ترتیب: محمد عاطف نواز عظیمی
سید محمد عثمان مروندی جنھیں
عام طور پر لعل شہباز قلندر ؒکے نام سے جانا جاتا ہے، بارہویں صدی عیسوی صدی کے صوفی
بزرگ ہیں جو مروند میں پیدا ہوئے جو آج کے افغانستان کا حصہ ہے، آپ نے مدینہ، کربلا
اور مشہد کے دورے کئے اور معروف روایات کے مطابق انہیں برصغیر جا کر خدا کا پیغام پھیلانے
کی ہدایت کی گئی تھی۔
وہ اوچ شریف کے سید جلال الدین
بخاری کے ہم عصر تھے اور وہ سہون موجودہ عہد کے پنجاب، سندھ اور اجمیر کا سفر کر کے
پہنچے۔
لال شہباز قلندر (1177ء تا
1274ء) جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے۔
ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی
اور قلندر تھے۔ کچھ محقیقین آپ کا تعلق سلسلۂ
سہروردیہ سے منسوب کیا ہے۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ
شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ، شیخ فرید الدین گنج شکرؒ، شمس تبریزیؒ، جلال الدین رومیؒ
اور سید جلال الدین سرخ بخاریؒ ان کے قریباً ہم عصر تھے۔
آپ مروند (موجودہ افغانستان)
کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ سیرت حضرت لعل شہباز قلندر ؒ میں مرقوم ہے کہ آپ کے والدِ محترم سید ابراہیم کبیر
الدین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خواب میں بیٹے کی بشارت دی تھی اور تاکید کی تھی
کہ بیٹے کا نام عُثمان رکھنا۔ ان کے اجداد
نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔ بعد ازاں مروند کو
ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور
آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی
اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔ آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں
کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انہیں
لال کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔
ان کے پسندیدہ مرید بودلا بہار
تھے جن کا مزار پرانے قلعے کے قریب ہے اور یقیناً دیکھنے لائق ہے، وہاں آپ گلوکاروں
کا ایک گروپ دیکھ سکیں گے جو ان دونوں بزرگوں کی روایات کو مناتے نظر آتے ہیں اور لوگوں
سے آپ کو اس معروف کہانی کا پتا چلے گا کہ کس طرح بودلا بہار اپنی موت کے بعد بڑھے
اور قلعہ کیسے نیچے چلا گیا۔
کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ
کس طرح سہون کے حکمران، لعل شہباز قلندر ؒاور بودلا بہار کی بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ
ہو کر، بودلا بہار کے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا جس پر فوجیوں نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے
اس بزرگ کو شہید کر دیا۔
جب شہباز قلندر کو اس سانحے
کا پتا چلا تو انہوں نے اپنے پسندیدہ مرید کا نام پکارا تو ان کی ٹکڑوں میں تقسیم لاش
جوڑ کر پھر سے بودلا بہار کی شکل اختیار کر کے اپنے پیر کے نعرے کا جواب دینے آگئی،
اس کے باوجود حکمران لعل شہباز کی تبلیغ پر اثرانداز ہوا تو بودلا بہار نے لعل
شہباز قلندر ؒکے حکم پر پورے قلعے کو الٹا کر دیا، لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے کھنڈرات
میں الٹے قلعے کو دیکھا جاسکتا ہے۔
لعل شہباز قلندرؒ کا کلام صوفیانہ کلام میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی ایک معروف نظم پیشِ خدمت ہے جس میں عشقِ حقیقی کا حقیقی رنگ سمویا گیا ہے۔
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم
تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔
اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم
اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم
واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔
منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم
تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔
اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم
اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم
واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔
منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔
سربراہ و خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے
ہیں کہ
ایک مرتبہ میں نے حضور بابا
صاحبؒ (حضور قلندر بابا اولیاءؒ) کی خدمت میں عرض کیا ...
" میرا دل چاہتا ہے کہ میں سیہون
شریف ہو آؤں -
فرمایا " ابھی ٹھہر جاؤ -"
مختصر یہ کہ لعل شہباز قلندرؒ کے مزار
پر جانے کی خواہش ایک تقاضہ بن گئی اور میں بے چین اور بے قرار رہنے لگا - جب بھی
جانے کی اجازت چاہتا ،
بابا صاحبؒ یہی فرماتے " ابھی
ٹھہر جاؤ -"
ایک ہفتہ یا کچھ زیادہ دن گزر
گئے تو سیہون شریف پہنچنے کی خواہش دیوانگی کی شکل اختیار کر گئی - ایک روز بندر
روڈ سے بس میں سوار ہوکر ناظم آباد انکوائری بس اسٹاپ پر اترا تو دیکھا کہ فٹ پاتھ
پرلعل شہباز قلندرؒ کھڑے ہوئے ہیں -
میں نے سلام کے بعد مصافحہ کے لئے
ہاتھ بڑھایا تو قلندر صاحبؒ نے مصافحہ کرنے کے بجائے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع
کردیا اور فرمایا
" تم ہمیں
بہت یاد کر رہے تھے - ہم خود ہی تمہارے پاس آگئے -" تقریباً آدھ گھنٹے تک وہ
میرے پاس رہے اور پھر تشریف لے گئے -
کتابیات / ریفرنس
Dawnnews.tv
wikipedia.org
youtube.com
No comments:
Post a Comment