دراصل انسانی
شعور کی یہ کمزوری ہے کہ وہ حقیقت کو مسخ کر کے، توڑ مروڑ کے اپنے حافظے کا حصہ
بنا لیتا ہے۔ پھر یہی مسخ شُدہ اور بگڑے ہوئے خدوخال اُس کے تجربات کا ، مشاہدات
کا، عادات اور حرکات کا سانچہ بن جاتے ہیں۔ اب جس قد ر بھی معلومات اسے حاصل ہوتی
ہیں ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ ہے انسان کا تمام کارنامہ اور اس کی
معین کردہ اور فرض کردہ سمتیں، فارمولے اور اصول۔ ان ہی خرافات کے بارے میں وہ بار
بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے میرا تجربہ ، یہ ہے میرا مشاہدہ، یہ ہے علمِ طبیعی !
خواجہ شمس
الدین عظیمی
خطباتِ لاہور
No comments:
Post a Comment