Mar 6, 2015

ہم کہاں کھڑے ہیں از عاطف نواز عظیمی


(تحریر : محمد عاطف نواز عظیمی     ( قطر 
لندن سے شائع ہونے والے ایک معروف ہفت روزہ اکانومسٹ نے عالم اسلام کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے      کہ پندرہویں صدی عیسوی ہجری میں مسلمان سماجی، تہذیبی اور سیاسی طور پر اس مقام پر ہیں جہاں یورپ پندرہویں صدی عیسوی میں تھا۔ اُس وقت یورپ کے عوام اپنے سیاسی اور مذہبی اُجارہ داروں سے بے زار تھے۔ اور ان میں اصلاح کے طالب تھے۔ خاص طورپر وہ کیتھولک چرچ کی دُنیا پرستی سے نالاں تھے۔ معاشی بدحالی اور حکمرانوں کے جبر کے خلاف برطانیہ اور فرانس میں بغاوتیں ہونے لگی تھیں اور یورپ میں ہر جگہ بے چینی پھیلنے لگی تھی۔ کم و بیش اسی قسم کے حالات آج کی مسلم دُنیا میں ہیں۔ جہاں عوام ارباب مذہب و اقتدار دونوں سے خوش نہیں ہیں۔
اسلام میں مذہبی اجارہ داری کا تصور موجود نہیں ہے۔ اسلام محض چند رسمی عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب کو محض ایک مذہبی کتاب تصور کرنا ہمارے خیال میں سراسر بے شعوری اور جہالت ہے۔ قرآن ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد انسان کو اس کے مقام و منزل سے آشنا کرنا ہے یہ وجہ ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ قرآن محض غلافوں میں لپیٹنے اور مصیبت کے وقت تلاوت کرنے کے لئے نہیں اتارا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن کو محض ان کاموں کے لئے ہی محدود کیا ہوا ہے۔ ممتاز مفتی مرحوم اپنی کتاب تلاش میں تحریر کرتے ہیں۔
یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی شکل مسخ کر دو۔ اسلام کو بھی عام مذاہب کی طرح رسم میں بدل دو۔ مسلمانوں کو توجہ علم، عقل اور تحقیق سے موڑ دو اور انہیں رسمی عبادات کی طرف متوجہ کر دو اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پڑھ اجارہ داروں کی ایک ایسی جماعت قائم کر دو جو مسلمانوں کو فروعات میں پھنسائے رکھے۔
غیرمسلم اقوام اپنی سازشوں میں کامیاب ہیں اب انہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب مسلمانوں میں ہی مذہبی لبادہ اوڑھے بہت سے لوگ اس کام میں مصروف ہیں۔ جن میں سے اکثر کی کوششوں سے آج مسلمان ایک خول میں بند ہو چُکے ہیں کیوں کہ علم کے حوالے سے ان کے سامنے انتہائی محدود تصور پیش کیا گیا، اس تصور میں چند معاشرتی احکامات کو حاوی کر کے دُنیا بھر کے تمام علوم کو خارج کر دیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے محض گاہک بن کر رہ گئے ہیں۔ مذہبی اجارہ داروں نے مغرب کی ہر ایجاد کو شیطانی فعل اور ان کے ہر علم کو اسلام کا دشمن اور کفر الحاد کی جڑ سمجھا ۔ بجائے اس کے کہ وہ سائنسی علوم کو سمجھنے کو کوشش کرتے،اکثر نے سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ایک ایسی جنگ چھیڑ دی جس میں ان کی کامیابی کے ایک فیصد بھی امکانات نہیں تھے۔
دور نبوتﷺ میں مساجد یونیورسٹی، پارلیمنٹ، مقننہ اور ہمہ جہت کمیونٹی سنٹر کا کردار ادا کرتی تھیں۔ ریاستی معاملات میں باہمی مشاورت ، شادی کی تقریبات، جہادی تربیت، مال غنیمت کی تقسیم، دینی علوم کے علاوہ معاشرتی علوم کی تعلیم اور دیگر روزمرہ معاشرتی تقریبات مساجد میں ہی منعقد کی جاتی تھیں۔ مسلم دُنیا کے نامور سائنسدان، مجاہدین اور علمائے باطن مساجد سے ہی تربیت حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئے۔ لیکن جب گزشتہ دو صدیوں سے مذہبی اُجارہ داروں کی طرف سے سائنسی تعلیم کے خلاف محاذ کُھلا تو مساجد میں چند ظاہری علوم اور بے روح عبادات رہ گئیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں ہمیں ایسا کوئی قابل ذکر نام نہیں ملتا جس نے مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم میں اپنا لوہا منوایا ہو۔ جب کہ اس سے قبل اُندلس، مراکش، سپین، شام اور بغداد وغیرہ کی تاریخ میں ایسے بےشمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں جنہوں نے مساجد نما مدرسوں سے تعلیم حاصل کر کے علم طب، ریاضی، جغرافیہ، طبیعات، کیمیا، فلکیات اور دوسرے بے شمار علوم میں اپنی ریسرچ سے اور ان علوم کی پیش رفت سے انقلاب برپا کر دیا۔ جب کہ موجودہ دور میں مذہبی طبقے نے سائنسی تحقیق کو شجر ممنوعہ کے طور پر پیش کیا۔ کبھی ریلوے انجن اور ٹیلیفون کے خلاف فتوے جاری کئے اور کبھی لاؤڈ اسپیکر کو شیطانی آلے کا نام دیا۔ یہ دوسری بات کہ لاؤڈ سپیکر کا بے تحاشا اور بے جا استعمال اس طبقے کے افراد نے ہی کیا۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ مسلمان سائنسدانوں کی تحریروں میں قرآن کے حوالے جابجا ملتے ہیں۔ پھر بدقسمتی سے مسلمانوں کی توجہ کائناتی تفکر سے ہٹا کر محدود کر دی گئی۔ اور اس حقیقت پر ایک سازش کے تحت پردہ ڈال دیا گیا کہ قرآن حکیم کی ساڑھے سات سو آیات میں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی ہدایات موجود ہیں۔ ہمارے خیال میں جب سے مسلمانوں نے علم کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ لیا ہے ۔ اس وقت سے مسلمان زبوں حالی کا شکار ہیں۔ علم انسان کی شعوری استعداد بڑھا کر اس کے اخلاق اور معاشرتی رویوں  میں مثبت تبدیلی پیدا کر کے اسے حیوانی سطح سے بلند کر دیتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی دُنیا کے دیگر معاشروں کے لئے قابل تقلید ہوتا ہے ۔ بے شعور لوگوں کو ساری دُنیا ہی حقارت سے دیکھتی ہے۔ علمی پسماندگی اور سائنسی ٹیکنالوجی سے بے رُغبتی کی بناء پر 56 اسلامی ممالک جن کے پاس دُنیا کے 70فیصد پٹرولیم کے ذخائر ہیں اور آدھے سے زیادہ افرادی قوت اور معدنیات کی طاقت موجود ہے۔ آج ان کی کُل قومی پیداوار تقریبا گیارہ سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ جو قومی پیداوار کے حوالے سے دُنیا کے پہلے چار ممالک امریکہ (7821 ارب ڈالر)، جاپان (4089 ارب ڈالر)، جرمنی (2122 ارب ڈالر) اور فرانس (4662 ارب ڈالر) کے مقابلے میں کئی گناکم ہے۔
اُمت مسلمہ تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بقیہ پورے کُرہ ارض کے خشکی کے رقبے کا پانچواں حصہ ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے پوری دُنیا کا چوتھائی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی کی سیاسی ، جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہےکہ چار براعظموں یعنی امریکہ کو چھوڑ کر ایشیاء، افریقہ، یورپ اور آسٹریلیا کے بری ، بحری اور فضائی راستوں کا باہمی رابطہ اس خطے میں سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے سمندروں اور بحیرہ روم کی تنگ پٹیاں، جو بین الاقوامی تجارت کے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عالم اسلام میں واقع ہیں۔ اس شہہ رگ کو دبانے اور بند کرنے سے بین الاقوامی اقتصادی زندگی مفلوج ہو سکتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تنگ پٹیاں از خود امریکہ کے حوالے کر دی ہیں۔ 
ملت اسلامیہ کے اکثر ممالک بظاہر شدومد سے اپنی آزادی کا دعوٰی کرتے ہیں لیکن ان کی معاشیات مکمل طور پر مغرب کی مٹھی میں ہے۔  اقتصادی عدم مساوات کا اتنا بڑاتضاد ہے کہ پاکستان کی آبادی کُل اسلامی ممالک کی آبادی کا 13 فیصد ہےکن اس کی سالانہ آمدنی مسلم دُنیا کی آمدنی کا صرف 4 فیصد ہے یہ تضاد بہت تکلیف دہ ہے۔ کوئی ایک مسلمان ملک بھی بجا طور پر صنعتی ملک کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک اسلامی ملک نے اربوں کا سرمایہ مغرب کو ادا کرکے محض فیشن کے طور پر انتہائی جدید اور اعلیٰ ترین ریفائنری اور کیمیکل کے کارخانے نصب کئے ، جبکہ وہ ایک ایسی مشین بھی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو معمولی سی سوئی بھی بنا سکے۔ 
شایدمسلم ممالک کی اکثریت اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک نے ترقی کی معراج کسی معجزے کے تحت حاصل نہیں کی۔ وہ ممالک جو بیسویں صدی کی ابتداٗ میں ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے تھے بیسویں صدی کے آخر میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ دراصل ترقی کی دوڑ میں اگلی صف میں نظر آنے والی اقوام کی ترجیحات میں تعلیم پہلے نمبر پر تھی اور اب بھی ہے۔ فروغ علم کے ساتھ ہی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی وابستہ ہے ۔ جہاں تعلیم ہو، سائنسی شعور ہو، وہاں زراعت بھی ترقی کرتی ہے۔ اور صنعت بھی۔ ۔۔ اور افراد و معاشرہ زندگی کی بُنیادی سہولتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ بیسویں صدی کے دوران جہاں دُنیا بھر میں تعلیم بلعموم ترجیحاتی بُنیاد پر فروغ حاصل ہوا۔ بیشتر مسلم ممالک میں تعلیم کو کلیدی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے کوئی شعوری اور سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی۔
مسلمانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کو کس درجے اہمیت دی اس کا اندازہ ذیل میں دیئے گئے سائنسی مصنفین کے چارٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
ہم مسلمان جو اسرائیل کی مذمت و ملامت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، مندرجہ بالا ااعدادوشمار ہمیں اپنے تجزیہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسرائیل کے مقابلے میں دو سو گُنا زیادہ ہے اور اسرائیل کے سائنسی مصنفین کی تعداد مسلمان سائنسی مصنفین کی تعداد سے دُگنی ہے۔
یاد رکھئے! یہ نظریات اور عقائد کی بات نہیں ہے ۔ جن سے اختلاف ممکن ہو۔ یہ تو اعدادوشمار کی بات ہے جن کی تردید نہیں کی جاسکتی۔
اس وقت کرہ ارض پر مسلمانوں کی تعداد تقریبا ایک ارب سے زائد ہے۔ ان میں سے ساٹھ کروڑ ان پڑھ اور بالکل ناخواندہ ہیں۔ بیشتر تو قرآن مجید بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔
56 اسلامی ممالک میں سے بیشتر ممالک نے اپنی آزادی اور موجودہ سرحدوں کو نسلی، قومی، لسانی، جغرافیائی یا ثقافتی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں آزادی کی بنیادیں کلمہ توحید پر استوار کی گئیں۔ یہ خطہ ارضی اس لئے حاصل کیا گیا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی ، معاشی اور روحانی نظام کو نافذ کیا جائے گا۔ لیکن اس مملکت خداداد میں بھی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جس کی یہاں ضرورت تھی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اپنی افرادی اور مادی قوت کو بہتر اور مضبوط بنانے میں زیادہ وسائل استعمال نہیں کئے۔ موجودہ دور کے تمام ترقی پزیر ممالک جن میں کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دوسرے بہت سے ممالک شامل ہیں نے 60 کی دہائی میں اپنی کُل قومی پیداوار کا 10 سے 15 فیصد  تعلیم پر خرچ کیا اور مکمل شرح خواندگی حاصل کی۔ پاکستان میں آج بھی شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ملکی آمدنی کا صرف 2.5 اوسط خرچ کیا جاتا ہے۔ تعلیم پر کئے گئے اس خرچ کو اونٹ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اور اس میں سے بھی کُل رقم کا 70 سے 80 فیصد غیر ترقیاتی اخراجات میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ان غیر ترقیاتی اخراجات میں زیادہ تر اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل 
ہیں۔
مندرجہ بالا چارٹ کو غور سے دیکھیں۔ اس چارٹ میں 2002 سے 2012 تک کچھ اہم ممالک کی شرح خواندگی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا نے 2008 میں 100 فیصد شرح خواندگی کا ٹارگٹ حاصل کیا۔ ایران کا گراف دیکھا جائے تو وہ مسلسل اوپر جا رہا ہے۔ انڈونیشیا اورترکی اور جنوبی کوریا کی اس معاملے میں  ان ممالک کی کاوشیں اور ترقی حیرت انگیز ہے۔  پاکستان ان سب ممالک میں خواندگی کی شرح میں سب سے پیچھے ہے جو کہ  تقریبا 55 ۔ فیصد پر فلوٹ کرر ہی ہے۔یار رہے کہ خواندہ کا مطلب محض  وہ  افرادجوکم ازکم اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں

اعلٰی تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ارباب اختیار نے ہمیشہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چند سال قبل آغا خان یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر راجر سٹن اور دیگر ڈاکٹروں کے پینل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کے صرف تیرہ فیصد ڈاکٹر صحیح نسخہ لکھنا جانتے ہیں۔
یہ تجزیہ پاکستان کے اخلاقی ، تعلیمی اور معاشرتی نظام کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوریاں اور نقل کے رُجحان کو مدنظر رکھئے تو ڈگریاں لے کر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی قابلیت ہی مشکوک محسوس ہونے لگتی ہے اور یہ نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو علمی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل جن میں ریسرچ اور ترقی سے عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی شامل ہے کا سبب بن جاتے ہیں۔
