Jan 4, 2015

حیاتِ طیبہﷺ اور ہماری زندگی - تحریر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی





  تحریر :حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
 قرآن پاک میں ارشاد ہے!
میں اور میرے فرشتے رسول ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والوں تم بھی رسول اللہﷺ پر درود و سلام بھیجو!
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ اس لئے تخلیق کیا تا کہ مخلوق مجھے پہچانے۔
پہچاننے کے اس پروگرام میں بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق۔۔۔۔۔۔مخلوق سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو جان اور پہچان لے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب مخلوق خود اپنے آپ کو پہچانتی ہو۔۔۔۔۔۔فرشتے، جنات اور آدم اللہ کی تخلیق ہیں۔
حضرت آدمؑ نے جنت سے اتر کر خالق اور مخلوق کے درمیان مخفی رشتے کو ظاہر کیا۔۔۔۔۔۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
اے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور آپ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ اگر آپ نے ہمیں معاف نہیں کیا تو ہمارے لئے خسارے کے علاوہ دوسری کوئی شئے نہیں ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدمؑ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربوبیت اور بندگی کا رشتہ قائم کیا اور مخلوق کی حیثیت سے عاجزی و انکساری کا اظہار فرمایا ہے۔ نسل آدم کو اس رشتہ کی یاددہانی کیلئے پیغمبروں کی آمد کا ایک سلسلہ قائم ہوا۔ ان میں ایک نمایاں نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے۔ جن کی اولادحضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ کی اولاد میں کئی پیغمبر مبعوث ہوئے۔ حضرت اسحاقؑ کی اولاد میں حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ اور تقریباً پچیس پیغمبروں کاتذکرہ ملتا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں جو آخری نبی ہیں۔
ان پیغمبروں کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو ایک ہی بات کا تسلسل ملتا ہے کہ
اللہ ایک ہے۔
اللہ خالق ہے اور ہم سب مخلوق ہیں۔
اللہ بے نیاز ہے اور باقی ہر شئے اللہ کی محتاج ہے۔
تمام انبیاء نے ایک ہی بات کہی کہ اس کائنات کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ کا نام خالق اور دوسرے کا نام مخلوق ہے۔ خالق اسے کہتے ہیں جو مخلوق کو پیدا کر کے اس کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے اور مخلوق کی خبر گیری کر کے اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مخلوق اسے کہتے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں خالق کی محتاج ہوتی ہے مثلاً روشنی، ہوا، پانی، خوراک اور لباس وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام ضروریات کو لاکھوں کروڑوں سال سے پوری کر رہا ہے اور جیسے جیسے آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ضروریات بڑھ رہی ہیں اللہ تعالیٰ نئے نئے وسائل پیدا کر رہے ہیں۔
ابتداء میں ایندھن کے لئے لکڑی استعمال ہوتی تھی۔ آبادی میں اضافہ اور ایندھن کے زیادہ استعمال سے جنگلات ایندھن کے طور پر ناکافی ہونا شروع ہو گئے تو مٹی کا تیل دریافت ہوا کوئلہ بطور ایندھن استعمال ہوا پھر یہ بھی ناکافی ہوا تو قدرتی گیس دریافت ہو گئی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پیٹرول نکال دیا۔ متبادل ذریعہ کے طور پر بجلی دریافت ہوئی۔ ایک ضرورت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی متبادل وسائل فراہم کر دیئے۔ اسی طرح مخلوق کو جب بھی کوئی ضرورت پیش آئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے نئے وسائل فراہم کئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ مخلوق کی طرح احتیاج نہیں رکھتا اور اپنی ذات میں قادر مطلق ہے اور مخلوق کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے۔
مخلوق سراپا ذی احتیاج ہے اور اس کا ہر قدم اس بات کا پابند ہے کہ خالق کے ساتھ اس کی احتیاج قائم رہے۔ مخلوق چاہے اسے تسلیم کرے یا نہ کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زمین کو سورج کی حرارت نہ ملے تو کھیت میں اناج نہیں ہو گا اور اس دنیا میں اتنے حشرات الارض نکل پڑیں گے کہ وہ تمام نباتات اور درخت چاٹ جائیں۔ حتیٰ کہ انسان بھی ان کا لقمہ تر بن جائے۔ چاند نہ نکلے تو پھل اور اناج میں مٹھاس نہیں ہو گی اور چیز اتنی کڑوی ہو جائے گی کہ انسان اسے کھانے کیلئے زبان پر ہی نہیں رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور پہاڑوں میں پانی کے چشمے جاری کر دیئے ہیں کیسی عجیب بات ہے کہ انسان زمین کھودتا ہے تو اسے پانی ملتا ہے جو مخلوقات کی حیات کیلئے لازمی و بنیادی جزو ہے۔ اب اگر پانی نہ ہو تو حیات ختم ہو جائے۔
