تحریر : خرم شہزاد عظیمی، آسٹریا
اللہ نے مخلوقات کو اپنا تعارف کرانے، اپنی پہچان بتانے کے
لئے اپنے محترم بندے زمین پر بھیجے تاکہ
مادیت کی تاریک راہوں میں مخلوق روشنی کے ان سرچشموں سے اپنی منزل اور راہ تلاش
کرے۔ اور اللہ کے قریب ہو کر اپنا کھویا ہوا مقام جنت پالے۔ جن سعید روحوں نے نور
کے ان سرچشموں کی خلوص دل سے پیروی کی وہ خود بھی روشن ہوگئے اور اپنے خلق خُدا کے
لئے بھی مینارہ نُور بن گئے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو اللہ کے دوست یعنی اولیاٗاللہ
سے مخاطب کر کے اہمیت اور مقام بیان کیا ہے۔
کائنات میں اشرف اور بزرگ نبی کامل ، رحمت اللعالمین، سیدالمرسلین
حضرت محمدﷺ ہیں۔ اللہ نے آپﷺ پر کائنات کی عظیم کتاب قرآن مجید
نازل کی۔ تاکہ مخلوق اندھیروں سے نکل کر نُوراور روشنی کی طرف آئے۔
اللہ ایمان والوں کا
مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے ۔ سورۃ البقرہ
اللہ کا انبیاکرام کو
دُنیا میں بھیجنا اور کتابیں نازل کرنا پھر انبیاکرام کے ورثا اولیاکرام کے زریعے
اُمت کو ان الہامی کتابوں کے ظاہری اور باطنی علوم سے متعارف کروانا ، اس بات کی
روشن دلیل ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ اور اس محبت کو ہمارے شعوری
حواس کے پیمانے کے مطابق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ میں ستر ماوں سے زیادہ محبت
کرتا ہوں۔ تاکہ مخلوق اللہ کی اس محبت کے
نتیجے میں اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے اور خوف اور غم کی کیفیت سے آزاد
ہو۔
مخلوق سے محبت کے اظہار کے نتیجے میں ہی اللہ نے
اپنے محبوب ﷺ پر قرآن نازل کیا۔ اور اولاد آدم کے لئے راہنمائی دی۔
بے شک تمہارے لئے
رسول اللہ ﷺ کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے۔ القرآن
نُور الٰہی اور نور
نبوتﷺ سے منور انعام یافتہ بندوں کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ کی نشانیوں پر تفکر
کیا جاتا ہے تو بہت سے ایسے واقعات ہمیں فکر کے نئے زاویوں سے روشناس کرواتے ہیں۔
سیرت طیبہ ﷺ میں ایک
واقعہ کا ذکر ہے کہ ایک ہرنی شکاری کے
چنگل میں پھنس جاتی ہے اور آپ ﷺ سے فریاد کرتی ہے ۔ آپﷺ شکاری کو یقین دلاتے ہیں
کہ ہرنی کو چھوڑ دو، یہ اپنے بچوں کو دودھ
پلا کر واپس آجائے
گی۔
ہرنی بےقرار کیوں
تھی۔ اس لئے کہ اللہ نے بطور ماں ہرنی کے دل میں جو محبت ڈال دی تھی ، اسی محبت کی
وجہ سے اسے رہ رہ کر بچوں کا خیال آرہا تھا۔
محبت کیا ہے؟ محبت رحمت ہے ۔ خود نبی رحمتﷺ کی ذات عالی مخلوقات سے ایسے ہی محبت
کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ خود اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔
ہرنی کی محبت کا
دائرہ محدود تھا۔ صرف اپنے بچوں تک۔
نبی رحمتﷺ کی رحمت
کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔
اللہ تعالٰی کی سب
مخلوق میں تقاضے کام کر رہےہیں۔ یعنی بھوک، پیاس، سونا، جاگنا، محبت وغیرہ کی
مسلسل اطلاعات مل رہی ہیں۔
ایک پرندے کو پتھر
پھینکیں ، تو وہ پتھر کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ جائے گا۔ کیوں کہ اس کے اندر
اطلاعات کی ایجنسی نے اسے خطرے کی اطلاع دے دی۔ اس لئے وہ اُڑ گیا۔ غرض جتنی
مخلوقات پر غور کریں آپ کو اللہ کی نشانیاں نظر آئیں گی۔
اللہ کی سُنت میں
کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ القرآن
لیکن ایک ہرنی کے
واقعہ میں ہمیں کچھ الگ سبق ملتا ہے۔ کہ
ایک ہرنی آزاد ہو جانے کے بعد بھی دوبارہ قید یعنی عدم تحفظ میں آرہی ہے۔
کچھ گہرائی سے سوچا
جائے تو مادی شعور میں ڈر ، خوف، لالچ، مکاری ، عیاری، روپے پیسے کی ہوس،تفرقہ
بندی اور نفرت کے سوا کچھ نہیں دکھتا۔ مادی شعور ڈر اور خوف کا شعور ہے۔ اس لئے کہ
اس شعور میں حقائق پس پردہ رہتے ہیں۔
ہرنی نے ڈر اور خوف
کے شعور کی نفی کی تو رحمت کی چھاوں میں آگئی اور نتیجے میں آزادی کا مزہ چکھ
لیا۔ اور شعور اور لاشعور یعنی مادیت اور
روحانیت کے اس معجزے سے ایک مادیت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں دبے شعور میں
بھی نفی کی حرکت پیدا کر دی۔ نتیجے میں ایک انسان(شکاری) سلامتی کی راہ پر چل پڑا۔
جس طرح ایک ہرنی اپنے بچوں کے لئے رحمت ہے اسی طرح بلا شک وشبہ نبی رحمت ﷺ ہر
انسان ، ہر مخلوق اور ہر عالم کے لئے رحمت ہیں۔
آج بحیثیت مجبوعی
وہی سلامتی کی راہ پر چلنے والے پستی کا شکار ہیں۔ ہرنی والا واقعہ ہمارے لئے پیغام
ہے کہ ہمیں مادی شعور اور اس میں پائی جانے والی برائیوں کی نفی کرنا ہے۔ مادی
شعور کی برائیوں میں حسد ہے، جھوٹ ہے، لالچ ہے، نفرت ہے۔ظلم ہے۔ یہی نفی کا علم جب
متحرک ہوتا ہے تو رحمت برستی ہے۔ کرم کے بادل برستے ہیں، بندہ مومن کو بشارتیں دی
جاتی ہیں۔ عبادت میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ دعائیں مقبول بارگاہ ہوتی ہیں۔ بندہ اللہ
کی قربت محسوس کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر بندہ سلامتی کی راہ پر چل کر رحمت کی
چھاوں میں آجاتا ہے۔ بندہ مومن کے من میں تفکر، حضور ﷺ کی رحمت اور مرشد کریم کی
نسبت سے یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ
پیار کا اس کے نہیں
شمار اللہ تو ہے بس
پیار ہی پیار
کیوں کہ اللہ کا
ارادہ ، چاہت، اپنی مخلوق کے لئے محبت رحمۃ العالمین کے ذریعے کائنات میں تقسیم ہو
رہا ہے۔ یہی محبت اور شفقت اس ہرنی کی اپنے بچے کے لئے بھی تھی۔ یعنی محبتوں کا
ماخذ بوسیلہ نبی اکرمﷺ اللہ تعالیٰ ہے۔
مرشد بھی ایک روحانی
ماں ہے۔ ایک روحانی باپ ہے، جوں جوں بندہ ہرنی کی طرح ڈر اور خوف کے شعور کی نفی
کرتا جاتا ہے اور مرشد کی ذات میں جذب ہوتا جاتا ہے۔ توں توں رحمۃ العالمینﷺ کے
انوار اور رحمت بندہ میں جذب ہوتی جاتی ہے۔ بندہ اللہ کی محبت ، شفقت، محسوس کرتا ہے۔
یہی راستہ دکھانے ، آپﷺ کے بعد بھی آپﷺ کے نائب اولیاکرامؒ آتے رہے۔ دور حاضر
میں انہی محترم اور سعید ہستیوں میں ایک نام نامی ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ کا
بھی ہے۔ آپ سلسلہ عظیمیہ کے امام ہیں۔
No comments:
Post a Comment