Jun 26, 2015

یومِ وفات - اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا



نام خدیجہ ، امّ ہند کنیت اور طاہرہ لقب ہے۔حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے اور نہ صرف اپنے قبیلے میں بڑی باعظمت شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی خوش معاملگی اور دیانتداری کی بدولت تمام قریش میں بیحد ہر دلعزیز اور محترم تھے۔
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے پندرہ سال قبل سنہ 555 عیسوی میں پیدا ہوئیں، بچپن ہی سے نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا چوتھا نکاح جناب رسول کریم ﷺ سے ہوا۔ (کچھ روایتوں میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تیسرا اور آخری نکاح جناب رسول کریم ﷺ سے ہی سے ہوا)
 نبی کریم ﷺ کی زوجیت میں آنے سے پیشتر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنی بیوگی کے ایام خلوت گزینی میں گزار رہی تھیں، وہ اپنا کچھ وقت خانہ کعبہ میں گزارتیں اور کچھ وقت اس زمانہ کی معزّز کاہنہ عورتوں میں صرف کرتیں اور ان سے زمانہ کے انقلاب پر وقتاََ فوقتاََ بحث کیا کرتیں۔قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے انہیں نکاح کے پیغامات بھیجے لیکن انہوں نے سب رد کر دیئےکیونکہ پے درپے صدمات نے انکی طبیعت دنیا سے اچاٹ کر دی تھی۔ ادھر ان کے والد ضعف پیری کی وجہ سے اپنی وسیع تجارت کے انتظام سے عاجز آ گئے، نرینہ اولاد کوئی زندہ  نہ تھی، تمام کام اپنی ذہین اور عاقلہ بیٹی کے سپرد کرکے خود گوشہ نشین ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تمام کاروبار تجارت نہایت احسن طریقے سے جاری رکھا اس وقت ان کی تجارت ایک طرف شام میں پھیلی ہوئی تھی اور دوسری طرف اطرافِ یمن میں، اس وسیع کاروبار کو چلانے کیلئے انہوں نے ایک بڑا عملہ رکھا ہوا تھا ۔ جو متعدّد عرب، یہودی اور عیسائی ملازموں اور غلاموں پر مشتمل تھا۔ حسن تدبیر اور دیانت داری کی بدولت ان کی تجارت روز بروز ترقی کر رہی تھی اور اب انکی نظریں ایک ایسے شخص کی متلاشی تھیں جو بے حد قابل، ذہین، اور دیانتدار ہو، تاکہ وہ اپنے تمام ملازمین کو اسکی سرکردگی میں تجارتی قافلوں کے ساتھ بھیجا کریں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سرور کائناتﷺ کے پاکیزہ اخلاق اور ستودہ صفات کا چرچا مکہ کے گھر گھر میں پھیل چکا تھا۔ اور آپﷺ ساری قوم میں امین کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کانوں تک اس مقدس ہستی کے اوصاف کی بھنک نہ پڑتی، ان کو اپنی تجارت کی نگرانی کیلئے ایسی ہی ہمہ صفت موصوف شخص کی تلاش تھی۔ انہوں نے حضورﷺ کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرا سامان تجارت شام تک لیجایا کریں تو دوسرے لوگوں سے دوچند معاوضہ آپ کو دیا کرونگی۔ حضورﷺ ان دنوں اپنے چچا کی سرپرستی میں تھے، انہیں‌وقتاََ فوقتاََ حضرت خدیجہ کی تجارت کا حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔ آپﷺ نے حضرت خدیجہ کا پیغام منظور فرمالیا اور اشیائے تجارت لے کر عازم بُصریٰ ہوئے۔ چلتے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا غلام خاص میسرۃ بھی آپﷺکے ساتھ کردیا اور اسے تاکید کی کہ اثنائے سفر میں حضور ﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔

