Sep 25, 2014

شعور ازلی کا راستہ


 

تحریر
 سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

فنا فی الشیخ وہ کیفیت ہے جہاں سے علم و آگہی اور شعور ازلی کا راستہ مل جاتا ہے۔ سالک جب روحانی راستے پر قدم رکھتا ہے تو اس کی حالت ایک بچے سی ہوتی ہے۔ جو چلنا تو جانتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ماں باپ کی انگلی پکڑے بغیر سڑک پر چل نہیں سکتا۔ نہ وہ تنہا سفر کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کی کمزوری اور محتاجی کا خیال کرتے ہوئے ماں باپ اپنے اوپر بچے کی نگہداشت کی ذمہ داریوں کو واجب کر لیتے ہیں اور ہر وقت اسے اپنی نظر میں رکھتے ہیں۔ روحانی استاد بھی اپنے مُرید کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ وہ اپنی روحانی اولاد کی روحانی تربیت و تعلیم کو اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اور مُرید قریب ہو یا دُور ہر حال میں اسے اپنے روحانی تصرف کے دائرے میں رکھتا ہے۔ تاکہ لاتناہیت کے سفر پر روانہ ہونے والا یہ بے سروسامان مسافر راستے کی درگھٹاوں سے گھبرا کر حصول منزل کی طلب سے دل نہ چھوڑ بیٹھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر مرشد کریم نے تحریر فرمایا تھا

’’خوشانصیب کہ روزانہ آپ کی تحریر نظر نواز ہوتی ہے۔ آپ ان دنوں جن حالات و کیفیات سے گزر رہی ہیں وہ ایک طرف جگر کو خون اور آنکھوں کو اشکبار کرنےکا راستہ ہے اور دوسری طرف یہی راستہ علم و آگہی اور شعور ازلی کا راستہ ہے۔ آپ خوب سمجھ لیجئے کہ یہ فقیر آپ کی کیفیت سے واقف ہے۔ جب آپ کے دل کا ایک تار ہلتا ہے تو میرے دل میں موجود ساڑھے گیارہ ہزار تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں۔ آپ کی آنکھ سے جب آنسو کا ایک قطرہ بہتا ہے تو میرے اندر موجود سمندر میں طوفان آجاتا ہے۔

آپ جہاں ہیں ، جوبھی ہیں، جس طرح بھی ہیں۔ بہر حال ایک نقطہ ہیں۔ ایسا نقطہ جس نقطے کے ساتھ بے شمار کہکشانی نظام بندھے ہوئے ہیں۔ خوش ہو جائیے کہ اب کٹھن راستہ آپ نے عبور کر لیا ہے ۔ راستہ عبور کرنے کے بعد آگے کیا ہے یہ بات لکھنے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہےـ‘‘

حضرت الشیخ فرماتے ہیں کہ روحانی علوم کے سیکھنے کے لئے ایک استاد کا ہونا ضروری ہے تاکہ مرید کی روحانی کیفیات کے مطابق اس کی تربیت کر سکے۔ چونکہ روحانی علوم دُنیاوی عقل و شعور کے دائرے میں سیکھے جاتے ہیں اس لئے دُنیاوی عقل کا مطمئن ہونا بھی ضروری ہے۔ تاکہ مادی روشنیاں نُور کے رنگوں سے رنگین ہو جائیں اور نافرمانی کا ذہن ہمیشہ کے لئے فرمانبرداری کے مضبوط خول میں بند ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا بندہ بندگی کے فرش پر سربسجود ہو۔ روحانی تربیت کے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مرشد اپنے مُرید کی تربیت اس کے ذہنی لیول اور روحانی سکت کے مطابق کرتا ہے۔

روحانی راستے میں سالک کے لئے سب سے کٹھن مرحلہ ’فنا فی الشیخ‘ کا درجہ ہے۔ اس درجہ کی کیفیات بھی مرید کی روحانی سکت کے مطابق درجہ بدرجہ ہوتی ہے۔ روحانی سکت روشنیوں کے جذب کرنے کی مقداروں سے بنتی ہے۔ جس کا شعور لاشعور کی روشنیوں کو جس حد تک جذب کرتا ہے روحانی سکت اسی حد تک تعبیر کی جاتی ہے۔ لاشعور کی روشنیاں شعور میں جذب ہو کر حواس کی رینج کو بڑھاتی ہیں۔ سالک کی نظر عالم ناسوت سے گزر کر لاشعور کی حدود میں مشاہدہ کرتی ہے۔ شعور میں جذب شدہ انرجی یا لاشعور کی روشنی غیب میں لا محدودیت کی حدود کا تعین کرتی ہے۔

