اسلام کے ابتدائی دور کے
بعد وہ گھڑی بھی آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہادئ عالم نبئ کریم محمد مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ و سلم کے لئے سیر ملکوت معین کی تھی۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے
حبیب خاص کے لئے افلاک کے راستوں کو سجائیں۔ رضوان جنت کو ہدایت کی کہ آنے والے
نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت کے مطابق خلد بریں کو مزین کریں۔ جبرئیل
امین کو حکم صادر فرمایا کہ وہ محبوبِ کبریا رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم
کے لئے وہ سواری لے جائیں جو برق سے زیادہ تیز رفتار اور شعاعِ مہر سے زیادہ سبک
خرام ہو۔ اس شان سے نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم معراج میں تشریف لے گئے اور وحی
الٰہی کی صدا سے خطہ لا ہوتی گونجنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن مجید
میں یوں بیان فرمایا۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا، (سورۂ
بنی اسرائیل)
ترجمہ: اللہ تبارک و
تعالیٰ وہ ذات پاک ہے جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے
گیا جس کے گرد ہم نے برکت رکھی تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔
السلام عليك أيها النبي
یہ واقعہ خود پیغمبر
اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بیان فرمایا جس کو امانتوں اور سچائی پر کسی قوم
کو شک و شبہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس سرعت رفتار کی بہت سی مثالیں سامنے ہیں۔ آواز کی
رفتار، روشنی کی رفتار، سیاروں کی رفتار اور خود انسان کے نور نگاہ کی رفتار وغیرہ۔
معراج کا واقعہ سائنس
دانوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ کیا چودہ سو سال قبل راکٹ اور خلائی شٹل کی رفتار
کا کسی انسان کو تصور بھی ممکن تھا؟ ذرا غور فرمایئے انسان کے نور نگاہ کی سرعت
رفتار کا کیا حال ہے۔ اِدھر آنکھ کھلی اُدھر آنکھ کی ننھی سی پُتلی میں وسیع کائنات
سمانے لگی۔ معراج کا واقعہ انسانی عقل اور فکر بشری کے لئے قیامت تک سائنس دانوں
اور عام انسانوں کے فضائے کائنات اور خلا کی لا محدود مقامات کی ریسرچ اور تسخیر
کے لئے ایک نمونہ، فلسفہ اور کلیہ ہے جو کہ ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، راکٹ اور
خلائی شٹل کے لئے گائڈ لائن ہے۔
نبئ کریم حضرت محمد
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کی اصل نوعیت دعوت و تبلیغ ہے۔ آپ نے تمام
اقوام عالم کو دعوت دی ہے اور ہمیشہ کے لئے اعلان کر دیا ہے کہ یہ عالم وجود اور
سلسلۂ کون و مکاں جو تاحدِّ نظر پھیلا ہوا ہے نہ ہمیشہ سے ہے اور نہ ہمیشہ رہے گا۔
مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے
قائم بالذات اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ ہر اعتبار سے تنہا اور اکیلا ہے۔ چنانچہ نہ تو
اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ صفات میں، نہ حقوق میں نہ اختیارات میں۔ دعوت و
تبلیغ میں اس بات کا واضح اور کھلا انکشاف ہے کہ آخرت پر ایمان عقیدۂ اسلام کا
اساسی جزو ہے۔
از تجلیات
No comments:
Post a Comment