حضورﷺ کی دیانتداری و سلیقہ شعاری کی بدولت تمام سامان تجارت دگنے منافع پر فروخت ہو گیا۔ دوران سفر میں سردار قافلہ یعنی سرور کائناتﷺنے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ ہر ایک حضورﷺ کا مدّاح بلکہ جان نثار بن گیا۔ جب قافلہ مکہ واپس آیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو میسرۃ کی زبانی سفر کے حالات اور منافع کی تفصیلات معلوم ہوئیں تو وہ بیحد متاثر ہوئیں اور اپنی خادمہ یا سہیلی نفیسہ کی معرفت حضورﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضورﷺکا ایما پا کر وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد کو بلا لائیں، اس وقت وہی ان کے سرپرست تھے۔دوسری طرف حضور ﷺ اپنے چچا ابوطالب اور دوسرے اکابر خاندان کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ اس وقت حضور ﷺکی عمر مبارک 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر40سال تھی۔نکاح کے بعدحضورﷺ اکثر گھر سے باہر رہنے لگے۔ کئی کئی روز مکہ کے پہاڑوں پر جا کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، غرض اسی طرح پندرہ برس کا زمانہ گزر گیا۔
ایک دن اسی طرح حضورﷺ غار حرا میں معتکف تھے کہ ربّ ذوالجلال کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام آپﷺکے پاس تشریف لائے اور کہا " قُمْ یَا مُحَمَّد"
حضورﷺ نے نظریں اٹھائیں تو اپنے سامنے ایک نورانی صورت کو کھڑے پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺکو سینے سے لگا کر دبایا اور کہا پڑھ،  حضورﷺ نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں، جبرائیل علیہ السلام نے پھریہی کہا اور حضورﷺ نے یہی جواب دیا ، تیسری مرتبہ جب جبرائیل علیہ السلام نے کہا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیراپروردگار بہت کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا

تو حضورﷺ کی زبان پر یہی الفاظ جاری ہو گئے۔ اس حیرت انگیز واقعے سے حضورﷺ کی طبیعت بیحد متاثر ہوئی۔ گھر تشریف لائے تو فرمایا  زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی  مجھے کپڑا اوڑھاؤ مجھے کپڑا  اوڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تعمیل ارشاد کی اور پوچھا کہ آپ کہاں تھے میں سخت فکرمند تھی اور کئی آدمیوں کوآپ کی تلاش میں بھیج چکی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ نے تمام واقعہ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے من و عن بیان کردیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کے دستگیر ہیں، مہمان نواز ہیں، صلہ رحم کا خیال رکھتے ہیں، امانت گزار ہیں اور دکھیوں کے خبر گیر ہیں۔ اللہ آپﷺ کو تنہا نہ چھوڑے گا
 پھرآپﷺ کو ساتھ لے کر اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں جو زمانہ جاہلیت میں بت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے اور گزشتہ الہامی کتابوں توریت اور انجیل کے بہت بڑے عالم تھے۔ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تمام واقعہ جو حضورﷺ  کو پیش آیا تھا ان کے سامنے پیش کیا، ورقہ یہ سنتے ہی بول اٹھے
 یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔ اے کاش کے میں اس زمانے تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔
حضورﷺ نے پوچھا:  "کیا یہ لوگ مجھ نکال دینگے؟"
ورقہ نے کہا:  "ہاں جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اسکی مخالف ہو جاتی ہے، اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا"
اس گفتگو کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا۔ تاہم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو کامل یقین ہو گیا کہ حضورﷺ منصب رسالت پر فائز ہو چکے ہیں۔ چنانچہ وہ بلا تامّل حضورﷺ پر ایمان لے آئیں۔
تمام کتب سیر متفق ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلےمشرّف بہ اسلام ہونے والی خاتون حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں۔
حضورﷺ سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تقریباََ25سال زندہ رہیں۔ اس مدت میں انہوں نے رسول اللہﷺکے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مصائب کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقائے دو جہاںﷺ کی رفاقت اور جاں نثاری کا حق ادا کر دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اسلام لانے کے بعد آپﷺ کے متعلقین میں بھی اسلام کی تڑپ پیدا ہوئی۔ نوجوانوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، بڑوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد دوسرے سعید الفطرت اصحاب بھی آہستہ آہستہ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی وسعت پذیری سے بیحد مسّرت حاصل ہوتی تھی اور وہ اپنے غیر مسلم اعزّہ اور اقارب کے طعن و تشنیع کی پرواہ کئے بغیر اپنے آپ کو تبلیغ حق میں رسول اللہﷺ کا دست و بازو ثابت کر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا تمام مال و زر اسلام پر لگا دیا اور اپنی ساری دولت یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری، بیکسوں کی دستگیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کیلئے وقف کردی۔ ادھر کفار قریش نو مسلموں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے اور تبلیغ حق کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکا رہے تھے انہوں نے رحمت عالمﷺ اور آپ کے جان نثاروں کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ جب حضورﷺ کفار کی لایعنی اور بے ہودہ باتوں سے کبیدہ خاطر ہوتے تو خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عرض کرتیں
"یا رسول اللہﷺ! آپ رنجیدہ نہ ہوں ، بھلا کوئی ایسا رسول بھی آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسّخر نہ کیا ہو"
 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کہ اس کہنے سے حضورﷺ کا ملال طبع دور ہو جاتا تھا۔ اس پر آشوب زمانے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف حضورﷺ  کی ہم خیال اور غمگسار تھیں بلکہ ہر موقع پر اور ہر مصیبت میں آپ ﷺ کی مدد کیلئے تیار رہتی تھیں۔ حضورﷺ فرمایا کرتے تھے۔
 میں جب کفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار معلوم ہوتی تھی تو میں خدیجہ سے کہتا، وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہو جاتی تھی اور کوئی ایسا رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا تھا۔
عفیف کندی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں زمانہ جاہلیت میں کچھ اشیاء خریدنے کیلئے مکہ آیا اور عباس بن عبدالمطّلب کے پاس ٹھہرا۔ دوسرے دن جب صبح کے وقت عباس کے ہمراہ بازار کی طرف چلا۔ جب کعبہ کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا ایک نوجوان شخص آیا، اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا پھر قبلہ کی طرف منہ کرے کھڑا ہو گیا، تھوڑی دیر بعد ایک نوخیز لڑکا آیا جو پہلے جوان کی ایک جانب کھڑا ہوگیا، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایک عورت آئی اور وہ بھی ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ ان تینوں نے نماز پڑھی اور چلے گئے۔
میں نے عباس سے کہا ’’ عباس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں انقلاب آنے والا ہے؟‘‘
 عباس نے کہا : ’’ ہاں تم جانتے ہو یہ تینوں کون ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ نہیں‘‘۔ 
عباس نے کہا: "یہ جوان اور لڑکا دونوں میرے بھتیجے تھے، جوان عبداللہ بن مطّلب کا بیٹا محمّد اور لڑکا ابو طالب بن عبدالمطّلب کا بیٹا علی تھا۔ عورت جس نے دونوں کے پیچھے نماز پڑھی، میرے بھتیجے محمّد کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میرے بھتیجے کا دعویٰ ہے کہ اس کا دین الہامی ہے اور وہ ہر کام خدا کے حکم سے کرتا ہے لیکن ابھی تک ان تینوں کے سوا اس دین کا کوئی پیرو میرے علم میں نہیں ہے" 
عباس کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ اے کاش چوتھا میں ہوتا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کیسے نامساعد حالات میں حضورﷺ کا ساتھ دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہی ہمدردی، دلسوزی اور جاں نثاری تھی کہ حضورﷺ ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہیں حضورﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ حضرت خدیجہ جہاں اولاد کی پرورش نہایت حسن و خوبی سے کر رہی تھیں وہاں امور خانہ داری بھی نہایت سلیقے سے نبھاتی تھیں اور باوجود تموّل و ثروت کے حضورﷺ کی خدمت خود کرتی تھیں۔ 
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضورﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے""
رسول اللہﷺ سے حضرت خدیجہ کی عقیدت و محبت کی یہ کیفیت تھی کہ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد حضورﷺ نے جو کچھ فرمایا انہوں نے ہمیشہ اسکی پرزور تائید و تصدیق کی۔ اسی لئے حضورﷺ انکی بیحد تعریف و تحسین فرمایا کرتے تھے۔ سنہ
7بعد بعثت میں مشرکین قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطّلب کو شِعب ابی طالب میں محصورکیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس ابتلا میں حضورﷺ کے ساتھ تھیں۔ وہ پورے تین برس تک اس محصوری کے روح فرسا آلام اورمصائب بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ جھیلتی رہیں۔