لامحدودیت کی کوئی حد نہیں ہے۔ سالک کا شعور جس حد تک لاشعور کی روشنیوں کو جذب کرتا ہے وہی اس کی لامحدودیت بن جاتی ہے۔  عالم مثال کے پردے سے گزر کر علم کائنات کے انوار میں کائناتی خاکے اُبھرنے لگتے ہیں جو روح کا لطیفہ سری کا مقام ہے۔ اس مقام پر نوری خاکے روح کی نظر سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لطیفہ سری اور لطیفہ روحی ، روح انسانی کا دائرہ ہے۔ مرشد اپنی توجہ سے مرید کے لطائف کو متحرک کرتا ہے۔ تا کہ اس مقام پر رونما ہونے والی حرکات کا مشاہدہ کر سکے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آسمانوں  اور زمینوں کی ہر شے اللہ کے نُور کا مظاہرہ ہے۔ جب مرشد کی توجہ مرید کے نقطہ ذات پر ہوتی ہے ۔ نقطہ ذات تجلی کا نقطہ ہے جو انا کا مقام ہے۔ تجلی کے نقطے میں کائنات کا ہر فرد انا کی صورت میں موجود ہے ۔ یعنی نُور کے ایک نقطے کی صورت ہے۔ جب مرشد کی توجہ مرید کے نقطے میں کام کرتی ہے۔ تو وہ اس نقطہ میں اپنی انا کے نقطے سے رابطہ قائم کر لیتا ہے۔ مرشد کی انا کی لہریں مرید کے نقطہ ذات کے اندر اپنا عکس آئینے کی طرح منعکس کرتی ہیں۔ اور مرید کی روح کی نگاہ نقطہ ذات میں مرشد کی انا کا عکس دیکھ لیتی ہے جو عالم مثال کا نوری خاکہ ہے۔ روح کی روشنی ہی کشش ہے اور عالم مثال کے اس نُوری خاکے   یعنی سری کی روشنیوں میں گریز کی حرکت ہے۔ کشش اور گریز کی حرکات اس نوری خاکے کو متحرک کر دیتی ہیں۔ اور روح کی نظر اس نوری خاکے کو دُنیا میں دیکھ لیتی ہے۔ مقام انا پر سالک اللہ نور السموات والارض کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کائنات میں میرے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔ کل ذات کی انا خالق کی انا ہے اس دائرے میں مخلوق کی تمام انائیں جُزوی طور پر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کی انا سے فیڈ ہو رہی ہیں۔ یہ جزوی انائیں نورکےوہ نقطے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کُن کہنے سے روح کی صورتوں میں جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نُور ہے سے مراد نور کے یہی نقطے ہیں جو کائنات کی انائیں ہیں اور مخلوق کی کنہ حقیقت ہے۔

مرشد کے نقطہ ذات کی روشنی جب مرید کے نقطہ ذات  سے ٹکراتی ہے تو روشنیوں کی تخلیقی فطرت کے مطابق مرشد کی روشنیاں انا کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور مرشد کا یہ نوری عکس مرید کے نقطہ ذات کے آئینے میں نقش ہو جاتا ہے۔ تخلیق کا قانون ہے کہ جب ایک نقطہ ذات کی روشنی دوسرے نقطہ ذات کی روشنی سے اس طرح ملتی ہے کہ دونوں نقطہ ذات کی اناوں کا باہم ملاپ ہوتا ہے تو انا کی روشنیاں اپنے آپ کو انا کی صورت میں ظاہر کر دیتی ہیں اور انا کی یہ صورت روح کہلاتی ہے۔ دو اناوں کا باہمی ملاپ شعور ازلی کی بُنیاد  بنتا ہے۔ شعور ازلی تجلی ذات کا شعور ہے ۔ مقام انا عالم ناسوت ہے، جو تجلی ذات کا عالم ہے ۔ عالم لاہوت میں تجلی ذات کے گھیراو میں جب کائنات کی دو انائیں باہم ملتی ہیں تو انا کے اس نقطے سے لاشمار کائناتی نظام نور کے تاروں کے ساتھ بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ تجلی کا یہ نقطہ صفت ربوبیت کے ساتھ ان کائناتی نظاموں کو اپنی روشنیوں سے فیڈ کرتا ہے۔ فنا فی  الشیخ کے درجے میں سالک کی عقل اپنی سکت کے مطابق ان علوم کو معانی پہناتی ہے۔ مگر اس حقیقت سے سب ہی واقف ہو جاتے ہیں کہ بغیر اس مقام سے گزرے ہوئے حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس مقام پر مرید کی مرکزیت مرشد کی ذات ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک بچے کی ساری مرکزیت اپنی ماں پر ہوتی ہے کہ ذرا آنکھ اوجھل ہوئی تو بچہ رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے۔ اور اپنی تمام ضروریات و تقاضوں کا ذمہ دار بھی ماں کو ہی سمجھتا ہے۔ اس کے لئے ماں ہی پوری کائنات ہے ۔ یہی کیفیت عشق فنا فی الشیخ کا درجہ ہے۔ جس میں شیخ  کی جدائی مرید پر بار گراں بن جاتی ہے۔ مرید کے نقطہ ذات کی روشنیاں شیخ  کی  روشنیوں میں اس طرح گم ہو جاتی ہیں کہ اسے اپنے آئینے میں صرف شیخ کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تحریر میں شیخ فرماتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے جس سے علم و آگاہی اور شعور ازلی کا راستہ ملتا ہے۔ اگر سالک اسی مقام پر اپنی انا کی تسکین کا سامان کر لے تو وہ اس سے آگے قدم نہیں اٹھا سکتا۔ شعور و عقل جو اس جسم کے اندر کام کر رہی ہے وہ ہر شے کو ایک صورت میں دیکھنا چاہتی ہے۔ پس جب سالک اس مقام پر شیخ کے نوری خاکے کو دیکھ لیتا ہے تو اسکی وہ انا جو نور کی تلاش میں روحانیت کے راستے پر چل رہی ہے اسے تسکین مل جاتی ہے اگر سالک اسی پر اکتفا کر ے تو وہ انہی نظاروں میں اپنے آپ کو گم کر دیتا ہے ۔ اور حقیقت نور کو جاننے کی سکت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی ۔ اسی لئے روحانیت میں اس مقام کو کٹھن کہا گیاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر صورت سے پاک ہے ۔ یہ مقام اس حقیقت تک پہنچنے کا راستہ ہے خود حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت وہی ہے جو مرشد کریم نے فرمائی ہے کہ

آپ جہاں ہیں، جو بھی ہیں، جس طرح بھی ہیں، بہرحال ایک نُقطہ ہیں۔ ایسا نقطہ کہ جس کے ساتھ بے شمار کہکشانی نظام بندھے ہوئے ہیں۔

جب سالک اپنے نقطہ ذات کا مشاہدہ کر لیتا ہے یعنی وہ اپنی ذات کو تجلی کے ایک نقطے کی صورت دیکھ لیتا ہےاور اس تجلی کے اندر اسمائے الہٰیہ کے ساڑھے گیارہ ہزار رنگوں کا مشاہدہ کر لیتا ہے تو اپنے اندر موجود اسمائے الہٰیہ کی صفات کو بطور اپنی صلاحیت کے اپنے ارادے سے استعمال کر تا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یک ذات کی انا کُل ذات  میں گُم ہو جاتی ہے۔ اس طرح سورج کی روشنی میں چاند ستارے گم ہو جاتے ہیں۔

سورج کی روشنی اپنی چادر میں چھُپا کر ان چاند ستاروں کو اپنی روشنی سے زندہ رکھتی ہے۔ جب ارادہ انہیں ظاہر کرنے کا ہوتا ہے تو سورج ان کے اوپر سے اپنی چادر ہٹا دیتا ہے۔ چاند ستارے فلک پر اپنی محفلیں سجا لیتے ہیں ۔ دنیا کی لاشمار آنکھیں انہیں دیکھ لیتی ہیں اور جب سورج چاہتا ہے کہ کوئی انہیں نہ دیکھے تو پھر انہیں اپنی قُبا میں چھپا لیتا ہے۔ مگر ہر دو حال میں سورج کی نگاہیں چاند ستاروں کو دیکھتی رہتی ہیں۔

1 comment: