بچہ جب ماں کے
محدود وجود سے اپنے وجود کا ادراک کرتا ہے تو دراصل یہ ادراک محدودیت کا ادراک ہے۔
پیدائش کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچہ
جس لامحدود مقام سے آیا ہے ، اُس لامحدود مقام کو بھول گیا ہے۔ لا محدود مقام کی
لامحدود صفات اُس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے بچہ محدودیت میں زندگی بسر کرتا ہے ۔
سیکنڈوں ، منٹوں ، گھنٹوں، دنوں، سالوں میں۔۔ اُسی مناسبت سے محدودیت کا پردہ تہہ
در تہہ موٹا ہوتا رہتا ہے اور لامحدودیت اس پردے کے پیچھے چھُپی رہتی ہے۔ محدودیت
کے رویے سے یہ پردہ اتنا دبیز ہو جاتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ سے تشبیہہ دی جائے تو
یہ تشبیہہ مناسب ہے۔
پردہ کتنا ہی
موٹا اور دبیز ہو جائے لیکن سوچ اور فکر کی بساط لا محدود ہی رہتی ہے۔ کسی بھی لمحہ لا محدودیت سے رشتہ
نہیں ٹوٹتا ۔ لیکن شعورلامحدودیت سے متصل ہونا نہیں چاہتا اور اُس کے اوپر لرزہ
طاری ہو جاتا ہے
یہی وہ احساس ہے جسے ہم خوف کہتے ہیں اور یہی وہ خوف ہے جسے ہم موت کہتے ہیں۔
حالانکہ زمین پر پیدا ہونے والا کوئی فرد اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ مرے
گا نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
great post. i finally found the real definition of fear!
ReplyDelete