تحریر: محمد عاطف
نوازعظیمی
شعبان المعظم کے آخری ایام میں رسول کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا” اے لوگو تمہارے پاس عظمت و برکت والا مہینہ آرہا ہے وہ مہینہ جس میں ایک
رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے"
دین کی ہر عبادت ایک پروگرام ہے۔ پروگرام سے مراد پورا سسٹم ہوتا ہے۔ جو لوگ کمپیوٹر کو سمجھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کمپیوٹر میں پروگرام کی کیا حیثیت ہے۔ جسے ہم ونڈوز کہتے ہیں یہ بھی دراصل ایک پروگرام ہے۔ پروگرام کی بیس پر کمپیوٹر کام کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ لیں کہ پروگرام کمپیوٹر کی روح ہے۔ پروگرام / ونڈوز کے بغیر کمپیوٹر کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ نے جو عبادات فرض کی ہیں وہ تمام عبادات انسان کے لئے پروگرامز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر صلٰوۃ ایک پروگرام ہے۔ دن میں پانچ بار صلٰوۃ کا قائم کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ پانچ بار صلٰوۃ کی ادائیگی کے بعد درمیانی وقفہ میں ہم صلٰوۃ کے اس پروگرام سے قطع تعلق ہو جائیں ۔ یا ہم اللہ کے حقوق سے بری الذمہ ہو گئے اگر صلٰوۃ کے بعد ہم اللہ کو ذہن سے نکال دیں تو صلٰوۃ کا مقصد منشاء پورا نہیں ہوتا۔ جیسا ونڈوز کے بغیر کمپیوٹر بے کار ہے اسی طرح صلٰوۃ یا روزہ کے پروگرام کے بغیر زندگی کے مقصد سے آشنائی نا ممکن اور نامکمل ہے ۔
قرآن پاک میں ہے
وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ بدلتے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا - سورة آل عمران
مطلب یہ کہ زندگی کی ہر حرکت میں اللہ کو یاد کرنا ، اللہ کی طرف متوجہ رہنا ۔ عبادات کا مقصد و منشاء اور حقیقی مفہوم ہے۔ اسی حقیقت اور قانون کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلّام نے الصلوۃ معراج المؤمنین کے ارشاد سے بھی آشکار فرمایا ہے۔
دین کی ہر عبادت ایک پروگرام ہے۔ پروگرام سے مراد پورا سسٹم ہوتا ہے۔ جو لوگ کمپیوٹر کو سمجھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کمپیوٹر میں پروگرام کی کیا حیثیت ہے۔ جسے ہم ونڈوز کہتے ہیں یہ بھی دراصل ایک پروگرام ہے۔ پروگرام کی بیس پر کمپیوٹر کام کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ لیں کہ پروگرام کمپیوٹر کی روح ہے۔ پروگرام / ونڈوز کے بغیر کمپیوٹر کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ نے جو عبادات فرض کی ہیں وہ تمام عبادات انسان کے لئے پروگرامز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر صلٰوۃ ایک پروگرام ہے۔ دن میں پانچ بار صلٰوۃ کا قائم کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ پانچ بار صلٰوۃ کی ادائیگی کے بعد درمیانی وقفہ میں ہم صلٰوۃ کے اس پروگرام سے قطع تعلق ہو جائیں ۔ یا ہم اللہ کے حقوق سے بری الذمہ ہو گئے اگر صلٰوۃ کے بعد ہم اللہ کو ذہن سے نکال دیں تو صلٰوۃ کا مقصد منشاء پورا نہیں ہوتا۔ جیسا ونڈوز کے بغیر کمپیوٹر بے کار ہے اسی طرح صلٰوۃ یا روزہ کے پروگرام کے بغیر زندگی کے مقصد سے آشنائی نا ممکن اور نامکمل ہے ۔
قرآن پاک میں ہے
وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ بدلتے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا - سورة آل عمران
مطلب یہ کہ زندگی کی ہر حرکت میں اللہ کو یاد کرنا ، اللہ کی طرف متوجہ رہنا ۔ عبادات کا مقصد و منشاء اور حقیقی مفہوم ہے۔ اسی حقیقت اور قانون کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلّام نے الصلوۃ معراج المؤمنین کے ارشاد سے بھی آشکار فرمایا ہے۔
جس طرح صلٰوۃ ایک
پروگرام ہے اسی طرح روزہ بھی ایک مکمل اور جامع پروگرام ہے۔
روزے کا بُنیادی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔
روزے کا بُنیادی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو تُم
پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تُم سے پہلی قوموں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم
تقوٰی اختیار کرو۔ سورة البقرة
روزے کے علاوہ بھی تمام اسلامی عبادات کا مقصد و منشا تقوٰی کا حصول بیان کیا گیا ہے۔
’’اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو‘‘ - سورة البقرة
قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے بھی تقوٰی والا ذہن ہونا ضروری ہے۔ جیسے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے۔
بے شک اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ۔ سورۃ البقرہ
اب اگر ہم غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس سے ہدایت لینے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے۔ اور تقوٰی کے حصول کے لئے صلٰوۃ،صیام اور دیگر عبادات کے پروگرام پر عمل کرنا فرض ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقوٰی کے معنی کیا ہیں۔ مفسرین نے تقوٰی کے معانی ’پرہیزگار‘ کے بیان کئے ہیں۔ پرہیز گار کا مطلب ہے منکرات سے بچنے والا اور قرآن کے احکامات کے مطابق اللہ کی نشانیوں پر تفکر کرنے والا ۔ جیسا کہ قرآن پاک کی 756 سے زائد آیات میں یہ حکم دیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَاَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام
"آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں"
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ روزہ کی جزا میں دوں گا۔ بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ روزہ کی جزا میں ہوں۔
روزہ اللہ سے قُربت کا ایک زریعہ ہے۔ جو کہ انسانی زندگی اور روحانی وظائف کی منزل بھی ہے۔
روزے دار اللہ کا قُرب حاصل کر لیتا ہے اور قربت دوستی اور محبت کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنے دوستوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم‘‘ ۔ سورہ یونس"
یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اللہ کی دوستی اور محبت کے حصول کے لئے منکرات سے حتی الامکان بچنا لازمی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے
"ابن آدم کا روزے کے سوا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہے روزہ بالخصوص میرے لئے ہے۔ اس کی جزا میں ہی دوں گا اور روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی شخص کا روزہ ہو، تو وہ بے ہودہ گوئی کرے نہ فحش گوئی کرے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم
ایک اور موقعہ پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
"اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا، چھوڑ دے"
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم
روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور فحش کلامی کرنا ممنوع ہے۔ ان امورِ رذیلہ سے اس لے ممانعت کی گئی کہ ان سے روزہ رکھنے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے اور روزہ دار، روزہ کے برکات و ثمرات سے محروم رہتا ہے۔
روزہ کا ایک نہایت فائدہ حواس کی رفتار کا بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔
’’تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدرایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں‘‘ سورۃ القدر
ان آیات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کی ایک مقدس رات شب قدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے۔ یعنی اس ایک رات میں حواس کی رفتار عام دنوں کے مقابلے میں ۱ یک ہزار گُنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور فرشتے اللہ کے حکم سے برکات اور فیوض لے کر نازل ہوتے ہیں۔
ایک بار ایک بادشاہ نے اپنے اُمراء اور وزراء میں اعلان کیا کہ مجھ سے کوئی فرمائش کرو میں اُسے پورا کروں گا۔ غرض کسی وزیر نے کوئی محل مانگا اور کسی نے زمین کا کوئی ٹُکرا۔ کوئی ہیرے جواہرات لے کر خوش ہو گیا۔ اب آخرمیں ایک کنیز بھی دربار میں موجود تھی۔ بادشاہ نے کنیز سے کہا تُم بھی کچھ مانگو۔ کنیز نے کہا کہ بادشاہ سلامت ایسا نہ ہو کہ آپ میری مانگی ہوئی چیز مجھے نہ دے سکیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جو چیز میرے دائرہ اختیار میں ہے وہ میں ضرور دوں گا۔ کنیز آگے بڑھی اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم نے بادشاہ کو پا لیا تو کسی چیز کی کیا ضرورت رہ گئی۔ لیلۃ القدر کے حواس میں داخل ہو کر جب ہم نے حدیث قُدسی کے قانون کے تحت اللہ کو پا لیا تو ایسے سعید افراد کو اللہ تعالٰی خلیفۃ الارض کہتا ہے۔ خلافت اللہ کے عرفان کے صلہ میں ہے نا کہ ناخلف اولاد کے لئے ۔
قرآن نے متقی، مومن اورمسلمان کو علیحدہ علیحدہ کیٹگرائز کیا ہے۔ یہاں یہ اہم سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھرمومن اور متقی میں کیا فرق ہے۔ عمومًا ہمیں بتایا جاتا ہے کہ متقی کا مطلب پرہیز گار یا ڈرنے والا ہے۔ اس طرح تو مومن بھی پرہیز گار ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک مومن بھی منکرات سے پرہیز کرتا ہے۔ جب ہم قرآن میں متقی کا مفہوم یا متقین کی خوبیاں تلاش کرتے ہیں تو اس بارے میں بھی قرآن بہت واضح احکامات اور ہدایات دیتا ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِۛهُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لیے ہدایت ہے
متقی کے ذہن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جس کے ذہن میں شک ہو وہ متقی نہیں ہو سکتا۔ اس قانون کو ایک امام سلسلہ عظیمیہ
روزے کے علاوہ بھی تمام اسلامی عبادات کا مقصد و منشا تقوٰی کا حصول بیان کیا گیا ہے۔
’’اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو‘‘ - سورة البقرة
قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے بھی تقوٰی والا ذہن ہونا ضروری ہے۔ جیسے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے۔
بے شک اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ۔ سورۃ البقرہ
اب اگر ہم غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس سے ہدایت لینے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے۔ اور تقوٰی کے حصول کے لئے صلٰوۃ،صیام اور دیگر عبادات کے پروگرام پر عمل کرنا فرض ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقوٰی کے معنی کیا ہیں۔ مفسرین نے تقوٰی کے معانی ’پرہیزگار‘ کے بیان کئے ہیں۔ پرہیز گار کا مطلب ہے منکرات سے بچنے والا اور قرآن کے احکامات کے مطابق اللہ کی نشانیوں پر تفکر کرنے والا ۔ جیسا کہ قرآن پاک کی 756 سے زائد آیات میں یہ حکم دیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَاَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام
"آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں"
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ روزہ کی جزا میں دوں گا۔ بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ روزہ کی جزا میں ہوں۔
روزہ اللہ سے قُربت کا ایک زریعہ ہے۔ جو کہ انسانی زندگی اور روحانی وظائف کی منزل بھی ہے۔
روزے دار اللہ کا قُرب حاصل کر لیتا ہے اور قربت دوستی اور محبت کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنے دوستوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم‘‘ ۔ سورہ یونس"
یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اللہ کی دوستی اور محبت کے حصول کے لئے منکرات سے حتی الامکان بچنا لازمی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے
"ابن آدم کا روزے کے سوا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہے روزہ بالخصوص میرے لئے ہے۔ اس کی جزا میں ہی دوں گا اور روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی شخص کا روزہ ہو، تو وہ بے ہودہ گوئی کرے نہ فحش گوئی کرے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم
ایک اور موقعہ پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
"اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا، چھوڑ دے"
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم
روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور فحش کلامی کرنا ممنوع ہے۔ ان امورِ رذیلہ سے اس لے ممانعت کی گئی کہ ان سے روزہ رکھنے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے اور روزہ دار، روزہ کے برکات و ثمرات سے محروم رہتا ہے۔
روزہ کا ایک نہایت فائدہ حواس کی رفتار کا بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔
’’تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدرایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں‘‘ سورۃ القدر
ان آیات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کی ایک مقدس رات شب قدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے۔ یعنی اس ایک رات میں حواس کی رفتار عام دنوں کے مقابلے میں ۱ یک ہزار گُنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور فرشتے اللہ کے حکم سے برکات اور فیوض لے کر نازل ہوتے ہیں۔
ایک بار ایک بادشاہ نے اپنے اُمراء اور وزراء میں اعلان کیا کہ مجھ سے کوئی فرمائش کرو میں اُسے پورا کروں گا۔ غرض کسی وزیر نے کوئی محل مانگا اور کسی نے زمین کا کوئی ٹُکرا۔ کوئی ہیرے جواہرات لے کر خوش ہو گیا۔ اب آخرمیں ایک کنیز بھی دربار میں موجود تھی۔ بادشاہ نے کنیز سے کہا تُم بھی کچھ مانگو۔ کنیز نے کہا کہ بادشاہ سلامت ایسا نہ ہو کہ آپ میری مانگی ہوئی چیز مجھے نہ دے سکیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جو چیز میرے دائرہ اختیار میں ہے وہ میں ضرور دوں گا۔ کنیز آگے بڑھی اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم نے بادشاہ کو پا لیا تو کسی چیز کی کیا ضرورت رہ گئی۔ لیلۃ القدر کے حواس میں داخل ہو کر جب ہم نے حدیث قُدسی کے قانون کے تحت اللہ کو پا لیا تو ایسے سعید افراد کو اللہ تعالٰی خلیفۃ الارض کہتا ہے۔ خلافت اللہ کے عرفان کے صلہ میں ہے نا کہ ناخلف اولاد کے لئے ۔
قرآن نے متقی، مومن اورمسلمان کو علیحدہ علیحدہ کیٹگرائز کیا ہے۔ یہاں یہ اہم سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھرمومن اور متقی میں کیا فرق ہے۔ عمومًا ہمیں بتایا جاتا ہے کہ متقی کا مطلب پرہیز گار یا ڈرنے والا ہے۔ اس طرح تو مومن بھی پرہیز گار ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک مومن بھی منکرات سے پرہیز کرتا ہے۔ جب ہم قرآن میں متقی کا مفہوم یا متقین کی خوبیاں تلاش کرتے ہیں تو اس بارے میں بھی قرآن بہت واضح احکامات اور ہدایات دیتا ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِۛهُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لیے ہدایت ہے
متقی کے ذہن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جس کے ذہن میں شک ہو وہ متقی نہیں ہو سکتا۔ اس قانون کو ایک امام سلسلہ عظیمیہ
حضور قلندر بابا
اولیاء ؒ نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ
’’یقین ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو"
اللہ نے قرآن کو سمجھنے کا فارمولا خود قرآن میں بیان فرما دیا کہ ’’وہ لوگ جو متقی ہیں وہ قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان، یا مومن قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔
مطلب قرآن سے ہدایت لینے کے لئے اور متقی ہونے کے لئے شک سے پاک ذہن کا ہونا ضروری ہے ۔ اور اس کا بنیادی ذریعہ لا محالہ صوم اور صلٰوۃ کے حواس سے متعارف ہونا ہے۔
اب غور کریں کہ روزہ ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت ہے جو ہمیں متقی یعنی شک سے پاک ذہن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اور قرآن کے قانون کے مطابق شک سے پاک ذہن ہی قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روزہ رکھنے سے جسمانی اور روحانی کثافتیں دُور ہو جاتی ہیں۔ اور آدمی کے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ تمام آسمانی کتابیں بھی اسی مقدس مہینہ میں نازل ہوئیں۔
رمضان کی پہلی یا تیسری تاریخ کو صحیفے عطا کئے گئے۔ حضرت داؤد کو زبور، حضرت موسٰی کو تورات، حضرت عیسٰی کو انجیل بھی رمضان المبارک میں ہی دی گئی۔یعنی الہامی کلام رمضان کے حواس میں ہی نازل کیا گیا۔
’’یقین ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو"
اللہ نے قرآن کو سمجھنے کا فارمولا خود قرآن میں بیان فرما دیا کہ ’’وہ لوگ جو متقی ہیں وہ قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان، یا مومن قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔
مطلب قرآن سے ہدایت لینے کے لئے اور متقی ہونے کے لئے شک سے پاک ذہن کا ہونا ضروری ہے ۔ اور اس کا بنیادی ذریعہ لا محالہ صوم اور صلٰوۃ کے حواس سے متعارف ہونا ہے۔
اب غور کریں کہ روزہ ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت ہے جو ہمیں متقی یعنی شک سے پاک ذہن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اور قرآن کے قانون کے مطابق شک سے پاک ذہن ہی قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روزہ رکھنے سے جسمانی اور روحانی کثافتیں دُور ہو جاتی ہیں۔ اور آدمی کے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ تمام آسمانی کتابیں بھی اسی مقدس مہینہ میں نازل ہوئیں۔
رمضان کی پہلی یا تیسری تاریخ کو صحیفے عطا کئے گئے۔ حضرت داؤد کو زبور، حضرت موسٰی کو تورات، حضرت عیسٰی کو انجیل بھی رمضان المبارک میں ہی دی گئی۔یعنی الہامی کلام رمضان کے حواس میں ہی نازل کیا گیا۔
رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے ہمیں تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ بندے کا اور اللہ کا ایک براہ راست تعلق قائم ہے۔
اے رسول اللہ صلّی اللہ وسلّم ، میرے بندے جب آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ کہ دیجئے کہ میں ان کے قریب ہوں جب وہ مجھے پُکارتے ہیں تو میں انکی پکار کا جواب دیتا ہوں۔
اللہ ربّ العزت ہمیں روزہ اور صلٰوۃ کی حقیقی روح کو سمجھنے کا فہم عطا کرے اور ہماری عبادات اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔ اور آنے والے رمضان کو ہمارے لئے رحمت، بخشش، نجات اور اپنے قُرب کا ذریعہ بنا دے۔
آمین
--
یہ
مضمون ہماری ویب ڈاٹ کام میں شائع ہوا۔ درج ذیل لنک سے ویب وزٹ کیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment