May 30, 2015

شبِ براٗت - پروگرام شبِ بیداری و اہمیت



نوٹ: شبِ بیداری کا پروگرام خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا مرتب کردہ ہے۔
  انفرادی یا اجتماعی شب بیداری کے لیئے اس پروگرام سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔


شبِ برات اور شعبان المعظم کی فضیلت و اہمیت پرچند صحیح احادیث بمعہ حوالہ جات:
 
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ 
رکھتے تھے ۔آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے اور کہا کرتے تھے :’’اتنا عمل کروجس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اُ کتاتا ‘یہاں تک کہ تم اکتاجاؤ۔
صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘باب صوم شعبان۔
--
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے (نفلی) روزوں کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپؐ اتنے دن روزہ رکھتے تھے کہ ہم کہتے کہ آپؐ نے بہت روزے رکھے اور آپؐ اتنے دن روزہ نہ رکھتے کہ ہم کہتے کہ آپؐ نے بہت دن روزہ نہیں رکھا۔ اور میں نے آپؐ ‘کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزہ رکھتے تھے‘ آپؐ شعبان کاسارا مہینہ روزہ رکھتے تھے سوائے چند دن کے
صحیح مسلم‘کتاب الصیام‘باب صیام البنیﷺ فی غیر رمضان
--
اللہ کے رسول ﷺ کو سب مہینوں میں سے شعبان میں روزہ رکھنا زیادہ پسند تھا
سنن ابی داوٗد‘کتاب الصوم ‘باب فی صوم شعبان
--
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو
جامع الترمذی‘ابواب الصوم عن رسول اللہﷺ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ الصوم فی النصف الثانی من شعبان
--
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے
میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایک رات گم پایا۔میں (آپؐ‘ کو تلاش کرنے کے لیے) نکلی تو آپ ﷺبقیع (مدینہ کا قبرستان) میں موجود تھے ۔پس آپ ؐنے فرمایا: 
’’اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ سے ناانصافی کریں گے ؟‘‘
تو حضرت عا ئشہ ؓنے کہا کہ میں نے عرض کیا!   اے اللہ کے رسول ﷺ !میرا گمان یہ تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہوں گے ۔
پس آپؐ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ (گناہوں )کی مغفرت فرماتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ شعبان کا سارا مہینہ روزہ رکھتے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ !آپ سب مہینوں میں سے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں ‘تو آپؐ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ اس مہینے میں اس سال مرنے والوں کے نام لکھ دیتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میری موت کے بارے جب فیصلہ کیا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں 
جامع الترمذی‘ابواب الصوم‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔
--
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے کینہ رکھنے والے اور کسی جان کو ناحق قتل کرنے والے کے
مسند احمد۔ وتحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی‘ علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری‘ کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان
--
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ نبی اکرمﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’(اے عائشہ!) کیا تو جانتی ہے یہ کون سی رات ہے ؟ یعنی نصف شعبان کی رات۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ !اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا:’’اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے ہر ابن آدم کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس رات میں اعمال بلند کیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے ‘‘۔ پس حضرت عائشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !کیا کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا؟ تو آپؐ نے فرمایا:’’ کوئی بھی جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔‘‘ آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو حضرت عائشہؓ نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ !کیا آپ بھی؟آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا : ’’ہاں میں بھی‘ سوائے اس کے کہ مجھے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے ۔‘‘ آپؐ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے
مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الصلاۃ‘ باب قیام شہر رمضان‘ فصل ثالث۔
--
جب نصف شعبان کی رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میں غروبِ آفتاب کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتاہے۔اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر تک یہ آواز لگاتے رہتے ہیں کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والاکہ میں اس کورزق دوں؟ہے کوئی آزمائش والاکہ میں اس کی آزمائش دُور کر دوں؟ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ کیا ایسا ایسا کوئی نہیں ہے؟
سنن ابن ماجہ‘ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ وضعیف الجامع الصغیر:۶۵۲‘علامہ البانی
--
حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
  "اللہ کے ر سول ﷺ ہمیں ایامِ بیض یعنی ہر مہینے کی تیرہ ‘ چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔‘‘
سنن ابی داوٗد‘کتاب الصوم‘ باب فی صوم الثلاث من کل شھر

May 28, 2015

دوست کی بُنیاد


دوستوں کی صحبت میں بیٹھ کر وہی رحجانات اور خیالات پیدا ہو تے ہیں جو دوستوں میں کام کر رہے ہیں قلبی لگاؤ اسی سے بڑھانا چاہئے جس کا ذوق افکار و خیالات اور دوڑدھوپ اسوۃ حسنہ کے مطابق ہو ۔ دوستوں پر اعتماد کیجئے ،انہیں افسردہ نہ کیجئے ۔ ان کے درمیان ہشاش بشاش رہئے ۔ دوستی کی بنیاد خلوص ، محبت اور رضائے الٰہی پر ہو نی چاہئے نہ کہ ذاتی اغراض پر ۔ایسا رویہّ اپنائیے کہ دوست آپ کے پاس بیٹھ کر مسرت زندگی اور کشش محسوس کرے ۔
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی

May 26, 2015

Spiritual Healing - Getting Job or to Have a Business


رُوحانی علاج - ملازمت یا کاروبار کا حصول


 ہماری کوشش ہے کہ ہم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا تجویز کردہ روحانی علاج مفادِ عامہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے شیئر کریں جن مسائل اور پریشانیوں سے فی زمانہ تقریباََ ہر دوسرا گھر متاثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ ہماری مشکلات حل فرمائے۔  اور ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا ربنا
اس علاج سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، معالج خواہ وہ خود مریض ہو یا کسی دوسرے کا علاج کرے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھے اور ایک سو ایک مرتبہ بِسم اللہ الواسعُ جل جلالہُ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کر کے تین بار ہاتھ چہرے پر پھیرے۔
اب روحانی علاج (از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) کے تمام عملیات کی اجازت ہے۔
تعویذ خود استعمال کرنے یا کسی دوسرے کو لکھ کر دینے کی صورت میں تعویذ کی ذکوٰۃ گیارہ  روپیہ خیرات کر دیں یا  اس مریض کو جس کو تعویذ دیا گیا ہے یہ ہدایت کر دیں کہ وہ تعویز کی ذکوٰۃ گیارہ روپے خیرات کر دے۔

May 24, 2015

آدمی پریشان کیوں ہے




پہلی بات یہ ہے کہ انسان نے عارضی اشیاء کو فانی زندگی کو اور مسافرت کے سفر کو زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ جبکہ زندگی کا مقصد مسافرت نہیں۔ منزل ہوتی ہے۔جس ہوٹل میں، جس سرائے میں، جس جھونپڑی میں، جس بنگلے یا جس محل میں میں رہتا ہوں اور وہ محل، وہ مقام میں چھوڑنے پر مجبور ہوں۔وہ میری منزل نہیں ہو گی۔میری منزل نہیں ہے۔ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں میں ایک مسافر ہوںسفر میں ہوں کبھی جھونپڑی میں رہتا ہوں کبھی چار دیواری میں رہتا ہوں کبھی محل میں رہتا ہوں اور کبھی دھوپ میں چلتا پھرتا ہوں اگر انسان کو مقصد کا تعین ہو جائے تو وہ منزل رسیدہ ہےمنزل کا تعین نہیں تو وہ ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح سفر میں ہی رہے گا۔سوال یہ ہے کہ مقصد کا تعین کیا ہے؟کیسے پتہ چلے کہ ہم مقصد کو کیسے حاصل کریں؟ اور مقصدیت کا حصول ہمارے لئے کس طرح ممکن ہے؟
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی