ایک زمانہ میں روزانہ گاندھی جی حاضر دربار ہوتے اور بابا تاج
الدینؒ ہمیشہ ان کو ڈانٹتے مگر وہ پرواہ نہ کرتے حاضری روزانہ جاری رہی-
اسی زمانہ میں محمد علی، شوکت علی ناگپور آئے انھوں نے حاضر
ہونے کے بجائے راجہ صاحب کو لکھا کہ بابا مرشد سے ملنے کا وقت مقرر کریں- راجہ
صاحب پریشان تھے بابا مرشد بھلا کس کو وقت دینے والے تھے- اتفاقاََ خود بابا تاج
الدینؒ نے فرمایا ۔ جمعہ کے دن چار بجے ہمارے ساتھ چائے پئیں- چنانچہ راجہ صاحب نے
ان کو مطلع کر دیا- جمعہ کو چائے کا وسیع پیمانے پر انتظام ہوا، بابا تاج الدینؒ ٹھیک وقت پر برآمد ہوئے، چائے طلب کی اور حکم دیا ، حاضرین کو چائے پلاؤ، چنانچہ
حاضرین کو چائے پلا دی گئی - مولانا شوکت علی، محمد علی وقت مقررہ پر نہ آ سکے
تھے- پانچ بجے بابا تاج الدینؒ نے سواری طلب کی، زائرین نے بابا تاج الدینؒ کے گلے
میں ہار ڈالے ، گاڑی شہر کی طرف جا رہی تھی کہ سامنے سے علی برادران کی موٹر آئی
اور بابا تاج الدینؒ کی گاڑی والے ہیرا کوچوان (آپؒ کا مزاج آشنا اور ذاتی کوچوان تھا) نے گاڑی روک لی، علی برادران کار سے
اترے اور بابا مرشد سے سلام کیا-
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا
! بابا السلام علیکم
علی برادران نے کہا ۔
بابا دعا کرو اسلام کی فتح ہو-
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا ! بابا دعا کرو اسلام کی فتح ہو۔
اس کے بعد بابا تاج الدینؒ نے ہیرا کوچوان سے فرمایا ! کیوں رے ! ان کو ہار دے دوں۔
اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ہاں ! بابا دے دو-
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا " میں کیا دوں گا تو ہی دے
دے"
یہ سن کر ہیرا نے کچھ ہار اٹھا کر علی
برادران کو دے دیئے بابا تاج الدینؒ نے فرمایا
!" جاؤ ، پھاٹک دیکھو"
علی برادران اس کا مطلب کچھ نہ سمجھے، بابا تاج الدینؒ کی
سواری شہر کی طرف روانہ ہو گئی، ادھر نکلی جہاں اس رات کانگریس کا جلسہ ہونے والا
تھا، خلافت اور کانگریس کی چل رہی تھی، علی برادران خلافت کے سلسلہ میں جلسہ کرنے
والے تھے، گاندھی جی، بابا تاج الدینؒ کی آمد آمد کا شہرہ سن کر لب راہ آئے اور سلام کیا
، بابا تاج الدینؒ نے فرمایا
"جاؤ ، آٹھ سو کوے اڑا دیئے"
وہ کچھ بھی نہ سمجھے، رات کو جلسہ ہوا تو آٹھ سو ممبران کٹ کر
گاندھی جی کی طرف آ گئے تو ان کی سمجھ میں آ گیا-
علی برادران کو بابا تاج الدینؒ نے اپنے ہندو کوچوان کے ہاتھ
سے جو ہار دلائے تھے اس کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ ہندو سے ہار گئے، پھر جب وہ بمبئی
پہنچے اور گرفتار ہو کر داخل جیل ہوئے تو ان کی سمجھ میں آیا۔ "جاؤ پھاٹک دیکھو" کا کیا مطلب ہے۔ یہاں پہنچ کر علی برادران کو
احساس ہوا کہ بابا تاج الدینؒ ولی ِکامل ہیں اور ہم نے غلطی کی جو حاضر دربار ہونے
میں کوتاہی کی، وقت طلب کیا، پھر وقت پر نہ پہنچے اور پہنچے تو اخلاص نہ تھا، محض
لوگوں کے کہنے سننے سے حاضر ہو گئے، نادم ہو کر بابا تاج الدینؒ کو خط لکھا، معافی چاہی، پھر علی برادران کی
والدہ حاضر ہوئیں تو بابا تاج الدینؒ نے فرمایا-
محمدعلی، شوکت علی گھاس کو کہتے ہیں
ایک بار محمد علی صاحب
سے آپ نے فرمایا
"تمہاری مراد لندن میں ہے"
چنانچہ وہ لندن گئے اور وہاں انتقال ہو گیا-
ایک بار گاندھی جی سے فرمایا
"جھاڑو لے کر پہاڑ پر چڑھ جاؤ"
جھاڑو سے مراد اتحاد باہمی اور پہاڑ پر چڑھ جانے سے مطلب حکومت
انگلینڈ پر غالب آنا تھا
جنگ بلقان اور بابا تاج الدین کی پیش گوئی
1909ء کے
ابتدائی زمانہ میں واکی شریف میں بابا تاج الدینؒ مقیم تھے۔ پروفیسر محمد عبدالقوی صاحب لکھنوی کے
ساتھ میں حاضر ہوا- بابا مرشد واکی سے سات آٹھ میل دور کسی جنگل میں تھے، ہم وہاں
پہنچے - حضور ایک کھیت میں تشریف فرما تھے، چاروں طرف ببول کے درخت تھے، حاضرین
درخت کے سایوں میں بیٹھے تھے، بابا مرشد کھیت میں پتھر چن چن کر ڈھیر بنا رہے ھے-
ہم دونوں بھی سلام کرنے کے بعد یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ دو ڈھائی فٹ اونچا
ڈھیر تیار ہو گیا- اس کے بعد حضورؒ نے ایک لکڑی ہاتھ میں میں لے کر فوجی احکام
جاری فرمانا شروع کر دیئے، لکڑی سے اشارہ کرتے تھے اور فرماتے تھے-
" فلاں ڈویژن ادھر مارچ کرو، فلاں ڈویژن ادھر مارچ کرو،
فلاں ڈویژن ادھر جاؤ"
"اٹیک - فائر – شوٹ"
اس قسم کے احکام ایک خاص کیفیت میں جاری فرما رہے تھے- اس کے
بعد آپ نے فرمایا
" وہ بھاگے یونانی ، یونانی بھاگے، پکڑو پکڑو "
اس کے بعد حضور نے فرمایا " یونانیوں کی ہم نے کمر توڑ
دی، اب کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے" اس کے بعد وہ لکڑی جو آپ کے ہاتھ
میں تھی،آپ نے پتھر کی بڑی ڈھیری پر یہ کہہ کر نصب کر دی کہ "یہ ترکی کا
جھنڈا ہے ترکوں کی فتح ہوگی"
حضور کے چہرے پر اس وقت بشاشت تھی، مژدہ فتح سنا رہے تھے
دو تین روز بعد اخباروں میں خبر آ گئی کہ یونانیوں کو شکست فاش
ہوئی ، ترکوں کے ہاتھ زبردست مال غنیمت آیا- جنگ بلقان کی فتح ترکوں کو نصیب ہوئی
-
راوی فرید صاحب فضا – عقیدتمند بابا تاج
الدین ناگپوریؒ
--
عالمگیر جنگ
ایک مرتبہ میری موجودگی میں آپ نے پانی مانگا ، اور پینا شروع
کیا آپ گلاس پر گلاس پیتے جاتے تھے اور لوگ دوڑ کر لالا کر دیتے جاتے تھے ، پیتے
رہے ، پیتے رہے یہاں تک کہ اندر محل کا اور مٹکوں کا ، گھڑوں کا پانی ختم ہو گیا ۔
جب ڈھائی تین گھنٹہ کا وقت گزر گیا، تب لوگوں نے دیکھا کہ حضور خاموش بیٹھے
ہیں ،خدا جانے وہ پانی کدھر گیا اور کہاں گیا اور اپنی وہی محمدی بیٹھک بیٹھے رہے
پھر شام کے وقت فرمایا کہ "سارے ہی پیاسے تھے۔ جی وہ حضرت اور
زخمی بھی تھے انکو وہاں پانی کہاںملتا جی ، وہ جنگ کا میدان جی حضرت "
یہ دوران ِ جنگ کا واقعہ ہے اور اس وقت عالمگیر جنگ لگی
ہوئی تھی جس وقت یہ کرامت ظہور پذیر ہوئی ۔عام طور پر بلا تخصیص مذہب و ملت خواہ
ہندو ، خواہ مسلمان ، سکھ، عیسائی ، برہمن ، پارسی وغیرہ سارے لوگ اپنی اپنی
مرادیں عرض کرتے اور جھولیاں بھرلے جاتے ، روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے۔
Subhan Allah Shan-e-Auliya
ReplyDelete