چاند اور سورج کے طلوع و غروب میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اناج کے پکنے اور پھلوں کے اندر مٹھاس پیدا کرنے میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اسی طرح پانی کے چشمے انسان نے جاری نہیں کئے ہیں؟
اللہ تعالیٰ سورۃ اخلاص میں ارشاد فرماتے ہیں
کہہ دیجئے اللہ ایک ہے۔
غور فرمائیں مخلوق ایک نہیں ہوتی ہمیشہ کثرت میں ہوتی ہے۔ پرندے، چرندے، درندے، حیوانات، نباتات، جمادات، سمندری مخلوق، فرشتے، جنات، انسان سب کثرت ہے۔ مخلوق کسی طور کثرت سے باہر نہیں ہو سکتی۔
 اللہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔
مخلوق کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ محتاج ہوتی ہے پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک محتاج ہے۔ کھانے پینے اور دیگر وسائل کی محتاج، آپس میں رشتوں کی محتاج، معاشرت، معیشت اور بود و باش میں محتاج، غرض مخلوق ہر حال اور ہر چیز میں خالق کی محتاج ہے۔
 نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔
جبکہ مخلوق کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی کی اولاد ہو یا کسی کا باپ ہو نسل کشی کے بغیر مخلوق، مخلوق نہیں ہو سکتی۔
 نہ ہی اس کا کوئی خاندان ہے۔
مخلوق کسی کی اولاد ہو گی اور جب کسی کے ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بیچے ہوں گے تو لازماً خاندان بھی ہو گا بلکہ بے شمار خاندان ہوں گے جس سے برادری، قوم، قبیلہ اور نسل قائم رہتی ہے۔
سورۃ اخلاص میں خالق اور مخلوق کا بنیادی فرق بیان کیا گیا ہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہاںاللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی خالق نہیں،
اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے،
اللہ تعالیٰ واحد اور بے نیاز ہے۔
جس کی بزرگی اور برتری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
بے علم لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم مومن ہو گئے حالانکہ ابھی ایمان تو ان کے قلوب (مشاہدہ) میں داخل نہی ہوا یہ تو صرف مسلمان ہوئے ہیں۔
قرآن پاک کی ہر آیت اور رسول اللہﷺ کے ہر ارشاد میں حکمت ہے۔ اس حکمت کا شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب قرآن میں تفکر اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ جب ہم اللہ، اللہ کے رسولﷺ قرآن پاک اور حدیث سے رہنمائی حاصل کریں گے تو ہمیں مشاہداتی علم حاصل ہو گا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ہیں لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق ایمان ابھی ہمارے قلوب میں داخل نہیں ہوا۔ مومن وہ ہوتا ہے جو زبانی اقرار کے ساتھ قلبی مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ لغوی اعتبار سے ایمان کے معنی یقین کے ہیں۔
جب سے مسلمانوں کے اندر مشاہداتی حواس ختم ہوئے اسلام کمزور ہو گیا ہے۔ کوئی مسلمان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ رسول اللہﷺ کے دور لے کر آج تک قرآن، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج میں رد و بدل نہیں ہوا لیکن آج مسلمان سب سے کمزور، محکوم اور بدنام ہیں اور امت مسلمہ ہر روز زوال پذیر ہے۔
میری سمجھ کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر سے ایقان اور شہود کی طاقت یعنی ایمان نکل گیا ہے۔ اور ہم مشاہدہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمیں نماز سے حضور قلب نہیں ملتا کیونکہ ہمیں معلوم نہیں ہم نماز میں کیا عرض و معروض کرتے ہیں۔
اگر ہم نماز پڑھی جانے والی آیات کے ترجمے یاد کر کے ان پر غور کریں تو یقیناً ہماری نمازوں میں یکسوئی پیدا ہو گی اور اطمینان قلب کے بعد ہمارا رابطہ اللہ سے قائم ہو جائیگا۔ جس قوم کا تعلق اللہ سے قائم ہو جاتا ہے وہ کبھی بے سکون نہیں ہوتی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے بعد مسلمانوں کے لئے جو ورثہ چھوڑ کر جا رہا ہوں وہ اللہ کی کتاب ہے۔ کتاب کا مطلب یہ نہیں کہ عربی زبان میں ایک کتاب آپ کے پاس موجود ہو! آپ اس کو صرف سعادت کیلئے پڑھتے رہیں لیکن اس کے معنی اور مفہوم کا علم نہ ہو۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے
اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں تمام ارواح سے یہ عہد لیا؟
الست بربکم!
قالو بلیٰ
 کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں
جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔
عالم ارواح میں روحوں کے اندر نہ سماعت تھی اور نہ بصارت نہ اس کے اندر کوئی احساس تھا۔ روح صرف یہ جانتی تھی کہ ’’میں ہوں‘‘ لیکن کیا ہوں، کون ہوں، کہاں ہوں، کیسے ہوں، کیسے پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔روح ان باتوں کو نہیں جانتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس جمود کو توڑنے اور ارواح کو باخبر کرنے کیلئے اپنے آپ کو ارواح کے سامنے پیش کر دیا۔
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔
جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہارا رب ہوں تو ارواح نے اللہ کی آواز سنی۔ اللہ کی آواز سننے سے روحوں میں سماعت کی صلاحیت متحرک ہو گئی۔ سماعت کے بعد دوسرا مرحلہ بصارت کا آیا۔ کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا اور توجہ کی مرکزیت کا حصول بصارت کی بنیاد ہے۔ اس مرحلہ پر ارواح آواز دینے والی ہستی کی طرف متوجہ ہوئیں اور نگاہ کی اولین مرکزیت اللہ تعالیٰ کی ہستی بنی تو ارواح کو بینائی، بصیرت اور بصارت ملی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی آواز سماعت کا پہلا مرحلہ ہے اور آواز سننے کے بعد دوسرا مرحلہ ادراک ہے۔ روحوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو تیسرا مرحلہ بصارت بنا۔
براہ راست طرز فکر میں اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ روح کی اولین بصارت، روشنی یا نگاہ اللہ تعالیٰ ہے اور روح کی نگاہ نے پہلی ہستی اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ اللہ کو دیکھنے کے بعد ارواح میں قوت گویائی پیدا ہوئی اور روحوں نے اللہ کو دیکھ کر اس بات کا اقرار کیا کہ
جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی آواز سننا (سماعت) آواز سن کر متوجہ ہونا (ادراک یا بصیرت) آواز دینے والی ہستی کو دیکھنا (بصارت) اور جواب دینا (گویائی) سے قبل ارواح کے پاس نہ سماعت تھی اور نہ ہی ادراک، بصارت اور قوت گویائی تھی۔ جب ارواح نے یہ ادراک کیا کہ :
ہمارے علاوہ بھی کوئی ہستی ہے تو اس کے اندر حواس تشکیل پائے۔ اللہ کو دیکھنے کے بعد ارواح نے اس بات کا ادراک کیا کہ میرے علاوہ بھی کوئی ہے اور میں مخلوق ہوں اور میرا پیدا کرنے والا خالق اکبر اللہ ہے۔ ہر روح کی پہلی سماعت اللہ کی آواز، پہلی بصیرت اللہ کی فہم، پہلی نگاہ اللہ کی بصارت اور اولین کلام اللہ کو دیکھنے کے بعد اس کی ربوبیت کا اقرار ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تم میری سماعت سے سنتے ہو، میری بصارت سے دیکھتے ہو، میرے فواد سے سوچتے ہو اور میری قوت گویائی سے بولتے ہو۔
اگر ہم یوم ازل اللہ کی آواز نہ سنتے تو ہمارے اندر سماعت پیدا نہ ہوتی اور اللہ کو نہ دیکھتے تو مخلوقات کو بصارت اور نگاہ ہی نہ ملتی تو سب اندھے ہوتے۔ اللہ کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتے تو ہمارے اندر قوت گویائی ہی نہ ہوتی اور مخلوق عقل فہم ہوش حواس سے بیگانہ ہوتی۔
اللہ کی قدرت کے مناظر زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے یہ سب کچھ ہم اس لئے دیکھ رہے ہیں کیونکہ روح کی آنکھ اللہ کو دیکھ چکی ہے۔ رسول اللہﷺ کی یہ تعلیمات ان کے علم کے وارث اولیاء اللہ کو منتقل ہوتی ہیں۔
مخلوق دو طرح تخلیق ہوئی۔ اول عالم ارواح میں جہاں ارواح نے اللہ کی آواز سن کر اور اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا لیکن اللہ کے نظام کے تحت ابھی مخلوق نے وہ روپ اختیار نہیں کیا جہاں مخلوق خالق کو قبول کرے یا رد کرے۔ عالم ارواح میں تو اللہ کو سامنے دیکھنے کے بعد کون انکار کر سکتا ہے، جہاں اختیار زیر بحث نہیں آتا لہٰذا عالم ارواح کے بعد مخلوق عالم ناسوت میں آئی۔ یہاں عالم دنیا میں روح نے ایک اور جسم بنایا جسے ہم مادی جسم کہتے ہیں۔ یہاں مادی جسم میں روح نے یوم ازل کی کیفیت کو دہرایا۔
میرے دوست سوال کرتے ہیں کہ
اختیار کہاں سے آیا؟
میں عرض کرتا ہوں!
اللہ تعالیٰ نے روز ازل یہ اختیار دے دیا تھا۔
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟
اس کا مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے روز ازل اقرار یا انکار کا اختیار دے دیا تھا۔
چاہے قبول کرو۔ چاہے قبول نہ کرو۔
اس اختیار کے استعمال کے لئے روح کی یہ ڈیوٹی لگی کہ روح ایک اور وجود بنائے اور اس جسمانی وجود اور اپنے درمیان پردہ رکھے۔۔۔۔۔۔ایسا پردہ جو کوشش اور جدوجہد کے بغیر نہ اٹھے۔ اس دنیا میں مخلوق کے مشاہدہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا ایک سلسلہ قائم کیا۔ تمام پیغمبروں نے آخری پیغمبر رسول اللہﷺ کو متعارف کرایا اور سب سے آخر میں رسول اللہﷺ تشریف لائے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
 ہم نے آپﷺ کو تمام عالمین میں رحمت بنا کر بھیجا ہے

(اللہ کے محبوبﷺ)

No comments:

Post a Comment