلبرداشتہ ہوکر کوٹری کو چھوڑ دیا۔ اس حادثے نے شاہ عبداللطیف کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ جب آپ گھومتے پھرتے ٹھٹھہ پہنچے تو وہاں کے عالم مخدوم علامہ محمد معین جو حضرت شاہ ابوالقاسم نقشبندی کے خلیفہ تھے ان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بے حد محبت کے ساتھ کہا کہ وہ اپنے سلوک سے دکھے دل کو تسکین پہنچائیں۔
ایسی ہی خدمت کے جذبے نے شاہ عبداللطیف کو والدین کے در دولت پر پہنچادیا۔ ان کے اس عمل سے شاہ لطیف کے والد بے حد خوش ہوئے، شاہ کی واپسی کے بعد ایک واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جس کی بدولت شاہ لطیف کے ہاتھ میں گوہر مراد آگیا۔ ہوا یوں کہ ’’دل‘‘ قوم کے سرکش افراد نے مرزا مغل بیگ کی حویلی پر حملہ کیا۔ یہ واقعہ 1713 کا ہے۔ مرزا مغل کے خاندان کے تمام مرد قتل کردیے گئے، صرف ایک نو عمر لڑکا اور خواتین بچ سکیں، اس قتل و غارت میں مغل خواتین کو سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں اس بات کا وہم ہوگیا کہ ان کی تباہی سید خاندان کی ناراضگی کا سبب ہے۔
لہٰذا سب لوگ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، معافی مانگی، سرپرستی فرمانے کی درخواست بھی کی اور اپنی صاحبزادی کا نکاح شاہ عبداللطیف بھٹائی سے کرنے کی نوید سنائی۔ صاحبزادی کا نام سیدہ تھا اور یہ وہی لڑکی تھی جس کے علاج کے لیے شاہ صاحب گئے تھے اور ان ہی کی خاطر جنگلوں کی خاک چھانی۔ اس طرح شاہ عبداللطیف کا عقد اس لڑکی سے کردیا گیا۔
شادی کے بعد شاہ کے مریدوں نے آپ کو تاج المخدورات کا لقب دیا۔ اس خوشگوار واقعے کے بعد شاہ لطیف نے ایک پرفضا مقام کو اپنے رہنے کے لیے منتخب کیا، اسے بھٹ شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جگہ اونچے اونچے ٹیلے تھے شاہ صاحب کی کوشش نے اسے ایک خوبصورت بستی میں تبدیل کردیا۔
شاہ صاحب اسی بھٹ میں تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ ان کے والد صاحب بیمار ہیں وہ ان سے ملنے کے لیے روانہ ہوگئے لیکن ابھی راستے میں ہی تھے کہ شاہ حبیب انتقال کرگئے، والد صاحب کی موت نے آپؒ کو بے حد دلگرفتہ کیا اور کئی دن تک آپ روتے رہے، والد صاحب کے انتقال کے بعد شاہ لطیف 10 سال تک زندہ رہے۔ دور دور سے آکر لوگ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، آپ کے ہاں سارا وقت سرود و سماع جاری رہتا۔
زندگی کے آخری دنوں میں شاہ صاحب کربلا شریف کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں کسی مرید نے کہا کہ آپضعیفی کے عالم میں کہاں جارہے ہیں جب کہ بقول آپ کے آپ کا کفن دفن تو بھٹ میں ہوگا، آپ نے ارادہ ترک کردیا۔ 21 دن تک تنہائی میں رہے اس دوران عبداللطیف بھٹائی نے صرف دو وقت کا کھانا تناول فرمایا۔ باہر آکر غسل کیا اور ایک چادر اپنے اوپر ڈال کر مراقبے میں بیٹھ گئے، تیسرے دن جب فقراء شاہ کے نزدیک گئے تو دیکھا کہ آپؒ کی روح پرواز کرچکی تھی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ میں ہی تدفین کی گئی۔

تحریر: نسیم انجم – روزنامہ ایکسپریس
 

No comments:

Post a Comment