صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ
کی بڑائی، تعظیم اور اس کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، صلوٰۃ ہر پیغمبر
اور اس کی امت پر فرض کی گئی ہے۔ صلوٰۃ قائم کر کے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔
صلوٰۃ فواحشات اور منکرات سے روکتی ہے۔ صلوٰۃ دراصل اللہ کے لئے ذہنی مرکزیت کے
حصول کا یقینی ذریعہ ہے۔ صلوٰۃ میں ذہنی یکسوئی (Concentration) حاصل ہو جاتی
ہے۔
نماز کا مفہوم اور مراقبہ
صلوٰۃ کے معنی، مفہوم اور نماز کے
اعمال پر تفکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صلوٰۃ دراصل ذہنی صلاحیت (Concentration) کو بحال کر
دیتی ہے۔ انسان ذہنی یکسوئی کے ساتھ شعوری کیفیات سے نکل کر لاشعوری کیفیات میں
داخل ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر، شعوری
دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا غیب کی دنیا سے آشنا ہو جائے۔
صلوٰۃ (نماز) میں یکسوئی حاصل کرنے
اور اللہ سے تعلق قائم کرنے اور اللہ کے سامنے سجدۂ حضوری کرنے کے لئے یہ مراقبہ
کرایا جاتا ہے۔
صلوٰۃ قائم کرنے سے پہلے آرام دہ نشست
میں قبلہ رخ بیٹھ کر تین مرتبہ درود شریف، تین بار کلمہ شہادت پڑھ کر آنکھیں بند
کر لیں۔
ایک منٹ سے تین منٹ تک یہ تصور قائم
کریں۔
"عرش پر اللہ تعالیٰ موجود ہیں، تجلیات
کا نزول ہو رہا ہے اور میں عرش کے نیچے ہوں۔"
اس کے بعد کھڑے ہو کر صلوٰۃ قائم
کریں۔
مراقبہ کی طرح آدمی جب گرد و پیش سے
بے خبر ہو کر نماز میں یکسوئی حاصل کر لیتا ہے تو یہی قیام صلوٰۃ کا مراقبہ ہے۔
قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور ان
حقائق و معارف کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے بوسیلہ حضرت جبرائیلؑ ، آنحضرتﷺ کے
قلب اطہر پر نازل فرمائے۔ قرآن مجید کا ہر لفظ انوار و تجلیات کا ذخیرہ ہے۔ بظاہر
مضامین غیب عربی الفاظ میں سامنے ہیں لیکن ان الفاظ کے پیچھے نوری تمثیلات اور
معانی کی وسیع دنیا موجود ہے۔ تصوف اور روحانیت میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ روح کی
آنکھ سے الفاظ کے نوری تمثلات کا مشاہدہ حاصل کیا جائے تا کہ قرآن پاک اپنی پوری
جامعیت اور معنویت کے ساتھ روشن ہو جائے۔ قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ
موجود ہے اور اسے حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے،
چاہے نماز میں، تہجد کے نوافل میں یا صرف تلاوت کے وقت، آدمی یہ تصور کرے کہ اللہ
اس کلام کے ذریعے سے مجھ سے مخاطب ہیں اور میں اسی کی معرفت اس کلام کو سن رہا
ہوں۔ اس تلاوت کے وقت وہ یہ خیال قائم رکھے کہ رحمت الٰہی الفاظ کے نوری تمثیلات
اس پر منکشف کر رہی ہے۔
جب آدمی اس ذہنی توجہ (مراقبہ) کے
ساتھ تلاوت کلام اللہ کرتا ہے تو اس نسبت میں انہماک ہوتا ہے جس نسبت سے قرآن مجید
کا نزول ہوا ہے۔ نسبت کے بار بار دور کرنے سے آدمی کا قلب ملاء اعلیٰ سے ایک ربط
پیدا کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ قرآن مجید پڑھتا ہے تو جس قدر اس کے قلب کا آئینہ
صاف ہوتا ہے اسی مناسبت سے معافی و مفاہیم کی نورانی دنیا اس کے اوپر ظاہر ہونے
لگتی ہے۔
نماز پڑھنا اور قائم
کرنا
نماز کے ایک معنی رحمت بھی ہیں یعنی
نماز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ نامدار خاتم النبیین تاجدار دو
عالم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بہت بڑا اعجاز ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت
اور بنی نوع انسان کے لئے حصول رحمت کا ایک ایسا طریقہ عطا فرمایا جس طریقہ میں
انسانی زندگی کی ہر حرکت سمو دی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان ہر حالت میں اور
زندگی کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ وابستہ رہے۔ ہم جب نماز کے اندر
حرکات و سکنات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی
زندگی کی کوئی حرکت ایسی نہیں ہے کہ جس کو حضورﷺ نے نماز میں شامل نہ کر دیا
ہو۔۔۔۔۔۔مثلاً ہاتھ اٹھانا، بلند کرنا، ہاتھ ہلانا، ہاتھ باندھنا، ہاتھوں سے جسم
کو چھونا، کھڑا ہونا، جھکنا، لیٹنا، بیٹھنا، بولنا، دیکھنا، سننا، سر گھما کر
اِدھر اُدھر سمتوں کا تعین کرنا۔ غرض زندگی کی ہر حالت نماز کے اندر موجود ہے۔
مقصد واضح ہے کہ انسان خواہ کسی بھی کام میں مصروف ہو یا کوئی بھی حرکت کرے اس کا
ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے اور یہ عمل عادت بن کر اس کی زندگی پر محیط ہو
جائے حتیٰ کہ ہر آن، ہر لمحہ اور ہر سانس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی وابستگی
یقینی عمل بن جائے۔
ہم جب نیت باندھتے ہیں تو ہاتھ اوپر
اٹھا کر کانوں کو چھوتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔
نماز شروع کرنے سے پہلے یہ بات ہماری نیت میں ہوتی ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لئے کر
رہے ہیں۔ نیت کا تعلق دماغ سے ہے یعنی پہلے ہم دماغی اور ذہنی طور پر خود کو اللہ
تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے اب تک جتنی بھی
ایجادات و ترقیات ہوئی ہیں ان کا تعلق پہلے دماغ سے ہے اور اس کے بعد ہاتھوں سے۔
جب ہم نماز کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اللہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں تو اس کا
مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی تمام ذہنی اور دماغی صلاحیتوں اور ترقی و ایجادات کا رشتہ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم کر دیتے ہیں یعنی یہ کہ نوع انسانی سے جو ایجادات معرض
وجود میں آئی ہیں یا آئیں گی، ان کا تعلق ان صلاحیتوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے
ہمیں عطا کی ہیں۔ ہم سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان
کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے اندر بولنے اور بات کرنے، سوچنے
اور سمجھنے کی جو صلاحیت موجود ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک وصف ہے اور ہمارے
اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ الحمد شریف پڑھ کر ہم اپنی نفی کرتے ہیں اور اس
بات کا اقرار کرتے ہیں کہ فی الواقع تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہیں
اور وہی ہمیں ہدایت بخشتا ہے اور اسی کے انعام و اکرام سے فلاح یافتہ ہو کر ہم
صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔
الحمد شریف کے بعد ہم قرآن پاک کی
کوئی سورہ تلاوت کرتے ہیں۔ مثلاً ہم سورہ اخلاص (قل ہو اللہ شریف) پڑھ کر برملا اس
بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ یکتا ہے اور مخلوق یکتا نہیں ہے۔ اللہ احتیاج نہیں
رکھتا، وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور
نہ باپ ہے۔ اللہ کی ذات منفرد ہے، یکتا ہے۔ واحد ہے، لا انتہا ہے، غیر متغیر ہے
اور اس کا کوئی خاندان نہیں۔ اب ہم اللہ کی بڑائی کا اقرار کرتے ہوئے جھک جاتے ہیں
اور پھر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کھڑے ہونے کے بعد ایسی حالت میں چلے جاتے ہیں جس حالت
کو لیٹنے سے قریب ترین کہا جا سکتا ہے۔ پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر سجدے میں
چلے جاتے ہیں۔ پھر اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آخری رکعت میں کافی دیر نہایت سکون اور
آرام سے بیٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھ کر سلام پھیر دیتے ہیں۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے زندگی میں ہر وہ حرکت جو انسانوں سے سرزد ہوتی ہے سب کی سب
نماز میں سمو دی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انسان کچھ بھی کرے کسی بھی حال میں
رہے۔۔۔اٹھے، بیٹھے، جھکے، کچھ بولے، اِدھر اُدھر دیکھے، ہاتھ پیر ہلائے، کچھ سوچے،
ہر حالت میں اس کا ذہنی ارتباط اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے۔ قرآن پاک میں جتنی
جگہ نماز کا تذکرہ ہوا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ قائم کرو صلوٰۃ اور وہ
لوگ جو قائم رکتے ہیں صلوٰۃ وغیرہ وغیرہ پر غور کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں نماز
قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ نماز پڑھو۔
نماز میں خیالات کی
یلغار
عام طور سے لوگ اس بات کی شکایت کرتے
ہیں کہ نماز میں یک سوئی نہیں ہوتی اور جیسے ہی نماز کی نیت باندھتے ہیں، خیالات
کی یلغار ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ ہم نے نماز میں کون
کون سی سورتیں پڑھی ہیں۔ سلام پھیرنے کے بعد کچھ ایسا تاثر قائم ہوتا ہے کہ ایک
بوجھ تھا جو اتار کر پھینک دیا گیا۔ نہ کوئی کیفیت ہوتی ہے اور نہ کوئی سرور حاصل
ہوتا ہے۔ جب کہ نماز اطمینان قلب اور غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کا ایک بڑا ذریعہ
ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نماز کی ادائیگی میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ نماز کا
مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ جتنی دیر میں خشوع و خضوع کے ساتھ ایک رکعت بھی ختم نہیں ہوتی
اتنی دیر میں پوری نماز ختم کر لی جاتی ہے۔ رکوع و سجود میں اتنی جلدی کا مظاہرہ
کیا جاتا ہے کہ اتنی دیر میں ایک بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ اور سُبْحَانَ
رَبِّیَ الْاَعْلیٰ نہیں کہا جا سکتا۔ رکوع میں ذرا جھکے، گھٹنوں پر ہاتھ رکھے، سر
اٹھایا، کمر سیدھی بھی نہیں ہوئی کہ سجدے میں چلے گئے، سجدے میں سے اٹھے، ابھی
صحیح طرح بیٹھے بھی نہ تھے کہ دوسرا سجدہ کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
یاد رکھئے!
اس طرح نماز ادا کرنا نماز کی بے
حرمتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی ہے۔ ایسی نماز ہرگز نماز نہیں ہے بلکہ
ایک ناقص عمل ہے جو قیامت کے روز ہمارے لئے وجہِ شرمندگی و پشیمانی بن جائے گا اور
ہمیں اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا
ارشاد گرامی ہے کہ بدترین چوری کرنے والا وہ شخص ہے جو نماز میں چوری کرے۔ صحابہ
کرامؓ نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟‘‘
فرمایا۔’’نماز میں اچھی طرح رکوع و
سجدہ نہ کرنا نماز میں چوری ہے۔‘‘
انبیاء کرامؑ کی
نماز
حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت
اسماعیلؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ زمین پر آباد کیا تو اس کی غرض یہ بیان کی۔
"اے ہمارے پروردگار! تا کہ وہ صلوٰۃ
(آپ کے ساتھ تعلق اور رابطہ) قائم کریں۔"
حضرت ابراہیمؑ نے اپنی نسل کے لئے یہ
دعا کی:
"اے میرے پروردگار! مجھ کو اور میری
نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ (رابطہ) قائم کرنے والا بنا۔"
"حضرت اسماعیلؑ اپنے اہل و عیال کو
صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیتے تھے۔"
