آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام الموٴمنین اور
کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے
آپ نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد
اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت
اُم ّعبد اللہ اختیار فرمائی (ابوداوٴد
کتاب الادب)
حضور
ﷺنے سن 11 نبوی میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے نکاح کیا اور 1ہجری میں ان
کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے وقت عمر مبارکہ بوقتِ رُخصتی 19 برس تھی۔ منکرین
حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی شادی کے
وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل ونقل کی رو سے غلط ہے۔ اس سے غیرمسلموں
بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سیدہ
عائشہ صدیقہؓ کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی۔
صحیح
بخاری میں باب ترویج عائشہ ؓ میں ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا
" مجھے خواب میں تمہیں دو مرتبہ دِکھایا گیا اور کہا گیا کہ یہ آپﷺ کی زوجہ
ہیں"
آپ حضور ﷺ کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔آپ نے حضور ﷺکے ساتھ نو
برس گذارے۔
حضرت
عائشہ ؓ نے اپنی پوری زندگی عورتوں اور مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و
قوانین اور اس کے اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں صرف کر کے اسلام کی بیش بہا
خدمات انجام دیں۔حضرت عائشہ ؓ کے ذریعے سے جتنا علم دین مسلمانوں تک
پہنچااور فقہ اسلامی کی جتنی معلومات لوگوں کو حاصل ہوئیں ، عہد نبوت کی عورتیں تو
درکنار مرد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ فقیہا، مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔
آپؓ کو بالاتفاق مسلمان عورتوں میں سب سے
بڑی فقیہا جا نا اور تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا شمار
مدینے کے ان چند علما میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو کلی اعتماد تھا ۔ آپؓ غیر معمولی ذہانت کی مالک تھیں۔ آپؓ کو اپنی عظیم صلاحیتوں کی بنا پراس انقلابی
معاشرے میں حضور کے ساتھ مل کر اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینا تھا جتنا دوسری تمام
ازواج مطہرات سمیت اس وقت کی کسی بھی خاتون نے نہیں دیا تھا، بلکہ دنیا کے کسی
راہنما کی زوجہ بھی اپنے شوہر کے کام کی تکمیل میں ایسی زبردست معاون و مددگار
ثابت نہیں ہوئی جیسی حضرت عائشہ ؓ ثابت
ہوئیں۔
حضرت
عائشہؓ کا علمی مقام
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہؓ علم و فضل کے لحاظ سے سب سے ممتاز
ہیں۔حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ،حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ کے زمانہ میں فتوی دیتی تھیں۔ اکابر صحابہ کرام علیہ الرضوان آپ کے علم و فضل کے
معترف تھے اور مسائل میں آپ سے استفسار کرتے تھے۔ آپ رٖضی اللہ عنہا سے 2210
حدیثیں مروی ہیں جن میں سے 174حدیثوں
پر امام بخاری اور امام مسلم ؒ نے اتفاق کیا۔امام بخاری ؒ نے منفرداً ان سے 54حدیثیں
روایت کی ہیں اور امام مسلم ؒ نے 61
حدیثیں منفرد طور پر روایت کی ہیں ۔ امام بخاری اور امام مسلم کے مطابق حضرت
ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نےحضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی۔
تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام علیہ الرضوان کو جب بھی کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی اس مسئلے کو حل فرماتی تھیں ۔تفسیر حدیث ،اسرار شریعت ،خطابت ،ادب اور انساب میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ ایک روایت کے مطابق آپ کم و بیش 200 صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی استاد بھی تھیں۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر دین کے چار حصے کئے جائیں تو ایک حصہ ہمیں امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملا ہے ۔
تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام علیہ الرضوان کو جب بھی کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی اس مسئلے کو حل فرماتی تھیں ۔تفسیر حدیث ،اسرار شریعت ،خطابت ،ادب اور انساب میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ ایک روایت کے مطابق آپ کم و بیش 200 صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی استاد بھی تھیں۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر دین کے چار حصے کئے جائیں تو ایک حصہ ہمیں امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملا ہے ۔
حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ "میں نے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا" اس حدیث کو امام ترمذی
اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’اگر اس اُمت کی تمام عورتوں کا علم جن
میں ازواجِ مطہرات بھی شامل ہیں، جمع کیا جائے تو بھی سیدہ عائشہؓ کا علم ان سب سے زیادہ ہوگا۔‘‘ (المعجم الکبیر)
فٖضائل اُمّ
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ
سیدہ
عائشہؓ کی ایک بہت انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ
آپ نے سیدنا جبرئیل ؑ کواپنی آنکھوں سے
دیکھا اور انہوں نے سیدہ کو سلام کیا۔ امام احمد نے روایت کی ہے، سیدہ عائشہؓ
فرماتی ہیں: ’’ایک مرتبہ میں نے آپ ﷺ کو گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھے ہوئے ایک شخص
سے باتیں کرتے دیکھا۔ میں نے عرض کیا: ’’اے اﷲ کے رسول ! میں نے آپ کو دحیہ کلبی
کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھے ہوئے، ان سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ آپؐ نے
فرمایا: "کیا تم نے انہیں دیکھاہے ؟" سیدہؓ نے عرض کیا: ’’جی ہاں!‘‘ آپؐ نے فرمایا:
’’وہ دحیہ کلبی نہیں، بلکہ جبرئیل علیہ السلام تھے اور وہ تمہیں سلام کہتے تھے۔"
یہ سن کر سیدہ عائشہؓ نے فرمایا: "وعلیہ
السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ" اﷲ تعالیٰ
انہیں اچھی جزا دے۔ میزبان بھی بہترین اور مہمان بھی بہترین۔‘‘ (مسند احمد: 84/6)
ایک
روز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! یہ جبرئیلِ امین تمہیں سلام کہتے
ہیں۔"
سیدہ عائشہؓ نے جواب میں فرمایا: ’’وعلیہ السلام
ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ!"
(
36/23، امام بخاری نے باب الملا ئکہ حدیث 3217 اور مسلم نے حدیث 2447 میں ایسے ہی ذکر کیا ہے۔)
حضرت عائشہؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ رسول پاک ﷺ کا
انتقال بھی اس حالت میں ہوا کہ آپ کا سر حضرت عائشہؓ کی گود میں تھا اور آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرے
میں ہی دفن ہوئے۔
حضرت
عائشہؓ کی برات (یہ واقعہ، ’’واقعہِ افک‘‘ کہلاتا ہے)
(اقتباس کتاب "محمد الرسول
اللہ ﷺ" جلد دوئم از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی)
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ مین اسلام کا نور تیزی سے پھیلا ۔ کفار
مکہ اس صورت حال سے پریشان تھے ۔ انہوں نے مدینہ پر سیاسی تسلط قائم کرنے کے لئے
یہودیوں کے ساتھ جنگی معاہدہ کیا اور مدینہ کے گرد و نواح میں آباد قبائل کو اپنا
اتحادی بنا لیا ۔ مدینہ کے تجاری قافلے ان گزر گاہوں سے نہیں گزر سکتے تھے کہاں
اتحادی قبائل آباد تھے۔ اس طرح مدینہ اقتصادی محاصرے میں آ گیا ۔ منصوبے کے اگلے
مرحلے میں منافقوں کے سربراہ عبداللہ بن ابی نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر قبیلہ بنو
مصطلق کو مسلمانوں پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا تا کہ محمد رسول اللہ ﷺحملہ آوروں
سے نمٹنے کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جائیں اور ان کے پیچھے مدینہ میں قتل و
غارتگری کا بازار گرم کر دیا جائے۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کو سازش کا علم ہو گیا ۔ آپ ﷺنے بنو
مصطلق کے متوقع حملے کی پیش بندی کے لئے احکامات صادر کئے اور جوابی کاروائی کے
لئے تیس افراد پر مشتمل دستہ ترتیب دیا اور بنو مصطلق کے علاقے میں تشریف لے گئے ۔
بنو مصطلق اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے
کے لئے تیار نہ تھے ۔ دو سو افراد پر مشتمل بنو مصطلق کا لشکر شکست سے دو چار ہوا
اور پورا قبیلہ اسیر ہو گیا ۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام ایک گروہ کی قیادت عبداللہ بن ابی کے
سپرد کر کے اپنے ہمراہ محاذ جنگ پر لے گئے تھے اور اس طرح منافقوں کی جماعت مدینہ
میں سر براہ کے بغیر رہ گئی ۔ اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ حضور علیہ الصلوۃ
والسلام کی غیر موجودگی میں مدینہ پر حملہ کا منصوبہ نا کام ہو گیا ۔
قیدیوں میں قبیلہ کے سربراہ کی بیٹی " برہ" بھی شامل
تھیں۔ غنائم اور قیدی مسلمانوں میں تقسیم ہوئے توحضرت برہؓ حضرت ثابت بن قیس کے
حصے میں آئیں ۔ حضرت برہؓ نے بے بسی کے عالم میں روتے ہوئے التجا کی کہ میں ہر گز
کنیز نہیں ہوں ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے زر فدیہ اد اکر کے انہیں آزاد کرا
دیا اور آپ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجیت میں آ گئیں ۔ ازواج مطہرات میں
آپ حضرت جویریہ بنت حارثؓ کے نام سی پہچانی جاتی ہیں۔
قبیلہ بنو مصطلق کے سارے لوگ حضرت جویریہؓ کے رشتہ دار تھے اس
نسبت سے صحابہ کرامؓ نے تمام قیدیوں کو آزادکر دیا ۔ قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کی
جوانمردی اور لطف و عنایت اور حسن سلوک سے متاثر ہو ئے اور سب مسلمان ہو گئے۔
محمد رسول اللہ ﷺاور اسلامی لشکر ابھی اسی مقام پر قیام پذیر
تھے کہ دو مسلمان بھائیوں میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ۔ پست ذہن عبداللہ بن ابی
نے اس معمولی واقعہ کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے کا موقع
ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ وہ اسلامی لشکر کے انصار دستہ میں پہنچ گیا اور کہا ، "
میں آج کے دن سے پہلے مر جاتا تو اچھا تھا ۔ آج سے زیادہ رسوا کن دن میں نے اپنی
زندگی میں نہیں دیکھا۔ تم نے مہاجر مسلمانوں کو ٹھکانہ دیا ۔ اپنا مال و اسباب ان
پر لٹا دیا ۔ ان کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو معاشی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ۔ اس
کا صلہ یہ ملا کہ مدینہ میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور تم اقلیت بن گئے ہو اور اب
وہ تمہارے مقابلے پر آ گئے ہیں ۔ میری مانو تو انہیں مار مار کر مدینے سے نکال دو
تا کہ انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے "
انصار مدینہ کے دل میں اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے بد گمانی پیدا
کرنے میں عبداللہ بن ابی منافق کو جب خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو ئی تو وہ مہاجر
دستے کے پاس گیا اور ان سے کہا ، " تم لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ
آئے ۔ کٹھن سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اسلام کے نام پر تم نے زندگی کی آسائشوں
کو چھوڑا اور بدلے میں تمہیں جھڑکیاں اور بدگمانیاں ملیں"
عبداللہ بن ابی نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا ، " اس
دفعہ تو تم سرا سر گھاٹے میں رہے، تم لوگ مال غنیمت سے محروم کر دئیے گئے ہو۔
انصار کے پاس گھر بار اور ذرائع معاش موجود ہیں لیکن زیادہ تر مہاجرین مسلمان تہی
دست ہیں اور انصاریوں پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ مال غنیمت نہ ملنے سے جتنا نقصان تم
لوگوں کو پہنچا ہے انصاریوں کو اتنا گھاٹا نہیں ہوا" محمد رسول اللہ ﷺسے
مسلمانوں کو بد گمان کرنے کے لئے اس نے کہا ، " محمد ﷺنے قبیلے کے سردار سے
نا تا جوڑ لیا ہے اور تم لوگ بغیر کچھ لئے دئیے اپنے قیدی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے
۔ اب جبکہ مدینہ واپس جا رہے ہو تو تمہارے ہاتھ اسی طرح خالی ہیں جس طرح اس پر
مشقت سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت تھے ۔"
سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو منافق عبداللہ بن ابی کی سر
انگیزی کا پتہ چلا تو بے حد کبید ہ خاطر ہوئے اور اپنے تدبر اور کلام نبوت سے
بھائی چارہ اور اخوت کا درس دیا اور فوری طور پر کوچ کا حکم جاری ہوا۔ مسلمانوں کا
قافلہ روانہ ہو گیا۔
واپسی میں قافلے نے ایک جگہ پڑاو ڈالا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ جو
محمد رسول اللہ ﷺکے ہمراہ اس سفر میں شریک تھیں ، ضرورت کے تحت اونٹ سے اتریں ،
قافلہ جب دوبارہ روانہ ہوا تو کجاوے کا پردہ گرا ہوا تھا ۔ قافلہ والے حضرت عائشہؓ
کی موجودگی سے لا علم تھے۔ حضرت عائشہؓ قافلے سے پیچھے رہ گئیں۔
حضرت صفوان بن معطلؓ قافلہ کے پیچھے چلنے کی ذمہ داری انجام دے
رہے تھے ۔ قافلہ کی گری پڑی اشیاء کو سنبھالنا اور مالک تک پہنچا دینا ان کے
ذمہ تھا ۔ وہ جب پڑاؤ کے مقام تک پہنچے تو انہیں وہاں ام المومنین سیدہ عائشہ
صدیقہؓ کو قافلے سے بچھڑا ہوا پایا ۔ سیدہ عائشہؓ نے انہیں صورتحال سے آگاہ
کیا۔ حضرت صفوان بن معطلؓ نے سفر کے لئے انہیں اپنا اونٹ پیش کیا اور خود اونٹ کی
لگام تھام لی ۔
اسلامی کاروان تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئے مدینہ پہنچ گیا ،
حضرت صفوانؓ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ہمراہ بعد میں مدینہ پہنچے ۔منافقین سیدنا
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رفقاکو آپ ﷺسے بد گمان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتے تھے ۔ انہیں اپنے سیاہ باطن کی اظہار اور محمد رسول اللہ ﷺپر افترا
لگانے کا موقع مل گیا ۔ عبداللہ بن ابی منافق اپنے ہمنوا ٹولے کے ہمراہ صبح سے شام
تک مدینہ کی گلی کوچوں میں فتنہ پھیلانے میں مصروف رہتا ۔ عصمت نبوی ﷺکے دامن اطہر
پر بہتان تراشی کا طوفان اٹھا دیا گیا ۔ یہودی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے
رہتے تھے ۔ غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر انصار اور مہاجر مسلمانوں کے درمیان جھگڑے
اور سیدہ عائشہؓ پر بہتان کی تشہیر میں یہودیوں نے کوئی وقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔
منافقوں نے مہاجر و انصار کی عصبیت کو بھڑکایا اور حضرت صفوان
بن معطلؓ کی ہجو کہنے پر اکسایا ۔ انہوں نے تخیلات کے زور پر ایک موہوم واقعہ کو
کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ دیگر سادہ لوح مسلمان بھی شیطانی وسوسے سے محفوظ
نہ رہ سکے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام شدید آرزدہ خاطر ہوئے ۔
اسلامی تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ یہ صورت حال تقریبا ایک ماہ
تک رہی اور اس دوران حضرت عائشہ صدیقہؓ پر شدید ذہنی کرب و الم کے لمحات گزرے ۔
یہاں تک کہ ایک دن سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام ان کے پاس پہنچے اور فرمایا "عائشہ
! جانتی ہو کہ لوگ تمہارے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟"
حضرت عائشہؓ کی آنکھوں سے اشکون کا سیل رواں ہو گیا اور انہوں
نے بڑی مشکل سے کہا ، " یا رسول اللہ ﷺ! میرے بارے میں جو کچھ کہا جا
رہا ہے وہ سرا سر جھوٹ ہے ۔ افترا ہے "
اسی لمحہ وحی نازل ہوئی اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بے گناہی اور
برات کے باراے میں سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں۔
" جن لوگوں نے یہ طوفان ( حضرت عائشہؓ کی
نسبت) برپا کیا ہے وہ تم میں سے ایک گروہ ہے ۔ تم اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو
بلکہ تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے ۔ ان میں سے ہر شخص کو ، جتنا کسی نے کچھ کیا
تھا گناہ ہوا اور ان میں جس نے اس میں سب سے بڑا حصہ لیا ہے سخت سزا ہو گی ۔ جب تم
نے یہ بات سنی تو ایمان والے مرد اور عورتوں نے نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں
ایسا کہا کہ صریح جھوٹ ہے ۔ یہ لوگ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے ۔ سو جس صورت
میں یہ لوگ گواہ نہیں لائے ۔ بس اللہ کے نزدیک یہ جھوٹے ہیں۔ اگر تم پر اللہ کا
فضل و کرم نہ ہوتا تو دنیا اور آخرت میں جس شغل میں تم پڑے ہوئے تھے اس میں تم پر
سخت عذاب واقع ہو تا ۔ جب کہ تم اس کو اپنی زبانوں سے نقل در نقل کر رہے تھے اور
اپنے منہ سے ایسی باتیں کہہ رہے تھے جس کی تم کو خبر نہیں اور تم اس کو بلکی بات
سمجھ رہے تھے ۔ حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات ہے ۔ اور تم نے جب اس کو
سنا تھا تو یوں نہیں کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات منہ سے نکالیں ۔ یہ تو
برا بہتان ہے ۔ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا اگر تم ایمان
والے ہو اور اللہ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے اور اللہ برا جاننے والا ہے ،
برا حکمت والا ہے "
(سورۃ النُور
آیات 29-11)
اللہ کی طرف سے حضرت عائشہؓ کے لئے برات کی یہ آیتیں نازل ہونا
بلا شبہ بہت بڑا اعجاز ہے۔
اس واقعہ سے دین اسلام میں خواتین کا مقام اور ان کی فضیلت ثابت
ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے مردو خواتین کے اعمال کو برابری عطا کی ہے۔
اُمّ
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے خواب
(اقتباس کتاب "خواب اور
تعبیر" از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی)
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے خواب میں دیکھا کہ" میرے گھر
میں تین چاند ہیں" خواب انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے بیان کیا۔ اس
پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا:
" تمہارا خواب سچا ہے اور تمہارے گھر میں روئے زمین کے تین
بہترین اشخاص مدفون ہوں گے "
پھر رسالت مآب ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد کہا:
"اے عائشہؓ! اچھے چاندوں میں سے یہ بہترین چاند ہیں"
مدینہ منورہ میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا تو سیدنا علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے خواب میں فرمایا کہ حجرے کی چھت میں
سوراخ کر دو۔ پس آرام گاۂ نبویﷺ میں ایک سوراخ اس طرح بنایا گیا کہ قبر شریف
اور آسمان کے نیچے کوئی چیز حائل نہ رہے۔ ایسا کرتے ہی خوب بارش برسی۔ گھاس اتنی
زیادہ ہوئی کہ اونٹنیاں موٹی ہو گئیں۔ اس سال کا نام ہی "الفتق" (سرسبزی
والا سال) پڑ گیا۔ گنبد خضرا کے کلس کی جڑ میں غربی پہلو میں آج بھی جالی لگا ہوا
سوراخ موجود ہے۔
وفات:
حضور
ﷺ کے وصال کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں (بعض روایات کے مطابق تقریباََ 70 برس
کی عمر میں) 16یا 17رمضان المبارک 85 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے
دور میں وصال فرمایا۔ سیدنا حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق جنت البقیع میں
دفن کیا گیا۔
ترتیب: محمد عاطف نواز
No comments:
Post a Comment