تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
میں ایک پتلا تھا۔پُتلے میں خلاء تھا۔ خلاء میں کل پرزے تھے۔ ہر کل دوسری کل سے جڑی ہوئی تھی اور ہر پرزہ دوسرے پرزے میں پیوست تھا اس طرح کہ کہیں بھی کوئی حرکت ہوتو سارے کل پرزے متحرک ہو جاتے تھے۔ کل پرزوں سے بنی مشین کو چلانے کے لئے پتلے میں چابی بھر دی گئی تو پتلا چلنے پھرنے لگا۔ چلنے پھرنے‘ اچھلنے کودنے اور محسوس کرنے کے عمل سے پتلے میں ’’میں‘‘ پیدا ہو گئی۔ ’’میں‘‘ جانتی ہے کہ چابی ختم ہو جائےگی۔ ’’میں‘‘ کا وجود عدم ہو جائے گا اور پتلا باقی رہ جائے گا۔
لوگ اس ’’میں‘‘ کو ایک فرد مانتے ہیں۔ ’’میں‘‘ کو ایک ہستی تسلیم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ بات ہے بھی سچی میں ایک فرد ہوں میری ایک ذات ہے۔
میری ذات‘میری انا‘ میری ہستی کیوں ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ ’’میں‘‘ بھی نہیں جانتی۔جب میں خود کو فرد کے روپ میں دیکھتا ہوں تو ظاہر الوجود نظر آتا ہوں اور جب خود کوہڈیوں‘پٹھوں اور کھال میں منڈھے ہوئے صندوق کے اندر تلاش کرتا ہوں تو مجھے اپنی ذات نظر نہیں آتی۔ البتہ باطن الوجود آنکھ دیکھتی ہے۔ عالم ایک نہیں‘ بے شمار عالمین ہیں اور ان عالمین میں لاکھوں کہکشائیں جھماکوں کے ساتھ قائم ہیں۔ لگتا ہے ساری کائنات Sparkling کا مسلسل اور متواتر عمل ہے‘ لیزر بیم سے لطیف روشنی کی کرن ہے جس سے اندرونی دنیا بندھی ہوئی ہے اور اس اندرونی دنیا میں وہ کچھ ہے‘ظاہر الوجود آنکھ جسے دیکھ نہیں سکتی۔ شعور ادراک نہیں کر سکتا۔ عقل کی وہاں تک رسائی نہیں۔ میری اصل باطن الوجود ہے اور ظاہر الوجود باطن الوجود کا عکس یا فوٹو اسٹیٹ کاپی ہے۔
میں اس وقت ’’میں‘‘ ہے جب زمین پر موجود ہوں لیکن تماشہ یہ ہے کہ زمین بھی ایک نہیں ہے یعنی زمین بھی ظاہر الوجود اور باطن الوجود کے غلاف میں بند ہے۔ زمین جب ظاہر الوجود ہے تو ٹھوس ہے اور زمین جب باطن الوجود ہے تو خلاء ہے۔ ظاہر الوجود زمین کشش ثقل ہے اور باطن الوجود
روشنی ہے۔ زمین بھی عقل و شعور رکھتی ہے۔ نہ صرف عقل و شعور رکھتی ہے وہ ادراک بالحواس بھی ہے۔ زمین یہ جانتی ہے کہ انار کے درخت میںامرود نہیں لگیں گے اور امرود کے درخت میں انار نہیں لگے گا۔ وہ مٹھاس‘کھٹاس‘ تلخ اور شیریں سے بھی واقف ہے۔ اس کے علم میں یہ بات بھی ہےکہ کانٹے بھرے پودے میں پھول زیادہحسیں لگتا ہے۔ کانٹوں سے بغیر پودے میں پھول کتنا ہی خوش رنگ ہو‘ پھول میں کتنے رنگوں کا امتزاج ہو لیکن پھول کی قیمت وہ نہیں ہو گی جو کانٹوں کے ساتھ لگے پھول میں ہوتی ہے۔ زمین اس بات کا بھی علم رکھتی ہے کہ اس کی کوکھ میں رنگ رنگ‘ قسم قسم بیجوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ زمین جہاں بے شمار رنگوں سے مزین پھول پیدا کرتی ہے‘ تلخ و شیریں پھل اگاتی ہے‘ پرندوں‘چوپایوں کی تخلیق کرتی ہے وہاں اپنی حرکت کو متوازن رکھنے کے لئے پہاڑ بھی بناتی ہے لیکن یہ میلوں میل طویل اور آسمان سے باتیں کرتے بلند وبالا پہاڑ جب ظاہر الوجود زمین پر نظر آتے ہیں تو جمے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب باطن الوجود پہاڑ دیکھے جاتے ہین تو اڑتے ہوئے بادل دکھائی دیتے ہیں۔
ظاہر الوجود پتلا نہیں تھا تب بھی زمین تھی۔ ظاہر الوجود پتلا نہیں ہو گا تب بھی زمین رہے گی۔ ظاہر الوجود پتلا ایک ذرہ تھا۔ ذرے میں دوسرا ذرہ شامل ہوا تو ایک سے دو ذرات ہوئے اور ذرات کی تعداد اتنی بڑھی کہ ایک وجود بن گیا۔
قلندر دو حروف جانتا ہے اور وہ دو حروف یہ ہیں۔
کوئی نہیں‘ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔
دانشور‘ سائنسدان‘ علامہ‘مفتی‘مشائخ کہتے ہیں لفظ دو ہیں۔
نفی‘ اثبات۔۔۔۔۔۔
قلندر کہتا ہے‘ اثبات نہیں‘ صرف نفی ہے اور نفی ہی مادے کی اصل ہے۔
آیئے! تجزیہ کریں تا کہ تجربہ مشاہدہ بن جائے۔ یہ سامنے مٹی کا ایک ڈھیلا رکھا ہوا ہے۔ اس کا وزن دو کلو ہے اس دو کلو وزنی ڈھیلے کو اس آدمی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگےگی۔ مٹی کے ڈھیلے کو کُوٹ کر ’پیس کر‘ آٹے کی طرح کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ دو کلو وزن کدھر گیا۔ کیا اس پسے ہوئے ڈھیلے کے ذرات کو اگر کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی؟
تجربہ شاہد ہے کہ چوٹ نہیں لگے گی۔ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ مٹی کے ڈھیلے کو کتنا ہی پیس لیا جائے ذرات موجود رہیں گے اور کسی طریقے پر ان ذرات کو پھر ایک جگہ کر دیا جائےاور کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔ حقیقت یہ منکشف ہوئی کہ بہت زیادہ ذرات کا ایک جگہ جمع ہو جانا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہو جانا یا باہم دیگر ہم آغوش ہو جانا کشش ثقل یعنی اثبات ہے اور یہ ظاہر الوجود ہے۔۔۔۔۔۔ظاہر الوجود تو ہے مگر ظاہر الوجود کی اصل یا بنیاد فنا ہے۔
قلندر جب فنائیت کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ ظاہر الوجود کی نفی کرتا ہے۔ کیوں نفی کرتاہے اس لئے کہ اس کی نظر باطن الوجود کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
قلندر بجز دو حرف لا الہ کچھ نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
نور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ سراغ پا لیتا ہے۔ پتلا ظاہر الوجود ہے اور پتلے کے اندر چابی باطن الوجود ہے۔۔۔۔۔۔چابی ہو گی تو پتلا حرکت کرے گا چابی نہیں ہو گی تو پتلا حرکت نہیں کرے گا۔
تیس دن تیس راتوں کے ترک سے انسان ایسے حواس میں داخل ہو جاتا ہے جن کی رفتار ظاہرالوجود کے حواس سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ یہی وہ حواس ہیں جو غیب کی دنیا میں وسیلہ سفر بنتے ہیں۔ غیب کی دنیا کے مشاہدے کے بعد انسان کے اوپر کیف چھا جاتا ہے اور یہ سرور و کیف ہی تقریب عید ہے۔
مبارک کے مستحق ہیں وہ سعید بچے اور بزرگ جنہوں نے رمضان کے پروگرام ترک کو اپنایا، ظاہر الوجود حواس کی نفی کے لئے جدوجہد اور کوشش کی۔ اعتکاف کی برکتوں سےمستفیض ہوئے اور اپنے دلوں کو نورانی دنیا کے انوار سے منور کیا۔
قوسِ قزاح و صدائے جرس
میں ایک پتلا تھا۔پُتلے میں خلاء تھا۔ خلاء میں کل پرزے تھے۔ ہر کل دوسری کل سے جڑی ہوئی تھی اور ہر پرزہ دوسرے پرزے میں پیوست تھا اس طرح کہ کہیں بھی کوئی حرکت ہوتو سارے کل پرزے متحرک ہو جاتے تھے۔ کل پرزوں سے بنی مشین کو چلانے کے لئے پتلے میں چابی بھر دی گئی تو پتلا چلنے پھرنے لگا۔ چلنے پھرنے‘ اچھلنے کودنے اور محسوس کرنے کے عمل سے پتلے میں ’’میں‘‘ پیدا ہو گئی۔ ’’میں‘‘ جانتی ہے کہ چابی ختم ہو جائےگی۔ ’’میں‘‘ کا وجود عدم ہو جائے گا اور پتلا باقی رہ جائے گا۔
لوگ اس ’’میں‘‘ کو ایک فرد مانتے ہیں۔ ’’میں‘‘ کو ایک ہستی تسلیم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ بات ہے بھی سچی میں ایک فرد ہوں میری ایک ذات ہے۔
میری ذات‘میری انا‘ میری ہستی کیوں ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ ’’میں‘‘ بھی نہیں جانتی۔جب میں خود کو فرد کے روپ میں دیکھتا ہوں تو ظاہر الوجود نظر آتا ہوں اور جب خود کوہڈیوں‘پٹھوں اور کھال میں منڈھے ہوئے صندوق کے اندر تلاش کرتا ہوں تو مجھے اپنی ذات نظر نہیں آتی۔ البتہ باطن الوجود آنکھ دیکھتی ہے۔ عالم ایک نہیں‘ بے شمار عالمین ہیں اور ان عالمین میں لاکھوں کہکشائیں جھماکوں کے ساتھ قائم ہیں۔ لگتا ہے ساری کائنات Sparkling کا مسلسل اور متواتر عمل ہے‘ لیزر بیم سے لطیف روشنی کی کرن ہے جس سے اندرونی دنیا بندھی ہوئی ہے اور اس اندرونی دنیا میں وہ کچھ ہے‘ظاہر الوجود آنکھ جسے دیکھ نہیں سکتی۔ شعور ادراک نہیں کر سکتا۔ عقل کی وہاں تک رسائی نہیں۔ میری اصل باطن الوجود ہے اور ظاہر الوجود باطن الوجود کا عکس یا فوٹو اسٹیٹ کاپی ہے۔
میں اس وقت ’’میں‘‘ ہے جب زمین پر موجود ہوں لیکن تماشہ یہ ہے کہ زمین بھی ایک نہیں ہے یعنی زمین بھی ظاہر الوجود اور باطن الوجود کے غلاف میں بند ہے۔ زمین جب ظاہر الوجود ہے تو ٹھوس ہے اور زمین جب باطن الوجود ہے تو خلاء ہے۔ ظاہر الوجود زمین کشش ثقل ہے اور باطن الوجود
روشنی ہے۔ زمین بھی عقل و شعور رکھتی ہے۔ نہ صرف عقل و شعور رکھتی ہے وہ ادراک بالحواس بھی ہے۔ زمین یہ جانتی ہے کہ انار کے درخت میںامرود نہیں لگیں گے اور امرود کے درخت میں انار نہیں لگے گا۔ وہ مٹھاس‘کھٹاس‘ تلخ اور شیریں سے بھی واقف ہے۔ اس کے علم میں یہ بات بھی ہےکہ کانٹے بھرے پودے میں پھول زیادہحسیں لگتا ہے۔ کانٹوں سے بغیر پودے میں پھول کتنا ہی خوش رنگ ہو‘ پھول میں کتنے رنگوں کا امتزاج ہو لیکن پھول کی قیمت وہ نہیں ہو گی جو کانٹوں کے ساتھ لگے پھول میں ہوتی ہے۔ زمین اس بات کا بھی علم رکھتی ہے کہ اس کی کوکھ میں رنگ رنگ‘ قسم قسم بیجوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ زمین جہاں بے شمار رنگوں سے مزین پھول پیدا کرتی ہے‘ تلخ و شیریں پھل اگاتی ہے‘ پرندوں‘چوپایوں کی تخلیق کرتی ہے وہاں اپنی حرکت کو متوازن رکھنے کے لئے پہاڑ بھی بناتی ہے لیکن یہ میلوں میل طویل اور آسمان سے باتیں کرتے بلند وبالا پہاڑ جب ظاہر الوجود زمین پر نظر آتے ہیں تو جمے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب باطن الوجود پہاڑ دیکھے جاتے ہین تو اڑتے ہوئے بادل دکھائی دیتے ہیں۔
ظاہر الوجود پتلا نہیں تھا تب بھی زمین تھی۔ ظاہر الوجود پتلا نہیں ہو گا تب بھی زمین رہے گی۔ ظاہر الوجود پتلا ایک ذرہ تھا۔ ذرے میں دوسرا ذرہ شامل ہوا تو ایک سے دو ذرات ہوئے اور ذرات کی تعداد اتنی بڑھی کہ ایک وجود بن گیا۔
قلندر دو حروف جانتا ہے اور وہ دو حروف یہ ہیں۔
کوئی نہیں‘ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔
دانشور‘ سائنسدان‘ علامہ‘مفتی‘مشائخ کہتے ہیں لفظ دو ہیں۔
نفی‘ اثبات۔۔۔۔۔۔
قلندر کہتا ہے‘ اثبات نہیں‘ صرف نفی ہے اور نفی ہی مادے کی اصل ہے۔
آیئے! تجزیہ کریں تا کہ تجربہ مشاہدہ بن جائے۔ یہ سامنے مٹی کا ایک ڈھیلا رکھا ہوا ہے۔ اس کا وزن دو کلو ہے اس دو کلو وزنی ڈھیلے کو اس آدمی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگےگی۔ مٹی کے ڈھیلے کو کُوٹ کر ’پیس کر‘ آٹے کی طرح کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ دو کلو وزن کدھر گیا۔ کیا اس پسے ہوئے ڈھیلے کے ذرات کو اگر کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی؟
تجربہ شاہد ہے کہ چوٹ نہیں لگے گی۔ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ مٹی کے ڈھیلے کو کتنا ہی پیس لیا جائے ذرات موجود رہیں گے اور کسی طریقے پر ان ذرات کو پھر ایک جگہ کر دیا جائےاور کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔ حقیقت یہ منکشف ہوئی کہ بہت زیادہ ذرات کا ایک جگہ جمع ہو جانا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہو جانا یا باہم دیگر ہم آغوش ہو جانا کشش ثقل یعنی اثبات ہے اور یہ ظاہر الوجود ہے۔۔۔۔۔۔ظاہر الوجود تو ہے مگر ظاہر الوجود کی اصل یا بنیاد فنا ہے۔
قلندر جب فنائیت کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ ظاہر الوجود کی نفی کرتا ہے۔ کیوں نفی کرتاہے اس لئے کہ اس کی نظر باطن الوجود کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
قلندر بجز دو حرف لا الہ کچھ نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
آج چھٹا روزہ ہے۔ فجر کی نماز کے بعد مراقبے میں دیکھا کہ روزہ
دراصل ترک اور نفی ہے۔
یعنی ظاہر الوجود انسان
باطن الوجود انسان کے لئے خود کو نفی کرتا ہے۔ جیسے جیسے نفی کا عمل آگے بڑھتا ہے
ظاہر الوجود انسان باطن الوجود انسان میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ جب کوئی انسان باطن
الوجود بن جاتا ہے اور خود کو باطن الوجود دیکھ لیتا ہے تو مادی دنیا سے نکل کرنور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ سراغ پا لیتا ہے۔ پتلا ظاہر الوجود ہے اور پتلے کے اندر چابی باطن الوجود ہے۔۔۔۔۔۔چابی ہو گی تو پتلا حرکت کرے گا چابی نہیں ہو گی تو پتلا حرکت نہیں کرے گا۔
تیس دن تیس راتوں کے ترک سے انسان ایسے حواس میں داخل ہو جاتا ہے جن کی رفتار ظاہرالوجود کے حواس سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ یہی وہ حواس ہیں جو غیب کی دنیا میں وسیلہ سفر بنتے ہیں۔ غیب کی دنیا کے مشاہدے کے بعد انسان کے اوپر کیف چھا جاتا ہے اور یہ سرور و کیف ہی تقریب عید ہے۔
مبارک کے مستحق ہیں وہ سعید بچے اور بزرگ جنہوں نے رمضان کے پروگرام ترک کو اپنایا، ظاہر الوجود حواس کی نفی کے لئے جدوجہد اور کوشش کی۔ اعتکاف کی برکتوں سےمستفیض ہوئے اور اپنے دلوں کو نورانی دنیا کے انوار سے منور کیا۔
قوسِ قزاح و صدائے جرس
No comments:
Post a Comment