حضرت خدیجة الکبریٰ کے بطن سے رسول اکرمﷺ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں پہلے فرزند کا ا سم گرامی قاسم رکھا گیا اور دوسرے فرزند کا عبداللہ، ان کا لقب طیب وطاہر تھا اور دونوں فرزند بچپن ہی میں وصال فرماگئے۔ دوسرے فرزند کی وفات پر جب کفار نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اب محمد کا نام لیوا کوئی نہیں رہا تو اللہ عزوجل نے سورہ کوثر نازل کردی جب کہ تیسرے فرزند حضرت ابرہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ بھی مدت رضاعت میں ہی فوت ہوگئے ۔ 
چار صاحبزادیوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا
حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا
 حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا
حضرت سیدہ فاطمة زہرا رضی اللہ عنہا
وفات 
سنہ۱۰بعد بعثت میں یہ ظالمانہ محاصرہ ختم ہوا لیکن اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زیادہ عرصہ حیات نہ رہیں۔ رمضان المبارک میں (یا اس سے کچھ پہلے) ان کی طبیعت ناساز ہوئی۔ حضور ﷺ  نے علاج معالجہ اور تسکین و تشفّی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا لیکن موت کا کوئی علاج نہیں۔ 10رمضان (بعض روایات کے مطابق 11رمضان) کو آپ  نے  اجل کو لبّیک کہا اور مکہ کے قبرستان حجون (جنت المعلّی) میں دفن ہوئیں۔ اس وقت آپ  کی عمر تقریباََ65برس کی تھی۔چونکہ اسوقت تک نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی تھی اسلیئےصرف کفن دے کر آپ  کی تدفین کی گئی۔ حضورﷺخود آپ کی قبر مبارک میں اترے اور اپنی شریک حیات کو سپردِ لحدکیا۔اس سال کو "عام الحُزن" یعنی غم کا سال قراد دیا۔ کیونکہ اسی سال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپﷺ کے پیارے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ بھی دارِ فانی سے کُوچ کر گئے تھے۔ 
حضورﷺ کو ان کی وفات کا بے پناہ صدمہ ہوا اور آپ اکثر ملول رہنے لگے تا آنکہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہاسےآپ کا نکاح ہو گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وفات کے بعد بھی آپﷺ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ جب قربانی کرتے تو پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی سہیلیوں کو گوشت بھیجتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکا کوئی رشتہ دار جب کبھی آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ اس کی بے حد خاطر مدارات فرمایا کرتے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے حسب معمول حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تعریف کرنی شروع کی مجھے رشک آیا میں نے کہا
  یا رسول اللہﷺ ! وہ ایک بڑھیا بیوہ عورت تھیں خدا نے ان کے بعد آپ ﷺ کو ان سے بہتر بیوی عطا کی
 یہ سن کر حضورﷺ کا چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا



خدا کی قسم مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیں ملی، وہ ایمان 


لائیں جب سب لوگ کافر تھے، اس نے میری تصدیق 


کی جب سب نے مجھے جھٹلایا، اس نے اپنا زرومال مجھ پر 


قربان کر دیا، جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا، اور 


اللہ نے مجھے اسکے بطن سے اولاد دی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  کہ  میں ڈر گئی اور اس روز سے عہد کر لیا کہ آئندہ حضور ﷺ کے سامنے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو ایسا نہیں کہوں گی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔





یہ مضمون درج ذیل لنک سے حاصل کیا گیاہے۔ اور جناب محسن صاحب (ممبر اردو مجلس)   کا ترتیب کردہ ہے۔ 

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/

mahajawad1


No comments:

Post a Comment