مذہبی افراد تو سائنسی تحقیق اور ترقی کو شجر ممنوعہ قرار دے کر اس سے الگ تھلگ ہو گئے۔ اور لوگوں کی اکثریت نے بھی ان کی پیروی کی۔ لیکن معاشرے کے تعلیم یافتہ اور باشعور اور صاحب اختیار افراد بھی معاشرے کی علمی زبوں حالی سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کی عدم توجہی اور غفلت کی بنا پر پاکستان اعلٰی ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والے ملکوں میں شامل نہیں ہو سکا اور اس کی پیداواری صلاحیت اور برآمدات کم رہیں اور درآمدات پر انحصار بڑھ گیا۔ ملک میں کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ تخلیقی اور تحقیقی اذہان کو ان کی مرضی کا ماحول اور مناسب معاشی سپورٹ دی جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ضرورت سے بہت کم ایم ایس اور پی ایچ ڈی افراد ہیں اور کافی لوگ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ملک میں موجود سائنسی تحقیق و ترقی سے متعلق 160 ادارے موجود ہیں جن کا 95 فیصد بجٹ تحقیق برعکس تنخواہوں اور دوسرے اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک میں تحقیق کے سب سے بڑے ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں 280 پی ایچ ڈی افراد کام کرتے تھے جن کی تعداد مزید کم ہو چکی ہے۔ اس ادارے کا 99.7 فیصد بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کا جامعات میں تحقیق پر عدم توجہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا تحقیق کے لئے مختص بجٹ صرف بیس ہزار روپے تھا۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ عمومی قابلیت کے افراد کئی اداروں میں تعینات ہیں اور ان کے زیر انتظام ادارے ملک کے قیمتی وسائل ضائع کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے لئے مراعات حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں اور صرف زبانی طور پر کہ کہا جاتا ہے کہ ہم سائنسی ترقی کے بغیر دُنیا میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن ان ارباب اختیار کو یہ نظر نہیں آتا کہ کسی شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے فرد کو صرف 1500 روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے (نوٹ: اس وظیفہ میں کچھ اضافہ کیا جا چُکا ہے) ۔ اس قدر کم وظیفے میں وہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکتے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس میں اپنی تمام ضروریات بھی پوری کریں۔ اور ساتھ ساتھ ریسرچ کا کام بھی جاری رکھیں۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارے ملک کے تحقیقی شعبوں میں جستجو اور فکری گہرائی رکھنے والے افراد کا فقدان نظر آتاہے ۔ اگر ریسرچ کرنے والے افراد کو ان کی معاشی فکر سے آزاد کر دیا جائے تو تحقیقی اذہان ترقی یافتہ ممالک کی طرف کُوچ کرنے کی بجائے ملک میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اتنے کم وظیفے میں تو وہی لوگ اس کام میں آگے آئیں گے جو یا تو اپنی ملازمت میں ترقی کے لیئے پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں یا ایسے غیر پیداواری ذہن کے افراد جو شاعروں کے مصرعوں اور ان کے مخطوطات پر بے مقصد تحقیق کاکام انجام دیتے ہیں۔ ہماری قوم کو ریسرچ سے دُور کرنے والے صرف مذہبی اجارہ دار ہی نہیں ، ایسے لوگ بھی اس المیے میں برابر کے شریک ہیں جو وسائل پر دسترس اور اختیارات رکھنے کے باوجود قوم کے مستقبل سے جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 66 سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمارے پاس نہ تو سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے لئے غیر روایتی ادارے ہیں نہ افراد۔ اگر آج بھی اس حوالے سے قدم آگے نہ بڑھایا گیا تو ہماری روایتی کاہلی ہمیں ترقی یافتہ دُنیا کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کے درمیان کہیں گُم کر سکتی ہے اور پھر شاید ہمارے شناخت بھی باقی نہ رہے۔
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  ، کراچی، پاکستان کے جولائی 2000 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ لہذا اس کے بعض  اعدادوشمار  آوٹ ڈیٹڈ ہو سکتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ عالمی حالات
 مضمون سے تاحال مطا بقت رکھتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ مضمون پڑھا جا سکتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment