Mar 22, 2015

تسبیح کیا ہے ! از سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

تسبیحکیا ہے 
تحریر : سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی 
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
1938-2003


اگر کوئی پوچھے کہ حروف کیا ہیں ؟ 
تو ہم یہی کہیں گے کہ حروف علم کا اظہار ہیں۔ جس طرح روح کا اظہار جسم کے ذریعے ہے اسی طرح علم کا اظہار بھی حروف اور الفاظ کے ذریعے ہے۔ جس طرح روح اور جسم ایک ہی شے کے دو رُخ ہیں ، اسی طرح علم اور حروف بھی ایک ہی شے کے دو رُخ ہیں۔ ہر شے کا باطنی رُخ ہمیشہ ظاہری رُخ کی بُنیاد ہوتا ہے کیونکہ باطنی رُخ کا تعلق اللہ کی جانب یعنی غیب کی جانب ہے۔ اور آسمانی کتابیں اور تمام پیغمبروں کی تعلیمات ہمیں یہ اطلاع دیتی ہیں کہ ہر شے غیب سے آکر ہمارے شعور میں داخل ہو رہی ہے۔ علم کی روشنی جب دماغ میں جذب ہوتی ہے تو خیال  بن جاتی ہے۔ خیال جب حواس بنتا ہے تو حواس دو رُخوں میں اپنے اندر والی روشنی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک داخلی رُخ ، دوسرا خارجی رُخ۔ داخلی رُخ قلبی واردات و کیفیات ہیں اور خارجی رُخ اعضائے جسمانی کی حرکات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر اور باطن  دونوں رُخوں میں ہونے والی تحریکات کا باعث علم ہے۔ انسانی شعور پر علم کے اطلاق کے درجات  وحی، کشف، الہام، القاء، واہمہ ، خیال، تصور  اور مظہر ہے ۔ انسانی شعور یا روح کی نگاہ اُن میں سے جس درجے میں علم کی روشنی دیکھتی ہے اُسی درجے میں اس کی فکر اسے معنی پہناتی ہے۔ انسانی شعور کی رسائی معرفتِ ذات تک ہے۔ معرفتِ ذات کے چالیس درجات ہیں ۔ ان درجات میں پیغمبروں کے شعور نے اللہ تعالیٰ کے علوم کو جانا اور سمجھا ۔ پھر پیغمبروں کی معرفت کائنات میں اللہ کے علوم کی ترسیل ہو رہی ہے۔ روحِ انسانی جس درجے میں اللہ کے علوم کو دیکھتی ہے۔ اس کا دیکھنا ہی علوم میں معنی پہنانا ہے۔ کیونکہ نگاہ باشعور ہے ، نگاہ کا ایک رُخ روشنی ہے دوسرا رُخ فکر ہے ۔ روشنی کی صفت احاطہ کرنے والی ہے اور فکر معنی پہنانے والی ایجنسی ہے۔ جیسے ہی نگاہ کی روشنی شے کا احاطہ کرتی ہے، فکر متحرک ہو جاتی ہے۔ نگاہ اور فکر کی تحریک علم کی روشنی کو ہرزاویے سے دیکھتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے علم کو روح کی نگاہ ہر زاویے سے بیک نظر دیکھتی لیتی ہے تو اس کی نگاہ علم کی روشنی کے باطن اور ظاہر دونوں میں یکساں  طور پر کام کرتی ہے۔ علم کی تجلی کے باطن میں علم کے نوری تمثلات ہیں اور ان تمثلات کے ظاہری ڈائمنشن حروف ہیں۔ پیغمبروں پر وحی کے نزول کی حقیقت یہ کہ ان کی نظر معرفتِ ذات کے درجات میں اللہ کی تجلیات کو دیکھتی ہے۔ اور اُن کی فکر اسے معنی پہناتی ہے۔ یعنی نگاہ اور فکر دونوں علم کی تجلیات کا احاطہ کر لیتی ہیں۔ اس دیکھنےکو اللہ تعالیٰ نے وحی کے علوم کہا ہے۔ اس میں اللہ بندے کو جو کچھ دکھانا چاہتا ہے بندے کی نگاہ بس وہی کچھ دیکھتی ہے۔ اس سے ہٹ کر نہیں دیکھتی ۔ پیغمبرانہ طرز کی وحی کا سلسلہ اب موقوف ہو چکاہے ۔ پیغمبروں کی نگاہ اللہ کے علوم کی تجلیات کو براہِ راست دیکھتی ہے۔ جبکہ مخلوق کی نگاہ اس علم کی تجلیات کو پیغمبروں کے ذریعے دیکھتی ہے اور پیغمبروں کے ذریعے سمجھتی ہے ۔
اللہ کی مخلوق میں سے ہر نوع ایک اُمت ہے۔ جس کواللہ تعالٰی نے اپنی صفات کے اظہار  کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہر نوع کے لئے اللہ کی عبادت کا ایک خاص پروگرام ہے۔ اس مخصوص پروگرام کو اللہ تعالیٰ نے تسبیح کہا ہے اور اس تسبیح سے دوسری نوع واقف نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ قرآن میں فرماتے ہیں۔
تسبیح کرتے ہیں اُسی کی ساتوں آسمان اور زمین اور جو چیز ان میں موجود ہے اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں مگر وہ اس کی تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کرتے ہوئے ۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے  - سورۃ بنی اسرائیل
انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر بھی زندگی کی مخصوص قدریں موجود ہیں۔ ہر نوع اپنی مخصوص قدروں پر زندگی گزار رہی ہے۔ قرآن نے انسان کے علاوہ بھی کائنات کی تمام دوسری مخلوقات کا ذکر کیا ہے اور انہیں غوروفکر کرنے کی ترغیب دلائی ہے ۔ دوسری مخلوقات پر غور کرنے سے کائناتی شعور حاصل ہوتا ہے۔ جو حضرت سلیمان ؑ کو حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ صرف انسان ہی کا خالق نہیں بلکہ کائنات کی تمام مخلوق کا خالق ہے اور رب بھی ہے۔ اسی طرح حضور پاک ﷺ بھی رحمت اللعالمین ہیں یعنی تمام کائنات کو رحمت آپ کے ہی توسط سے مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور حضور پاکﷺ کی رحمت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی منظم نظام کے تحت ہے۔ اس نظام کے اندر ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلام ہے۔ اور حضور پاکﷺ کی اُمت ہے۔ پس ہر نوع ایک اُمت ہے اور اس اُمت پر اپنے رب اور اپنے آقا کی عنایتوں کا شکر ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے کہ بندگی کا تقاضا یہی ہے چنانچہ ہر اُمت ہی سے انہی کی جنس سے ایک رسول ہوتا ہے جو اللہ کی جانب سے انہیں بندگی کے آداب سکھاتا ہے اور انہیں خاص الہام کے ذریعہ اس کی اطلاع دیتا ہے۔ انسان اور جنات کے سوا باقی تمام مخلوق میں الہام الہٰی مخلوق کی جبلت اور فطرت بن کر کام کرتی ہے۔ جس میں اس نوع کا ذاتی ارادہ نہیں رہتا۔ بلکہ الہامِ الہیٰ پران کے ذہن حرکت کرتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ وہ غیر مکلف کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شہد کی مکھی پر وحی کا ذکر اسی ذہن میں کیا ہے۔
"اور وحی کی آپ کے رب نے شہد کی مکھی کو کہ بنایا کر پہاڑوں میں چھتے، اور درختوں میں اور ان چھپروں میں جو لوگ بناتے ہیں۔ پھر رس چوسا کرہر قسم کے پھلوں سے یہیں چلتی رہا کر اپنے رب کی آسان کی ہوئی راہوں پر۔ نکالتا ہے اُن کے شکموں سے ایک شربت مختلف رنگوں والا ۔ اس ہی میں شفا ہے لوگوں کے لئے ۔ بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں" سورۃ النحل
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کے اندر ایک پورے نظام کے علوم موجود ہیں۔ ہم اپنے مضمون کی مناسبت سے اس آیت کے معنی تلاش کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی پر وحی کی گئی ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وحی کا نزول پیغمبر پر ہوتا ہے۔ تا کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے ۔ ہم اوپر بیان کر چُکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے براہِ راست وحی صرف پیغمبروں تک ہے۔ اس کے بعد کُل مخلوق کا اللہ کا امر پیغمبروں کے ذریعے پہنچ رہا ہے۔ "مکھی پر وحی کی" کہ کر اللہ تعالیٰ نے ہر نوع کی امت میں سے ایک رسول انہی کی جنس میں سے منتخب کیا گیا ہے۔ اور ان کے زریعے باقی نوع کے افراد کو اللہ کا امر تقسیم ہو رہا ہے۔ آیت میں اس اصول و نظام کو بیان کیا ہے۔ ہر نوع میں سے ایک فرد اُنہی کی جنس سے منتخب ہوتا ہے۔ جو پیغمبر کے ذریعے اللہ کے پیغام کو وصول کر کے اپنی قوم میں پھیلاتے ہیں۔ انسان اور فرشتوں کے سوا باقی تمام انواع جنہیں اجنہ، نوعِ حیوانات اور ہوا شامل ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی کا پیغام پہنچانے والے رسول حضرت سلیمان ؑ ہیں۔ شہد کی مکھی پر وحی حضرت سلیمان ؑ کی جانب سے ہے یہ پیغام اور یہ وحی تمام شہد کی مکھیوں پر نہیں ہے بلکہ آپؑ کی منتخب کردہ ایک مکھی جو اس وحی کے وصول کی سکت رکھتی ہے۔ اسے تمام قوم پر سردار بنا کر یہ پیغام دے کر بھیجا جاتا ہے وہ آگے پھیلاتی ہے۔ یہی وحی شہد کی مکھی کی فطرت بن جاتی ہے۔  جس پر وہ جبلی طور پر کاربند ہو جاتی ہے۔ قدرت کا قانون اور نظام یکساں طور پر یہاں سے وہاں تک جاری و ساری ہے۔ جس طرح اللہ تعالٰیکے دربار میں براہِ راست سوائے پیغمبروں کے اور کسی کی رسائی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ اور یہ حکمت ہے کہ خالق کی عظمت و جلال کا اندازہ ہر کوئی نہیں لگا سکتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی تسبیح کا بیان کیا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کے ہاتھ پر کنکریاں تسبیح کرتی تھیں۔ اور ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے۔ اب ہم قرآن کے حوالے سے اس بات پرغور کرتے ہیں کہ یہ تسبیح اللہ کی جانب سے کس طرح پیغمبروں تک پہنچتی ہے ۔ پہلے ہم وہ تمام آیتیں بیان کرتے ہیں جو اس امر پر ہیں ۔

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ایسی کوئی چیز نہیں جو ا سکی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے بے شک وہ بردبار بخشنے والا ہے - سورۃ الاسرا
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اور پرند جو پر پھیلائے اڑتے ہیں سب الله ہی کی تسبیح کرتے ہیں ہر ایک نے اپنی نماز اور تسبیح سمجھ رکھی  ہے اور الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں - سورۃ النور
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اور پرند جو پر پھیلائے اڑتے ہیں سب الله ہی کی تسبیح کرتے ہیں ہر ایک نے اپنی نماز اور تسبیح سمجھ رکھی ہے اور الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں- سورۃ النور
ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑ او رپرندے تابع کیے جو تسبیح کیا کرتے تھے اور یہ سب کچھ ہم ہی کرنے والے تھے- سورۃ الانبیاء 
جو مخلوقات آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے الله کی تسبیح کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے - سورۃ الحشر

فرشتے بھی غیر مکلف مخلوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا امر جو اُن تک پہنچ رہا ہے اس امر پر وہ جبلی طور پر یا غیر اختیاری طور پر عمل کر رہےہیں۔ اس حکم پر ان کا اپنا اختیار اور ارادہ نہیں چلتا۔ بلکہ حکم دینے والے کے ارادے سے وہ عمل کرتے ہیں۔ فرشتوں میں حضرت جبرائیل ؑ وحی کے نظام سے باخبر ہیں۔ چنانچہ باقی تمام فرشتوں میں وحی پہنچانے کا ذمہ آپ ؑ کے ہی سپرد ہے۔ فرشتوں میں وحی کی تقسیم جس مقام سے ہوتی ہے وہ مقام بیت المعمور ہے جو عرش کی ایک بُلندی ہے ۔ بیت المعمور حضرت ابراہیم ؑ    کا مقام اور دربار ہے۔ اس دربار تک صرف ملاء اعلٰی کی رسائی ہے۔ باقی تمام فرشتوں کو ملاء اعلیٰ کے ذریعے احکامات صادر ہوتے ہیں ۔ اور ہر فرشتہ ان احکامات پر کام کرتا ہے۔ یہ احکامات مستقل حکم کے طور پر ہوتے ہیں کہ جن میں فرشتوں کا اپنا ارادہ کام نہیں کرتا۔ ان احکامات پر عمل کرنا ہی ان کی صلوٰۃ و تسبیح ہے ۔ یہاں صلوٰۃ اور تسبیح کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے  کہ مخلوق کے اندر واقع ہونے والی وہ حرکت جو امر الہیٰ پر ہو ، وہ حرکت مخلوق کی صلوٰۃ و تسبیح ہے۔ یعنی اللہ کے حُکم پر بے چون و چرا عمل کرنا اللہ کی صلوۃ قائم کرنااور تسبیح کرنا ہے۔ صلوٰۃ امرِ الہیٰ ہے، صلوۃ قائم کرنا امرِ الہیٰ کو جاننا اور علوم و حکم کا پہچاننا ہے اور تسبیح کرنا ،  اُس حکم ِ الہیٰ پر کاربند ہو کر عمل کرنا ہے۔
عرش کے فرشتوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ان کے لئے اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ مومنین کے لئے استغفار کریں۔ پس مومنین کے استغفار کرنے کا حکم ِ الہیٰ ان کی "صلوٰۃ " ہے اور اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے استغفار کرتے رہنا ان کی "تسبیح " ہے۔ جسے وہ حمد کے ساتھ یعنی اللہ پاک کی تعریف کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہاں حمد بمعنی رضا کے ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم سے راضی ہو کر خوشی خوشی اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے احکامات حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرشتوں میں وحی کا نظام حضرت ابراہیم ؑ کے ذمہ ہے۔ فرشتوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ میری تسبیح کرتے نہیں تھکتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے وہ اپنے ذاتی ارادے سے عمل نہیں کر رہے۔ بلکہ کام کا ارادہ اُنہیں لاشعوری طور پر منتقل ہو رہا ہے۔ شعور ی طور پر یا ذاتی ارادے سے کام کرنے میں رُکاوٹ اور مزاحمت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ شعور محدودیت کا ارادہ ہے مگر لاشعور لا محدودیت کا ارادہ ہے۔ جس میں کام پر یا عمل پر استقامت ہے۔ یہ استقامت اور حُکم و امر کی یکسانیت فطرت اور مستقل عادت بن کر مخلوق کے اندر کام کرتی ہے۔ جس پر مخلوق بغیر ذاتی ارادے کے قائم ہو جاتی ہے۔ جیسے شہد کی مکھی ازل سے شہد بنائے جا رہی ہے۔ عرش کےفرشتے ازل سے مومنین کے لئے استغفار کرتے جا رہے ہیں۔
صلوٰۃ اور تسبیح کا مفہوم قرآن نے نہایت ہی واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کا رشتہ بندگی کا ہے، بندگی ایمان ہے، خود سپردگی ہے اور بے چون و چرا حکم کی تابعداری کا نام ہے۔ ایسی ہی تابعداری و حکم بندے کے لئے دائمی صلوٰۃ و تسبیح ہے۔ جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق لیٹے ہوئے، کھڑے ہوئے، چلتے ہوئے ، جاگتے ہوئے ، ہر حال پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے پاس آنے والا ہر حکم اللہ کی فکر ہے، جس فکر کا مظاہرہ وہ اپنے بندوں کے ذریعے چاہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment