Mar 29, 2015

عُرس مبارک حضرت شاہ حُسین - مادھو لال حُسین



  تحریر : ڈاکٹر سید افتخار الحسن- نوائے وقت
حضرت شاہ حسینؒ لاہوری 945ھ بمطابق 1538ءکو اندرون ٹیکسالی گیٹ میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے تھا جوکہ فیروز شاہ تعلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔بچپن میں شاہ حسین کے والد نے آپ کو ٹیکسالی گیٹ کی بڑی مسجد میں حافظ ابو بکر کے پاس حفظ قرآن پاک کے لئے ڈال دیا۔ شاہ حسین نے دس برس کی عمر تک سات پارے حفظ کر لئے اسی دروان ایک صوفی درویش حضرت بہلول حافظ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت بہلول ضلع جھنگ کے قصبہ لالیاں کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک گاں بہلول میں پیدا ہوئے حضرت بہلول نے حافظ ابو بکر سے شاہ حسین کے متعلق دریافت کیا۔ شاہ حسین حضرت بہلول کے روبرو پیش ہوئے تو حضرت بہلول نے شاہ حسین کو خوب پیار کیا اور دریائے راوی سے وضو کے لئے پانی لانے کے لئے کہا۔ شاہ حسین فوراً دریا سے پانی لے کر واپس مڑے تو دریا کے کنارے ایک سبز پوش نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جس نے شاہ حسین کو فرمایا کہ بیٹا تھوڑا سا پانی میرے ہاتھ پر ڈال دو شاہ حسین نے پانی بزرگ کے ہاتھ پر ڈال دیا بزرگ نے وہ پانی شاہ حسین کے منہ میں ڈال دیا پانی حلق سے اترتے ہیں شاہ حسین کی دنیا بدل گئی۔ پھر سبز پوش بزرگ نے خضرؑ کے نام سے اپنا تعارف کروایا اور ہدایت کی کہ پیرومرشد کے پاس جا اور میرا سلام پیش کرنا۔ شاہ حسین پانی لے کر حضرت بہلول کے پاس پہنچے اور تمام واقعہ گوش گذار کیا ۔ حضرت بہلول نے وضو کیا ور بارگاہ خدا وندی میں خصوصی دعا فرمائی۔ حضرت بہلول نے حافظ ابو بکر سے دریافت کیا کہ یہاں تراویح کی نماز کون کراتا ہے حافظ ابو بکر نے کہا کہ میں کراتا ہوں حضرت بہلول نے فرمایا کہ اس دفعہ شاہ حسینؒ تراویح کی نماز میں امامت کریں گے۔ شروع رمضان میں شاہ حسین نے امامت فرمائی آپ کو چھ سپارے یاد تھے جب وہ سنا چکے تو حضرت بہلولؒ کی خدمت میں عرض کی حضرت جو قرآن مجھے یاد تھا وہ سنا چکا ہوں۔جواب میں حضرت بہلول نے شاہ حسین کو دریائے راوی سے دوبارہ پانی لانے کیلئے کہا۔ حضرت بہلول نے اس پانی سے وضو کیا اور شاہ حسین کے حق میں دعا فرمائی اسکے بعد انہوں نے27رمضان تک سارا قرآن پڑھ کر مکمل کر لیا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کہ اس بچے کو صرف چھ   پارے یاد تھے قراآن پاک مکمل کیسے ہو گیا۔ رمضان المبارک کے بعد حضرت بہلول شاہ حسین کو لے کر دربار حضرت داتا گنج بخش لے گئے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تیرے بھی مرشد ہیں اور میرے بھی مرشد ہیں۔ اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا حضرت بہلول شاہ حسینؒ  کو داتا علی ہجویریؒ کے سپرد کرنے بعد وہ پنڈی بھٹیاں کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت شاہ حسینؒ نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کہ دنیا و مافیہاکی خبر نہ رہی ہر رات دریائے راوی میں کھڑے ہوکر پورا قرآن پڑھتے صبح دربار حضرت علی ہجویری پر حاضر ہوکر تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتے اور روزانہ روزہ بھی رکھتے ۔حضرت شاہ حسینؒ رسول کریم کے فرمان مبارک ”الفقر و فخری، و لفقرو مستی“ کی عملی تصویر بن گئے مسلسل 27سال آپ کے معمول میں ذرا برابر فرق نہ آیا اچانک ایک دن اپنے استاد مکرم حافظ سعداللہ سے تفسیر مدارک کا سبق پڑھ رہے تھے زیر موضوع آیت ” وما الحیواة الدنیا الالہوو لعب“ پر" دنیا تو فقط کھیل تماشا ہے
من اٹکیا بے پروا دئے نال
اس دین دنی دئے شاہ دئے نال
قاضی ملاں مستی دیندئے
کھرئے سیانے راہ دسیندئے
عشق کی لگے راہ دئے نال
آپ انتہائی درویش صفت بزرگ اور باکمال صوفی شاعر ہیں آپ نے کافی کی صنف میں موسیقی کے سروں کے ساتھ متعارف کرایا شاہ حسین کی شاعری اپنے اندر نہ صرف مطالب کی گہرائی رکھتی ہے بلکہ راگوں اور سروں کا خزانہ بھی ہے شاہ حسین کی شاعری میں درد ہجر وصال کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جو انسانی فطرات کو تخلیق کائنات کے رازوں سے آشنا کرتی ہے آپ صاحب کرامت بزرگ اور فقیر کامل تھے آپ کی کرامات کی ایک طویل فہرست طوالت سے گریز کا تقاضا کرتی ہے شاہ حسینؒ جب عمر مبارک کے 51ویں برس میں داخل ہوئے آپ کو مادھو لال نامی ہندو برہمن سے عشق ہوگیا ۔جو کہ شاہدرہ کا رہائشی تھا شاہ حسینؒ مادھولال کے مکان کے گرد چکر لگاتے رہتے اور اندرون خانہ کی ساری باتیں باہر بیان کرتے آہستہ آہستہ مادھولال بھی رنگ شاہ حسین میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔شاہ حسین نے آپ کا اسلامی نام محبوب الحق رکھا شاہ حسین کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے۔ شاہ حسین کے حکم پر انہوں نے تیرہ سال مغل فوج میں ملازمت اختیار کی 1008ھ میں حضرت شاہ حسین کا وصال ہوگیا، آپ کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی پیشگوئی کے مطابق دریائے راوی میں تیرہ سال بعد سیلاب کا ذکر کیا گیا تھا۔ پیش گوئی کے مطابق قبر کی شکستہ حالی کے بعد آپ کا مدفن بابو پورہ موجودہ باغبانپورہ منتقل کیا جانا تھا۔ چنانچہ حضرت مادھو لال حسین نے مرشد کا جسد خاکی وصیت کے مطابق یہاں سے منتقل کر دیا۔اس طرح حضرت شاہ حسین کا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے جہاں ہرسال مارچ کے آخری ہفتہ میلہ لگتا ہے جوکہ میلہ چراغاں کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے ۔

No comments:

Post a Comment