Dec 8, 2014

روح کیا ہے - تحریر خواجہ شمس الدین عظیمی



تحریر: خواجہ شمس الدین عظیمی

روح کیا ہے؟
روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔
اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔
یہ جو دل دھک دھک کر رہا ہے۔
اللہ ھو، اللہ ھو کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ربانیت اور خالقیت کا اظہار کر رہا ہے۔
جو بندہ روح سے واقف ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے واقف ہو جاتا ہے۔
جسم کیوں سڑ جاتا ہے اس لئے کہ روح نکل جاتی ہے۔
انسان Commaمیں ہوتا ہے تو وہ زندہ رہتا ہے۔
ایک لڑکی بچپن سے 22سال تک Commaمیں رہی لیکن روح چونکہ جسم کی نگرانی کرتی ہے اس لئے جسم سلامت رہتا ہے اور اس کی نشوونما بھی ہوتی رہتی ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ سمندر کے قطرہ میں سمندر کی تمام خصوصیات ہوتی ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ
’’کوئی علم قربت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
روحانیت کیلئے قربت ضروری ہے۔ جس طرح بچے کیلئے ماں باپ کا قرب ضروری ہے کہ وہ اپنی مادری زبان اور خاندانی روایات سیکھے۔ اسکول میں استاد کا قرب ضروری ہے۔ اسی طرح روحانیت میں مرشد کی قربت ضروری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ روحانیت پھونکوں کا علم ہے، اگر پھونکوں سے روحانیت آ جاتی تو پھونکوں سے آدمی میٹرک بھی کر لیتا۔ دنیاوی علوم اور روحانی علوم سیکھنے کیلئے استاد کی قربت ضروری ہے۔ استاد کے بغیر کوئی بھی علم نہیں سیکھا جا سکتا۔
گونگے، بہرے ماں باپ کے بچے ان کے ساتھ رہ کر بولنا نہیں سیکھ سکتے۔ ایک انسان کے بچے کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا اور بھیڑیے نے اس کی پرورش کی۔ بھیڑیے کی صحبت اور پرورش کا یہ اثر ہوا کہ بچہ چاروں ہاتھوں پیروں سے چلنے لگا اور وہ بہت تیز بھاگتا تھا۔
اگر ہم صفاتی اعتبار سے جانوروں کی زندگی گزاریں تو انسان کے اندر بھی جانوروں کی صفات آ جاتی ہیں۔ جب بچہ بداخلاق لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو وہ بھی بداخلاق ہو جاتا ہے۔ ماں باپ گالیاں بکتے ہیں تو بچہ بھی گالیاں بکنے لگتا ہے۔ ماں باپ صاف ستھرے رہتے ہیں، ان کا اخلاق اچھا ہوتا ہے اور وہ محب وطن ہوتے ہیں تو بچہ کے اندر بھی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ بچہ کے اندر وہی صفات ہوتی ہیں جو والدین اور ماحول میں ہیں۔
انسان دو پیروں سے چلتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں اور انسانی برادری دو پیروں سے چلتی ہے۔ بکری کا بچہ چار پیروں سے چلتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں بکری بھی چار ہاتھ پیروں سے چلتی ہے۔ چڑیا کا بچہ اڑتا ہے اس لئے کہ اس کے ماں باپ اڑتے ہیں۔ یہی حال رینگنے والے کیڑوں کا ہے وہ بھی اسی طرح رینگتے ہیں جس طرح کیڑے کے ماں باپ رینگتے ہیں۔
چڑیا ایک پرندہ ہے، اس پرندہ کی آواز چوں چوں ہے۔ چڑیا کے بچے بھی یہی آواز بولتے ہیں جو چڑیاکے ماں باپ بولتے ہیں۔ کوئل کی آواز نہایت خوبصورت آواز ہے۔ کوئل کے بچے بھی خوبصورت آواز میں کوکو کی صدا لگاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔
’’اچھی آواز سے بات کرو۔ اور آواز تو گدھے کی بھی ہے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت۱۹)
جس طرح دنیاوی زندگی میں ماحول کا اثر ہوتا ہے اور آدمی اس ماحول کی نقل کرتا ہے جس ماحول میں وہ رہتا ہے۔ اسی طرح روحانی دنیا کا بھی ایک ماحول ہے۔ اس ماحول میں رہنے والے لوگوں کا اخلاق اچھا ہوتا ہے۔ ان کے اندر شک اور وسوسے کی جگہ یقین کام کرتا ہے۔ جس طرح آدمی کے اوپر ماحول اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح اخلاق اور شرافت کا اثر ہوتا ہے۔ روحانی دنیا میں بھی ماحول کا اثر ہوتا ہے اور اس کی ابتداء یقین سے ہوتی ہے۔ جب کوئی بندہ روحانی دنیا سے واقف ہو جاتا ہے اور روحانی دنیا کی طرزیں اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ
’’میرا اس بات پر یقین ہے کہ دنیا میں آخرت میں، دنیا میں آنے سے پہلے اور دنیا سے جانے کے بعد کی دنیا میں، یعنی جی اٹھنے کے بعد عالم میں، صبح، دوپہر، شام اور رات میں جو کچھ ہوتا ہے، ہو چکا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ آیت۷)
روحانی علوم سیکھ کر آدمی کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ
’’جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت ۷)
روحانی طالبات و طلباء کیلئے ضروری ہے کہ ان کے اندر استقامت اور اس بات کا یقین ہو کہ دنیا میں آنے سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور دنیا سے جانے کے بعد جو کچھ ہو گا وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ انسان دو پیروں سے چلتا ہے، دو ہاتھوں سے پکڑتا ہے، دو آنکھوں سے دیکھتا ہے، دماغ سے سوچتا ہے، یہ سب اعضاء مرنے کے بعد بے حس و حرکت ہو جاتے ہیں اور مٹی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
لیکن جو شےاعضاء کو متحرک رکھتی ہے، آنکھوں میں بینائی مستقل کرتی ہے، جسمانی اعضاء کو حرکت دیتی ہے، سوتے ہوئے کو جگاتی ہے، جاگتے ہوئے بندہ کو سلاتی ہے، وہ روح ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے۔ لیکن روح برقرار رہتی ہے اور اس کا علم بھی قائم و دائم رہتا ہے۔
آگہی از خواجہ شمس الدین عظیمی

1 comment: