تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
شاہ است حسینؓ ، پادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد، دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لااِلٰہ است حسین ؓ
(حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ)
غور کیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات میں دو طرزِ فکر کام کر رہی ہیں۔ ایک تعمیری طرزِ فکر ، دوسری تخریبی طرز فکر۔۔ تعمیری طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان سکون آشنا زندگی سے روشناس ہوجاتا ہے اور تخریبی طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان غم آشنا زندگی، فکر و آلام، بیماریوں اور بے سکونی سے قریب ہو جاتا ہے۔
خالق ارض وسما نے کائنات محبت کے ساتھ تخلیق کی۔ اور انسان کے لئے اس دُنیا کو محبت ، خوشی ، مسرت و شادمانی اور ایثار کا گہوارہ بنایاہے۔ فضاوں میں رنگینی ، رات کی تاریکی میں روشن چاند ، دن کے اُجالے کو جِلا بخشنے والا سورج، نیلگوں آسمان کی بساط پر ستاروں کی انجمنیں، زندگی کو توانائی دینے والی گیسیس، درختوں کی حمد و ثنا، زمین کی تخلیق، آسمان کی رفعت۔۔، انسان کی شادمانی مسرت اور سکون کے لئے پیدا فرمائے ہیں ۔ ان نعمتوں سے کوئی تخلیق محروم نہیں۔ لیکن جب ہم خوشنمازندگی پر غور کرتے ہیں تو یہ زاویہ روشن ہوتا ہے کہ ایثار و قربانی ہر جذبے میں بُنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ زمین میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیت ایثار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بیج کو بطن میں محفوظ کر کے پروان چڑھانا اور اس کا مظاہرہ ، مستقل غذا فراہم کرنا۔ ’’ایثار‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
جب بندہ اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو دُنیا میں آنے سے پہلے وہ خود کو کہیں نہیں پاتا۔ پیغمبروں کی زندگی کے ساتھ ساتھ نبی مکرم ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں اور حیاتِ طیبہ کو بیان کیا جائے تو ان برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں اللہ وحدہ لا شریک کے لئے قربانی کے علاوہ کچھ نہیں کہ سکتے۔
حضرت امام حسین ؓ پوری زندگی ایثار و قربانی سے فیض یاب ہوتے رہے۔ وہ عالمین کے لئے رحمت اپنے نانا رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر پہلو سے واقف تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ حق کو ظاہر کرنے کے لئے جن آزمائش و مصائب سے صبر اور یقین کے ساتھ مظہر بنی، اس سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی بہت پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے جلیل القدر شوہر اور امام حسین ؓ کے والد بزرگوارؓ کو زندگی کی دستاویز بھی حضرت امام حسینؓ کے ذہن میں محفوظ تھی۔ اللہ کے لئے بلا خوف و خطر ہر تکلیف کو برداشت کرنے کا حوصلہ ان کے لئے مشعلِ راہ تھا۔ باب العلم ؓ کا مقدس خطاب ان کے لئے مشعل ِ راہ تھا۔ تسلیم و رضا ، ایثار و قربانی امام حسین ؓ کی روایات تھیں۔
معرکہ کربلا کا پس منظر اتنا عجیب اور غم آشام ہے کہ اپنے پرائے سب اشک بار ہو جاتے ہیں۔ اور پُر آشام حالات و واقعات ہر صاحبِ دل کو بے چین و بے قرار کر دیتے ہیں ۔
جس طرح یہ سازش کی گئی وہ قابلِ نفرین ہے، جگر گوشہ رسول ، سید الشہدا امام حسین ؓ کا ایثار و قربانی کا جذبہ بلا شبہ اپنے نانا رسول اللہ ﷺ اور اپنے باپ بابُ العلم حضرت علی ؓ کی صفات کا وہ باب ہے جو رسول اللہﷺ سے شروع ہوا اور اُنہی کے لختِ جگر سید الشہدا امام حسینؓ کی شہادت پر آخری مظہر بنا۔ امام حسین ؓ ایسی پاکیزہ ہستی ہیں جن کو قربانی سے حق اور باطل کی تصویریں اتنی واضح ہو گئیں کہ آنکھوں سے محروم کی بصیرت سے بھی مخفی نہیں رہ سکتیں۔
شہیدوں کے سردار، امام حسین ؓ حق اور باطل دونوں کی سرحدیں الگ کرنے کے لئے چاند کی رو پہلی کرنوں کی طرح اور سورج کی آتش فشانی کی مانند ، حق و صداقت کی سرحد ہیں۔
حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ تحقیق باطل مٹنے کے لئے ہی ہے۔ (۱۸:۱۷)
قتل حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
قلندرِ شعور نومبر 2013
قلندرِ شعور نومبر 2013
No comments:
Post a Comment