(سورۃ مریم آیت۔۵۵)
حضرت لوطؑ ، حضرت اسحٰقؑ ، حضرت
یعقوبؑ اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
"اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے
اور صلوٰۃ قائم کرنے کی وحی کی۔"
(سورۃ انبیاء۔ ۷۳)
حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت
کی:
"اے میرے بیٹے صلوٰۃ قائم کر۔" (سورۃ لقمان۔ ۱۷)
اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا:
"اور میری یاد کیلئے صلوٰۃ قائم کر
(یعنی میری طرف ذہنی یکسوئی کے ساتھ متوجہ رہ)۔ "
(سورۃ طہٰ۔۱۴)
حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ کو اور
ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو اللہ نے حکم دیا:
"اور اللہ نے صلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔" (سورہ مریم۔ ۳۱)
آخری آسمانی کتاب قرآن میں بتایا گیا
ہے کہ عرب میں یہود اور عیسائی قائم صلوٰۃ تھے۔
ترجمہ: "اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو
راتوں کو کھڑے ہو کر اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ (الہ کے ساتھ سپردگی)
کرتے ہیں۔" (آل عمران۔ ۱۱۳)
"اور وہ لوگ جو حکم پکڑتے ہیں کتاب
(اللہ کے بنائے پروگرام اور آسمانی قانون) کو اور قائم رکھتے ہیں صلوٰۃ، ہم ضائع
نہیں کرتے اجر نیکی کرنے والوں کے۔" (اعراف۔
۱۲۰)
بندہ جب اللہ سے اپنا تعلق قائم کر
لیتا ہے تو اس کے دماغ میں وہ دروازہ کھل جاتا ہے جس سے وہ غیب کی دنیا میں داخل
ہو کر وہاں کے حالات سے واقف ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی نماز
کتب حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ صبح کی
نماز کے لئے آپﷺ دیر سے تشریف لائے۔ نماز کے بعد لوگوں کو اشارہ کیا کہ اپنی اپنی
جگہ بیٹھے رہیں۔ پھر فرمایا کہ آج شب جب میں نے اتنی رکعتیں ادا کیں جتنی میرے لئے
مقدر تھیں تو میں غنودگی کے عالم میں چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ جمالِ الٰہی بے
پردہ میرے سامنے ہے۔ خطاب ہوا "یا
محمدﷺ! تم جانتے ہو فرشتگان خاص کس امر میں گفتگو کر رہے ہیں؟ "عرض کیا۔ "ہاں، اے میرے رب! ان اعمال کی نسبت
گفتگو کر رہے ہیں جو گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔" پوچھا۔ "وہ
کیا ہیں؟ "عرض کیا۔ "صلوٰۃ باجماعت کے لئے قدم اٹھانا، اس
کے بعد مسجد میں ٹھہر جانا اور ناگواری کے باوجود وضو کرنا۔ جو ایسا کرے گا اس کی
زندگی اور موت دونوں میں خیر ہے۔ وہ گناہوں سے ایسا پاک ہی پاک ہو جائے گا جیسا اس
دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔"
پھر سوال ہوا۔
"یا محمدﷺ! درجات کیا ہیں؟" عرض کیا "کھانا کھلانا، نرمی سے باتیں کرنا، جب
دنیا سوئی ہوئی ہو اٹھ کر صلوٰۃ قائم کرنا۔"
پھر حکم ہوا "اے محمد ﷺ! مجھ سے مانگو۔"
میں نے عرض کیا۔ "خداوندا! میں
نیک کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے بچنے اور غریبوں سے محبت کرنے کی توفیق چاہتا
ہوں۔ میری مغفرت کر، مجھ پر رحم فرما۔ جب کسی قوم کو تو آزمانا چاہے، مجھے بے
آزمائے اٹھا لینا۔ میں تیری محبت کا اور تجھ سے جو محبت رکھے اس کی محبت کا اور جو
عمل مجھ کو تیری محبت کے قریب کر دے اس کی محبت کا خواستگار ہوں۔"
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نماز کسوف
(سورج گرہن کے وقت کی نماز) ادا فرما رہے تھے اور بہت دیر تک قرأت، رکوع اور سجود
میں مشغول رہے۔ اسی اثناء میں صحابہؓ نے دیکھا کہ آپﷺ نے ایک بار ہاتھ آگے بڑھایا۔
پھر دیکھا کہ آپﷺ قدرے پیچھے ہٹے۔ بعد میں لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا کہ اس
