تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
اہل مکہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ حضور علیہ الصلوۃوالسلام ایک عظیم الشان لشکر کے ہمراہ مکہ کے قریب آ
پہنچے ہیں۔
اس لئے تین آدمی
ابو سفیان بن حرب،
حکیم ابن حزام
اور
بدیل ابن ورقاء
صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے مکہ سے نکلے۔ نگہبانی پر
مامور دستے کی ان پر نظر پڑی تو ، انہوں نے ان تینوں کو گرفتار کرلیا اور حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لے گئے۔ راستے میں حضرت عباسؓ سے ملاقات ہوگئی۔ حضرت
عباسؓ اور ابوسفیان کے مکہ میں بہت اچھے تعلقات رہے تھے، اس لئے انہوں نے ابوسفیان
اور اس کے ساتھیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
خدمت میں پیش کرنے کے لئے جانے لگے۔ جب حضرت عمرؓ کے الاؤ کے پاس سے گزرے اور حضرت
عمر ؓ کی ابوسفیان پر نظر پڑی تو ان کے غصے کی انتہا نہیں رہی۔ کیونکہ مسلمانوں کی
بیشتر مشکلات کا سبب یہی شخص تھا۔ چنانچہ اس کو دیکھتے ہی بآوازِ بلند گویا ہوئے
’’یہ رہا اﷲ کا دشمن ابوسفیان۔ الحمداﷲ کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو ہمارے قابو میں دے
دیا ہے؛ جبکہ ہمارا نہ اس کے ساتھ کوئی پیمان ہے ، نہ کوئی معاہدہ۔"
حضرت عمرؓ اُٹھے اور حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ خوشخبری سنانے کے لئے گئے۔ حضرت عباسؓ نے یہ دیکھ کر
اپنی رفتار بھی تیز کردی اور حضرت عمرؓ سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس
پہنچ گئے۔ اسی دوران حضرت عمر ؓ بھی آپہنچے اور عرض کیا
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! اﷲ تعالیٰ نے دشمنِ خدا
ابوسفیان کو ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے، اس لئے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر
قلم کردوں۔‘‘
حضرت عباسؓ نے کہا
’’ یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام! میں اس کو پناہ دے چکا ہوں۔‘‘
مگر حضرت عمرؓ نے اپنی
بات پر اصرارجاری رکھا، آخر حضرت عباس ؓ کو غصہ آگیا اور حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر
گویا ہوئے
’’ابوسفیان میرے قبیلے کا
آدمی ہے ، اس لئے تم بڑھ چڑھ کر بول رہے ہو۔ اگر تمہارے قبیلے بنی عدی کا فرد ہوتا
تو یوں باتیں نہ کرتے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے کہا ……
’’نہیں عباس! یہ بات نہیں ہے۔ خدا کی قسم! جس دن آپؓ اسلام لائے تھے، اس روز مجھے
اتنی خوشی ہوئی کہ اگر میرا باپ زندہ ہوتا اور اسلام لاتا، تب بھی اتنی مسرت نہ
ہوتی اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو جس قدر آپؓ کے
اسلام لانے سے خوشی حاصل ہوئی تھی، اتنی مسرت میرے والد کے ایمان لانے پر نہ ہوتی۔
‘‘
بہر حال حضرت عباسؓ چو
نکہ ابوسفیان کو پناہ دے چکے تھے، اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نےحضرت عباس
ؓ کی اس بات کو قبول کرلیااور فرمایا……
’’فی الحال توابو سفیان کو لے جائیں اور
اپنی تحویل میں رکھیں۔ صبح میرے پاس دوبارہ حاضر ہوں۔‘‘
صبح ہوئی اور لوگ نماز کے
لئے بیدار ہونے لگے تو ابوسفیان نے پوچھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہیں؟
حضرت عباسؓ نے بتایا کہ
نماز ادا کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ ابوسفیان نے لوگوں کو انتہائی نظم و ضبط سے اُٹھ
کر وضو کرتے اور باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا تو بہت متاثر ہو ا اور کہنے لگا :
’’عجیب اطاعت کا مظاہرہ
ہے، محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) جس کام کا بھی حکم دیتے ہیں، سب بلاچون و چرا اس پر
عمل کرنے لگتے ہیں! اطاعت کا ایسا منظر تو میں نے کسی بڑے سے بڑے شاہی دربار میں
نہیں دیکھا۔ ‘‘
پیشی
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عباسؓ نے ابوسفیان اور دوسرے دو قیدی آپ علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے رُوبرو پیش کئے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے پوچھا……
’’کیا ابھی وہ لمحہ نہیں آیا کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی
معبود نہیں ہے؟‘‘
سب نے کہا کہ ہم گواہی
دیتے ہیں کہ اﷲ وحدہٗ لاشریک ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ کیا شک رہ گیا ہے؟
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا……’’یہ بھی گواہی دو کہ میں اﷲ کا رسول ہوں۔‘‘ ابوسفیان نے پورا
کلمہ شہادت پڑھ لیا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
دارالامان
اسلام لانے کے بعدحضرت
ابوسفیانؓ نے پوچھا……
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! اگر قریش آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابل نہ آئیں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں تو ان کو امان مل جائے گی؟‘‘
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! اگر قریش آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابل نہ آئیں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں تو ان کو امان مل جائے گی؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا ……
’’ہاں! جو شخص مزاحم نہ ہو اس کے لئے امان ہے۔‘‘
’’ہاں! جو شخص مزاحم نہ ہو اس کے لئے امان ہے۔‘‘
حضرت عباسؓ نے سرگوشی کی
……
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! ابوسفیان جاہ پسند آدمی ہے، اگر اس موقع پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی کچھ عزت افزائی فرما دیں تو خوش ہوجائے گا۔‘‘
’’یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! ابوسفیان جاہ پسند آدمی ہے، اگر اس موقع پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی کچھ عزت افزائی فرما دیں تو خوش ہوجائے گا۔‘‘
دریائے رحمت جوش میں آیا
اور فرمایا…… ’’ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے بھی امان ہے۔‘‘
مکہ میں داخل ہونے کا منظر
دوسرے دن حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے مکہ میں داخل ہونے کے لئے کوچ کا ارادہ کیا تو حضرت عباسؓ سے
فرمایا کہ جس پہاڑی کے سامنے سے لشکر گزرے گا، اس پر آپؓ ،ابوسفیانؓ کو لے کر کھڑے
ہوجائیں تاکہ ابوسفیانؓ اسلامی لشکر کے جاہ و جلال اور شان و شوکت کو اپنی آنکھوں
سے دیکھ لے۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا اور بلندی پر کھڑے ہوکر حضرت ابوسفیانؓ
کویہ عظیم الشان منظر دکھایا۔
یہ عجیب روح پرور اور
دلکش نظارا تھا۔ بہت بڑا لشکر تھا۔ مختلف قبائل کے لوگ تھے۔ ہر قبیلہ اپنی نمایاں
علامت کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ جب یہ قبائل مرکزی کمان کے احکام کے مطابق ایک
خاص ترتیب و تنظیم سے یکے بعد دیگر مکہ کے لئے روانہ ہوئے تو ان کا جوش و خروش
قابل دید تھا۔ رجزیہ اشعار پڑھتے، نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے اور اﷲ تعالیٰ کی حمد
و ثنا کے ترانے گاتے ہوئے جب یہ لوگ ابوسفیانؓ کے سامنے سے گزرے تو وہ حیران و ششد
ررہ گئے۔
مکہ میں داخل ہونے
والے پہلے دستے کی قیادت حضرت علیؓ نے کی۔ ان کے ہاتھوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا مخصوص پرچم لہرا رہا تھا۔ دوسرا دستہ حضرت زبیرؓ بن عوام کی قیادت میں
مغرب کی جانب سے مکہ میں داخل ہوا۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ انصاری مشرق کی طرف سے مکہ
میں داخل ہونے والے تیسرے دستے کی سربراہی کررہے تھے۔ چوتھے دستے کی قیادت حضرت
خالد ؓبن ولید نے کی جو جنوب سے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت سعد ؓ بن عبادہ جب مکے
میں داخل ہوئے تو انہوں نے بے اختیار یہ اعلان کیا۔
’’آج کا دن حملے کا دن ہے
اورآج حرمت ختم ہوگئی۔‘‘
جب یہ خبر حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچی توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ سعد ؓبن عبادہ نے غلط
کہا ہے آج کا دن کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے ۔‘‘
اور سعدؓ بن عبادہ کو
دستے کی سربراہی سے ہٹاکر ان کے بیٹے حضرت قیس ؓبن سعد کو دستے کی سپہ سالاری کے
فرائض سونپ دیئے۔
امان
اس کے بعد حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے تمام لشکر کو حکم دیا کہ اشد ضرورت کے بغیر قطعاً کسی کا خون
نہیں بہایا جائے۔
جو لوگ دروازے بند کرکے
گھروں میں بیٹھ جائیں……
یا مسجد حرام میں داخل
ہوجائیں ………………
یا ابوسفیان کے گھر میں
پناہ لے لیں ………………
اور سامنے نہ آئیں، یا
سامنے آئیں مگر غیر مسلح ہوں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں………………
ان سب کے لئے امان
ہے۔
مزاحمت
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کو مکہ میں داخل ہوتے وقت کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑاالبتہ
حضرت خالد ؓبن ولید کو بعض ناعاقبت اندیش جوانوں نے روکنے کی کوشش کی اورحضرت
خالدؓ بن ولید کے دستے پر تیر برسائے ۔حضرت خالدؓ بن ولید نے مجبور ہوکر دفاعی
حملہ کیا۔ مشرکین کے تیرہ آدمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور باقی لوگ بھاگ گئے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے چونکہ خونریزی سے منع فرمایا تھا، اس لئے حضرت خالدؓ بن ولید کو بلا
کرفرمایا کہ تم نے میرے منع کرنے کے باوجود اتنے آدمیوں کو کیوں قتل کردیا؟……
حضرت خالدؓ نے عرض
کیا……’’ یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! لڑائی کا آغاز میں نے نہیں کیا تھا۔ میں
تو تصادم سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا، مگر جب وہ لوگ ہتھیار اُٹھا کر مقابلے
پر آگئے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ ان کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔‘‘
چونکہ امان صرف ان لوگوں
کے لئے تھی جو غیر مسلح ہوں، اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت خالدؓ کے اس
جواب سے مطمئن ہوگئے اور فرمایا:
’’اﷲ کا فیصلہ ہمیشہ بہتر
ہوتا ہے۔‘‘
طواف
مکہ مکرمہ میں حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایک مناسب مقام پر خیمہ نصب کردیا گیا تھا۔ چنانچہ حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام مکہ میں داخل ہونے کے بعد اس میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر
آرام فرمایا، پھر غسل کیا اور تیار ہوکر باہر تشریف لائے۔ دروازے کے سامنے ہزاروں
جاں نثار باادب اور خاموش کھڑے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا انتظار کر رہے تھے۔
حضرت محمدؓ ابن مسلمہ نے خیمے کے بالکل قریب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مخصوص
اونٹنی بٹھا رکھی تھی۔ اس پرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سوار ہوگئے۔ حضرت محمدؓ ابن
مسلمہ نے مہار پکڑلی اور سوئے کعبہ چل پڑے۔ پیچھے پیچھے ہزاروں افراد کا لہریں
لیتا ہوا دریا بھی رواں ہوگیا اور جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے ہمراہ
طواف شروع کیا تو سب خوشی سے از خود رفتہ ہوگئے…… اور کیوں نہ ہوتے ……؟ کہ یہ دن
تھا ہی بے پایاں مسرت کا……!
پورے عرب کا مرکزی مقام مکہ مکرمہ آج اہل اسلام کے
تصرف میں آچکا تھا اور اﷲ تعالیٰ کے جس گھر کے گرد طواف کرنے کے لئے انہیں مشرکین
مکہ سے اجازت لینی پڑتی تھی، آج اس کا طواف کرنے میں رکاوٹ ڈالنا تو درکنار، کسی
کو ان کی طرف آنکھ اُٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہیں تھی۔ لیکن اس منزل تک پہنچنے کے
لئے انہیں کئی سال تک شبانہ روز جدو جہد کرنی پڑی تھی، تب کہیں برتر و بالا خداوند
نے ان پر اتنا بڑا کرم کیا تھا۔ ان کے دل جذباتِ تشکر سے معمور تھے اور زبانیں اﷲ
تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعلان کررہی تھیں:
اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، اﷲ اکبر
خطاب
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کیا اور خانہ کعبہ کے کلید بردار عثمانؓ
بن طلحہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا دروازہ کھول دے۔ اس روز پانچ مسلمان خانہ کعبہ
میں داخل ہوئے۔
۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
۲۔ حضرت علی ؓ
۳۔ حضرت اسامہؓ بن زید
۴۔ حضرت بلالؓ
۵۔ کعبہ کے کلید بردار عثمانؓبن طلحہ
فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ
میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے
’’حق آیا اور باطل مٹ گیا،
بے شک باطل نے مٹ جانا ہی تھا۔‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت81)
کا ورد کرتے ہوئے ہاتھ
میں پکڑی ہوئی لکڑی سے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے سب سے بڑے بُت کی طرف اشارہ کیا وہ
گر گیا۔ اس کے بعدحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حکم سے خانہ کعبہ سے 360 بُت نکال
کر باہر پھینک دیئے گئے۔
اہل مکہ خوف و ہراس کے
عالم میں تھے ان کے دل پریشان تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان ان کے ساتھ وہی سلوک
کریں گے جو فاتح فوج مغلوب عوام کے ساتھ کرتی ہے۔ خون سے گلیاں بھر جائیں گی۔ آہ و
بکا سے فضا لرز جائے گی۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوجائیں گے۔ خواتین بے پردہ ہوجائیں
گی۔ بچے یتیم ہوجائیں گے۔ لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خانہ کعبہ کے دروازے
پر کھڑے ہوکر فرمایا:
’’اے مکہ کے باشندو! تم لوگ
جنگ کے قانون سے آگاہ ہو اور جانتے ہو کہ عہد شکنی کی سزا کیا ہے، اب جبکہ تم
ہمارے مغلوب ہو مسلمانوں کو یہ حق پہنچتاہے کہ تم سب کو تہہ تیغ کردیں یا اپنا
غلام بنالیں۔ لیکن آج میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے
بھائیوں سے کہی تھی چنانچہ تم لوگ آزاد ہو…… اور تمہاری جان و مال پر کوئی تعرض
نہیں ہے……
اے لوگو! اﷲ تعالیٰ نے تمام
انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے انہیں ایک دوسرے پر فوقیت حاصل
نہیں۔ مگر تقویٰ میں، اﷲ تعالیٰ کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں۔ لہٰذا
دورِجاہلیت کے وہ تمام اعزازات جو حسب و نسب اور قبیلہ اور منصب کی بالادستی پر
قائم تھے آج منسوخ کیے جاتے ہیں۔‘‘
فتح مکہ کے بعد احکامات
فتح مکہ کے بعد حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اور اسلام کے سخت دشمنوں کے مقابلے میں انتہائی نرمی اور
فراخدلی کا مظاہرہ فرمایا اور انہیں عفو و بخشش سے نوازا۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک
شخص عکرمہ بن ابوجہل تھا جو مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی جان کے خوف
سے بھاگ گیا تھا۔
عکرمہ کی بیوی حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور اپنے شوہر کے لئے امان طلب کی۔ سیدنا حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عکرمہ کی جان بخش دی۔
اسلام کا ایک بڑ ادشمن
عفوان بن امیہ بھی عفوو درگزر سے بہرہ ور ہوا۔
فتح مکہ کے تیسرے دن
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کچھ مسلمانوں کو یہ ذمہ داری سونپی کہ مکے کے
مضافات میں جائیں اور جہاں بھی بت نظر آئیں انہیں توڑ دیں۔ انہی لوگوں میں خالد
ؓبن ولید بھی شامل تھے۔ جنہیں یہ حکم ملا کہ نخلہ جاکر وہاں کے بتوں کو توڑ دیں۔
عورتوں کی بیعت
فتح مکہ کے بعد حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں سے بیعت لی ۔ بیعت ہونے والوں میں مرد بھی شامل تھے اور
عورتیں بھی۔
ایک عورت بہت سی عورتوں
کے جھرمٹ میں نقاب اوڑھے ہوئے آئی اور کہنے لگی
’’الحمد ﷲ، کہ اﷲ تعالیٰ
نے اپنے پسندیدہ دین کو غلبہ عطا فرمایا۔
یا محمد( علیہ
الصلوٰۃوالسلام)! مجھے یقین ہے کہ میں بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت سے حصہ
پاؤں گی، کیونکہ میں اﷲ پر ایمان لانے والی اور تصدیق کرنے والی عورت ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے نقاب
اُٹھا دیا اور کہا
’’ میں ہندہ ہوں، عتبہ کی
بیٹی اور ابوسفیان بن حرب کی بیوی۔‘‘
یہ وہی ہندہ ہے جس
نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا۔ہندہ جب ایمان لے آئی تو رحمت اللعالمین علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اس کے سارے قصور معاف کر دیئے اور جبینِ انور پر کوئی شکن لائے
بغیر نہایت فراخ دلی سے فرمایا ’’خوش آمدید‘‘۔
اس کے بعدحضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے ہندہ اور اس کے ساتھ آئی ہوئی عورتوں کو بیعت کیا اور ان سے
مندرجہ ذیل باتوں کا عہد لیا۔ اس وقت حضرت عمر ؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
ترجمانی کر رہے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے کہا …… ’’ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک
نہیں کرنا!‘‘
ہندہ نے کہا…… ’’ اگر اﷲ
تعالیٰ کا کوئی شریک ہوتا توکیا آج ہمارے کام نہیں آتا؟!‘‘
حضرت عمرؓ نے کہا……
’’چوری نہیں کرنا!‘‘
ہندہ نے کہا…… ’’یا رسول
اﷲ ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) ! میرا خاوند ابوسفیان بہت کنجوس آدمی ہے، کیا اس کے
علم میں لائے بغیر میں اس کی اولاد پر کچھ خرچ کرسکتی ہوں؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا ’’ ہاں، ضرورت کے مطابق لے سکتی ہو۔‘‘
حضرت عمرؓ نے کہا……
’’زِنا نہیں کرنا۔‘‘
ہندہ نے کہا……’’کیا آزاد
عورتوں نے بھی کبھی زِنا کیا ہے؟‘‘
حضرت عمرؓ نے کہا ……’’
اپنی اولاد کو قتل نہیں کرنا۔‘‘
ہندہ نے کہا……’’ ہم نے تو
پال پوس کر ان کو بڑا کیا تھا، مگر آپ نے میدانِ بدر میں ان کو مار ڈالا۔‘‘
یہ دلچسپ جملہ سن کر حضرت
عمرؓ کافی دیر تک مسکراتے رہے۔
حضرت عمرؓ نے کہا……
’’رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام جن اچھے کاموں کا حکم دیں، ان پر عمل کرنا اورحضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نافرمانی نہیں کرنا۔‘‘
ہندہ نے کہا…… ’’ یا رسول
اﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یہ کیسی عمدہ اور اعلیٰ
بات حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہم کو سکھائی ہے۔‘‘
فتح مکہ کے نتائج
جب مکہ فتح ہوا۔ لوگوں نے
جوق در جوق اسلام قبول کرلیا۔
’’جب آجائے مدد اﷲ تعالیٰ
کی اور فتح نصیب ہوجائے اور دیکھ لو اے نبی ( علیہ الصلوٰۃوالسلام)! لوگوں کو کہ
داخل ہو رہے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج۔ تو تسبیح کرو اپنے رب کی حمد
کے ساتھ اور بخشش مانگو اس سے بے شک وہی ہیں توبہ قبول کرنے والے۔ ‘‘
(سورۃ النصر)
فتح مکہ کے متعلق مؤرخین
نے اعتراف کیا ہے،
’’تاریخ میں ایسی مثال
نہیں ملتی کہ کوئی فتح خون بہائے بغیر ہوئی ہو۔ قدیم و جدید دنیاکی تاریخ میں
مفتوحین کو اس طرح کی عام معافی کبھی نہیں دی گئی اور دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی
مثال نہیں ملتی کہ فاتح نے عام معافی دی ہو۔‘‘
(اقتباس باران رحمتﷺ از خواجہ شمس الدین عظیمی)
No comments:
Post a Comment