Oct 2, 2014

***~ حجۃالوداع ~*** ( از حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی)


*تحریر : حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی*

خطبہ حجۃ الوداع  اسلام کا اساسی دستور اور بُنیادی اصول کی حیثیت کا حامل ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ حجۃ الوداع وفات سے تقریبا۸۰ روز قبل فرمایا۔

لوگو ! میری باتیں غور سے سُنو۔  کیونکہ  شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تُم لوگوں سے مل نہ سکوں۔
اے لوگو ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبیلے اس لئے ہیں کہ تم  ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اسی لئے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، اسی طرح کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت  نہیں۔
اے لوگو! ایسا نہ ہو کہ قیامت میں تم دُنیا کا بوجھ سمیٹ کر اپنی گردن پر رکھے ہوئے آو اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لائیں۔ اگر ایسا کیا تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔
اےلوگو! آج کا دن اور اس مہینہ کی تم جس طرح حُرمت کرتے ہو اس طرح ایک دوسرے کا ناحق خون کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔ خوب یاد رکھو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ تمہارے سب کاموں کا حساب لیں گے۔
اے لوگو! جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا۔
یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ وہ عورتیں تم پر حلال ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر تم نے ان پر تصرف کیاہے ۔ پس ان کے حقوق کی رعایت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔
غلاموں سے اچھا برتاو کرنا۔ جیسا تم کھاتے ہو ویسا اُن کو کھلانا۔ جیسے تم کپڑے پہنتے ہو ویسے ہی ان کو کپڑے پہنانا۔ اگر ان سے کوئی خطا ہو جائے اور تم معاف نہ کر سکو تو ان کو جُدا کر دینا کیونکہ وہ بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ ان کے ساتھ سخت برتاو نہیں کرنا۔
لوگو ، میری بات غور سے سُنو !
خوب سمجھو اور آگاہ ہو جاو !
جتنی کلمہ گو ہیں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب مسلمان اخوت کے سلسلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ تمہارے بھائی کی چیز تم پر اس وقت تک جائز نہیں جب تک توہ تمہیں خوشی سے نہ دے۔
خبردار ! زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے کچل دی گئی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔
خبردار ! ناانصافی کو پاس نہ آنے دینا۔ میں نے تمہارے لئے ایسی چیز چھوڑ ی ہے کہ اگر تم اس کو مضبوط پکڑے رہو گے اور اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز اللہ کی کتاب ہے۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی  نئی اُمت نہیں۔
خبردار ! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔ صلوٰۃ قائم کرو۔ ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی سے ذکو ٰۃ ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر کا طواف کرو۔  مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی عمل سے برباد ہو چکی ہیں۔
خبردار ! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانااور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا ۔ اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیر ہواور وہ تمہیں اللہ کی کتاب کے مطابق چلائے تو اس کی اطاعت کرو۔
اے لوگو! عمل میں اخلاص  ، مسلمانوں کی خیر خواہی اور جماعت میں اتفاق کی یہ باتیں سینے کو صاف رکھتی ہیں۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام 9 ذوالحج کو زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اپنی اُمت کے لیے اور بنی نوع انسان کے لئے اپنے رحیم و کریم 
رب کی بارگاہ میں انتہائی عجز و نیاز سے دعا فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ تاریکی پھیل گئی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام مزولفہ کی طرف تشریف لے گئے ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کیا۔
جب صبح صادق طلوع ہوئی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز ادا کی۔ پھر حضرت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے اونٹنی پر سوار کیا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام بطن محسر سے گزرے تو انہوں نے اونٹنی کی رفتار تیز کر دی۔
یہ وہ وادی ہے جہاں ابراھہ کے ہاتھیوں کے لشکر پر اللہ تعالیٰ نے ابابیل کا لشکر بھیج کر تباہ و برباد کیا تھا۔ پھر وہاں سے واپس منیٰ تشریف لے گئے اور حاضرین کو اپنے دوسرے خطبے سے مشرف فرمایا۔
سرور عالم حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنابیان کی اور اس کے بعد یہ خطبہ ارشاد فرمایا
جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں ۔ ان میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو! جو حاضر ہیں وہ یہ کلام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں خواہ وہ اس وقت موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہوں گے کیونکہ بہت سے لوگ جن جو میرا پیغام پہنچے گا، سُنانے والوں سے زیادہ اس کی حفاظت کریں گے۔
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میر ی بات کو سُنا اور دوسروں تک پہنچایا۔
اے لوگو! تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گاتو تم کیا کہو گے ؟
لوگوں نے عرض کیا : ہم گواہی دیں گے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہمیں پہنچا دیا ہے اور اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا
یا اللہ تُو گواہ رہنا۔
اس کے ساتھ ہی دین مکمل ہو گیا اور جبرائیل ؑ یہ مژدہ جانفزا لے کر نازل ہوئے ۔
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دینپسند کر لیا ہے۔
سورۃ المائدہ
(باران رحمت ﷺ از خواجہ شمس الدین عظیمی)

No comments:

Post a Comment