وقت میرے سامنے وہ تمام چیزیں پیش گئیں جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ جنت اور دوزخ
کی تمثیل اسی دیوار کے پاس دکھائی گئی۔ میں نے بہشت کو دیکھا کہ انگور کے خوشے لٹک
رہے ہیں، چاہا کہ توڑ لوں۔ اگر میں توڑ سکتا تو تم تاقیامت اس کو کھا سکتے تھے۔
پھر میں نے دوزخ کو دیکھا جس سے زیادہ کوئی بھیانک چیز میں نے آج تک نہیں دیکھی۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کی
نماز
حضرت ابوبکرصدیقؓ جب نماز قائم کرنے
کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ان کے اوپر شدت سے رقت طاری ہو جاتی تھی اور گداز سے
معمور فضا میں غیر مسلم عورتیں اور بچے بھی رونے لگتے تھے۔
حضرت عمرؓ کی نماز
حضرت عمرؓ قیام صلوٰۃ میں اتنے زور سے
روتے تھے کہ رونے کی آواز پچھلی صف تک پہنچتی تھی۔ فاروق اعظمؓ فجر کی نماز کی
امامت فرما رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ صف در صف ایستادہ ہیں۔ دفعتاً ایک ازلی شقی اور
بدبخت خنجر ہاتھ میں ہوئے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور خلیفۂ ثانی کے شکم مبارک کو چاک
کر دیتا ہے۔ عمر فاروقؓ غش کھا کر گر پڑتے ہیں۔ خون کا فوارہ ابل پڑتا ہے۔ اس
ہولناک منظر میں بھی صفیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ آگے
بڑھتے ہیں اور امامت کے فرائض پورے کرتے ہیں۔ دوگانہ پوری ہونے کے بعد خلیفۂ وقت
کو اٹھایا جاتا ہے۔
حضرت علیؓ کی نماز
حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب نماز کا
ارادہ کرتے تو آپؓ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا اور چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔
آپؓ فرمایا کرتے تھے ’’اس امانت کو اٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے جسے آسمانوں اور
زمین کے سامنے پیش کیا گیا لیکن وہ اسے اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔‘‘
حضرت علیؓ کی ران میں ایک تیر لگا اور
آر پار ہو گیا۔ جب تیر نکالنے کی کوشش کی گئی تو آپؓ کو بہت تکلیف محسوس ہوئی۔ کسی
صحابیؓ نے مشورہ دیا کہ تیر اس وقت نکالا جائے جب آپؓ نماز میں ہوں۔ چنانچہ آپؓ نے
نماز کی نیت باندھی اور اس حد تک یکسو ہو گئے کہ گرد و پیش کی کوئی خبر نہ رہی۔
تیر کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال کر مرہم پٹی کر دی گئی اور آپؓ کو تکلیف کا قطعاً
احساس نہ ہوا۔
حضرت حسنؓ کی نماز
حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ نمازی کے لئے
تین خصوصی عزتیں ہیں:
پہلی یہ کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑا
ہوتا ہے تو اس کے سر سے آسمان تک رحمت الٰہی گھٹا بن جاتی ہے اور اس کے اوپر انوار
بارش کی طرح برستے ہیں۔
دوسری یہ کہ فرشتے اس کے چاروں طرف
جمع ہو جاتے ہیں اور اس کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ اور
تیسری بات یہ کہ ایک فرشتہ پکارتا ہے
کہ اے نمازی اگر تو دیکھ لے کہ تیرے سامنے کون ہے اور تو کس سے بات کر رہا ہے تو
خدا کی قسم تو قیامت تک سلام نہ پھیرے۔
حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ
کی نماز
حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ جب صلوٰۃ
(اللہ کے ساتھ ربط) قائم کرتے تھے تو کئی کئی سورتوں کی تلاوت کر جاتے تھے اور اس
طرح قیام کرتے تھے کہ لگتا تھا کوئی ستون کھڑا ہے۔ جب سجدہ میں جاتے تو اتنی دیر
تک سجدہ میں رہتے تھے کہ حرم شریف کے کبوتر ان کی پیٹھ پر آ کر بیٹھ جاتے تھے۔
حوالۂ کتب:
روحانی نماز
صدائے جرس
No comments:
Post a Comment